اہل قبلہ کاجنازہ پڑھنا
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مسلمان چاہے جہاں بھی ہوں،جس قبیلے یاخاندان سے تعلق رکھنے والے ہوں ایک ملت ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان نہایت ہی گہر اتعلق ہے۔ اسی لئے مسلمانوں کو آپس میں محبت کرنے کاحکم دیا گیاہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جو ہرمسلما ن پرلازم ہیں۔ انہی میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو کر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں بخشش کی سفارش کریں۔جنا زہ کی نماز میں شرکت میت کے لئے بھی باعث مغفرت ہے اور نماز جنازہ پڑھنے والے کے لئے بھی باعث اجرو ثواب ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جنازے کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بھی بارہا بتائے ہیں۔جنازے کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگوں نے جنازے کی نماز پڑھ لی تو فرضیت ساقط ہوجائے گی ورنہ سارے لوگ ترک فرض کے گنہ گار ہوں گے۔
جو لوگ اللہ کوایک مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اورحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں نیز بیت اللہ (خانۂ کعبہ) کو اپنا قبلہ مانتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ شخص حقیقی مومن نہیں اور دل سے اللہ کوایک نہیں مانتا اس لئے کہ دلوں کے بھید کو جاننے والا اللہ ہے وہی اس کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کون حقیقی مومن ہے اور کس کے ایمان میں کھوٹ ہے۔ ہمیں تو بس یہ حکم ہے کہ جو ہمارے قبلہ کو اپناقبلہ مانے اور اللہ کو ایک مانے نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرے تو اس کاجنازہ پڑھیں۔
عن البراء رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:” أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ، أَمَرَنَا: بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ , وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ , وَإِجَابَةِ الدَّاعِي , وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ , وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ , وَرَدِّ السَّلَامِ , وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَنَهَانَا عَنْ: آنِيَةِ الْفِضَّةِ , وَخَاتَمِ الذَّهَبِ , وَالْحَرِيرِ , وَالدِّيبَاجِ , وَالْقَسِّيِّ , وَالْإِسْتَبْرَقِ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب الامر باتباع الجنائز۔حدیث نمبر١٢٣٩ )
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، قسم پوری کرنے، سلام کا جواب دینے اور چھینکنے والے کوجواب دینے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کے برتن سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج سے، قسی سے، استبرق سے۔
جنازہ کے ساتھ چلنا، جنازہ کی نماز پڑھنا اورمیت کی تدفین میں شریک ہونا ان سب کا الگ الگ اجرو ثواب ہے اس لئے مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ اجرو ثواب جمع کرنے کے لئے جناز ہ کی نماز بھی پڑھنی چاہئے اس کی متابعت بھی کرنی چاہئے اور اس کی تدفین میں بھی شریک ہونا چاہئے۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ، وَلَمْ يَتْبَعْهَا فَلَهُ قِيرَاطٌ، فَإِنْ تَبِعَهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ “، قِيلَ: وَمَا الْقِيرَاطَانِ؟، قَالَ: أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ “.(صحیح مسلم۔ کتاب الجنائز۔باب فضل الصلوۃ علی الجنازۃ و اتباعہا۔حدیث نمبر٢١٩٢ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ”جو جنازہ کی نماز پڑھے اور ساتھ نہ جائے، اس کو ایک قیراط ہے اور جو ساتھ جائے اس کو دو قیراط ہیں۔“ کسی نے پوچھا: دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: ”چھوٹا ان میں سے احد کے برابر ہے۔
جنازہ کی نماز مومنین کی سفارش ہے
جنازہ کی نماز اصل میں میت کے لئے دعا ہے او رمومنین کی طرف سے اللہ کے یہاں اس کی مغفرت کی سفارش ہے اس لئے جتنے زیادہ سفارش کرنے والے ہوں گے سفارش اتنی ہی موثر ہوگی نبی کریم ؐ نے چالیس اور بعض روایات میں سوافراد کی سفارش کومیت کی مغفرت کاذریعہ بتایا ہے۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَا مِنْ مَيِّتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ مِائَةً، كُلُّهُمْ يَشْفَعُونَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ “،(صحیح مسلم۔ کتاب الجنائز۔باب من صلی علیہ ما ئۃ شفعو ا فیہ۔حدیث نمبر٢١٩٨ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مردہ ایسا نہیں کہ اس پر ایک گروہ مسلمانوں کا نماز پڑھے جس کی گنتی سو تک پہنچتی ہو اور پھر سب اس کی شفاعت کریں (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں) مگر ضرور ان کی شفاعت قبول ہو گی۔
عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما أَنَّهُ مَاتَ ابْنٌ لَهُ بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ، فَقَالَ: يَا كُرَيْبُ انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَهُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوا لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: تَقُولُ هُمْ أَرْبَعُونَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَخْرِجُوهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللَّهُ فِيهِ “،(صحیح مسلم۔ کتاب الجنائز۔باب من صلی علیہ اربعون شفعو ا فیہ۔حدیث نمبر٢١٩٩ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک فرزند قدید یا عسفان میں فوت ہوگیا۔ تو انہوں نے کریب سے کہا کہ دیکھو کتنے لوگ جمع ہوئے ہیں، (یعنی نماز جنازہ کے لئے) کریب نے کہا: میں گیا اور دیکھا لوگ جمع ہیں اور ان کو خبر کی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تمہارے اندازے میں وہ چالیس ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ کہا: جنازہ نکالو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ضرور ان کی شفاعت قبول کرتا ہے۔“
نماز جناز ہ کی فرضیت تو چند لوگوں کے پڑھ لینے سے بھی ساقط ہوجاتی ہے لیکن میت کے حق میں زیادہ مفید یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔ مسلمانوں کی تین صفیں جن کے جنازے میں شریک ہوں تو ان کے لئے جنت کی راہ ہموارہوجاتی ہے اس لئے لوگ اگرکم بھی ہوں تو جنازے کی تین صفیں بنالینی چاہئے۔
عن مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَوْجَبَ”، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ، جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِيثِ. (سنن ابو داؤد۔ کتاب الجنائز، باب فی الصفوف علی الجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٦٦ )
حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا“۔ راوی کہتے ہیں: نماز (جنازہ) میں جب لوگ تھوڑے ہوتے تو اس حدیث کی وجہ سے مالک ؓان کی تین صفیں بنا دیتے۔
جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا چاہئے
مومن بندہ اللہ کاپیار اہوتاہے اس لئے جب اس کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے استقبال کے لئے ملائکہئ رحمت اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں بندہ کے اعمالِ خیر جتنے زیادہ ہوتے ہیں فرشتوں کی تعداد بھی اسی کے بقدر زیادہ ہوتی ہے اس لئے فرشتوں کی حاضری کا لحاظ کرتے ہوئے جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو پیدل ہی چلناچاہئے یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
عن ثوبان رضی اللہ عنہ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُتِيَ بِدَابَّةٍ، وَهُوَ مَعَ الْجَنَازَةِ، فَأَبَى أَنْ يَرْكَبَهَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ أُتِيَ بِدَابَّةٍ فَرَكِبَ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ:”إِنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَمْشِي، فَلَمْ أَكُنْ لِأَرْكَبَ وَهُمْ يَمْشُونَ، فَلَمَّا ذَهَبُوا رَكِبْتُ”.(سنن ابوداؤد۔کتاب الجنائز،باب الرکوب فی الجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٧٧ )
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سواری پیش کی گئی اور آپ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے سے انکار کیا۔ جب جنازے سے فارغ ہو کر لوٹنے لگے تو سواری پیش کی گئی تو آپ سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: ”جنازے کے ساتھ فرشتے پیدل چل رہے تھے تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سواری پر چلوں، پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہو گیا”۔
جنازہ کے ساتھ چلنے والوں میں سے اگر کچھ لوگ سواری پر ہوں تو انہیں جنازہ کے پیچھے چلناچاہئے اور پیدل چلنے والے جنازے کی چاروں طرف سے چل سکتے ہیں۔
عن المغیرۃبن شعبہ رضی اللہ عنہ قَالَ:” الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ يَمِينِهَا، وَعَنْ يَسَارِهَا، قَرِيبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ”. (سنن ابوداؤد۔کتاب الجنائز، باب المشی امام الجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٨٠ )
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے اور کچے بچوں کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے”۔
جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانا
مومن بندہ اپنے ایمان کی وجہ سے قابل قدر اور لائق احترام ہے اس لئے اگر کسی کاجنازہ سامنے سے گزررہا ہوتو اس کے احترام میں کھڑے ہوجانا چاہئے۔اگر موقع ہوتو جنازے کے ساتھ چلیں اور اگر بیٹھنا ہوتوجنازہ گزر جانے کے بعد ہی بیٹھناچاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ جنازہ دیکھ کرآدمی کواپنی موت یاد آجاتی ہے اور موت کی یاد انسان کو اعمال خیر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور برائیوں سے روکنے کاسبب بنتی ہے اس لئے جنازہ دیکھتے ہی کھڑے ہوجانا چاہئے اگرچہ وہ کسی غیر ایمان والے کاہی جنازہ کیوں نہ ہو۔ہمارے علاقے میں جویہ بات رائج ہے کہ کسی کافر کا جنازہ دیکھ کر لوگ فی نار جہنم پڑھتے ہیں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قَالَ: ” مَرَّتْ جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقُمْنَا مَعَهُ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا يَهُودِيَّةٌ، فَقَالَ: إِنَّ الْمَوْتَ فَزَعٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا “.(صحیح مسلم۔ کتاب صلوۃ الجنائز۔ باب القیام للجنازۃ۔حدیث نمبر٢٢٢٢ )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک جنازہ گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے پھر ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت گھبراہٹ کی چیز ہے۔ پھر جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔”
جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے بارے میں تھوڑااختلاف ہے اور اس کی وجہ ایک حدیث ہے جسے امام مسلم وابوداؤد نے نقل کیاہے کہ نبی کریم ؐ پہلے جنازہ کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے بعد میں آپ نے کھڑا ہونا چھوڑ دیا۔ اس لئے بعض حضرات نے کھڑا ہونے والے حکم کو منسوخ مانا ہے۔ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اس کے لئے منسوخ کالفظ استعمال کرنے کے بجائے متروک کالفظ استعمال کرتاہوں یعنی ایک طریقہ تھا اس کو چھوڑ دیا۔ واجب پہلے بھی نہیں تھا اب بھی نہیں ہے لیکن پہلے عمل کرتے تھے اب چھوڑ دیا۔
(افادات: از انعام الباری،ج، ٤ ص،٤٦٩ )
عن عامر بن ربیعۃ رضی اللہ عنہ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ، فَقُومُوا لَهَا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ، أَوْ تُوضَعَ”.(سنن ابوداؤد۔کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٧٢ )
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے گزر جائے یا (زمین پر) رکھ دیا جائے”۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا، فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِنَحْمِلَ، إِذَا هِيَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هِيَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقَالَ:” إِنَّ الْمَوْتَ فَزَعٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ جَنَازَةً، فَقُومُوا”.(سنن ابوداؤد۔کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٧٤ )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اچانک ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپؐ اس کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر جب ہم اسے اٹھانے کے لیے بڑھے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی یہودی کا جنازہ ہے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”موت ڈرنے کی چیز ہے، لہٰذا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ”۔
جولوگ جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جائیں ان کو چاہئے کہ جب تک جنازہ زمین پر نہیں رکھ دیا جاتا وہ خود نہ بیٹھیں ہاں اگر جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب بیٹھ جانے کی اجازت ہے۔ اصل بات اس میں یہ ہے کہ جنازہ جب کندھوں پرہے تو اسے اتارنے کے لئے زیادہ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ اتارتے وقت جنازہ کے نیچے گرجانے کاخطرہ نہ رہے اور جب جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب مدد کی حاجت نہیں رہی اس لئے بیٹھ جانے کی اجازت ہے یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ جنازہ میں شریک لوگوں کی تعداد کم ہواور اگر جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تو جولوگ جنازے کے قریب ہوں وہ نہ بیٹھیں باقی لوگوں کے لئے بیٹھنا جائز ہے۔
عن ابی سعید الخدری رَ ضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:” إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا، فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز،باب من تبع جنازۃ فلایقعد حتی توضع عن مناکب الرجال فان قعد امر بالقیام۔حدیث نمبر١٣١٠ )
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ نہ رکھ دیا جائے۔
عن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” يَقُومُ فِي الْجَنَازَةِ حَتَّى تُوضَعَ فِي، اللَّحْدِ فَمَرَّ بِهِ حَبْرٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: هَكَذَا نَفْعَلُ، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اجْلِسُوا خَالِفُوهُمْ”.(سنن ابوداؤد۔کتاب الجنائز، باب القیام للجنازۃ۔حدیث نمبر٣١٧٦ )
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور جب تک جنازہ قبر میں اتار نہ دیا جاتا، بیٹھتے نہ تھے، پھر آپ کے پاس سے ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا: ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (اس کے بعد سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے، اور فرمایا:”(مسلمانو!) تم (بھی) بیٹھے رہو، ان کے خلاف کرو”۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اگر میت کو چارپائی سے اتارنے کی ضرورت ہوتو لوگ نہ بیٹھیں اور ضرورت نہ ہوتو بیٹھ جانے کی اجازت ہے۔ اس میں یہود کی مخالفت ہے اس لئے کہ وہ جنازہ کو لحد میں رکھنے تک کھڑے رہنا لازم سمجھتے ہیں اور نبی کریمﷺ کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے یہود کی مخالفت میں کھڑا رہنا لازم نہیں رکھا ہاں ضرورۃً کھڑے رہنے کاحکم دیا ہے جیسا کہ ماقبل کی حدیثوں ں سے مفہوم ہوتاہے۔
منافقین کی نماز جنازہ پڑھنا
منافقین اللہ تعالیٰ کو نہایت مبغوض او رناپسندیدہ ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ان کاٹھکانا رکھاہے یہ لوگ اللہ کے دین کے دشمن ہیں اس لئے نبی کریم ؐ کو ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے منع فرمادیاگیاتھا۔ شروع میں آپ ؐ منافقین کی نماز جنازہ محض اس وجہ سے کہ وہ اہل قبلہ ہیں پڑھاکرتے تھے لیکن منافقوں کے سردار عبداللہ ابن ابی کا جنازہ جب آپؐ نے پڑھا اور اس کی قبر پرکھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پرمنافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ﷺ کومنع فرمادیا۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قَالَ: مَاتَ رَأْسُ الْمُنَافِقِينَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَوْصَى أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْ يُكَفِّنَهُ فِي قَمِيصِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ وَكَفَّنَهُ فِي قَمِيصِهِ، وَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية ٨٤ . (سنن ابن ماجہ۔کتاب الجنائز،باب فی الصلوۃ علی اہل القبلہ۔حدیث نمبر١٥٢٤ )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مر گیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مَّنْھُمْ مَاتَ اَبَداً وَّلاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ (سورہ توبہ آیت۔٨٤ )”منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔
نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیااب ہم کسی کے بارے میں حتمی طورپر منافق ہونے کافیصلہ نہیں کرسکتے اس لئے تمام اہل قبلہ کی نماز جنازہ پڑھناچاہئے۔
جنازہ کی نماز پڑھنا ہر مسلمان کاحق ہے اس لئے ہمارے آس پاس میں کسی مسلمان کی موت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہونا چاہئے اگر چہ اعمال کے اعتبار سے وہ کمزور ہو۔