مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

دنیا سے بے رغبتی

دنیا سے بے رغبتی

 

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

دنیا دار العمل ہے 

یہ دنیاجس میں ہم رہتے بستے ہیں ہمیشہ کے کے لئے نہیں بنائی گئی ہے بلکہ ایک خاص مدت کے لئے بنائی گئی اوراس میں انسان کو عمل کے لئے بھیجا گیا ہے اس لئے انسان کو بار بار خالق کائنات نے متنبہ کیا ہے کہ اس دنیاسے دل نہ لگاؤ یہ تمہارا اصل مقام اور ابدی ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی زندگی اصل زندگی ہے اور وہیں سب کو رہنا ہے اس لئے ایک مومن کو چاہئے کہ وہ اس دنیا سے دل نہ لگائے اور ہمیشہ آخرت کی تیاری میں مشغول رہے۔اس دنیاکو اللہ تعالیٰ نے کہیں دھوکہ اور کہیں سراب سے تعبیر کیا ہے جس کی رنگینیو ں میں پھنس کر انسان اپنے خالق حقیقی کو بھول جاتاہے اور اس دنیاکو ہی سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔حق بات یہ ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی چیز ہی نہیں ہے اس لئے کہ یہاں کی کو ئی بھی چیز دائمی اور ابدی نہیں ہے یہاں کی نعمتیں بھی وقتی ہیں اور یہاں کی مصیبتیں بھی وقتی ہیں۔نہ تو اس دنیا کو ثبات و قرار میسرہے اور نہ ہی انسان کو یہاں ہمیشہ رہنا ہے پھر کیوں وہ اپنے قیمتی لمحات کو دنیا کے پیچھے صرف کرے۔اسے تویہ چاہئے کہ اپنے قیمتی اوقات کو اُس زندگی کو خوشحال بنانے میں صرف کرے جودائمی اور باقی رہنے والی ہے۔اس دنیامیں جوبھی آیا ہے اسے ایک دن اس کو چھوڑ کر جانا ہے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے بقدر پورااجر دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَوَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(آ ل عمران۔١٨٥ )

ترجمہ:        ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔

 دنیا دل لگانے کی چیز نہیں

دنیا کی بے ثباتی او راس کے زوال سے متعلق آیات قرآنیہ اور روایات حدیث کثرت سے آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے جتنا اجتناب برتاجائے انسان اتناہی کامیاب ہوگا۔ یہاں کی نعمتیں ایسی ہیں جنہیں دوام نہیں اور یہاں کی مصیبتیں بھی ایسی ہیں جو قائم رہنے والی نہیں بلکہ وہ بھی ایک نہ ایک دن ختم ہوجائیں گی۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جس کے لئے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے تاکہ وہ یہاں کی چیزوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرکے اپنی آخرت کو سنوار سکے۔جو لوگ اس دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کااٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا دنیا اور بس دنیا ہے وہ گھاٹے کا سوداکررہے ہیں۔ اس لئے کہ اس دنیاکو قرار حاصل نہیں ہے۔یہاں پر ہمیں جو کچھ میسر ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور جو کچھ ملنے والا ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ملنے والا ہے۔یہاں جتنے لوگ رہتے بستے ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں رزق کی وسعت دے کر آزماتے ہیں اورجسے چاہتے ہیں تنگی میں مبتلا کرکے آزماتے اور امتحان لیتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس دنیا کو بقدر ضرور ت استعمال کیا اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے ہمیشہ فکر مند رہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں اورجولوگ اس دنیا کی زندگی کوہی سب کچھ سمجھ بیٹھے وہ جب اس دنیا سے عالم آخرت میں جائیں گے اور ان کے سامنے اس دنیاکی حقیقت کھل کر سامنے آئے گی تب انہیں افسوس ہوگا کہ ہم نے اپنی قیمتی زندگی کو کس بے کار چیز میں صرف کردیا۔باری تعالیٰ کاارشاد ہے:

اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُوَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ(٢٦ رعد)

 ترجمہ:       اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا اور گھٹاتا ہے یہ تو دنیا کی زندگی میں مست ہو گئے۔ حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے۔

ایمان والو ں کو یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا میں جن قوموں کو مال دولت او ردنیاوی نعمتوں کی فراوانی حاصل ہے وہ لوگ خوش نصیب ہیں بلکہ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا وی مال ودولت اور اس کے زرق برق یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتے ہیں دنیاوی مال متاع میں فراخی کردیتے ہیں تو جولوگ اس فراخی کو اپنی خوش نصیبی سمجھ کر اس میں مست ہوجاتے اور اپنے حقیقی خالق کو بھول جاتے ہیں وہ بہت بڑے دھوکہ میں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے دنیاکی حقیقت کو بیان کردیا اور یہ واضح فرمادیا کہ دنیا کی متاع بہت ہی قلیل ہے اس لئے اپنی قیمتی حیات کو اس کے حصول میں ضائع کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس دنیاکو آخرت کی پونجی بنانے کی فکر کرو۔ ارشاد ہے:

قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا  قَلِیْلٌ  وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی وَ لَا تُظْلَمُوْنَ  فَتِیْلًا (نساء۔۷۷ )

ترجمہ:        آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی متاع تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ تلقین کیا ہے کہ دنیاکی دولت کی طرف نہ دیکھو تمہارا اصل مقام آخرت ہے اور یہ دنیا چند روزہ ہے اسے قرار حاصل نہیں۔یہ دنیا محض کھیل کود ہے اور اس کی زیب زینت ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے بلکہ اس سبز وشاداب کھیتی کی طرح ہے جو بارش کے پانی سے لہلہا اٹھتی ہے لیکن جب وہ کھیتی پک جاتی ہے تو اس سے دانہ نکالنے کے لئے اس کو کاٹ کر روند دیا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا وی زندگی بھی ایک لہلہاتی کھیتی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ سب کچھ روندد یا جائے گا اور اس میں سے نیک و بد بھوس اور دانہ کی طرح الگ کرلئے جائیں گے۔ توجن لوگوں نے اس دنیا کو متاع آخرت سمجھ کر برتا اور استعمال کیا یقینا ان کے لئے اللہ کی رضا ہوگی اور جولوگ اس دنیا کے دھوکے میں پڑگئے ان کے لئے اللہ کا سخت عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

اعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیَٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَّفِی الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌوَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا اِِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (٢٠ ۔حدید)

ترجمہ:        بلاشبہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل کود کی طرح ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال اولاد کو بڑھانے کی کوشش کا نام ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس کے سبزہ نے کاشتکاروں کو بھا لیا ہے، پھر جب اس کھیتی میں ابھار آتا ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ پک کر زرد ہو چکا ہے۔ پھر وہ دانہ نکالنے کے لیے روند ڈالا جاتا ہے اور آخرت میں کافروں کے لیے سخت عذاب ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔“

یہ دنیا دھوکہ کی ٹٹی ہے۔ ایمان والوں کو اس کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے وہ اس دنیا کومزین کرکے ایمان والوں کے سامنے لاتا ہے تاکہ وہ اس میں پھنس کر اپنے حقیقی خالق کو بھول جائیں اور جہنم میں اس کے ساتھی بن جائیں۔ ارشاد باری ہے:

یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ(۵)اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ  فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر(۶۔فاطر)

ترجمہ:        اللہ کا وعدہ حق ہے پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکہ دینے والی چیز تمہیں اللہ سے غافل کر دے۔ بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم اسے اپنا دشمن ہی سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے کہ وہ جہنمی ہو جائے۔

 دنیا کی حقیقت

نبی کریم ﷺ کے ارشادات اس بارے میں کثیرہیں کہ بہت جلد یہ دنیا ختم ہوجانے والی ہے اور پھر ابد الآبادکی زندگی شروع ہونے والی ہے۔اس دنیا کی حقیقت کیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:

 عن سہل رضی اللہ عنہ  قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا”.(صحیح بخاری۔کتاب الرقاق،باب مثل الدنیا فی الآخرۃحدیث  نمبر٦٤١٥ )

حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آپ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔

اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے کہ مسافر کانشانہ اپنی آخری منزل تک پہنچنا ہوتاہے راستے کاٹھہراؤ اس کا مقصود نہیں اس لئے دوران سفر جوبھی حالات پیش آتے ہیں چاہے وہ آرام وراحت کے قبیل سے ہوں یا تکلیف ومصیبت کی قبیل سے،وہ ان میں الجھتا نہیں بلکہ تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنی ضروریات پوری کرتاہے اور پھر رخت سفر باند لیتاہے۔

عن عبد اللہ بن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْكِبِي، فَقَالَ:” كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ”، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:کن فی الدنیا کانک غریب، او عابر سبیل حدیث نمبر٦٤١٦ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا ”دنیا میں اس طرح ر ہو جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔” عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ سورة آل عمران آية ١٨٥  وَقَوْلِهِ: ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ سورة الحجر آية ٣ ،    وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا، فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ بِمُزَحْزِحِهِ بِمُبَاعِدِهِ. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق، ترجمۃ الباب۔باب فی الامل وطولہ حدیث نمبر٦٤١٧ )

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیااِلّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ”پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔“ اورسورۃ الحجر میں فرمایاذَرْھُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْھِہِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ”اے نبی! ان کافروں کو چھوڑدیجئے کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کرتے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔“ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آ رہی ہے۔ انسانوں میں دنیا و آخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہو گا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا۔

اپنی آرزؤں کو لگام دو

انسان اپنے آپ کو دنیا میں مشغول کرکے آخرت کو بھول جاتاہے جو اس کی بہت بڑی بھول ہے۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی زندگی دے کر اس دنیا میں پیدا فرمایا۔ہونا تویہ چاہئے کہ مختصر سی زندگی کے لئے مختصر سی زاد راہ ہواور وہ کسی طرح اس دنیا میں رہ کر اپنی آخرت کو سنوار لے لیکن انسان اس دنیا کو ہی سنوارنے میں لگ جاتاہے اور اس کی رنگینیوں میں پھنس کر اپنا نقصان کربیٹھتاہے اس عارضی دنیاسے لمبی لمبی امیدیں قائم کرلیتاہے جو اس کی زندگی میں پورے نہیں ہوسکتے۔ انسان کے دل میں جوآرزوئیں اور تمنائیں پیدا ہوتی ہیں وہ اس دنیامیں پوری ہوہی نہیں سکتی۔اس لئے کہ یہاں کی کوئی بھی نعمت مکمل نہیں ہے اس لئے اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو لگام دینے میں ہی انسان کی کامیابی کاراز مضمر ہے جولوگ اپنی تمناؤ ں اور خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں وہ بڑے گھاٹے میں ہوتے ہیں۔

عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ، وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الْوَسَطِ، وَقَالَ:” هَذَا الْإِنْسَانُ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِهِ، وَهَذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهَذِهِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا”. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب فی الامل وطولہ۔حدیث نمبر٦٤١٧ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔

دنیاوی مال متاع کو آخرت کی پونجی بنالو

مشکلات اور پریشانیاں اس دنیا کاخاصہ ہیں کوئی بھی انسان اس کائنات میں ایسا نہیں ہے جو مشکلات کے گھیرے میں نہ ہو،چاہے انسان کومال ودولت کاانبار حاصل ہوجائے لیکن تجربہ شاہد ہے کہ جس کے پاس جتنا مال ودولت ہے وہ اتنا ہی پریشان حال ہے اور جس کے پاس ساز وسامان کم ہیں اس کے ساتھ پریشانیاں بھی کم ہوتی ہیں اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ اپنے آپ کو دنیاوی جاہ جلال سے بچاکر آخرت کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔دنیا کی زیب و زینت اور اس کا یہ زرق برق صرف دیکھنے کے لئے ہے۔جولوگ اس دنیاوی مال متاع کو آخرت کی پونجی بنالیتے ہیں وہی لوگ اصل میں کامیاب ہیں اور ان کے لئے اللہ کے یہاں ابدی نعمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کاارشاد ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالبَنِینَ وَ القَنَاطِیرِ المُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَ الفِضَّۃِ وَ الخَیلِ المَسَوَّمَۃِ وَ الاَنَعَامِ وَ الحَرثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الحَیٰوۃِ الدُّنیَاوَ اللّٰہُ عَندَہٗ حُسنُ المَاٰبِ(14) قُل اَؤُنَبِّءُکُم بِخَیرٍ مِّن ذٰلِکُم لِلَّذِینَ اتَّقَوا عِندَ رَبِّھِم جَنّٰتٌ تَجرِی مِن تَحتِھَا الاَنھٰرُ خٰلِدِینَ فِیھَا وَ اَزوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ رِضوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ بَصِیرٌ بِالعِبَادِ(١٥ ۔آل عمران)

ترجمہ:        مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ آپ کہہ دیجئے! کیا میں تمہیں اس سے بہت ہی بہتر چیز بتاؤں؟ تقویٰ والوں کے لئے ان کے رب تعالیٰ کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، سب بندے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشادات میں بار بار اپنی امت کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔ دنیاوی مال ومتاع کی خواہش انسان کے اندر جب پیداہونے لگتی ہے تو وہ مٹنے کا نام نہیں لیتیں اس لئے ہرمومن کویہ چاہئے کہ اپنی ضرورت کے بقدر دنیا کو حاصل کرے اور جو کچھ اسے حاصل ہے اسے اللہ کے خزانے میں جمع کرکے اپنی آخرت کے لئے سامان بہم پہنچائے۔جو شخص نیک نیتی سے دنیا کو حاصل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس میں اس کے لئے برکت رکھ دیتے ہیں او ر جو شخص لالچ کا شکار ہوجاتاہے اور ہمیشہ ایک کو دو کرنے کی فکر میں رہتاہے اس کے مال سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔

حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ پھر فرمایا کہ یہ مال۔ اور بعض اوقات سفیان نے یوں بیان کیا کہ (حکیم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) اے حکیم! یہ مال سرسبز اور خوشگوار نظر آتا ہے پس جو شخص اسے نیک نیتی سے لے اس میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شخص جیسا ہو جاتا ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔

عن حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: هَذَا الْمَالُ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي:” يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى”. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:ھذا المال خضرۃ حلوۃ۔حدیث نمبر٦٤٤١ )

 دنیا کی زیب وزینت سے دور رہو

نبی کریم ﷺ کو اپنی امت کی فکر ہمیشہ ستاتی رہتی تھی اور آپ ﷺ ہمیشہ اس کے لئے فکر مند رہا کرتے تھے کہ میری امت کس طرح کامیاب ہوجائے اور ان کی آخرت کس طرح سنور جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی زیب وزینت انہیں اپنی گرفت میں لے لے اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگیں اور عاقبت کو بھول جائیں۔ اس خدشہ کا اظہار آپ ﷺ نے ایک موقع پر اس طرح فرمایا:

أَنَّ المسور بن مخرمۃ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عمر بن عوف وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، كَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ، يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِهِ، فَوَافَتْهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، وَقَالَ:” أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِشَيْءٍ”، قَالُوا: أَجَلْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُلْهِيَكُمْ كَمَا أَلْهَتْهُمْ”.  (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب مایحذر من زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا۔حدیث نمبر٦٤٢٥ )

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن عدی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔

نبی کریم ﷺ اپنی امت کو ہمیشہ دنیا کی چمک دمک سے دور رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور آپ ﷺکو یہ خوف ہمیشہ ستاتا رہتا تھاکہ میری امت دنیا کی چمک دمک میں پھنس کر نہ رہ جائے۔

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ أَكْثَرَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ بَرَكَاتِ الْأَرْضِ”، قِيلَ: وَمَا بَرَكَاتُ الْأَرْضِ؟ قَالَ:” زَهْرَةُ الدُّنْيَا”، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبِينِهِ، فَقَالَ:” أَيْنَ السَّائِلُ”، قَالَ: أَنَا، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَقَدْ حَمِدْنَاهُ حِينَ طَلَعَ ذَلِكَ، قَالَ:” لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرَةِ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، فَاجْتَرَّتْ، وَثَلَطَتْ، وَبَالَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوَةٌ مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ”. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب مایحذر من زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا۔حدیث نمبر٦٤٢٧ )

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک، اس پر ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آ گیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار ہے اور جو چیز بھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کر لی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھا لیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔

زیادہ مال و دولت والے ہی خسارہ میں ہیں

دنیا وی مال ومتاع کی کثرت انسان کے لئے مفید نہیں بلکہ مضر ہے اس کی وجہ سے بسااوقات اپنے خالق کی پہچان بھول جاتاہے۔اس کی حفاظت اور خرچ کرنے کے راستوں کی تلاش نیز اس میں مزید اضافہ کی فکر انسان پر ایسی سوار ہوتی ہے کہ وہ اپنوں،پرایوں یہاں تک کے اپنے اس پروردگار کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کوتاہی کامرتکب ہوجاتاہے جس نے اسے اس مال ودولت سے نوازا ہے۔ہاں جو شخص اس دولت کو خیر کی راہوں میں خرچ کرکے اس کو آخرت کی پونجی بنالیتاہے وہ شخص یقینا لائق تحسین وستائش ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں فرمائیں گے۔

عن ابی ذر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: مَنْ هَذَا، قُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَالَهْ، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ:” إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ، وَشِمَالَهُ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا”، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ لِي: اجْلِسْ هَا هُنَا، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي:” اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي، فَأَطَالَ اللُّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ وَهُوَ يَقُولُ:” وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى”، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ:” ذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، قَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ”، (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب المکثرون ھم المقلون۔حدیث نمبر٦٤٤٣ )

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لیے میں چاند کے سائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوذر! یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ (ابوذر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے ”چاہے چوری ہو، چاہے زنا ہو“ ابوذر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبریل علیہ السلام تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: اے جبریل! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو؟ جبریل علیہ السلام نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔

اصحاب صفہ کا فقر

نبی کریم ﷺ کے انہیں ارشادات اور قرآنی اشارات کی وجہ سے صحابہ کرام نے اپنی زندگی نہایت زاہدانہ طریقے سے گذاری۔عرب کے لوگ تجارت میں مشہور تھے اور ملکوں ملکوں گھوم کر تجارت کیا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے اسلام کے دامن کو تھاما اور ان کے سامنے دنیا کی حقیقت واضح ہوئی تو انہوں نے دنیا کے پیچھے دوڑنا چھوڑ کر اپنے ایمان کی سلامتی اور آخرت کو سنوارنے کے لئے فقیرانہ زندگی بسر کرنا اختیار کیا اور نبی کریم ﷺ کے قریب رہ کر وحی کے محافظ بنے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے علم دین کو محفوظ کرگئے۔ان میں اصحاب صفہ کافقر مشہور ہے یہ صحابہ کرام کی ایک مقدس جماعت تھی جن کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔یہ لوگ مسجد نبوی میں ایک چبوترے پر رہاکرتے اور نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے جو باتیں سنتے ان کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ انہی میں سے کسی کسی کو ضرورت کے موافق قبائل عرب میں اسلام کی ترویج واشاعت اور تبلیغ کے لئے بھی بھیجا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہ ؓ ان میں سب سے زیادہ مشہور ہیں اور آپ نے کثیر تعداد میں حدیثیں محفوظ کی ہیں۔نبی کریم ﷺ پیار سے آپ ؓ کو ”اباھر“(بلی کا باپ) کہاکرتے تھے وہ خود اپناایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور آپ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور جو میرے دل میں اور جو میرے چہرے پر تھا آپ نے پہچان لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا میرے ساتھ آ جاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا فلاں یا فلانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ میں بھیجا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے ہیں، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس! جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ رکھتے۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلوا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حقدار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچائی، وہ آ گئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا لو اور اسے ان سب حاضرین کو دے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ اس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہو چکے تھے۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا، لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے دے دو، میں نے پیالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔

اَنَّ ابا ھریرۃ رضی اللہ عنہ كَانَ يَقُولُ: أَللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ مِنْهُ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ فَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي، ثُمَّ قَالَ:” يَا أَبَا هِرٍّ”، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:” الْحَقْ، وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ فَدَخَلَ فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لِي فَدَخَلَ فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ: قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فُلَانٌ أَوْ فُلَانَةُ، قَالَ: أَبَا هِرٍّ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ، فَادْعُهُمْ لِي قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ إِلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، وَلَا عَلَى أَحَدٍ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَنِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ، كُنْتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوَّى بِهَا، فَإِذَا جَاءَ أَمَرَنِي فَكُنْتُ أَنَا أُعْطِيهِمْ وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدٌّ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا، فَأَذِنَ لَهُمْ وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ الْبَيْتِ، قَالَ: يَا أَبَا هِرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلَ، فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ فَأُعْطِيهِ الرَّجُلَ، فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ، فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ الْقَدَحَ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوِيَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ، فَقَالَ: أَبَا هِرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَقِيتُ أَنَا وَأَنْتَ، قُلْتُ: صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اقْعُدْ فَاشْرَبْ، فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، فَقَالَ: اشْرَبْ، فَشَرِبْتُ فَمَا زَالَ يَقُولُ اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ: لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ: فَأَرِنِي، فَأَعْطَيْتُهُ الْقَدَحَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الْفَضْلَةَ”. (صحیح بخاری۔کتاب الرقاق۔باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ، وتخلیھم من الدنیا۔حدیث نمبر٦٤٥٢ )

اہل اسلام اور ایمان والوں کو چاہئے کہ دنیا کو بقدر ضرورت ہی حاصل کریں اور جوکچھ اللہ کے فضل وکرم سے حاصل ہے،اسے آخرت میں اپنے لئے ذخیرہ ئ ثواب بنانے کے لئے راہ خیر میں خرچ کرتے رہیں۔خواہشات اور تمناؤں کولگام دیں۔اس لئے کہ یہ دنیا خواہشات پورے ہونے کی جگہ ہی نہیں ہے۔جنت وہ اعلیٰ مقام ہے، جہاں انسانوں کی تمام تر خواہشات پوری ہوجائیں گی۔ اس لئے اگر تمناوں کوبَر لانے کی فکر ہے،توجنتیوں والے اعمال کریں اور ہر وقت اللہ کی رضاکے متلاشی رہیں۔یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔

One thought on “دنیا سے بے رغبتی”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index