اہل و عیال کے حقوق اداکرنا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو باقی رکھنے اور نسل انسانی کے بقا وتسلسل کوبرقرار رکھنے کے لئے نکاح کا طریقہ رائج فرمایا اور دومخالف جنسوں میں ایک ایسی کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر اپنے آپ کونامکمل تصور کرتے ہیں۔ فطری طور پر مردو عورت میں سے ہر ایک دوسرے کی طرف کھنچا جاتاہے لیکن اس فطری جذبے کو اللہ تعالیٰ نے بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ ان میں سے ہر ایک پر دوسرے کے حقوق عائد کئے اور ایک دوسرے سے انتفاع کے کچھ شرائط وقواعد مقرر فرمائے ہیں اور پھر ان دونوں سے جو ذریات پیدا ہوتی ہیں ان کی محبت بھی والدین کے دلوں میں بسادیا تاکہ وہ ہمیشہ ان کا خیال رکھیں اور ان ضرورتوں کوپوری کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں۔یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جواللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کوعطافرمائی ہے۔ہر انسان کواس کاشکر گزار ہوناچاہئے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ(٧٢ ۔نحل)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔ توکیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
انسانی فطرت میں ایک جذبہ ہے جسے شہوانی جذبہ کہا جاتا ہے۔ اس جذبہ کی تسکین کے لئے ہر انسان اپنے جنس مخالف کی طرف مائل ہوتاہے اور اس کے لئے ہر ممکن راہ تلاش کرتاہے۔ لیکن بہائم کی طرح انسان بالکل آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ایک معاشرہ میں رہنے والا ذی روح ہے اخلاق و تہذیب سے بھرپور زندگی گزارنے کاعادی بھی ہے اور اسے حق جل شانہ نے اس کاپابند بھی بنایا ہے اس لئے وہ بے لگام ہوکر کہیں بھی منھ نہیں مارسکتا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بالکل مجبور بھی نہیں رکھا اور نہ اس کے لئے اتنے سخت قیود شرائط نافذ کئے ہیں جو اس کی استطاعت و قدرت سے باہر ہو۔ ان ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سہولتیں فراہم کیں۔ انہی میں سے ایک نکاح کاعمل بھی ہے جس کے ذریعہ اس کے فطری جذبے کی تسکین بھی ہوتی ہے اور وہ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت بھی بآسانی کرسکتاہے نیز اس کی وجہ سے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل بھی ہوتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کوجونکاح نہیں کرسکے ہیں انہیں اوران کے سرپرستوں کوحکم دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو، یتیموں کو غلاموں اور باندیوں کونکاح کے رشتے سے منسلک کردیں تاکہ ان کی عزت و ناموس بھی محفوظ رہے اور معاشرے میں کسی طرح کی بے راہ روی کو پنپنے کا موقع بھی نہ ملے۔ارشاد ہے:
وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَاءِکُمْ اِِنْ یَکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (٣٢ ۔نور)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
نکاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے صالحیت کوبنیادی حیثیت عطافرمایا ہے۔مردو عورت جب باہمی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کاارادہ رکھتے ہوں تو صالح بیویا ں اور عورتیں صالح مردوں کو تلاش کریں۔ اس لئے کہ عمل نکاح سے صرف جذبہ شہوانی کی تسکین مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ اولاد کو حاصل کرنا ہے اور جب والدین صالح ہوں گے تو اولا د بھی ان شاء اللہ صالح ہی ہوگی اس لئے اولاد کے حق میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ ان کے لئے نیک مائیں تلاش کریں۔
اولاد کے لئے دعائیں کرنا
والدین کو چاہئے کہ اپنے لئے نیک صالح اولاد کی دعاکریں، یہی انبیا ء کی سنت ہے او ر مومنانہ صفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعاکو نقل کرکے مومنین کو دعاکی تعلیم بھی دے دی ہے۔ارشادہے:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ قَالَ رَبِّ ھَب لِی مِن لَّدُنکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَآءِ (38۔ اٰل عمران)
ترجمہ: اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔
نیز باری تعالیٰ نے مومنین مخلصین اوران کے اعمال صالحہ اور ان کی صفات کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (٧٤ )اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلاَمًا (٧٥ )خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا (٧٦ ۔ فرقان)
ترجمہ: اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند بالاخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔
اولاد کی پرورش میں مشفقانہ رویہ اختیار کرنا
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جنہیں اولاد کی نعمت عطا ہو تو اب انہیں اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت مشفقانہ انداز سے کرنا چاہئے اور اس بچے کی ضروریات کو پوری کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہئے۔ ان کومدت رضاعت میں دودھ پلانا والدین کی ذمہ داری اور بچے کاحق ہے بچوں کو اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی رہیں اور باپ ان ماؤں کے نفقہ کاانتظام اپنی وسعت کے بقدر کریں۔بچوں کو آڑ بناکر نہ تو مائیں باپ کو نقصان پہونچانے کی کوشش کریں اور نہ باپ ماؤ ں کو پریشان کریں اور اگر اتفاق سے والدین میں سے کوئی ایک یادونوں فوت ہوجائیں تو ان کے وارثین پر یہ حق ہے کہ وہ ان بچوں کے پرورش وپرداخت کا بہتر انتظام کریں۔
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ وَ عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(٢٣٣ ۔ بقرہ)
ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو دستور کے مطابق ہو۔ ہر شخص کو اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے جتنی اس کی طاقت ہو۔ ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولادکی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے۔ وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کو دستور کے مطابق جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کردو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
یتیم بچے کی پرورش
کسی بچے کے والدین فوت ہوجائیں اور وہ بچہ یتیم ہو جائے تو وارثین میں سے کسی ایک کو ان کا سرپرست بناکر بچوں کو ان کے سپرد کردینا چاہئے تاکہ وہ ان کی پرورش وپرداخت کرسکیں اور انہیں محرومی کااحساس نہ ہو۔یتیم بچوں کے مال کومال غنیمت سمجھ کر وارثین لوٹ مار نہ مچائیں بلکہ انصاف اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ ان بچوں کے مال کی حفاظت کریں اور جب وہ سن شعور کو پہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کردیں۔
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاوَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(١٥٢ )وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(١٥٣ ۔ انعام)
ترجمہ: اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھواور یہ کہ یہی میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔
بچوں کو اچھی نصیحت کرتے رہیں
بچوں کے ذہن بالکل صاف ہوتے ہیں وہ کسی کے ساتھ کینہ کپٹ یا بغض حسد نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی کو اپنا دشمن جانتے ہیں وہ ہر قریب آنے والے کو اپنا ہمدرد تصور کرتے ہیں اور ان سے یکساں محبت کرتے ہیں ان سے اپنا دکھ درد بتاتے اور ان سے صلاح لیتے ہیں اور کبھی کبھی اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔ اس لئے والدین اور سرپرستوں کویہ چاہئے کہ بچوں کو نصیحت کرتے رہیں اور انہیں بھلے برے کی تمیز سکھاتے رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے بھولے پن میں کسی ایسے آدمی کے چنگل میں پھنس جائیں جو ان کابھلا نہیں چاہتاہو یا وہ انہیں خوش نہیں دیکھنا چاہتے ہوں۔ جیسے حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نگرانی فرمائی اور انہیں بچپن میں ہی خبر دار کردیا کہ تمہارے بھائے تمہارے حق میں مخلص نہیں ہیں۔
قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْ یَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ(٥ ۔ یوسف)
ترجمہ:(یعقوب علیہ السلام نے) کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔
وقتاً فوقتاً والدین اپنے بچوں کو وعظ ونصیحت کے ذریعہ اچھی باتوں کی تعلیم دیتے رہیں اور انہیں برائیوں سے خبردار کرتے رہیں اس لئے کہ اس دنیامیں وہ بالکل نئے ہیں انہوں نے حالات زمانہ کامقابلہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ خیرو شر سے واقف ہیں۔ بچوں کے حق میں والدین سے زیادہ کوئی شفیق نہیں ہوسکتا اس لئے والدین ہی کوچاہئے کہ وہ بچوں کو خیر و شر سے آگاہ کرتے رہیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جونصیحتیں کی ہیں وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ارشاد ہے:
وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَ ھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(١٣ ۔ لقمان)
ترجمہ: اور جب کہ لقمان ؑ نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔
یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(١٦ )یٰبُنَیَّ اَقِمَ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(١٧ )وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(١٨ )وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(١٩ ۔لقمان)
ترجمہ: پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا اللہ تعالیٰ بڑا باریک بیں اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا بے شک یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔
اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ
والدین کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو جس طرح جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرتے ہیں یا انہیں کرنا چاہئے بالکل اسی طرح اپنے اہل وعیال کو بھی جہنم سے بچانے کی فکر کریں ان کے لئے ایسے ماحول فراہم کریں جس میں رہ کر وہ اللہ کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانیوں سے بچیں۔
ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلاَءِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (٦ ۔ تحریم)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
بچوں کی حسن تربیت کا انتظام
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فرائض عاید ہوتے ہیں ان کی ادائیگی اور اس پر عمل کرنے کے لئے اولاد کو ابھارنا، نیز انہیں فرائض دین کی تعلیم دینا والدین او رسر پرستوں کے ذمہ ہے۔ ایسانہ ہو کہ بچوں کو جب ذراسی عقل آجائے تو انہیں کام پر لگادیں اور ان کی کمائی بیٹھ کر کھانے لگیں بلکہ پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ انہیں اپنے پیداکرنے والے کی شناخت کرائیں اور ان کے ذمہ عائد حقوق وفرائض سے انہیں آگاہ کریں اور یہ عمل برابر جاری رکھیں۔
اولاد کی حسن تربیت اور ان کونیک بنانا انسان کے لئے ایساعمل ہے جس کا اجرو ثواب اس کے مرنے بعد بھی جاری رہتاہے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ”.(سنن ابو داؤد۔کتاب الوصایا،باب الصد قۃعن ا لمیت۔حدیث نمبر٢٨٨٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے): ایک صدقہ جاریہ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔
وَامُر اَھلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصطَبِر عَلَیھَا لَا نَسءَلُکَ رِزقًا نَحنُ نَرزُقُکَ وَ العَاقِبَۃُ لِلتَّقوٰی(١٣٢ ۔ طٰہٰ)
ترجمہ: اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔
بچوں کی پیدائش سے والدین کو خوش ہونا چاہئے،چاہے وہ مذکر ہوں یا مؤنث یہ تو اللہ تعالیٰ کی کاریگری اور اس کی قدرت ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتاہے اور جسے چاہتاہے بیٹیاں عطاکرتاہے اورکسی کو دونوں عطاکرتاہے۔ایسا نہ ہوکہ بیٹوں کی پیدا ئش پر تو خوشی کااظہار کریں اور بیٹیوں کی پیدائش پرناک بھنوں چڑھائیں۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب بچے پیدا ہوں تو ان کے کانوں میں پہلی آواز اللہ کی کبریا ئی اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے اعلان کی صورت میں جائے اس لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ بچوں کی ولادت کے بعد ان کے داہنے کان میں اذان او ربائیں کان میں اقامت کہی جائے۔ان کا اچھا نام رکھا جائے۔
عن ابی رافع رضی اللہ عنہ قَالَ: ” رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ “(سنن ترمذی۔ کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ،باب الاذان فی اذن المولودحدیث نمبر١٥١٤ )
حضرت ا بورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔
عقیقہ بچوں کا حق
صاحب وسعت حضرات پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش پر ان کاعقیقہ کریں اور قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کاشکرانہ اداکریں۔
عن سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا , وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى ” (سنن ترمذی۔ کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ،باب الاذان فی اذن المولود۔حدیث نمبر١٥١٥ )
حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو”۔
بچوں کے ساتھ نرمی وشفقت کابرتاؤ
بچوں کے ساتھ نرمی اور ملائمت کا برتاؤ کرنا انہیں پیار کرنا انہیں گودمیں اٹھالینا اور ان سے معانقہ کرنا یہ سب نبی کریم ﷺ کی سنتیں ہیں اور ایک مؤمن کے اندر یہ صفات ہونا چاہئے اور والدین کے اندر ان صفات کا ہونا تو نہایت ضروری ہے یہ بچوں کاحق ہے۔
عَنْ أَنَسٍ، أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ. (صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ۔حدیث نمبر٥٩٩٤ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور انہیں بوسہ دیا اور انہیں سونگھا۔
اللہ تعالیٰ رحمان ورحیم ہیں اور رحمت کوپسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کو اس کے غضب پرسبقت حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بے انتہا پیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نہایت مہربانی کا معاملہ فرماتے ہیں۔یہاں تک کہ مائیں جواپنے بچوں کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہوجاتی ہیں ان سے بھی بدرجہا زیادہ مہربانی اور رحم وکرم کامعاملہ فرماتے ہیں۔
عن عمر بن خطاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْيَهَا تَسْقِي، إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ” قُلْنَا: لَا، وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لَا تَطْرَحَهُ فَقَالَ:” لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ۔حدیث نمبر٥٩٩٩ )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہو گی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
انسانوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں جذبہ رحمت کا کچھ نہ کچھ حصہ رکھا ہے اسی جذبے کے تحت ایک انسان دوسرے انسان پر رحم و مہربانی کا معاملہ کرتاہے۔دیگر تمام رشتوں اور علاقوں کی بہ نسبت ماں باپ میں یہ جذبہ زیادہ شدید ہوتاہے اور اسی جذبے کے تحت وہ اپنی اولادکو چاہے وہ جیسی بھی ہو چاند وسورج کے مشابہ قرار دیتے ہیں ان سے پیار ومحبت کااظہار کرتے ہیں اور ان پراپنی جان نچھاور کرتے رہتے ہیں۔فرط محبت میں کبھی انہیں گود میں اٹھاتے ہیں توکبھی بوسہ لیتے ہیں۔نبی کریم ﷺ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ دیگر بچوں کے ساتھ بھی اسی رحمت و مہربانی کا برتاؤ فرماتے تھے او رجولوگ ایسا نہیں کرتے ان کے لئے زجر وتوبیخ بھی فرماتے تھے۔
عن ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” قَبَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسًا، فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:” مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ۔حدیث نمبر٥٩٩٧ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
عن عائشۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: تُقَبِّلُونَ الصِّبْيَانَ، فَمَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ”. (صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ۔حدیث نمبر٥٩٩٨ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
اپنی اولاد کے درمیان انصاف قائم کرنا
بچوں کے ساتھ رحمدلی اور موانست کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھنا بھی مومنانہ صفات میں سے ہے اور ہر شخص کو اپنی وسعت کے بقدر اپنی اولاد کے لئے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرنا چاہئے۔ اس میں بخل،کنجوسی اور ناانصافی کو بالکل جگہ نہیں دینی چاہئے۔جو کچھ بھی میسر ہو اس میں سے اپنے سارے بچوں کو دینا چاہئے اور ان میں سے کسی کوبھی محروم نہیں کرنا چاہئے۔خاص کر لڑکیوں کو اپنی داد ودہش میں اول درجہ دینا چاہئے اس لئے کہ وہ جس طرح خلقت کے اعتبار سے نازک ہیں اسی طرح ان کادل بھی بڑا نازک ہوتاہے اور بسااوقات وہ احساس محرومی کاشکار ہوجاتی ہیں۔ نیززمانہ ئ جاہلیت سے ہی بچیوں کے ساتھ ناانصافی برتاجاتارہا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں یہ برائی پائی جاتی ہے کہ لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کے ساتھ لوگ کمتر درجے کا برتاؤ کرتے ہیں۔ جب کہ نبی کریم ﷺ نے ان بچیوں کی پرورش وپرداخت اور ان کے ساتھ حسن سلوک نیز ان کی تربیت کوان کے اور جہنم کے درمیان ایک پردہ قرار دیا ہے جو والدین کو جہنم کی آگ سے بچانے کاذریعہ ہیں۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: جَاءَتْنِي امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ تَسْأَلُنِي فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي غَيْرَ تَمْرَةٍ وَاحِدَةٍ، فَأَعْطَيْتُهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ:” مَنْ يَلِي مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ شَيْئًا فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ۔حدیث نمبر٥٩٩٥ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک عورت (اور) اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، وہ مانگنے آئی تھی۔ میرے پاس سے سوا ایک کھجور کے اسے اور کچھ نہ ملا۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی اور اس نے وہ کھجور اپنی دونوں لڑکیوں کو تقسیم کر دی۔ پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اس طرح کی لڑکیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
اہل ایمان کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ کریں اور ان کی پرورش و پرداخت اچھے ماحول میں کریں اورانہیں نیک صالح بنانے کی کوشش کریں۔