دین سے بیزاری
دور حاضر کاایک بڑا فتنہ دین سے بیزار ی ہے آج مسلمانوں کے درمیان الحاد و لادینیت اور دین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔جدید تعلیم یافتہ حضرات جنہیں دینی تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں قرآن و حدیث اور شرعی اصطلاحات سے بالکل واقفیت نہیں وہ لوگ دین کو اپنے دماغ سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں او ر دین کی غلط تشریح کررہے ہیں۔
ابتدا سے ہی اسلام میں رخنہ اندازی پیداکرنے کے لئے مختلف لوگوں نے اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوششیں کیں۔ جس کے نتیجے میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ علم کلام اور فلسفہ کا ایک دور تھا جس کے لئے علماء کرام نے فلسفہ کو پڑھ کر اس فتنہ کا جواب انہی کی زبان میں دیا۔وقت کے ساتھ ساتھ ان فرقوں کے نقوش مٹ گئے لیکن دور حاضر میں لادینیت اور الحاد کی آندھی تیزی سے چل رہی ہے اور متجددین اسلام کی غلط تشریح کرکے اسلام کی روح کو مسخ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو دانستہ طور پر اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے الٹے سیدھے تشریحات کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی سادگی میں مارے جاتے ہیں اور دین وایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی علمی صلاحیت کا لوہا منوانے اور علم دانی کو اجاگر کرنے کی غرض سے قرآنی آیات اوراحادیث و سنت کی نئی تشریحات کرتے ہیں۔ظاہر ہے ہر نظریہ کے کچھ نہ کچھ ماننے والے مل ہی جاتے ہیں اور اسی سے ان کی دکان چلتی رہتی ہے۔کبھی اس میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کمی ہوتی ہے۔
الحاد مذہب کے خلاف ایک دوسرا مذہب ہے جس میں خدا کاکوئی تصور نہیں ان کے مطابق یہ سارانظام عالم بس یوں سائنسی بنیادوں پر قائم ہے ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کا مختار ہے مذہبی قیود و شرائط انسان کو مجبور کردیتی ہیں اس لئے کچھ لوگ بالکل آزا د رہناچاہتے ہیں اور کسی بھی مذہب کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہ سوچ تو انسانی تاریخ میں ابتدا سے موجود ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ملحدین کی ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ہے جو مذہبی قلادہ اپنے گلے سے بالکل اتارنا نہیں چاہتی بلکہ مذہبی چہار دیواری میں رہ کر مذہبی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتی ہے۔یعنی مردم شماری میں تو اس کا نام مذہبی فہرست سے خارج نہ ہو لیکن اس کے قدموں میں مذہبی زنجیر نہ لگی ہو اور وہ جہاں چاہے اپنی من مانی کرسکیں۔یہ لوگ مذہبی اقدار کی تصویر کو مسخ کرکے ایک نئی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ سیرت وسنت کو اپنے انداز سے ڈھالنا چاہتے ہیں، قرآنی آیا ت کی من مانی تفسیر کرنا چاہتے ہیں اور بے لگام ہوکر زندگی گذار نا چاہتے ہیں۔خود بھی جہنم کے راستے پر چل رہے ہیں اور دوسروں کی بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات کے بارے میں امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ ارشا د ہے:
عن حذیفۃ بن الیمان رضیاللہ تعالیٰ عنہ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَكُونُ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ , مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا” , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , صِفْهُمْ لَنَا , قَالَ:” هُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا , يَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا” , قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ:” فَالْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ , فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا , وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ , وَأَنْتَ كَذَلِكَ”.(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الفتن، باب العزلہ۔ حدیث نمبر3979)
”حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے“، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے“۔
اس کی ایک وجہ تو موجودہ تعلیمی نظام ہے جس میں عصری علوم کی دوڑ میں مسلمان بچے اپنے دین سے بالکل نابلد ہوتے جارہے ہیں۔ بچپن سے انہیں دیگر مذاہب کی تاریخ، دیگر تہذیبوں کا تعارف اور سائنسی انکشافات سے تو باخبر کیاجاتاہے لیکن اسلامی تہذیب سے یکسر دور رکھا جاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خاندانی اعتبار سے مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن اسلام ان کی رگوں میں نہیں ہوتا اور جب کوئی شاطر قسم کا آدمی ان کے دین وایمان کے خلاف زہر اگلتاہے یا اسلامی اقدار کی غلط تشریح کرتاہے تو اس کے پاس اس کی باتوں کوماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور بالآخر وہ بھی اپنے رویہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اسلامی مسلمات کی غلط تعبیر کرنے لگتاہے۔موجودہ تعلیمی نظام کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسے افراد پیدا کئے جائے جن کا اپنی تہذیب و ثقافت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔لارڈ میکالے نے جب یہ نظام تعلیم برصغیر میں قائم کرنے کی سفارش کی تو اس کی دلیل اس نے یہ پیش کی۔ ملاحظہ کریں:
”فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو“۔(میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور۱۹۸۶/ ص:۵۴)
انگریزوں نے ہندوستان میں اسلامی اقدار اور اخلاقیات کو ختم کرنے کے لئے ایک ایسا نظام تعلیم قائم کیا جس میں ایسے تعلیم یافتہ حضرات پیدا ہوں جودنیا کے تمام علوم پر تو واقفیت رکھتے ہوں لیکن اسلامی تعلیم سے بالکل بے بہر ہ ہوں۔آج عصری تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوگا کہ ان تعلیم گاہوں سے اسلام اور اسلامی تہذیب وثقافت کو بالکل دیس نکالا کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہب بیزاری بلکہ لامذہبیت پیدا ہورہی ہے۔ایسے تعلیم یافتہ گروہ پید اہورہے ہیں جوعلماء کو محض جاہل تصور کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والے علمی کاوش کو گھسی پٹی معلومات قرار دیتے ہیں۔ چونکہ ہر جگہ تعلیم یافتہ اسی کو شمار کیا جاتاہے جو عصری علوم سے لیس ہو۔ اس لئے علمائے دین کی عزت اور ان کا وقار جدید تعلیم یافتہ ذہن میں نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ وعلماء کی باتو ں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔اس نظام تعلیم سے ترقی کی راہ تو نہیں ملی لیکن ہم اپنا راستہ بھول گئے۔ اقبال نے کہاتھا ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یہ متجددین اسلام کو چند رسمی عبادات تک محدود کردینا چاہتے ہیں اور باقی زندگی میں اسلام کی رہنمائی نہیں چاہتے بلکہ مادر پدر آزاد رہ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ان کی اصلاح کے لئے وہی طریقہ اپنا نا ہوگا جو نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے۔کہ انہیں جماعت المسلمین سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنا ہوگا اس کے لئے ہمیں بھی ایسے ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جہاں دنیاداری کے اصول بھی بتائے جائیں اور دین داری کی اہمیت بھی اجاگر کیا جائے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ جس طرح انگریزوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشن اسکولوں کا نظام قائم کیا ہم بھی ایسے مشن اسکول قائم کریں جو جدید تکنالوجی سے لیس ہوں لیکن اسلامی اقدار کے ساتھ بچوں کو اسلامی فضا میں تعلیمی ماحول فراہم کریں۔
ایک طرف جدید تعلیم کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف مسلم دوشیزاؤں کو ان کے دین سے بے دخل کرکے دیگر مذاہب میں شادیاں کرکے زندگی گذارنے کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور مسلم دوشیزائیں اس کو آزادی کانام دے کر کھلے عام غیر مسلموں سے شادیاں کررہی ہیں۔ آج کل ہندوستان میں تو یہ فتنہ بالکل سر چڑھ کر بول رہا ہے اخبارات کاکوئی شمارہ اس طرح کی خبر سے خالی نہیں ہوتا کہ ایک مسلم لڑکی نے ایک ہندو لڑکے سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی یہ بھی اس جدید طرز تعلیم کا اثر ہے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اور ہندو مسلم لڑکے لڑکیوں میں کوئی حجاب نہیں ہوتا بلکہ ان کے سارے کام ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لئے آپس میں ان کی قربت بڑھتی جاتی ہے۔ دیگر مذاہب کے لڑکے چونکہ ایک مشن پرکام کررہے ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنا اخلاق و کردار بہتر انداز میں مسلم لڑکیوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لڑکیاں ان میں دلچسپی لینے لگتی ہیں اور بالآخر اپنے دین و ایمان کو بالا ئے طاق رکھ کر ان سے شادیاں کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔سیماحیدر کی مثال سامنے ہے جس کے ذریعے ایک پیغام پوری دنیا کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عشق کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی عمرہوتی ہے جب کسی سے عشق ہوجائے تومذہبی اور ملکی سرحدیں کسی کو روک نہیں سکتیں۔
اس کے تدارک کے لئے اول تو اپنی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ بہتر تعلیمی ماحول جس میں اختلاط نہ ہو، اسلامی تہذیب و ثقافت کا فقدان نہ ہو، فراہم کرنا ہوگا اور اپنی بچیوں میں شروع سے ہی دینی حمیت پیداکرنے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ وقت کی تندو تیز آندھیا ں ان کے پایہئ ثبات میں لغزش نہ پید اکرسکیں۔