صدقہ فطر
تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اسلام ایک ابدی مذہب ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کو ایسے آداب سکھائے ہیں اور ایسے احکام کی تعلیم دی ہے کہ ایک طرف توان احکام کی پیروی سے ایمان والوں کی دنیا و آخرت سنورتی ہے اور دوسری طرف اس کے عمل سے انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا کے اندر کسی بھی کام کو کرنے کے لئے مال واسباب کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ مال واسباب سب کے پاس یکساں نہیں ہوتے کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جوبالکل فارغ البال ہوتے ہیں انہیں مالی اعتبار سے کسی کے تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اسی دنیامیں کچھ لوگ ایسے بھی رہتے بستے ہیں جو قدم قدم پر اسباب کے محتاج ہوتے ہیں۔خوشی ومسرت کا کوئی موقع آئے تو بھی وہ اسباب کی قلت کی وجہ سے دلی خوشی محسوس نہیں کرتے، خوشیاں منانا تو چاہتے ہیں لیکن مالی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں پاتے۔ اسلامی نظام میں ایسا انتظام کیا گیاہے کہ ہر امیر و غریب خوشی کے موقع پر خوش ہو۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر کچھ حقوق عائد کئے ہیں جن کی ادائیگی کے ساتھ غریبوں کی خوشیاں وابستہ ہیں۔ انہیں میں سے ایک صدقۂ فطر ہے، جسے فطرہ یا فطرانہ کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔رمضان المبار ک کے اختتام پرشوال کا جوپہلا دن ہوتاہے وہ تمام مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہوتاہے اور اس خوشی کے دن کو بڑے اہتمام سے منایا جاتاہے۔ہرشخص اپنی حیثیت کے مطابق کپڑے بنواتاہے کھانے پینے کا انتظام کرتاہے دوست احباب اور عزیز رشتہ داروں کودعوت دیتاہے اور ان کی میزبانی کرکے اپنے دل کو خوش کرنے کا سامان پیداکرتاہے۔ ایسے میں ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کے پاس وسائل نہیں، اسباب نہیں، مال ودولت کی فراوانی نہیں تو وہ اس خوشی کے دن میں بھی مایوسی اور غم کے شکار ہوتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے مالداروں پر فطرہ فرض فرمایا ہے اور اس کو نماز عید سے پہلے اداکرنے کی تاکید فرمائی ہے تاکہ وہ لوگ جن کے پاس اسباب نہیں ہیں وہ بھی عید کے دن خوشیاں منانے میں شریک ہوجائیں اور انہیں کسی دکھ کاسامنا نہ کرنا پڑے۔ایک روایت ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:” فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَۃً لِلصَّاءِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِینِ، مَنْ أَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُولَۃٌ، وَمَنْ أَدَّاہَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ”.(سنن ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب زکوٰۃ الفطر۔حدیث نمبر١٦٠٩ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔
اس حدیث میں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں:
1صدقۂ فطر لغو اور بیہودہ چیزوں سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے
یعنی روزہ کے درمیان اگر کوئی بات ایسی سرزد ہوگئی جو لغوکے زمرہ میں آتی ہے یا کوئی بیہودہ بات سرزد ہوگئی جس سے روزہ خراب ہوجاتاہے۔ صدقۂ فطر کی ادائیگی سے اس لغو اور بیہودہ بات کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اور روزہ خراب ہونے سے بچ جاتاہے۔
روزہ صرف دن بھر کھانے پینے سے بچ جانے کانام نہیں بلکہ اس کے ساتھ لغویات اور بیہودہ باتوں سے پرہیز بھی لازمی ہے ورنہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” رُبَّ صَاءِمٍ لَیْسَ لَہُ مِنْ صِیَامِہِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَاءِمٍ لَیْسَ لَہُ مِنْ قِیَامِہِ إِلَّا السَّہَرُ”.(سن ابن ماجہ۔ کتاب الصیام باب ماجاء فی الغیبۃ و الرفث للصائم حدیث نمبر١٦٩٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا“
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہِ، فَلَیْسَ لِلَّہِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ”(صحیح بخاری، کتاب الصیام،باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم۔ حدیث نمبر ١٩٠٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
اس لئے روزہ داروں کو اپنے روزے کی حفاظت کے لئے اور ایک طرح سے روزہ میں لغویات کے کفارہ کے طور پر فطرہ ادا کرنا چاہئے۔
2دوسرا فائدہ صدقہ فطر کا یہ ہے کہ معاشرہ میں موجود کمزور لوگ بھی اس کی وجہ سے عید کے دن خوشیوں میں شریک ہوجائیں گے، اپنی ضروریات کوپوری کریں گے اور کسی محرومی کاشکار نہیں ہوں گے۔
3 صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے پہلے فرض ہے۔
چونکہ صدقہ فطر کی حکمت اور مصلحت غریبوں اور ناداروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرناہے اور یہ خوشی کاموقع عید کا دن ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر اداکرنے کاحکم دیا ہے۔
4عید کے بعد صدقہ فطر کا ثواب عام صدقہ کاہوتاہے۔
صدقہ فطر کا مقصد چونکہ غریبوں کو عید کے دن خوشی کا سامان بہم پہنچانا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ عید سے پہلے صدقہ ان کے حوالے کردیا جائے لیکن عید کے دن ادائیگی کے بجائے عید کے بعد ادائیگی کی گئی تو اگرچہ اس سے بھی غریبوں کا فائدہ ہی ہوا لیکن اصل مقصد فوت ہوگیا لہذا صدقۂ فطر کا جوثواب ہے وہ بعد میں اداکرنے پر نہیں ملے گا بلکہ عام صدقات کاثواب ملے گا۔
اس لئے جولوگ مالدار ہیں وہ اپنی طرف سے اور اپنی اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر اداکریں اور عیدگاہ کی طرف نکلنے سے پہلے اداکریں۔ رسول اللہ ﷺ کا حکم یہی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:” فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ, وَالْحُرِّ, وَالذَّکَرِ, وَالْأُنْثَی, وَالصَّغِیرِ, وَالْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ”.(صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر۔حدیث نمبر١٥٠٣ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام‘ آزاد‘ مرد‘ عورت‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام کھانے پینے کی اشیاء میں کھجوریں، جو،پنیر ، انجیر یا خشک انگور کشمش استعمال کرتے تھے اس لئے انہی اشیاء کے ذریعہ صدقہ فطر بھی ادا کیا جاتاتھا۔ذیل کی روایت دیکھئے:
عَنْ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، یَقُولُ:” کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیبٍ”.(بخاری،کتاب الزکوۃ، باب صدقۃ الفطر صاع من طعام۔ حدیث نمبر١٥٠٦ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔
صاع ایک پیمانہ جوکیلوگرام کے رواج سے پہلے رائج تھا ہمارے علاقے میں بھی مختلف قسم کے پیمانے رائج تھے لیکن اب ہرچیز کاوزن کیلوگرام سے ہر جگہ ہونے لگا۔ صاع کی تعیین میں قدرے اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف گرام میں ہے کیلو میں نہیں ہے دار الافتا جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے ایک فتوے میں مفتاح الاوزان کے حوالہ سے یہ بتایاگیاہے کہ ایک صاع موجودودہ وزن کے مطابق:’تین کلو، ایک سو انچاس گرام، دوسو اسی ملی گرام (۳ کلو،149 گرام،180ملی گرام)“ ہوتاہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں ان چیزوں کے وزن کے مطابق بعینہٖ وہی چیز یا اس کی قیمت اداکی جاسکتی ہے۔
ابوداؤد کی ایک روات سے پتہ چلتاہے کہ ایک صاع گندم دوآدمیوں کی طرف سے کافی ہے۔یعنی نصف صاع ایک فرد کی طرف سے اداکردیا جائے تو صدقہۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
عن ثعلبۃ بن صعیر قَالَ:” قَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطِیبًا، فَأَمَرَ بِصَدَقَۃِ الْفِطْرِ صَاعِ تَمْرٍ أَوْ صَاعِ شَعِیرٍ عَنْ کُلِّ رَأْسٍ”، زَادَ عَلِیٌّ فِی حَدِیثِہِ: أَوْ صَاعِ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَیْنَ اثْنَیْنِ، ثُمَّ اتَّفَقَا عَنِ الصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ”.(سنن ابوداؤد، کتاب الزکوۃ باب من روی نصف صاع من قمح۔حدیث نمبر۰۲۶۱)
ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر شخص کی جانب سے نکالنے کا حکم دیا۔ علی بن حسین نے اپنی روایت میں ”أو صاع بر أو قمح بین اثنین“ کا اضافہ کیا ہے (یعنی دو آدمیوں کی طرف سے گیہوں کا ایک صاع نکالنے کا)، پھر دونوں کی روایتیں متفق ہیں: ”چھوٹے بڑے آزاد اور غلام ہر ایک کی طرف سے“۔
اس روایت کی تائید میں صحابہئ کرام کا تعامل موجود ہے جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے:
عَنْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:” أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِزَکَاۃِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ”، قَالَ عَبْدُ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَہُ مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَۃٍ.(صحیح بخاری۔کتاب الزکوٰۃ۔ باب صدقۃ الفطر صاعا من تمرل۔ حدیث نمبر١٥٠٧ )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دو مد (آدھا صاع) گیہوں کر لیا تھا۔
مُد بھی ایک پیمانہ ہے جو صاع کا نصف ہوتاہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں جو کے مقابلہ گیہوں کی قیمت زیادہ تھی بلکہ اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ دگنی قیمت تھی اس لئے لوگوں نے گیہوں کو نصف صاع متعین کرلیا اور جولوگ گیہوں کے ذر یعہ صدقہ فطر اداکرتے تھے وہ نصف صاع گیہوں دینے لگے۔ایک دوسری روایت سے اس کی تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیہوں آنے لگا تو آپؓ نے جو کے بالمقابل گیہوں کو نصف صاع مقرر کردیا۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:” کُنَّا نُعْطِیہَا فِی زَمَانِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیبٍ”، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِیَۃُ وَجَاءَ تْ السَّمْرَاءُ، قَالَ: أُرَی مُدًّا مِنْ ہَذَا یَعْدِلُ مُدَّیْنِ.(صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ باب صاع من زبیب۔حدیث نمبر ١٥٠٨ )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع ”زبیب“ (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔
ان روایات کی بنیاد پر علمائے احناف گیہوں کے ذریعہ نصف صاع دینے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ہمارے علاقے میں عام طور سے گیہوں کے ذریعہ ہی فطرہ ادا کیا جاتاہے چاہے بعینہٖ گیہوں دیا جائے یا اس کی قیمت۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ فطرہ گیہوں کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ کسی کو بھی خاص کرنے کا اختیار حاصل ہے اس لئے رسو ل ﷺ نے جن جن چیزوں کا نام لے کر ان کا وزن متعین کردیا ہے ان کے حساب سے بھی صدقہۂ فطر اداکرنا چاہئے۔یہ ایک سہولت ہے جواداکرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطا ہے۔
صاحب نصاب حضرات میں بھی مختلف طبقات ہوتے ہیں بعض وہ ہوتے ہیں جو گیہوں کے ذریعہ ہی اداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہی میں بعض ایسے بھی ہے جو کھجور، انگور، کشمش یا پنیر کے ذریعہ اداکرسکتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان پر کوئی بہت بھاری مالی بوج بھی نہیں پڑے گا تو ایسے اشخاص کو دوسری اشیا ء کے ذریعہ فطرہ اداکرنا چاہئے تاکہ اس میں مسکینوں اور غریبوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوسکے۔