مزدورکی اجرت وقت پر ادا کرو
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا نظام ایسا بنایا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کامحتاج ہے کوئی بھی انسان چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یاغریب اپنے سارے کام خود سے نہیں کرسکتاہے اس کو اپنے بہت سارے کام دوسروں سے کرانا پڑتاہےیہی ضرورت انسان کے رزق حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک آدمی کے پاس دولت ہے اسے اپنے دولت کی حفاظت کے لئے یا اس میں مزید اضافہ کے لئے کسی تجارت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس تجارت کو اچھی طرح چلانے کے لئے اسے کچھ آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی مددسے وہ اپنی تجارت کو فروغ دیتا اور پروان چڑھاتاہے اور ان کی اس مدد کے عوض میں انہیں اجر ت دیتاہے اس اجرت کے ذریعے ان مدد کرنے والوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
اسی طرح اپنے گھر کی ضرورت کے لئے ،کھیتوں اور باغوں کے لئے ، فیکٹری اور کارخانوں کے لئے انسان اجرت یاتنخواہ پر کچھ لوگوں کو رکھتا ہے جن کے ذریعہ اس کاکام بحسن وخوبی انجام پاتاہے اور جولوگ اس کے یہاں کام کرتے ہیں وہ اس سے اجرت وصول کرتے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہ خالق کائنات کابنایا ہوا نظام ہے جس سے ہرآدمی اپنی رزق حاصل کرتا ہے ۔
اسلام نے اس بارے میں دونوں فریق کو مناسب ہدایات دیا ہے ایک طرف اجیر یامزدور کویہ ہدایت ہے کہ وہ اپنا کام ایمانداری سے کرے جو شرائط طے ہوئے ہیں ان کو پورا کرے تو دوسری طرف جولوگ اپنا کام کرانے کے لئے کسی کو ملازم رکھتے ہیں انہیں سختی سے ہدایت دی گئی ہے کہ جب مزدور اپنا کام پورا کرلے تواس کی طے شدہ مزدوری اس کے حوالے کردے ۔اس میں ٹال مٹول نہ کرے۔
اس پورے معاملے میں کام کرانے والوں کارتبہ اونچا ہوتاہے اس لئے وہ اکثرو بیشتر ظلم و ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ملازمین سے سخت کام لیتے ہیں اور اجرت دیتے وقت ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں یامناسبب اجرت نہیں دیتے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت ہدایات دیئے ہیں۔کہ جولوگ مزدوروں و ملازمین کی اجرت بروقت نہیں دیتے وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہیں۔
عَنْ ابی ھریرۃ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ:” ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ”.(بخاری حدیث نمبر2227)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔(بخاری حدیث نمبر2227)
اندازہ کیجئے کہ جس مقدمہ میں مدعی اللہ رب العزت ہوں اس میں فریق ثانی کے جیتنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
عَنْ عبد اللہ بن عمر ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ”.(ابن ماجہ حدیث نمبر2443)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو(ابن ماجہ حدیث نمبر2443)
اسی طرح جولوگ مزدوروں کی مزدوری یا ملازمین کی تنخواہیں روک لیتے ہیں وہ اللہ کے غضب اور اس کے غصہ کے شکارہوتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:
عن عبد اللہ ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” من اقتطع مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان”.(مسند احمد حدیث نمبر3946)
حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال روک لیا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہوں گے ۔(مسند احمد حدیث نمبر 3946)
ان احادیث میں مذکور سخت وعیدوں پر غور کریں اور اپنے معاشرے میں موجود حالات کاجائزہ لیں لوگ کس طرح ملازمین کے ساتھ ظلم وستم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کارخانوں اورفیکٹریوں میں کام کرنے والے یومیہ مزدور،گھروں، بازاروں ،دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین ، مدارس کے اساتذہ ، مسجدوں کے ائمۂ کرام آج کے دور میں اس ظلم کے شکارہیں۔
خاص کر ائمہ مساجد جن کی ڈیوٹی دنیاکے کسی بھی ملازم سے زیادہ سخت ہے۔ دیکھنے میں تو صرف پانچ وقت کی نماز پڑھانا ہے جس میں مشکل سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ وقت لگتاہے لیکن اس ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے کام کے لئے انہیں چوبیس گھنٹہ بالکل مستعدرہناہوتاہے ایک منٹ کی تاخیر بھی ان کے لئے قابل معافی نہیں ہوتی ۔ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی کانظام جو پوری دنیا کے تمام شعبوں میں رائج ہے ۔یا مہینہ میں دودن کی چھٹی جوہر ادارہ میں ملتی ہے ، عید ین کی چھٹی وغیرہ وغیرہ ان سب سے امام مسجد باہر ہے یہ سب اصول اس پر لاگو نہیں ہوتے ۔پھربھی ان کی تنخواہیں عام طور سے یومیہ مزدوری کی شرح سے بہت کم ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان کی متعینہ تنخواہیں وقت پر نہیں دی جاتیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جو سکون واطمینان عبادات میں اور خاص طور سے نماز میں مطلوب ہے وہ حاصل نہیں ہوتا لہذا وہ نمازیں بھی سرسری پڑھاتے ہیں ۔
ایک تو ان کی مناسب تنخواہ کانہ ہونا ایک ظالمانہ رویہ ہے اور دوسرے بروقت تنخواہ نہ دینا یہ دوسرا ظلم ہے ۔ آپ اپنے حالات سے ان کےحالات کاموازنہ کریں جب آپ کی آمدنی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے ایسے ہی ان ملازمین کے بارے میں تصور کریں کہ جب ان کی اجرت بروقت نہیں ملتی تو انہیں بھی کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہوگا۔
مان لیں کہ آپ نے مہینہ دومہینہ کی تاخیرکے بعد ان کی پوری اجرت دے بھی دی تو ان دنوں میں انہوں نے جس طرح کی ذہنی وجسمانی تکلیف کا سامنا کیا اس کی مکافات آپ کیسے کریں گے ۔کیا اللہ تعالیٰٰ کے یہاں ان سب چیزوں کاجواب نہیں دینا ہوگا بالکل اس رب کائنات کے سامنے جب حاضر ہوں گے توایک ایک چیز کا جواب دینا ہوگا۔اور یاد رکھیں کہ اس مقدمہ کامدعی رب ذوالجلال خود ہوں گے جہاں بچنےکاکوئی راستہ نہ ہوگا، کوئی جائے مفرنہ ہوگا۔
اس لئے جولوگ مزدوروں کے سے کام لیتے ہیں یا ملازمین کو رکھ کر اپناکام کراتے ہیں انہیں جس طرح اپنے کام کی فکر ہوتی ہے اسی طرح انہیں ان ملازمین کی ضروریات کی فکر بھی کرنی چاہئے۔