عیوب پرپردہ ڈالنا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ستار کی بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے عیوب کو چھپاتے اور ان پر پردہ پوشی اور ستاری کامعاملہ فرماتے ہیں۔ اس لئے جن بندوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہوتے ہیں۔کسی انسان کے اندر کسی عیب کا پیدا ہوجانا ایک طرح کی بیماری اور نقص ہے۔اب وہ عیب اگر جسمانی ہے تو اسے جسمانی بیماری کہتے ہیں اور اگر وہ عیب روحانی ہے تو اسے روحانی بیماری کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں طرح کے عیوب کو ظاہر کرنے سے منع فرمایا ہے اور جولوگ اس پر عمل نہیں کرتے اور دوسروں کے عیوب ظاہر کرنا ان کا شیوہ بن جاتاہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں دردنا ک عذاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (١٩ ۔نور)

ترجمہ:        جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔

اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان والے بھائیوں کے عیوب کی پردہ پوشی کریں۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے اور جولوگ دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے عیوب پر اس دن پردہ ڈالیں گے جس دن ساری خلقت ایک جگہ جمع ہوگی۔

 عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ”.(سنن ابن ماجہ۔کتاب الحدود۔باب الستر علی المومن ودفع الحدود بالشبہات۔حدیث نمبر٢٥٤٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا”۔

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لئے کسی ایک مسلمان کی عزت و آبرو تمام مسلمانوں کی عزت وآبرو ہے اور جس طرح ایک مسلمان اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتاہے اسی طرح دوسرے مسلمان بھائیوں کی عزت وآبرو کی حفاظت بھی کرنی چاہئے۔

دوسروں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو

دنیا میں جتنے بھی انسان بستے ہیں ان میں کوئی بھی عیب سے پاک نہیں ہیں۔صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور تمام عیوب سے خالی ہے اس لئے ہم اگر کسی کے عیب کوظاہر کرتے ہیں تو ہوسکتاہے کہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عیوب کو بھی ظاہر کردیں۔اس لئے اگر کسی مسلمان کے عیب پر اطلاع ہوبھی جائے تو اسے اپنا عیب سمجھ کر چھپالینا چاہئے۔یعنی جس طرح ہم اپنا عیب چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح دوسرے مسلمان بھائیوں کے عیوب کو بھی چھپانا چاہئے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ ہمارے عیوب کوظاہر کرکے ہمارے گھروں میں ذلیل و رسوا کردیں گے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِي بَيْتِهِ”.(سنن ابن ماجہ۔کتاب الحدود۔باب الستر علی المومن ودفع الحدود بالشبہات ۔حدیث نمبر٢٥٤٦ )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا۔”

ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ ان کے ذہن ودماغ پرآخرت کی فکر سوارہوتی ہے اور ان کی نظر ہمیشہ اپنے عیوب پر ہوتی ہے، وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے عیوب کومٹاکر محاسن پیداکردے اور گناہوں کو مٹاکر نیکیاں ان کے نامۂ اعمال میں بھردے۔ وہ دوسروں کے عیوب کے پیچھے کیوں پڑیں جس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان کاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے کہ جوشخص کسی کے عیب کے پیچھے پڑتاہے اللہ تعالیٰ اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کے پیچھے پڑجائیں پھر اس کو رسوائی سے کون بچاسکتاہے۔ 

عن ابی برزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ”.(سنن ابوداؤ۔ کتاب الادب، باب فی الغیبۃ۔حدیث نمبر ٤٨٨٠ )

حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا”۔

فطرت نے انسان کے اندر یہ صفت ودیعت کررکھی ہے کہ وہ گناہ کرنے کے بعد دوسرے لوگوں سے چھپاتا ہے اور حیاء کرتاہے۔یہ حیاء اور جھجک اس کے ایمان کی وجہ سے پیداہوتی ہے جو اس کے دل میں موجود ہے وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے اس گناہ یا عیب پر مطلع ہوں۔لیکن اسی انسان کاعیب جب بالکل ظاہر ہوجاتاہے اور لوگوں کے درمیان عام ہوجاتاہے تو اس کی وہ جھجک اور شرم وحیاء ختم ہوجاتی ہے اور اب وہ علی الاعلان گناہ کرنے لگتاہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم کسی کی ٹوہ میں نہ پڑوکہ وہ تنہائی میں کیاکیاکرتاہے اور اس کے اندر کون کون سے عیوب ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کواور زیادہ بگاڑ دو۔

عن معاویۃ رضی اللہ عنہ  قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ أَوْ كِدْتَ أَنْ تُفْسِدَهُمْ” , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةٌ سَمِعَهَا مُعَاوِيَةُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ نَفَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا. (سنن ابو داؤد۔کتاب الادب، باب النہی عن التجسس۔حدیث نمبر٤٨٨٨ )

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے، یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کر دو۔ ابو الدرداء کہتے ہیں: یہ وہ کلمہ ہے جسے حضرت معاویہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور اللہ نے انہیں اس سے فائدہ پہنچایا ہے۔

 عن زید بن وہب  قَالَ: أُتِيَ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، فَقِيلَ: هَذَا فُلَانٌ تَقْطُرُ لِحْيَتُهُ خَمْرًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:” إِنَّا قَدْ نُهِينَا عَنِ التَّجَسُّسِ وَلَكِنْ إِنْ يَظْهَرْ لَنَا شَيْءٌ نَأْخُذْ بِهِ”.۔(سنن ابو داؤد۔کتاب الادب، باب النہی عن التجسس۔حدیث نمبر٤٨٩٠ )

حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کسی آدمی کو لایا گیا اور کہا گیا: یہ فلاں شخص ہے جس کی داڑھی سے شراب ٹپکتی ہے تو عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) نے کہا: ہمیں ٹوہ میں پڑنے سے روکا گیا ہے، ہاں البتہ اگر کوئی چیز ہمارے سامنے کھل کر آئے تو ہم اسے پکڑیں گے.

پردہ پوشی کی فضیلت

انسان کا عیب اس کی کمزوری ہے اور جب کسی شخص کا کوئی عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجاتاہے تو وہ شرماتاہے اور مجمع عام میں آنے سے گھبراتا ہے۔ گویا ایک طرح سے اس کی اجتماعی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور وہ انفرادی زندگی گزار نے پر مجبور ہوجاتاہے۔اس لئے نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کوجوکسی کے عیب پر مطلع ہونے کے بعد اس کوچھپالیتاہے اور اجتماعی زندگی میں اسے بے آبرو ہونے سے بچالیتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ شخص ایسا ہے جیسا اس نے کسی زندہ درگور بچی کو بچالیا۔

عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَنْ رَأَى عَوْرَةً فَسَتَرَهَا كَانَ كَمَنْ أَحْيَا مَوْءُودَةً”.(سنن ابو داؤد۔کتاب الادب،باب الستر عن المسلم۔حدیث نمبر٤٨٩١ )

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کا کوئی عیب دیکھے پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے کسی زندہ دفنائی گئی لڑکی کو نئی زندگی بخشی ہو”۔

عن  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، مَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ فَإِنَّ اللَّهَ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”.۔(سنن ابو داؤد۔کتاب الادب،باب المواخاۃ۔حدیث نمبر ٤٨٩٣ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ (خود) اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ اسے (کسی ظالم) کے حوا لہ کرتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کوئی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کی تکمیل میں لگا رہتا ہے اور جو کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کرے گا، تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مصائب و مشکلات میں سے اس سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا”۔

بدگمانی سے بچو

کسی مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے بدگمان ہونا یا اس کے عیوب کے پیچھے پڑنا، اس کی جاسوسی کرنا گناہ ہے اور ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع کیا ہے:

یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًااَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ (١٢ ۔حجرات)

ترجمہ:        اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا”.(صحیح بخاری۔کتاب الادب- بَابْیٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا۔حدیث نمبر٦٠٦٦ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔”

 اپنی چھپی باتوں کو  فاش نہیں کرنا چاہئے

جس طرح دوسرے لوگوں کے عیوب کو بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح اپنی پوشیدہ بات کوبھی ظاہر کرنے سے منع کیا گیا۔کسی گناہ میں ملوث ہوجانا ہر انسان کے لئے ممکن ہے کوئی بھی انسان کسی بھی وقت کسی بھی گناہ میں ملوث ہوسکتاہے۔ اس لئے کہ انسان خطاء ونسیان سے مرکب ہے اسی لئے وہ بار بار گناہوں میں ملوث ہوجاتاہے۔ لیکن مومن کی یہ صفت ہے کہ وہ جب بھی کوخطا کربیٹھے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اپنی اس خطا پرشرمندگی کا اظہار کرے اوراس خطا پرجمانہ رہے۔ اس کے برخلاف کسی گناہ پر مصر ہونا یاعلی الاعلان کرنا یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔اگر کسی سے رات کی تنہائی میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اس گناہ کو ظاہر نہ کریں تو اس شخص کو بھی چاہئے کہ اپنے اس عمل کو دوسروں کے سامنے نہ بیان کرے۔اس لئے کہ گناہ کاہوجانا شرمندگی کا باعث ہے اور ایک مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گناہ کرنے کے بعد شرمندگی کے بجائے اس گناہ کا اعلان کرتا پھرے کہ میں نے رات ایسا ایسا کام کیا۔اس لئے کہ اس کے اعلان کے بعد وہ گناہ معافی کے قابل نہیں رہتا۔ 

 عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ،يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ: يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ”(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب سترالمؤ من علیٰ نفسہ۔حدیث نمبر٦٠٦٩ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔

انسان سے گناہ تو سرزد ہوتے ہی ہیں لیکن انسان اس گناہ پر شرمندہ ہواور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کو دنیا میں ظاہر نہیں کیا اور اس شخص نے بھی اپنے گناہ کوچھپاکر ہی رکھا یعنی صرف اللہ اوراس بندہ کے درمیان ہی رہا  تویہ ستر پوشی بھی انسان کے لئے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکتی ہے۔

 أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابن عمر رضی اللہ عنہما كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ:” عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا”، فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ:” عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا”، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ:” إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ”.(صحیح بخاری۔ کتاب الادب، باب سترالمؤ من علیٰ نفسہ۔حدیث نمبر٦٠٧٠ )

ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔تم میں سے ایک شخص اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے یہ یہ برے کام کئے تھے، وہ عرض کرے گا۔ ہاں۔تو اس سے اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے، تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔

قرآن وحدیث میں مسلمانوں کے عیوب کو چھپانا ایک مستحسن عمل بتایا گیاہے، جس کا فائدہ دنیا و آخرت میں ملتاہے اور اس کے برعکس مسلمانوں کے عیوب کو ظاہر کرنا یا ان کے عیوب کے پیچھے پڑنا ایک ناپسندید ہ عمل ہے۔ اس لئے ایک مومن ہونے کی حیثیت سے ہمیں مسلمانوں کے عیوب کی پردہ داری کرنی چاہئے اور ان کے عیوب کی پردہ دَری سے کلی اجتناب برتنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *