فتنوں کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیاں
فتنہ
فتنہ کا مادہ فَتْن ہے،لغت کے اعتبار سے فتن کے معنی سونے کو آگ میں تپاکر اس کا کھر اکھوٹا معلوم کرنے کے ہیں۔ فتنہ کے معنی آزمائش ،جھگڑا،فساد ہنگامہ ، بغاوت ، سر کشی کے بھی آتے ہیں۔(فیروز اللغات)یہ تمام معانی مواقع و محل کے لحاظ سے بالکل صحیح ہیں۔قرآن کریم میں لفظ فتنہ مختلف معانی کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ایک جگہ فتنہ کوآزمائش،ابتلا اور امتحان کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے:
وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً(انبیاء ۳۵)
’’ہم تمہیں برائی اور بھلائی کے ذریعے آزماتے ہیں۔‘‘
ایک جگہ فتنہ کو گمراہی کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے:
وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا(مائدہ۔۴۱)
’’اور اگر کسی کو خدا گمراہ کرنا چاہے تو اس کے لیے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
اس کے علاوہ مختلف مقامات پر فتنہ دیگر معانی کے لئے بھی مستعمل ہے۔فتنہ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
(الفتنۃ): ما یتبین بہ حال الإنسان من الخیر والشر. ( التعریفات :علی ابن محمد ابن علی الجرجانی ص ۲۱۲)فتنہ جس سے انسان کے خیر یا شر والی حالت ظاہر ہوجائے۔
وہ معاملہ جس کے ذریعہ انسان کا امتحان لیاجاتاہے تاکہ اس کی اصل حالت کھل کر سامنے آجائے کہ وہ نیک ہے یا بد یا اس کا عمل خیر ہے یا شر۔یعنی فتنہ چاہے جھگڑا ، فساد، مصیبت ، جنگ یا کسی بھی صورت میں ہو اس سے انسان کی صحیح حالت واضح ہوجاتی ہے ۔ جس طرح سونے چاندی کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر اس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کو معلوم کرلیا جاتاہے۔ یہ ابتلا ء و آزمائش انسان کے عملی ، اعتقادی اور اخلاقی حالات کو واضح کردیتے ہیں۔اس معنی کے لئے قرآن کریم میں فتنہ کااستعمال اس طرح ہو اہے :
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲) وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۳۔عنکبوت)
’’یا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ حالانکہ بلاشبہ یقینا ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کی جو ان سے پہلے تھے، سو اللہ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنھوں نے سچ کہا اور ان لوگوں کو بھی ہر صورت جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ لفظ فتنہ کے اشتقاق قرآن کریم میں کثرت سے آئے ہیں اور الگ الگ معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ لیکن سردست ہم اس فتنہ کی بات کرتے ہیں جو اوپر کی اصطلاحی تعریف میں بیان کی گئی ہے ۔ یعنی جس سے انسان کے خیرو شر والی کیفیت واضح ہوجائے ۔ایسے فتنے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی پیش آئے اور آپﷺ کی رحلت کے بعد سے اب تک پیش آرہے ہیں اور قیامت تک پیش آتے رہیں گے۔
پیشین گوئیوں کی حقیقت
پیشین گوئی کا معنی ہے آئندہ پیش آنے والے کسی واقعہ یا حالت کی خبر دینا ۔بہت سارے لوگ اپنے علم ،تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر آگے کی بات بتاتے ہیں ان میں کچھ باتیں صحیح ہوجاتی ہیں اور کچھ غلط ہوتی ہیں۔اصل میں ان پیشین گوئیوں کے وقوع اور غیر وقوع ہونے کی وجہ علم یقینی اور علم ظنی کا فرق ہے۔
انسان کے پاس علم حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہے وہ سب ایک حد تک ہی کام کرتے ہیں۔جہاں ان کی حد ختم ہوجاتی ہے اس کے آگے وہ کام نہیں کرسکتے ۔چاہے ان کا تعلق عقل وشعور سے ہو یا حس و لمس سے ۔ان ظاہری علوم کی جب انتہا ہو جاتی ہے تو علم کا ایک اور ذریعہ شروع ہوتاہے جس کو ہم علم وحی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اللہ کے مخصوص بندوں کو عطا ہوتاہے ۔ ہر کس و ناکس اس علم کو حاصل نہیں کرسکتا اس لئے کہ یہ علم کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے اللہ تعالیٰ اپنے محبوب و مخصوص بندوں کو عطاکرتے ہیں۔ جنہیں ہم انبیاء و رسل کے نام سے جانتے ہیں۔انبیاء و رسل کی اس مقدس جماعت کے آخری فرد آقائے مدنی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے اب ان کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول بلکہ یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے بند ہوچکاہے ۔ اس لئے وحی کا سلسلہ بھی قیامت تک کے لئے بالکل بندہوگیا اب کسی انسان پر وحی نہیں آسکتی۔ ہاں وحی کا علم جو جناب رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا وہ آپ ؐ کے واسطہ سے آپ ؐ کی امت میں جاری ہے اور رہے گا اور ہردور کے مطابق علماء اور راسخین فی العلم اس کی تشریح کرتے رہیں گے۔
قیامت
قیامت کا وقوع ایک ابدی حقیقت ہے ۔قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیامیں ایک عظیم واقعہ رونما ہونے والاہے جوکائنات کا سب سے بڑ اواقعہ ہوگا جس سے پوری کائنات زیر و زبر ہوجائے گی ، ہرچیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی او ر یہ عالم تہہ و بالاہوکر بکھرجائے گا،جسے ہم قیامت کے نام سے جانتے ہیں۔ ایمان والوں کو اس کے وقوع کایقین رکھنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ(۲۔حج)
ترجمہ: قیامت کا زلزلہ ایک عظیم شیٔ ہے وہ ایسادن ہوگاکہ ہر دودھ پلانے و الی عورت اپنے دودھ پلائے کوبھول جائے گی اورآپ لوگوں کو مدہوش دیکھیں گے حالانکہ وہ مدہوشی نہیں ہوگی بلکہ اللہ کا سخت عذاب ہوگا۔
قیامت کا زلزلہ دنیا کا عظیم ترین حادثہ ہے جس کے وقوع ہوتے ہی انسان حواس باختہ ہو جائے گا۔دوددھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پلائے بچے کو بھول جائے گی ، انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے گا۔سورۂ طہٰ آیت ۱۵ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اِنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ ’’ بے شک قیامت آنے والی ہے ‘‘اور سورہ حجر آیت ۸۵ میںارشاد باری تعالیٰ ہے وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌاورقیامت بالضرور آنے والی ہے‘‘ اورسورہ مومن آیت ۵۹ میںارشاد باری تعالیٰ ہے اِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌ لَارَیْبَ فِیْھَا بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میںکوئی شک نہیں ‘‘او ر سورہ سباآیت ۳ میںقیامت کاانکار کرنے والوں کوسختی کے ساتھ فرمایا وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَاتَأْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلیٰ وَرَبِّیْ لَتَأتِیَنَّکُمْاور کافر یہ کہتے ہیںکہ قیامت نہیںآئے گی آپ کہہ دیجئے کہ ہرگز نہیں! میرے رب کی قسم وہ تمہارے پاس ضرور آئے گی ۔‘‘
یہ آیات اوران کے علاوہ بہت سی آیات اس بات پردال ہیںکہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی اورکوئی فردِ بشر بلکہ دنیا کی کوئی مخلوق اس سے بچ نہیں سکے گی ۔ اس لئے ایک مومن کو یہ ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک وقت ایساآئے گا کہ یہ کائنات ،اس کی رنگینیاں اس کے زرق برق سب تباہ ہوجائیں گے اسی کوقیامت کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔
قرآنی آیات او راحادیث کی تصریحات کے بعد یہ تو یقینی بات ہے کہ قیامت آئے گی اوریہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن ا س کا وقوع کب ہوگا؟ اس کی تاریخ اور سال سے متعلق ہمارے پاس کو ئی یقینی علم نہیں ہے ۔ ہاں کچھ علامات ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو بتادیا ہے کہ قیامت سے پہلے یہ واقعات پیش آئیںگے ۔ انہی واقعات کو محدثین نے ابواب الفتن کے عنوان سے جمع کیا ہے ان واقعات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جووقت سے پہلے بتادیا یہی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیاں ہیں۔ کتب احادیث میں ایک حدیث جس کو تقریبا تمام محدثین نے روایت کیا ہے جس کوحدیث جبریل کے نام سے جانا جاتاہے اس میں آپ ﷺ نے قیامت کی کچھ علامات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ وہ حدیث درج ذیل ہے:
عَنْ عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ، بَیَاضِ الثِّیَابِ، شَدِیدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ، وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِی عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” الإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَا ۃَ ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیلًا”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَہُ یَسْأَلُہُ، وَیُصَدِّقُہُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ، قَالَ:” أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:” أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ، فَإِنَّہُ یَرَاکَ”، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنْ أَمَارَتِہَا، قَالَ:” أَنْ تَلِدَ الأَمَۃُ رَبَّتَہَا، وَأَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَائَ الشَّائِ، یَتَطَاوَلُونَ فِی الْبُنْیَانِ”، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا، ثُمَّ قَالَ لِی: یَا عُمَرُ أَتَدْرِی مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّہُ جِبْرِیلُ، أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِینَکُمْ.(صحیح مسلم۔کتاب الایمان۔باب بیان الایمان والاسلام والاحسان……حدیث نمبر 93)
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ایک دن ہم رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’جس سے اس (قیامت) کے بارے جس سے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’ (علامات یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ’’اے عمر!تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے، تمہارے پاس آئے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔‘‘
یہ حدیث ،حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے اور تمام محدثین نے اس حدیث کو کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔اس میں حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ سے چند سوالات کیے ہیں اور آپؐ نے ان کا جواب دیا ہے ۔دوسرا سوال ایمان کے بارے میں ہے جس کا جواب نبی کریم ﷺ نے یہ دیاہے’’ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے اللہ پر، فرشتوں پراور اس کے پیغمبروں پراور پچھلے دن پر اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔‘‘یہ پچھلا دن کیا ہے ؟ وہی قیامت کادن ہے جب کہ یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ سب کو زندہ کرکے میدان حشر میں جمع کریں گے۔پھر جب جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپؐ ارشاد فرمایا : مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل( مسئول سائل سے زیادہ نہیں جانتاہے ۔) تو (جبرئیلؑ) نے کہا : فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اِمَارَاتِھَا(کہ آپ مجھے اس کی علامتیں بتادیں)تو آپؐ نے فرمایا: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃَ رَبَّتَھَا وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ: (کہ لونڈی اپنے آقا کو جنے گی ، برہنہ پا ،برہنہ جسم، مفلس اور بکریاں چرانے والوں کوتم بلند وبالا عمارتیںبناتے ہوئے دیکھو گے ۔ )
فتنوں کی نشاندہی
فتنہ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ، آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے ۔قیامت تک جو فتنے آتے رہیں گے ان میں سے کچھ خاص فتنوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر بھی دی ہے اور اس سے بچنے کی راہ بھی بتائی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کو چونکہ اولین و آخرین کا علم دیا گیا تھا اس لئے آپ ﷺ نے قیامت تک آنے والے فتنوں کی نشاندہی کردی ہے ۔ کچھ فتنے تو ایسے ہیں جن کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ نے تفصیل بیان کردی ہے اور کچھ ایسے ہیں جنہیں آپ ﷺ نے اشاروں کنایوں میں بیا ن کیا ہے ۔یہی آئندہ پیش ہونے والے واقعات جنہیں رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بیان کردیا انہی کو پیشین گوئی کہا جاتاہے ۔رسول اللہ ﷺ نے جو پیشین گوئیاں فرمائیں ہیں ان میں سے بہت سی من و عن ہوبہو ظاہر ہوچکی ہیں اور ابھی بہت کچھ ان میں سے باقی ہے جن کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ وہ بالکل وقوع پذیر ہوں گی ۔
رسول اللہ ﷺ کے علم کا مدار چونکہ وحی پر ہے اور آپ ﷺ وحی کے علاوہ کچھ بھی نہیں بولتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (۳)اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (۴۔نجم) ’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ یہ جوکچھ بھی ہے وہ وحی ہے۔‘‘اس لئے آپ ﷺ کی پیشین گوئیاں بالکل برحق ہیں۔اگر وہ روایات کی صحت کے معیار پر صحیح اترتی ہیں تو ان کی صداقت اور ان کے وقوع پذیر ہو نے پرہمار اایمان ہے کہ یہ بالکل برحق ہیں اور ان کا وقوع یقینی ہے۔
پیشین گوئی آئندہ پیش آنے والے کسی واقعہ سے متعلق ہوتی ہے۔ان کی تشریحات جس قدر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی وہ یقینی ہے اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔
قرآن و احادیث میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں کسی امر کے واقع ہونے کی خبر دیا اور اس کا وقوع بالکل ویسے ہی ہوگیا،یا رسو ل ﷺ نے کسی امر کے واقع ہونے کی پیشین گوئی کی اور وہ چیز ویسے ہی واقع ہوگئی اس طرح کی بہت ساری مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں ۔
رسول اللہ کے زمانے میں رومی اہل کتاب تھے اور فارسی بت پرست ۔ ظاہر ہے بت پرستوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اہل کتاب سے قربت تھی اس لئے مسلمان قلبی طور پر چاہتے تھے کہ رومی فارسیوں پر غالب رہیں۔ لیکن ایک جنگ میں شاہ فارس روم پر غالب آگیا اور شاہ روم مغلوب ہو کر قسطنطنیہ میں محصور ہو گیا ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل فرمائی جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اگرچہ آج رومی مغلوب اور فارسی غالب ہوگئے ہیں لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ رومی پھر غالب آجائیں گے جس سے مسلمانوں کو خوشی نصیب ہو گی ۔
الٓمّٓ(۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُ(۲)فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(۳)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (۴۔روم)
’’ رومی مغلوب ہوگئے۔ سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔ چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔‘‘
ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ رومی چند سالوں میں غالب آجائیں گے اور تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ رومی دس سال کے اندر اندر ہی فارسیوں پر غالب آگئے ۔ایک روایت ترمذی میں موجود ہے:
عَنْ نِیَارِ بْنِ مُکْرَمٍ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ الم (۱) غُلِبَتِ الرُّومُ (۲) فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ (۳) فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۱-۴ فَکَانَتْ فَارِسُ یَوْمَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ قَاہِرِینَ لِلرُّومِ، وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ یُحِبُّونَ ظُہُورَ الروم عَلَیْہِمْ لِأَنَّہُمْ وَإِیَّاہُمْ أَہْلُ کِتَابٍ، وَفِی ذَلِکَ قَوْلُ اللَّہِ تَعَالَی: وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (۴) بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَائُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (۵) سورۃ الروم آیۃ ۴-۵ وَکَانَتْ قُرَیْشٌ تُحِبُّ ظُہُورَ فَارِسَ، لِأَنَّہُمْ وَإِیَّاہُمْ لَیْسُوا بِأَہْلِ کِتَابٍ وَلَا إِیمَانٍ بِبَعْثٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَصِیحُ فِی نَوَاحِی مَکَّۃَ: الم (۱) غُلِبَتِ الرُّومُ (۲) فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ (۳) فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۱-۴ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ لِأَبِی بَکْرٍ: فَذَلِکَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ زَعَمَ صَاحِبُکُمْ أَنَّ الروم سَتَغْلِبُ فَارِسًا فِی بِضْعِ سِنِینَ، أَفَلَا نُرَاہِنُکَ عَلَی ذَلِکَ، قَالَ: بَلَی، وَذَلِکَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الرِّہَانِ، فَارْتَہَنَ أَبُو بَکْرٍ وَالْمُشْرِکُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّہَانَ، وَقَالُوا لِأَبِی بَکْرٍ: کَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِینَ إِلَی تِسْعِ سِنِینَ فَسَمِّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ وَسَطًا تَنْتَہِی إِلَیْہِ، قَالَ: فَسَمَّوْا بَیْنَہُمْ سِتَّ سِنِینَ، قَالَ: فَمَضَتِ السِّتُّ سِنِینَ قَبْلَ أَنْ یَظْہَرُوا، فَأَخَذَ الْمُشْرِکُونَ رَہْنَ أَبِی بَکْرٍ، فَلَمَّا دَخَلَتِ السَّنَۃُ السَّابِعَۃُ ظَہَرَتِ الروم عَلَی فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ تَسْمِیَۃَ سِتِّ سِنِینَ، لِأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی، قَالَ: فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۴ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِکَ نَاسٌ کَثِیرٌ ”(سنن ترمذی کتاب التفسیر عن رسول اللہ ﷺ۔ باب ومن سورۃ الروم حدیث نمبر3194)
’’نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت :الٓمّٓ(۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُ(۲)فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(۳)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْن نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب و قابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آ جائیں، کیونکہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت: وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْن بِنَصْرِ اللّٰہِ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآئُ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْم’’اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، وہ زبردست ہے مہربان بھی ہے‘‘ (الروم: ۴-۵)، بھی اتری، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیونکہ وہ اور اہل فارس دونوں ہی نہ تو اہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر اعلان کیا،الم غلبت الروم فی أدنی الأرض وہم من بعد غلبہم سیغلبون فی بضع سنین ’’رومی مغلوب ہو گئے زمین میں، وہ مغلوب ہو جانے کے بعد چند سالوں میں پھر غالب آ جائیں گے‘‘ تو قریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہو جائے، تمہارے ساتھی کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اندر اندر غالب آ جائیں گے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگا لیں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ ہم تیار ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مشرکین دونوں نے شرط لگا لی، اور شرط کا مال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم’’بضع‘‘ کو تین سے نو سال کے اندر کتنے سال پر متعین و مشروط کرتے ہو؟ ہمارے اور اپنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کر لو، جس پر فیصلہ ہو جائے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کر دی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آ گئے، تو مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے ’’بضع سنین‘‘ کہا تھا، (اور’’بضع‘‘تین سال سے نو سال تک کے لیے مستعمل ہوتا ہے)۔ راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔‘‘
اس روایت میں دوباتیں قابل ذکر ہیں ایک تویہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی خبر کہ اہل روم چند سالوں میں غالب ہوجائیں گے ۔یہ بات سچ ثابت ہوئی اور اہل روم کو غلبہ حاصل ہو ا۔دوسری بات اس خبر کے وقوع پذیر ہونے میں وقت کی تعیین کا ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اجتہادی غلطی ہوئی کہ انہوں نے لفظ ’’بضع ‘‘ کی تعیین چھ سال پر کردی جبکہ واقعہ سات سال میں ظاہر ہوا۔اس یہ پتہ چلتاہے کہ پیشین گوئی چاہے اللہ کی طرف سے ہو یا رسول اللہ کی طرف سے اگر اس کا وقت متعین نہیں بتایا گیا ہے تو اس کا وقوع تو یقینی ہے لیکن اس کی تشریح میں غلطی کا امکان ہے۔
اسی طرح کی ایک پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی ہے جس کو سمجھنے میں ازواج مطہرات سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔
عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” أَسْرَعُکُنَّ لَحَاقًا بِی أَطْوَلُکُنَّ یَدًا، قَالَتْ: فَکُنَّ یَتَطَاوَلْنَ أَیَّتُہُنَّ أَطْوَلُ یَدًا، قَالَتْ: فَکَانَتْ أَطْوَلَنَا یَدًا زَیْنَبُ، لِأَنَّہَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِیَدِہَا وَتَصَدَّقُ”.(صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ ۔باب فضائل زینب ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ۔ حدیث نمبر6316)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛”تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی (میری وہ اہلیہ ہوگی جو) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔” انھوں نے کہا: ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انھوں نے کہا: اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔‘‘
اس حدیث کی بناء پر ازوج مطہرات نے اپنے ہاتھوں کو ناپتی رہتی تھیں کہ کس کاہاتھ لمبا ہے لیکن جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا سب سے پہلے انتقال ہوا تو ازواج مطہرات ؓ کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہاتھ کی لمبائی سے رسول اللہ ﷺ کی مراد سخاوت وفیاضی تھی جس میںحضرت زینب یقینا سب سے آگے تھیں۔اس کی صراحت حاکم کی ایک روایت میں ملتی ہے:
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لأزواجہ: ” أسرعکن لحوقا بی أطولکن یدا ”، قالت عائشۃ: فکنا إذا اجتمعنا فی بیت إحدانا بعد وفاۃ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمد أیدینا فی الجدار نتطاول، فلم نزل نفعل ذلک حتی توفیت زینب بنت جحش زوج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وکانت امرأۃ قصیرۃ ولم تکن أطولنا، فعرفنا حینئذ أن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إنما أراد بطول الید الصدقۃ، قال: وکانت زینب امرأۃ صناعۃ الید فکانت تدبغ وتخرز وتصدق فی سبیل اللہ عز وجل .(مستدرک حاکم مترجم اردو۔کتاب معرفۃ الصحابہ جلد ۵ ص ۵۵۲۔حدیث نمبر۶۷۷۶۔شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
’’ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ازواج سے کہا: تم میں سب سے پہلے میرے پاس وہ آئے گی جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد ایک دفعہ ہم ایک گھر میں اکٹھی ہوئیں اور ایک دیوار کے ساتھ اپنے ہاتھ ناپنے لگیں ، ہم یونہی اپنے ہاتھ ناپاکرتی تھیں کہ حضرت زینب بنت جحش ان کا انتقال ہو گیا ، ان کا قد سب سے چھوٹا تھا، یہ ہم میں سے کسی سے بھی لمبی نہیں تھیں، تب ہم سمجھیں کہ ہاتھ لمبے ہونے سے رسول اللہﷺ کی مراد صدقہ و خیرات کرنا تھی ، راوی کہتے ہیں: حضرت زینب کو دستکاری کے بہت کام آتے تھے ، آپ چمڑے کو دباغت دیتی تھی، پودے لگاتی تھی اور جو رقم آتی ، اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں‘‘
اس روایت میں بھی معنی کی تعیین میں ازواج مطہرات سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔انہوں نے لفظ کے ظاہری معنی مراد لئے جب کہ حضور پاک ﷺ کی مراد کچھ اور تھی ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ معنی کی تشریح جہاں تک رسول اللہ ﷺ نے کر دی وہاں تک یقین کرنا ہمارے ایمان واعتقاد کا حصہ ہے لیکن جن چیزوں کی صراحت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی ان کے وقوع کی صحیح ہیئت ، مقام اور تاریخ کوئی بھی متعین طور پرنہیںبتاسکتا اور اگر کوئی اپنے علم او رتحقیقی کی بنیاد پر کوئی متعین بات کرتاہے تو اس سے یقینی علم حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ وحی کے سوا کوئی بھی علم یقینی نہیں ہے۔