لغو سے بچنا

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

لغوکے معنی بے کار اور بے مقصد با ت کے ہیں۔لغو کام بھی ہوتاہے اور لغو بات بھی ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت ہے۔ اس لئے کہ انسان کی زندگی کے لمحات گنے ہوئے او رمتعین ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس کو ایک ایسے جہان کا سفر کرنا ہے جہاں کی زندگی لامحدود ہے۔ اب اس محدود زندگی میں ایسے کام کرنا جو اس لامحدود زندگی میں کام آنے والے ہیں انسان کے لئے سب سے زیادہ ضرور ی ہے۔ اُس زندگی کے مقابلے میں دنیا وی زندگی کے لمحات تھوڑے سے ہیں اس لئے انہیں بچا بچا کر استعمال کرنا اور ویسے ہی ضائع نہ کردینا دانشمندی اور عقلمندی کی بات ہے۔کسی بھی انسان کے پاس جب ضروریات کثیر ہوں اور اسباب بہت تھوڑے سے ہوں تو اس کے لئے دانشمندانہ امر یہ ہے کہ ان تھوڑے سے اسباب کو بچابچاکر بوقت شدید ضرورت کے ہی استعمال کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اسباب ختم ہوجائیں، ضرورتیں سر پر کھڑی رہ جائیں۔ اسی طرح زندگی کے قیمتی لمحات کو بچا بچاکر ایسے کاموں میں خرچ کرنا چاہئے جو ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کام آنے والے ہوں۔یونہی اپنے اوقات کو ضائع کردینا دانشمندی نہیں ہے۔

ایمان والوں کی صفات محمودہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (١ )الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ (٢ )وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن(۳ ۔ سورہ مومنون)

ترجمہ:    یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔ جو لغویات سے منھ موڑ لیتے ہیں۔

ایسا فضول کلام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہولغو کہلاتاہے اگر اس سے دین کانقصان ہورہا ہو تو اس سے بچنا لازم ہے اور اگر اس سے دینی نقصان نہ ہو پھربھی اس سے بچنا اولی اور بہتر ہے مومن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ لغوباتوں سے پرہیز کرتاہے۔نبی کریم ﷺ نے لایعنی چیزوں کے چھوڑدینے کو حسن اسلام اور کمال ایمان سے تعبیر فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے صفات حسنہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عباد الرحمان کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تووہاں کھڑے ہوکر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ شرافت سے گزر جاتے ہیں:

وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّورَ وَاِِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا (٧٢ ۔ فرقان)

ترجمہ:    اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔

مومن کے ایمان کا کمال یہ ہے کہ وہ زبان سے کوئی لغو بات نہیں نکالتا، کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے اس کودنیا وآخرت میں کوئی فائدہ ہونے والا نہ ہو یہاں تک کہ کہیں لغو با ت سنتا بھی ہے اس پرتبصرے کرکے اپنے وقت کا ضیاع نہیں کرتا بلکہ اس سے اعراض کرکے اپنے دامن کو بچا لیتاہے۔

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ (٥٥ ۔سورہ قصص)

 ترجمہ:   اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔

مطلب یہ ہے کہ مومنین کاملین لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے جو لغویات میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں جن میں لغو اور بیہودہ قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور اگر کبھی ایسی مجالس سے بالاتفاق گزر ہو جائے تو بڑی شرافت سے وہ وہا ں سے نکل جاتے ہیں اور ایسے لوگوں سے میل جول اور دوستانہ تعلقات قائم نہیں رکھتے اور انہیں صاف طورپریہ پیغام بھی دے دیتے کہ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارے اعمال ہمارے ساتھ۔ اسی طرح کبھی جاہلوں سے سابقہ پڑجاتاہے اور وہ کوئی سخت کلامی یا بیہودہ گوئی کرتے ہیں تو مومنین ان کے ساتھ ان کی زبان میں جواب نہیں دیتے بلکہ ان کی سخت کلامی کو تحمل و بردباری سے برداشت کرلیتے ہیں او رکتراکر نکل جاتے ہیں۔پاکیزہ نفسی مومنانہ صفات میں سے ہے اس لئے ان جاہلوں کے کلام کے جواب میں ان کو سلامتی کی دعا دیتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔

لایعنی باتوں سے پرہیز

نبی کریم ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ کبھی بھی کسی لغوکام میں مشغول نہیں ہوتے تھے۔بلکہ آپ کی زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہا کرتی تھی۔

 عن عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ  يَقُولُ:” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقَصِّرُ الْخُطْبَةَ، وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُ الْحَاجَةَ” (سنن نسائی۔ کتاب الجمعہ،باب  مایستحب من تقصیر الخطبہ۔حدیث نمبر١٤١٥ )

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکرو اذکار زیادہ کرتے، لایعنی باتوں سے گریز کرتے، نماز لمبی پڑھتے، اور خطبہ مختصر دیتے تھے اور بیواوؤں اور مسکینوں کے ساتھ جانے میں تاکہ ان کی ضرورت پوری کریں، عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

فضول اور لایعنی باتیں جن سے آدمی کو تھوڑی دیر کے لئے زبان کو لذت اور کانوں کو سرور کی کیفیت نصیب ہوسکتی ہے۔لیکن دنیا وآخرت میں اس کا کوئی فائدہ اگر نہیں ہے تو یہ سراسر گھاٹا ہے۔ اس لئے کہ وقت جیسے قیمتی چیز کو یونہی صرف کردینا بہت بڑی نادانی ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے لایعنی باتیں چھوڑ دینے کو اسلام کی خوبی اور ایمان کاکمال بتایا ہے۔ 

عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ” (سنن الترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ۔ باب  منہ،متعلق باب فی من تکلم بکلمۃ  یضحک بہھا الناس۔حدیث نمبر ٢٣١٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے”۔

زبان کو بے لگام چھوڑ دینا اور جو جی میں آئے بکتے رہنا مومنین کے لئے مناسب نہیں ہے۔ بلکہ بولنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ میں جو بولنے جارہا ہوں اس کا فائدہ کیا ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوسکتے ہیں۔فضول قسم کی باتیں جن سے کوئی بھی فائدہ نہیں قابل احتراز ہیں ان سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔بسااوقات انسان اپنی زبان سے کوئی بات ایسی نکال دیتا ہے جس کو وہ کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ محض دل لگی کے لئے یا کسی کی بات رکھنے کے لئے یا ہنسی مذاق کے لئے کوئی با ت بول دیتاہے لیکن انجام کے بارے میں نہیں سوچتا کہ وہ کیا بول رہا ہے اور اس سے کیا اثرات پیداہوسکتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسی باتیں انسان کوجہنم کی تاریکیوں میں پہنچادینے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔

عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ ” (سنن الترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ۔ باب فی من تکلم بکلمۃ  یضحک بہا الناس۔حدیث نمبر٢٣١٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا”۔

 عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ  أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ مَا فِيهَا، يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ” (صحیح مسلم۔ کتاب الزہد والرقائق۔باب حفظ اللسان۔حدیث نمبر٧٤٨٢ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ ایک بات کہتا ہے اور نہیں جانتا اس میں کتنا نقصان ہے اس کے سبب سے آگ میں گرے گا اتنی دور تک جیسے مشرق سے مغرب۔”

ہنسنے ہنسانے کی محفلیں قائم کرنا اور ان میں جھوٹی کہانیا ں، جھوٹے لطیفے بیان کرکے لوگوں کو ہنساناانسان کو تباہی و بربادی کے دہانے تک لے جانے والے ہوتے ہیں۔

عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ  (سنن الترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ۔ باب فی من تکلم بکلمۃ  یضحک بہھا الناس۔حدیث نمبر٢٣١٥ )

حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ(حكيم بن معاوية بن حيدة ) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔”

انسان کی چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں وہ اپنی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں دیتا، کبھی کبھی بڑے انجام تک پہونچادیتی ہیں۔ اگر وہ اچھی بات ہے تو اللہ کی رضا کاسبب بن کر اس کے لئے نجات کاباعث بن سکتی ہیں اور اگر کوئی لغو یا بیہودہ بات ہے تو اللہ کی ناراضی کا سبب بن کر اس کے لئے قعر جہنم کا پروانہ بھی بن سکتی ہیں۔ اس لئے ہر وقت اپنی زبان کو سنبھال کررکھنا چاہئے اور نا پ تول کر بات کرنی چاہئے۔

 عن بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ  صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ ” (سنن ترمذی۔ کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ۔ باب فی قلۃ الکلام۔حدیث نمبر٢٣١٩ )

حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے”۔

نیک سیرت اور نیک کردار آدمی جو ہمیشہ اپنا وقت اللہ کے ذکر میں اور دوسری عبادات میں صرف کرتا ہو وہ بھی کسی لایعنی بات کی وجہ سے پھنس سکتاہے جس کے بارے میں اسے اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ اتنی بڑی بات ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ اس چھوٹی سی بات کی وجہ سے اس کو جنت سے دور کر سکتے ہیں۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ  قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُهُ “، (سنن الترمذی۔کتاب الزہد عن رسول اللہ ﷺ۔ باب  منہ،متعلق باب فی من تکلم بکلمۃ یضحک بھا الناس۔حدیث نمبر٢٣١٦ )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہو گئی، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بے فائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا”۔

تاجروں کو صدقہ کاحکم

دکانداروں او رتجارت پیشہ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گاہکوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے بہت سی ایسی باتیں بول جاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چاہے وہ بات اپنی تجارت کے بارے میں ہو یا سامانو ں کے اصلی یا نقلی او رعمدہ ہونے کے بارے میں ہو، اپنی چیزوں کی تعریف کرنے کے لئے آسمان و زمین کے قلابے ایک کرنا اور دوسرے لوگوں کے سامانوں کوہلکا اور گھٹیا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ موٹ کی باتیں بنانا۔یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو تباہی وبربادی کو دعوت دے سکتی ہیں۔اس لئے نبی کریم ﷺ نے تاجرو ں کو مخاطب فرماکر انہیں حکم دیا کہ اس لایعنی چیز کے وبال سے بچنے کے لئے تم صدقے کیا کرو۔اس لئے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالنے والی چیز ہے اور اس سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔

عن قیس بن ابی غرزۃ  رضی اللہ عنہ  قَالَ:” كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ، وَالْحَلِفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ”. (سنن ابو داؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی التجارۃ  یخالطھا الحلف  واللغو۔حدیث نمبر٣٣٢٦ )

حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو”۔

”سماسرہ“سمسار کی جمع ہے، سمسار اس شخص کو کہاجاتاہے جو خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان دلالی کاکام کرتاہے یہ ایک عجمی لفظ ہے جو عربوں میں رائج تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  ”تجار“کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے۔

روزہ داروں کو لایعنی باتوں سے بچنے کی تلقین

روز ہ ایک ایسی عبادت ہے جواللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمادیا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔اس روزہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس طرح ایک سپاہی میدان جنگ میں دشمن سے بچنے کے لئے ڈھال کا استعمال کرتاہے اور اس کے ذریعہ دشمن کی وار سے بچتاہے۔ اسی طرح روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعہ روزہ دار شیطانی حملوں سے اپنی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ روزہ دار لایعنی باتوں میں مشغول ہوگیا تو اس کی ڈھال کمزور ہوجاتی ہے اور پھر وہ شیطانی حملوں سے بچ نہیں سکتا۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ  يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، إِذَا كَانَ يَوْمُ صِيَامِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ، وَلَا يَصْخَبْ فَإِنْ شَاتَمَهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ، أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَرِحَ بِصَوْمِهِ”. (سنن نسائی۔کتاب الصیام،باب ذکر الاختلاف علی ابی صالح فی ھذا الحدیث۔حدیث نمبر٢٢١٨ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہوتا ہے سوائے روزے کے، وہ خالص میرے لیے ہے، اور میں خود ہی اسے اس کا بدلہ دوں گا، روزہ ڈھال ہے، تو جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو فحش اور لایعنی بات نہ کرے اور نہ ہی شور و غل مچائے، اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرے یا اس کے ساتھ مار پیٹ کرے تو اس سے کہے: میں روزہ دار آدمی ہوں۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بوسے زیادہ عمدہ ہے۔

 گپ بازی کرنا اور قصہ کہانی میں اپنا وقت صرف کرنا ایک بیجا عمل ہے جس سے دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہیں اس لئے مومن بندہ کو چاہئے کہ اپنے آپ کوان فضولیات سے بچاکر اپنے اوقات کو اللہ کے ذکر، قرآن کی تلاوت اور اس کے رمو ز ومعانی میں غور فکر کرنے میں استعمال کرے جو اس کے لئے آخرت کاایک سرمایہ ہے اور اس کے نجات کا ذریعہ ہے۔

 عن حارث اعور  قَالَ: مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِیٍ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِي الْأَحَادِيثِ، قَالَ: وَقَدْ فَعَلُوهَا؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ، فَقُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ، وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ، وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ، وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ، هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا {١ } يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ سورة الجن آية ١   ـ  ٢ ،  مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هَدَى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ” خُذْهَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ، (سنن ترمذی۔کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔باب ماجاء فی فضل القرآن۔حدیث نمبر٢٩٠٦ )

حضرت حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: ”کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کوآسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا نہیں ہوتا اور اس کی انوکھی باتیں ختم نہیں ہوتیں اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو”۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو لایعنی اور فضول باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *