مقالہ نگار :مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
امام و خطیب جامع زکریا
زکریاکالونی،سعدپورہ،پوسٹ رمنہ ،ضلع مظفرپور،بہار۔۸۴۲۰۰۲
فتنوں کے باب میں
رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیاں
فتنہ
فتنہ کا مادہ فَتْن ہے،لغت کے اعتبار سے فتن کے معنی سونے کو آگ میں تپاکر اس کا کھر اکھوٹا معلوم کرنے کے ہیں۔ فتنہ کے معنی آزمائش ،جھگڑا،فساد ہنگامہ ، بغاوت ، سر کشی کے بھی آتے ہیں۔(فیروز اللغات)یہ تمام معانی مواقع و محل کے لحاظ سے بالکل صحیح ہیں۔قرآن کریم میں لفظ فتنہ مختلف معانی کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ایک جگہ فتنہ کوآزمائش،ابتلا اور امتحان کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے:
وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً(انبیاء ۳۵)
’’ہم تمہیں برائی اور بھلائی کے ذریعے آزماتے ہیں۔‘‘
ایک جگہ فتنہ کو گمراہی کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے:
وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا(مائدہ۔۴۱)
’’اور اگر کسی کو خدا گمراہ کرنا چاہے تو اس کے لیے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
اس کے علاوہ مختلف مقامات پر فتنہ دیگر معانی کے لئے بھی مستعمل ہے۔فتنہ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
(الفتنۃ): ما یتبین بہ حال الإنسان من الخیر والشر. ( التعریفات :علی ابن محمد ابن علی الجرجانی ص ۲۱۲)فتنہ جس سے انسان کے خیر یا شر والی حالت ظاہر ہوجائے۔
وہ معاملہ جس کے ذریعہ انسان کا امتحان لیاجاتاہے تاکہ اس کی اصل حالت کھل کر سامنے آجائے کہ وہ نیک ہے یا بد یا اس کا عمل خیر ہے یا شر۔یعنی فتنہ چاہے جھگڑا ، فساد، مصیبت ، جنگ یا کسی بھی صورت میں ہو اس سے انسان کی صحیح حالت واضح ہوجاتی ہے ۔ جس طرح سونے چاندی کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر اس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کو معلوم کرلیا جاتاہے۔ یہ ابتلا ء و آزمائش انسان کے عملی ، اعتقادی اور اخلاقی حالات کو واضح کردیتے ہیں۔اس معنی کے لئے قرآن کریم میں فتنہ کااستعمال اس طرح ہو اہے :
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲) وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۳۔عنکبوت)
’’کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ حالانکہ بلاشبہ یقینا ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کی جو ان سے پہلے تھے، سو اللہ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنھوں نے سچ کہا اور ان لوگوں کو بھی ہر صورت جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ لفظ فتنہ کے اشتقاق قرآن کریم میں کثرت سے آئے ہیں اور الگ الگ معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ لیکن سردست ہم اس فتنہ کی بات کرتے ہیں جو اوپر کی اصطلاحی تعریف میں بیان کی گئی ہے ۔ یعنی جس سے انسان کے خیرو شر والی کیفیت واضح ہوجائے ۔ایسے فتنے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی پیش آئے اور آپﷺ کی رحلت کے بعد سے اب تک پیش آرہے ہیں اور قیامت تک پیش آتے رہیں گے۔
پیشین گوئیوں کی حقیقت
پیشین گوئی کا معنی ہے آئندہ پیش آنے والے کسی واقعہ یا حالت کی خبر دینا ۔بہت سارے لوگ اپنے علم ،تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر آگے کی بات بتاتے ہیں ان میں کچھ باتیں صحیح ہوجاتی ہیں اور کچھ غلط ہوتی ہیں۔اصل میں ان پیشین گوئیوں کے وقوع اور غیر وقوع ہونے کی وجہ علم یقینی اور علم ظنی کا فرق ہے۔
انسان کے پاس علم حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہے وہ سب ایک حد تک ہی کام کرتے ہیں۔جہاں ان کی حد ختم ہوجاتی ہے اس کے آگے وہ کام نہیں کرسکتے ۔چاہے ان کا تعلق عقل وشعور سے ہو یا حس و لمس سے ۔ان ظاہری علوم کی جب انتہا ہو جاتی ہے تو علم کا ایک اور ذریعہ شروع ہوتاہے جس کو ہم علم وحی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ علم، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اللہ کے مخصوص بندوں کو عطا ہوتاہے ۔ ہر کس و ناکس اس علم کو حاصل نہیں کرسکتا اس لئے کہ یہ علم کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے اللہ تعالیٰ اپنے محبوب و مخصوص بندوں کو عطاکرتے ہیں۔ جنہیں ہم انبیاء و رسل کے نام سے جانتے ہیں۔انبیاء و رسل کی اس مقدس جماعت کے آخری فرد آقائے مدنی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے اب ان کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول بلکہ یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے بند ہوچکاہے ۔ اس لئے وحی کا سلسلہ بھی قیامت تک کے لئے بالکل بندہوگیا اب کسی انسان پر وحی نہیں آسکتی۔ ہاں وحی کا علم جو جناب رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا وہ آپ ؐ کے واسطہ سے آپ ؐ کی امت میں جاری ہے اور رہے گا اور ہردور کے مطابق علماء اور راسخین فی العلم اس کی تشریح کرتے رہیں گے۔
قیامت
قیامت کا وقوع ایک ابدی حقیقت ہے ۔قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیامیں ایک عظیم واقعہ رونما ہونے والاہے جوکائنات کا سب سے بڑ اواقعہ ہوگا جس سے پوری کائنات زیر و زبر ہوجائے گی ، ہرچیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی او ر یہ عالم تہہ و بالاہوکر بکھرجائے گا،جسے ہم قیامت کے نام سے جانتے ہیں۔ ایمان والوں کو اس کے وقوع کایقین رکھنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ(۱)یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ(۲۔حج)
ترجمہ: قیامت کا زلزلہ ایک عظیم شیٔ ہے وہ ایسادن ہوگاکہ ہر دودھ پلانے و الی عورت اپنے دودھ پلائے کوبھول جائے گی اورآپ لوگوں کو مدہوش دیکھیں گے حالانکہ وہ مدہوشی نہیں ہوگی بلکہ اللہ کا سخت عذاب ہوگا۔
قیامت کا زلزلہ دنیا کا عظیم ترین حادثہ ہے جس کے وقوع ہوتے ہی انسان حواس باختہ ہو جائے گا۔دوددھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پلائے بچے کو بھول جائے گی ، انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے گا۔سورۂ طہٰ آیت ۱۵ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اِنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ ’’ بے شک قیامت آنے والی ہے ‘‘اور سورہ حجر آیت ۸۵ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌاورقیامت بالضرور آنے والی ہے‘‘ اورسورہ مومن آیت ۵۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌ لَارَیْبَ فِیْھَا ’’بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ‘‘او ر سورہ سباآیت ۳ میں قیامت کاانکار کرنے والوں کوسختی کے ساتھ فرمایا وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَاتَأْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلیٰ وَرَبِّیْ لَتَأتِیَنَّکُمْ ’’ اور کافر یہ کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی آپ کہہ دیجئے کہ ہرگز نہیں! میرے رب کی قسم وہ تمہارے پاس ضرور آئے گی ۔‘‘
یہ آیات اوران کے علاوہ بہت سی آیات اس بات پردال ہیں کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی اورکوئی فردِ بشر بلکہ دنیا کی کوئی مخلوق اس سے بچ نہیں سکے گی ۔ اس لئے ایک مومن کویہ ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک وقت ایساآئے گا کہ یہ کائنات ،اس کی رنگینیاں اس کے زرق برق سب تباہ ہوجائیں گے اسی کوقیامت کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔
قرآنی آیات او راحادیث کی تصریحات کے بعد یہ تو یقینی بات ہے کہ قیامت آئے گی اوریہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن ا س کا وقوع کب ہوگا؟ اس کی تاریخ اور سال سے متعلق ہمارے پاس کو ئی یقینی علم نہیں ہے ۔ ہاں کچھ علامات ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو بتادیا ہے کہ قیامت سے پہلے یہ واقعات پیش آئیں گے ۔ انہی واقعات کو محدثین نے ابواب الفتن کے عنوان سے جمع کیا ہے ان واقعات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جووقت سے پہلے بتادیا یہی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیاں ہیں۔ کتب احادیث میں ایک حدیث جس کو تقریبا تمام محدثین نے روایت کیا ہے جس کوحدیث جبریل کے نام سے جانا جاتاہے اس میں آپ ﷺ نے قیامت کی کچھ علامات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ وہ حدیث درج ذیل ہے:
عَنْ عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ، شَدِیدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ، وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِی عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” الإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَا ۃَ ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیلًا”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَہُ یَسْأَلُہُ، وَیُصَدِّقُہُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ، قَالَ:” أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ”، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:” أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ، فَإِنَّہُ یَرَاکَ”، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنْ أَمَارَتِہَا، قَالَ:” أَنْ تَلِدَ الأَمَۃُ رَبَّتَہَا، وَأَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ، یَتَطَاوَلُونَ فِی الْبُنْیَانِ”، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیًّا، ثُمَّ قَالَ لِی: یَا عُمَرُ أَتَدْرِی مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّہُ جِبْرِیلُ، أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِینَکُمْ.(صحیح مسلم۔کتاب الایمان۔باب بیان الایمان والاسلام والاحسان……حدیث نمبر 93)
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ایک دن ہم رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’جس سے اس (قیامت) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’ (علامات یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ’’اے عمر!تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے، تمہارے پاس آئے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔‘‘
یہ حدیث ،حدیث جبرئیل کے نام سے مشہور ہے اور تمام محدثین نے اس حدیث کو کتاب الایمان میں بیان کیا ہے۔اس میں حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ سے چند سوالات کیے ہیں اور آپؐ نے ان کا جواب دیا ہے ۔دوسرا سوال ایمان کے بارے میں ہے جس کا جواب نبی کریم ﷺ نے یہ دیاہے’’ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے اللہ پر، فرشتوں پراور اس کے پیغمبروں پراور پچھلے دن پر اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔‘‘یہ پچھلا دن کیا ہے ؟ وہی قیامت کادن ہے جب کہ یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ سب کو زندہ کرکے میدان حشر میں جمع کریں گے۔پھر جب جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپؐ ارشاد فرمایا : مَاالْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل( مسئول سائل سے زیادہ نہیں جانتاہے ۔) تو (جبرئیلؑ) نے کہا : فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اِمَارَتِھَا(کہ آپ مجھے اس کی علامتیں بتادیں)تو آپؐ نے فرمایا: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃَ رَبَّتَھَا وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاءَ الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ: (کہ لونڈی اپنے آقا کو جنے گی ، برہنہ پا ، برہنہ جسم، مفلس اور بکریاں چرانے والوں کوتم بلند وبالا عمارتیں بناتے ہوئے دیکھو گے ۔ )
فتنوں کی نشاندہی
فتنہ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ، آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے ۔قیامت تک جو فتنے آتے رہیں گے ان میں سے کچھ خاص فتنوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر بھی دی ہے اور اس سے بچنے کی راہ بھی بتائی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کو چونکہ اولین و آخرین کا علم دیا گیا تھا اس لئے آپ ﷺ نے قیامت تک آنے والے فتنوں کی نشاندہی کردی ہے ۔ کچھ فتنے تو ایسے ہیں جن کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ نے تفصیل بیان کردی ہے اور کچھ ایسے ہیں جنہیں آپ ﷺ نے اشاروں کنایوں میں بیا ن کیا ہے ۔یہی آئندہ پیش ہونے والے واقعات جنہیں رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بیان کردیا انہی کو پیشین گوئی کہا جاتاہے ۔رسول اللہ ﷺ نے جو پیشینگوئیاں فرمائیں ہیں ان میں سے بہت سی من و عن ہوبہو ظاہر ہوچکی ہیں اور ابھی بہت کچھ ان میں سے باقی ہے جن کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ وہ بالکل وقوع پذیر ہوں گی ۔
رسول اللہ ﷺ کے علم کا مدار چونکہ وحی پر ہے اور آپ ﷺ وحی کے علاوہ کچھ بھی نہیں بولتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (۳)اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (۴۔نجم) ’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ یہ جوکچھ بھی ہے وہ وحی ہے۔‘‘اس لئے آپ ﷺ کی پیشین گوئیاں بالکل برحق ہیں۔اگر وہ روایات کی صحت کے معیار پر صحیح اترتی ہیں تو ان کی صداقت اور ان کے وقوع پذیر ہو نے پرہمار اایمان ہے کہ یہ بالکل برحق ہیں اور ان کا وقوع یقینی ہے۔
پیشین گوئی آئندہ پیش آنے والے کسی واقعہ سے متعلق ہوتی ہے۔ان کی تشریحات جس قدر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی وہ یقینی ہے اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔
قرآن و احادیث میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں کسی امر کے واقع ہونے کی خبر دیا اور اس کا وقوع بالکل ویسے ہی ہوگیا،یا رسو ل ﷺ نے کسی امر کے واقع ہونے کی پیشین گوئی کی اور وہ چیز ویسے ہی واقع ہوگئی اس طرح کی بہت ساری مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں ۔
رسول اللہ کے زمانے میں رومی اہل کتاب تھے اور فارسی بت پرست ۔ ظاہر ہے بت پرستوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اہل کتاب سے قربت تھی اس لئے مسلمان قلبی طور پر چاہتے تھے کہ رومی فارسیوں پر غالب رہیں۔ لیکن ایک جنگ میں شاہ فارس روم پر غالب آگیا اور شاہ روم مغلوب ہو کر قسطنطنیہ میں محصور ہو گیا ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل فرمائی جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اگرچہ آج رومی مغلوب اور فارسی غالب ہوگئے ہیں لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ رومی پھر غالب آجائیں گے جس سے مسلمانوں کو خوشی نصیب ہو گی ۔
الٓمّٓ(۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُ(۲)فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(۳)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (۴۔روم)
’’ رومی مغلوب ہوگئے۔ سب سے قریب زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آئیں گے۔ چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔‘‘
ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ رومی چند سالوں میں غالب آجائیں گے اور تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ رومی دس سال کے اندر اندر ہی فارسیوں پر غالب آگئے ۔ایک روایت ترمذی میں موجود ہے:
عَنْ نِیَارِ بْنِ مُکْرَمٍ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ الم (۱) غُلِبَتِ الرُّومُ (۲) فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ (۳) فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۱-۴ فَکَانَتْ فَارِسُ یَوْمَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ قَاہِرِینَ لِلرُّومِ، وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ یُحِبُّونَ ظُہُورَ الروم عَلَیْہِمْ لِأَنَّہُمْ وَإِیَّاہُمْ أَہْلُ کِتَابٍ، وَفِی ذَلِکَ قَوْلُ اللَّہِ تَعَالَی: وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (۴) بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَائُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (۵) سورۃ الروم آیۃ ۴-۵ وَکَانَتْ قُرَیْشٌ تُحِبُّ ظُہُورَ فَارِسَ، لِأَنَّہُمْ وَإِیَّاہُمْ لَیْسُوا بِأَہْلِ کِتَابٍ وَلَا إِیمَانٍ بِبَعْثٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَصِیحُ فِی نَوَاحِی مَکَّۃَ: الم (۱) غُلِبَتِ الرُّومُ (۲) فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ (۳) فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۱-۴ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ لِأَبِی بَکْرٍ: فَذَلِکَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ زَعَمَ صَاحِبُکُمْ أَنَّ الروم سَتَغْلِبُ فَارِسًا فِی بِضْعِ سِنِینَ، أَفَلَا نُرَاہِنُکَ عَلَی ذَلِکَ، قَالَ: بَلٰی، وَذَلِکَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الرِّہَانِ، فَارْتَہَنَ أَبُو بَکْرٍ وَالْمُشْرِکُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّہَانَ، وَقَالُوا لِأَبِی بَکْرٍ: کَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِینَ إِلَی تِسْعِ سِنِینَ فَسَمِّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ وَسَطًا تَنْتَہِی إِلَیْہِ، قَالَ: فَسَمَّوْا بَیْنَہُمْ سِتَّ سِنِینَ، قَالَ: فَمَضَتِ السِّتُّ سِنِینَ قَبْلَ أَنْ یَظْہَرُوا، فَأَخَذَ الْمُشْرِکُونَ رَہْنَ أَبِی بَکْرٍ، فَلَمَّا دَخَلَتِ السَّنَۃُ السَّابِعَۃُ ظَہَرَتِ الروم عَلَی فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ تَسْمِیَۃَ سِتِّ سِنِینَ، لِأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی، قَالَ: فِی بِضْعِ سِنِینَ سورۃ الروم آیۃ ۴ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِکَ نَاسٌ کَثِیرٌ ”(سنن ترمذی کتاب التفسیر عن رسول اللہ ﷺ۔ باب ومن سورۃ الروم حدیث نمبر٣١٩٤ )
’’نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت :الٓمّٓ(۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُ(۲)فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ(۳)فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْن نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب و قابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آ جائیں، کیونکہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت: وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْن بِنَصْرِ اللّٰہِ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْم’’اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے، وہ زبردست ہے مہربان بھی ہے‘‘ (الروم: ۴-۵)، بھی اتری، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیونکہ وہ اور اہل فارس دونوں ہی نہ تو اہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر اعلان کیا،الم غلبت الروم فی أدنی الأرض وہم من بعد غلبہم سیغلبون فی بضع سنین ’’رومی مغلوب ہو گئے زمین میں، وہ مغلوب ہو جانے کے بعد چند سالوں میں پھر غالب آ جائیں گے‘‘ تو قریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہو جائے، تمہارے ساتھی کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اندر اندر غالب آ جائیں گے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگا لیں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ ہم تیار ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مشرکین دونوں نے شرط لگا لی، اور شرط کا مال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم’’بضع‘‘ کو تین سے نو سال کے اندر کتنے سال پر متعین و مشروط کرتے ہو؟ ہمارے اور اپنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کر لو، جس پر فیصلہ ہو جائے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کر دی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آ گئے، تو مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے ’’بضع سنین‘‘ کہا تھا، (اور’’بضع‘‘تین سال سے نو سال تک کے لیے مستعمل ہوتا ہے)۔ راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔‘‘
اس روایت میں دوباتیں قابل ذکر ہیں ایک تویہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خبر کہ اہل روم چند سالوں میں غالب ہوجائیں گے ۔یہ بات سچ ثابت ہوئی اور اہل روم کو غلبہ حاصل ہو ا۔دوسری بات اس خبر کے وقوع پذیر ہونے میں وقت کی تعیین کا ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اجتہادی غلطی ہوئی کہ انہوں نے لفظ ’’بضع ‘‘ کی تعیین چھ سال پر کردی جبکہ واقعہ سات سال میں ظاہر ہوا۔اس یہ پتہ چلتاہے کہ پیشین گوئی چاہے اللہ کی طرف سے ہو یا رسول اللہ کی طرف سے اگر اس کا وقت متعین نہیں بتایا گیا ہے تو اس کا وقوع تو یقینی ہے لیکن اس کی تشریح میں غلطی کا امکان ہے۔
اسی طرح کی ایک پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی ہے جس کو سمجھنے میں ازواج مطہرات سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔
عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” أَسْرَعُکُنَّ لَحَاقًا بِی أَطْوَلُکُنَّ یَدًا، قَالَتْ: فَکُنَّ یَتَطَاوَلْنَ أَیَّتُہُنَّ أَطْوَلُ یَدًا، قَالَتْ: فَکَانَتْ أَطْوَلَنَا یَدًا زَیْنَبُ، لِأَنَّہَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِیَدِہَا وَتَصَدَّقُ”.(صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ ۔باب فضائل زینب ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ۔ حدیث نمبر٦٣١٦ )
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛”تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی (میری وہ اہلیہ ہوگی جو) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔” انھوں نے کہا: ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انھوں نے کہا: اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔‘‘
اس حدیث کی بناء پر ازوج مطہرات اپنے ہاتھوں کو ناپتی رہتی تھیں کہ کس کاہاتھ لمبا ہے لیکن جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا سب سے پہلے انتقال ہوا تو ازواج مطہرات ؓ کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہاتھ کی لمبائی سے رسول اللہ ﷺ کی مراد سخاوت وفیاضی تھی جس میں حضرت زینب یقینا سب سے آگے تھیں۔اس کی صراحت حاکم کی ایک روایت میں ملتی ہے:
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لأزواجہ: ” أسرعکن لحوقا بی أطولکن یدا ”، قالت عائشۃ: فکنا إذا اجتمعنا فی بیت إحدانا بعد وفاۃ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمد أیدینا فی الجدار نتطاول، فلم نزل نفعل ذلک حتی توفیت زینب بنت جحش زوج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وکانت امرأۃ قصیرۃ ولم تکن أطولنا، فعرفنا حینئذ أن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إنما أراد بطول الید الصدقۃ، قال: وکانت زینب امرأۃ صناعۃ الید فکانت تدبغ وتخرز وتصدق فی سبیل اللہ عز وجل .(مستدرک حاکم مترجم اردو۔کتاب معرفۃ الصحابہ جلد ۵ ص ۵۵۲۔حدیث نمبر۶۷۷۶۔شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
’’ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ازواج سے کہا: تم سب سے پہلے میرے پاس وہ آئے گی جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد ایک دفعہ ہم ایک گھر میں اکٹھی ہوئیں اور ایک دیوار کے ساتھ اپنے ہاتھ ناپنے لگیں ، ہم یونہی اپنے ہاتھ نا پاکرتی تھیں کہ حضرت زینب بنت جحش کا انتقال ہو گیا ، ان کا قد سب سے چھوٹا تھا، یہ ہم میں سے کسی سے بھی لمبی نہیں تھیں، تب ہم سمجھیں کہ ہاتھ لمبے ہونے سے رسول اللہﷺ کی مراد صدقہ و خیرات کرنا تھی ، راوی کہتے ہیں: حضرت زینب کو دستکاری کے بہت کام آتے تھے ، آپ چمڑے کو دباغت دیتی تھی، پودے لگاتی تھی اور جو رقم آتی ، اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں‘‘
اس روایت میں بھی معنی کی تعیین میں ازواج مطہرات سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔انہوں نے لفظ کے ظاہری معنی مراد لئے جب کہ حضور پاک ﷺ کی مراد کچھ اور تھی ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ معنی کی تشریح جہاں تک رسول اللہ ﷺ نے کر دی وہاں تک یقین کرنا ہمارے ایمان واعتقاد کا حصہ ہے لیکن جن چیزوں کی صراحت رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی ان کے وقوع کی صحیح ہیئت ، مقام اور تاریخ کوئی بھی متعین طور پرنہیں بتاسکتا اور اگر کوئی اپنے علم او رتحقیق کی بنیاد پر کوئی متعین بات کرتاہے تو اس سے یقینی علم حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ وحی کے سوا کوئی بھی علم یقینی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک آنے والے فتنوں سے متعلق جو پیشین گوئیاں فرمائیں ہیں انہیں ہم زمانہ کے حساب سے تین ادوار میں تقسیم کرکے اپنی بات کو آگے بڑھائیں گے۔ پہلا دور وہ ہے جو گذر چکا چاہے وہ ماضی قریب میں ہو یا ماضی بعید میں ۔ دوسرا دور وہ ہے جو موجودہ وقت میں چل رہا ہے ۔ اور تیسرا دوروہ ہے جو ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا یعنی مستقبل۔جن کو ہم علامات بعیدہ ، موجودہ اور قریبہ بھی کہ سکتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی وہ پیشین گوئیاں جو واقع ہوچکیں
رسول اللہ ﷺ کی وفات
جب سے بنی آدم اس زمین پر آباد ہوئے اور انبیائے کرام کا سلسلہ شروع ہوا ہر نبی نے اپنی امت کوقیامت کے وقوع کی خبر دی ہے ۔ اس کی نشانیاں اور علامتیں بتائیں ہیں۔پچھلے انبیاء کی تعلیمات میں یہ بات موجود تھی کہ ایک نبی کانام محمدﷺ ہے ان کی بعثت ختم نبوت کا اعلان ہوگی اس سے پہلے قیامت نہیں آسکتی ۔ ہاں ان کی وفات کے بعد قیامت کسی بھی وقت آسکتی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کی سب سے بڑی علامت رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور آپ ﷺ کی وفات ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عَنْ عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ:” اعْدُدْ سِتًّا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَوْتِی، ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مُوتَانٌ یَأْخُذُ فِیکُمْ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَۃُ الْمَالِ حَتَّی یُعْطَی الرَّجُلُ مِائَۃَ دِینَارٍ فَیَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَۃٌ لَا یَبْقَی بَیْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْہُ، ثُمَّ ہُدْنَۃٌ تَکُونُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِی الْأَصْفَرِ فَیَغْدِرُونَ فَیَأْتُونَکُمْ تَحْتَ ثَمَانِینَ غَایَۃً تَحْتَ کُلِّ غَایَۃٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا”.(صحیح بخاری ۔ کتاب الجزیہ والموادعہ ،باب مایحذر من الغدر۔ حدیث نمبر3176)
’’حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی۔
مذکورہ بالاحدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی سب سے پہلی علامت اپنی وفات کو بتایا ہے۔آپ ﷺ کی وفات صحابۂ کرام کے لئے ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی۔یہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ بعض صحابۂ کرام نے تو اپنے ہوش وحواس کھودئیے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق ؓ جیسا جری شخص بھی یہ اعلان کربیٹھا کہ جوشخص یہ کہے گا کہ حضور پاک ﷺ وفات پاگئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ادھر شر پسندوں کو ایک موقع ملا اور انہوں نے الگ الگ اپنی حکومت کا اعلان کردیا ، نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہونے لگے۔ زکوٰۃ دینے سے بہت سارے قبیلوں نے انکار کردیا ۔عرب میں ارتداد کی ایسی لہر اٹھی کہ ہر شخص حواس باختہ ہوگیا ۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ یہ دین اب آگے نہیں چل سکے گا اور قیامت بہت جلد قائم ہوجائے گی ۔لیکن حضرت ابوبکر صدیق کی دور اندیشی اور مجاہدانہ کردار کی وجہ سے ان تمام فتنوں پر بہت جلد قابو پالیا گیا اور یہ دین آج تک زندہ ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دوسری علامت فتح بیت المقدس کی بتائی ہے کہ جب تک بیت المقدس فتح نہ ہوجائے قیامت قائم نہیں ہوسکتی ۔
فتح بیت المقدس
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس لئے ہر مسلمان کا اس کے ساتھ قلبی لگاؤ ہے ۔اور جس طرح حرمین شریفین کا مقام ہمارے دلوں میں ہے اسی طرح بیت المقدس کے ساتھ بھی ہماری عقیدت ومحبت وابستہ ہے ۔ معراج کے سفر میں رسول اللہ ﷺ نے یہاں انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔تین ایسی مسجدیں ہیں جہاں مسلمان عقیدت ومحبت اور عبادت وزیارت کی نیت سے سفر کرسکتے ہیں۔ وہ بیت اللہ ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بیت المقدس عیسائیوں کے زیر تسلط تھا جب شام کے علاقے فتح ہوئے تو بیت المقدس بھی فتح ہوا ۔ یہ دور خلافت فاروقی کا تھا ۔حضرت عمر و بن عاصؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور بعد میں حضرت عبیدہ بن جراح ؓ بھی ان سے آکر مل گئے ۔عیسائیوں نے کچھ دنوں تک مقابلہ کیا لیکن بعد میں صلح پر آمادہ ہوگئے اور انہوں نے یہ شرط رکھی کے حضرت عمر فاروق ؓ خود آکر صلح کے شرائط طے کریں۔ چنانچہ حضرت عمروبن عاصؓ نے خط لکھا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے شام کا سفر کیا اور بیت المقدس جاکر صلح کے شرائط طے کئے اور عیسائیوں نے شہر کی کنجیاں حضرت عمرفاروقؓ کے حوالے کردیا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی دور فاروقی میں پوری ہوئی۔
سن ۱۷ھ مطابق ۶۳۹ءمیں بیت المقدس بذریعہ صلح فتح ہوا۔ پہلی صلیبی جنگ۱۰۹۹ءمیں بیت المقدس پر یوروپی عیسائیوں کا قبضہ ہوا اور پھر ۱۱۸۷ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں سے طویل جنگیں لڑکر بیت المقدس کو پھر سے فتح کیا ۔۱۹۱۷ءمیں جب پہلی جنگ عظیم ہوئی تو انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔۱۹۴۷ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا۔ یوروپ سے کثیر تعداد میں یہودی فلسطین منتقل ہوئے اور ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ءکو ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا اس دن سے آج تک عرب مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان عظیم جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ابھی معلوم نہیں کتنے زیرو زبر ہونے والے ہیں۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق آخری بار حضرت مہدی علیہ الرضوان کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوگا اور یہ فتح قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک ہے ۔ اس کا تذکرہ ان شاء اللہ حضرت مہدی کے تذکرہ کے ضمن میں آئندہ ہوگا۔
طاعون عمواس
طاعون ایک سنگین بیماری ہے جسے Yersinia pestis کہتے ہیں۔ ہیضہ کے جراثیم اکثر چھوٹے چوہوں اور پسوؤں میں رہتے ہیں یہ دونوں چونکہ انسانوں کے قریب رہتے ہیں اس لئے یہ مرض ان کے ذریعہ انسانوں تک منتقل ہوجاتاہے ۔عام طور سے پسوؤں کے کاٹنے سے طاعون کے جراثیم انسانی بدن میں سرایت کرجاتے ہیں اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان میں پھیلتے پھیلتے وبا کی صورت اختیار کرجاتاہے۔یہ وبا پہلے بہت زیادہ ہوتی تھی علاقے کے علاقے اس سے ویران ہوجاتے تھے ۔ ایسے ہی ایک طاعون کی پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ نے کی کہ یہ وبا پھیلنا علامات قیامت میں سے ہے ۔ اس سے پہلے عوف بن مالک کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے جن چھ علامات قیامت کو بیان کیا ہے اس میں طاعون عمواس کا ذکر ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں یہ وبا عمواس کے علاقے میں پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے علاقے کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ۔ہزاروں صحابۂ کرام اس طاعون میں وفات پاگئے یہ دور فاروقی کاایک ہم واقعہ ہے ۔ ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حرث بن ہشام اور سہیل بن ہشام جیسے حضرات اسی وبا کے شکار ہوئے۔اس سال قحط بھی عام تھا اور یہ وبا بھی شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی حضرت فاروق اعظم نے ان مشکل حالات میں اپنی ذمہ داری پوری تندہی سے نبھائی اور اپنی صحت کا خیال چھوڑ کر عوام کی صحت کاخیال رکھا ۔ ابن خلدون نے اس قحط اور وبا کو تفصیل سے بیان کیاہے :
’’۱۸ھ میں سرزمین عرب میں بہت بڑا قحط پڑا پرندے تک بھوک سے پریشان ہو کر آدمیوں کے پاس بے دھڑک چلے آتے تھے۔ غلہ کی گرانی سے عام پریشانی پھیل گئی ساتھ ہی اس کے عمواس میں طاعون شروع ہو گیا۔ زمانہ قحط میں فاروق اعظم نے عجیب وغریب سرگرمی ظاہر کی۔ تا زمانہ قبل دودھ بھی نہ کھانے کی قسم کھالی۔ تمام ممالک اسلامیہ کے صوبہ جات کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ ہر جگہ سے اہل مدینہ کے لئے غلہ روانہ کریں۔ چنانچہ ابوعبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلے کے بھیجے۔عمرو بن العاص نے براہ دریائے قلزم مصر سے بہت ساغلہ روانہ کیا۔ خود فاروق اعظم اہل مدینہ کو لے کر نماز استسقاء پڑھنے گئے نماز کے بعد ایک نہایت پر اثر خطبہ پڑھا۔ عباس بن عبد المطلب کا ہاتھ پکڑ کر ان کے وسیلے سے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر دعا مانگی دعاختم نہ ہوئی تھی کہ اللہ جل شانہ نے پانی برسایا جس سے قحط کی شکایت جاتی رہی۔
…اسی زمانہ میں جب کہ عرب میں قحط پڑا ہوا تھا عمواس میں طاعون پھوٹ نکلا۔ بڑے بڑے صحابی جلیل القدر عالی مرتبہ انتقال کر گئے۔ ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حرث بن ہشام، سہیل بن عمر، عقبہ بن سہیل اور عامر بن غیلان رضی اللہ عنہم اس مرض میں مبتلا ہو کر راہی عالم آخرت ہوئے۔ فاروق اعظم کو اس کی اطلاع ہوئی۔آپ نے ابوعبیدہ کولکھ بھیجا’’ عسا کر اسلامی کو طاعونی مقام سے نکال کر کسی دوسرے مقام پر قیام کریں‘‘۔ ابوموسی کویہ حکم دیا کہ کوئی مقام جس کی آب و ہوا عمدہ ہو تلاش کرو اور خود بقصد شام روانہ ہوئے۔ مقام سرخ میں پہنچے افسران فوج نے آ کر ملاقات کی اور شدت وبا کی اطلاع دی۔ اکثر لوگوں نے فاروق اعظم کو عمواس میں جانے سے روکا۔ ان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے انہوں نے عرض کیا کہ’’ وبا کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جہاں پر وباء ہو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس مقام پر وباء پھیل جائے تو جہاں پر تم ہو تو وہاں سے نہ بھاگو۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ سن کر واپس ہوئے۔ بجائے یزید بن ابی سفیان کے دمشق میں ان کے بھائی معاویہ بن ابی سفیان اور اردن پر شرحبیل بن حسنہ کومامور کیا‘‘(تاریخ ابن خلدون ۔ جلد ۲ ص ۲۸۸۔نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
یہ پیشین گوئی بھی خلافت فاروقی میں پوری ہوگئی ۔
اہم جنگوں کا بیان
قیامت تک پیش آنے والے اہم جنگوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی ان میں سے کچھ پیش آچکی ہے اور کچھ کا انتظار ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں چار اہم جنگوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے تین جنگیں ہوچکی ہیں ایک جنگ جو قرب قیامت میں ہوگی اس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا :
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَۃَ، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃٍ، قَالَ: فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ عَلَیْہِمْ ثِیَابُ الصُّوفِ، فَوَافَقُوہُ عِنْدَ أَکَمَۃٍ، فَإِنَّہُمْ لَقِیَامٌ وَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، قَالَ: فَقَالَتْ لِی نَفْسِی: ائْتِہِمْ فَقُمْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ لَا یَغْتَالُونَہُ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: لَعَلَّہُ نَجِیٌّ مَعَہُمْ فَأَتَیْتُہُمْ، فَقُمْتُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ، قَالَ: فَحَفِظْتُ مِنْہُ أَرْبَعَ کَلِمَاتٍ أَعُدُّہُنَّ فِی یَدِی، قَالَ: ” تَغْزُونَ جَزِیرَ ۃَ الْعَرَبِ، فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ ثُمَّ فَارِسَ، فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَیَفْتَحُہَا اللَّہُ، ثُمَّ تَغْزُونَ الدَّجَّالَ فَیَفْتَحُہُ اللَّہُ ”، قَالَ: فَقَالَ نَافِعٌ: یَا جَابِرُ لَا نَرَی الدَّجَّالَ یَخْرُجُ حَتَّی تُفْتَحَ الرُّومُ.(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ ، باب مایکون من فتوحات المسلمین قبل الدجال۔ حدیث نمبر7284)
’’حضرت نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ہم ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو اون کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ٹیلے کے پاس آ کر ملے۔ وہ لوگ کھڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دل نے کہا کہ تو چل اور ان لوگوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں جا کر کھڑا ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالیں۔ پھر میرے دل نے کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے کچھ باتیں ان سے کرتے ہوں ۔ پھر میں گیا اور ان لوگوں کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں کھڑا ہو گیا۔ پس میں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں یاد کیں، جن کو میں اپنے ہاتھ پر گنتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پہلے تو عرب کے جزیرہ میں جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو فتح کر دے گا۔ پھر فارس سے جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا پھر نصاریٰ سے لڑو گے روم والوں سے، اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر دجال سے لڑو گے اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی فتح دے گا۔ نافع نے کہا کہ اے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ! ہم سمجھتے ہیں کہ دجال روم فتح ہونے کے بعد ہی نکلے گا۔
اس حدیث میں اول جن تین جنگوں کا ذکر ہے وہ تینوں جنگیں صحابۂ کرام نے لڑی ہیں اور فتح حاصل کی ہے ۔ عرب کا تقریبا پورا جزیرہ جس میں مکہ، مدینہ ، جدہ، طائف ، حنین ، رابغ ، ینبوع ، خیبر ، مدائن ، تبوک ، دومتہ الجندل ، ایلہ ، یمامہ ، بحرین، الحساء، عمان ، حضر موت ، صنعا ، حمیر اور نجران کے علاقے شامل ہیں رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں ہی فتح ہوچکے تھے روم و فارس کے علاقے دور صدیقی میں فتح ہوئے اور کچھ دور فاروقی میں فتح ہوئے ۔اس طرح رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔دجال سے جنگ کے متعلق پیشین گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے اس لئے اس کا تذکرہ آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔
فتح قبرص وقسطنطنیہ
قبرص رومی سلطنت کا حصہ تھا بعد میں روم سے الگ ہوکر ایک الگ ریاست کا قیام ہوا جسے بازنطین حکومت کے نام سے جانتے ہیں۔قبرص پر حملہ کرنے اور اس سے جنگ اور فتح سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی سنائی تھی کہ اس جنگ میں شریک مجاہدین جنتی ہوں گے چنانچہ بہت سے صحابۂ کرام اس جنگ کا انتظار کررہے تھے۔ چنانچہ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ نے بحری بیڑے کے ساتھ قبرص پر حملہ کیا اور اس کو فتح کیا اس جنگ میں حضرت ام حرام بنت ملحانؓ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی خصوصی بشارت موجود ہے :
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، یَقُولُ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَۃِ مِلْحَانَ فَاتَّکَأَ عِنْدَہَا، ثُمَّ ضَحِکَ، فَقَالَتْ: لِمَ تَضْحَکُ یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَقَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ مَثَلُہُمْ مَثَلُ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ:” اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ ثُمَّ عَادَ فَضَحِکَ، فَقَالَتْ لَہُ: مِثْلَ أَوْ مِمَّ ذَلِکَ، فَقَالَ لَہَا: مِثْلَ ذَلِکَ، فَقَالَتْ: ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِینَ، وَلَسْتِ مِنَ الْآخِرِینَ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: فَتَزَوَّجَتْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ، فَرَکِبَتِ الْبَحْرَ مَعَ بِنْتِ قَرَظَۃَ فَلَمَّا، قَفَلَتْ رَکِبَتْ دَابَّتَہَا فَوَقَصَتْ بِہَا، فَسَقَطَتْ عَنْہَا فَمَاتَتْ.(صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ المرأۃ فی البحر۔ حدیث نمبر 2877)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحانؓ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کے یہاں تکیہ لگا کر سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھے تو) مسکرا رہے تھے۔ ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں ان کی مثال تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! انہیں بھی ان لوگوں میں سے کر دے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے اور (اٹھے) تو مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلی ہی وجہ بتائی۔ انہوں نے پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر میں شریک ہو گی اور یہ کہ بعد والوں میں تمہاری شرکت نہیں ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ نے (ام حرام نے) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کر لیا اور بنت قرظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ انہوں نے دریا کا سفر کیا۔ پھر جب واپس ہوئیں اور اپنی سواری پر چڑھیں تو اس نے ان کی گردن توڑ ڈالی۔ وہ اس سواری سے گر گئیں اور (اسی میں) ان کی وفات ہوئی۔‘‘
ایک دوسری روایت خود ام حرامؓ سے اس طرح مروی ہے:
عَنْ أُمُّ حَرَامٍ أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:” أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِی یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا”، قَالَتْ: أُمُّ حَرَامٍ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا فِیہِمْ، قَالَ:” أَنْتِ فِیہِمْ” ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِی یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ”، فَقُلْتُ: أَنَا فِیہِمْ یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ:” لَا”(صحیح بخاری ۔ کتاب الجہاد والسیر،باب ماقیل فی قتال الروم ۔حدیث نمبر ۔2924)
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر کے شہر پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو جنگوں کی پیشین گوئی فرمائی ہے ان میں سے ایک جنگ کا تذکرہ اوپر ہوگیا یعنی قبرص کی جنگ جس میں ام حرام ؓ بھی شریک تھیں یہ پیشین گوئی سید عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںپوری ہوئی ۔ دوسری جنگ جس میں شریک ہونے کی ام حرام ؓ نے رسول اللہ سے دعا کی درخواست کی وہ قسطنطنیہ کی جنگ ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر کے شہر پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ ‘‘ اس سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ام حرام ؓ تم اس جنگ میں شریک نہیں ہوگی ۔یہ جنگ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور خلافت میں ہوئی اگر چہ اس وقت قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا لیکن پہلے لشکر کی جو فضیلت آپﷺ نے بیان فرمائی وہ ان لوگوں کے حصہ میں آئی جو اس جنگ میں شریک ہوئے۔اس کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی فتح الباری میں میں لکھتے ہیں:
قَالَ الْمُہَلَّبُ: فِیْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ مَنْقِبَۃٌ لِمُعَاوِیَۃَ لِاَنَّہٗ اَوَلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَ مَنْقِبَۃٌ لِوَلَدِہٖ یَزِیدَ لِاَنَّہٗ اَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ‘(فتح الباری:جلد ۶ ص ۱۲۱مکتبۃ الملک الفہد سنۃ ۱۴۲۱)
’’اس حدیث میں حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بحری غزوہ کیا اور ان کے بیٹے یزید کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے وہی مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوا۔‘‘
قسطنطنیہ جسے آج ہم استنبول کے نام سے جانتے ہیں ترکی کی راجدھانی ہے۔قدیم تاریخی رومی شہر ہے جسے فتح کرنے کی خوشخبری رسول اللہ ﷺ نے دی تھی اس لئے جتنے بھی اسلامی حکمراں ہوئے سب نے اسے نشانے پر رکھا اور بالآخر سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ۲۹؍ مئی ۱۴۵۳ءکو فتح ہو ا۔قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔اس تاریخی فتح کو یوروپ آج تک بھلا نہیں پایا ۔
فتح روم وفارس
روم و فارس کی جنگوں سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی موجودہے کہ دونوں سلطنتیں مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ ہوںگی اور دور صحابہ میں ہی یہ سلطنتیں اسلامی ریاست میں ضم ہوگئیں ۔ غزوہ خندق کے موقع سے خندق کھودتے ہوئے ایک چٹان ایسی حائل ہوئی کہ تمام صحابہ اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود بھی اس چٹان کو نہیں توڑ سکے بالآخر رسو ل اللہ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھوں سے توڑا ۔ آپ ﷺ نے اس چٹان پرتین ضربیں لگائیں اور ہر ضرب کے ساتھ آپ ﷺ کو ایک فتح کی خوشخبری دی گئی ذیل کی حدیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے ۔
عَنْ رَجُلٍ مَنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، عَرَضَتْ لَہُمْ صَخْرَۃٌ حَالَتْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْحَفْرِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، وَوَضَعَ رِدَائَہُ نَاحِیَۃَ الْخَنْدَقِ وَقَالَ:” وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ سورۃ الأنعام آیۃ115”, فَنَدَرَ ثُلُثُ الْحَجَرِ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَائِمٌ یَنْظُرُ، فَبَرَقَ مَعَ ضَرْبَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَرْقَۃٌ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِیَۃَ، وَقَالَ: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ سورۃ الأنعام آیۃ 115, فَنَدَرَ الثُّلُثُ الْآخَرُ، فَبَرَقَتْ بَرْقَۃٌ، فَرَآہَا سَلْمَانُ، ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَۃَ، وَقَالَ: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلا لا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ سورۃ الأنعام آیۃ 115, فَنَدَرَ الثُّلُثُ الْبَاقِی, وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رِدَائَہُ وَجَلَسَ قَالَ سَلْمَانُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ رَأَیْتُکَ حِینَ ضَرَبْتَ مَا تَضْرِبُ ضَرْبَۃً إِلَّا کَانَتْ مَعَہَا بَرْقَۃٌ، قَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا سَلْمَانُ رَأَیْتَ ذٰلِکَ؟ فَقَالَ: إِی وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: فَإِنِّی حِینَ ضَرَبْتُ الضَّرْبَۃَ الْأُولَی رُفِعَتْ لِی مَدَائِنُ کِسْرَی وَمَا حَوْلَہَا وَمَدَائِنُ کَثِیرَۃٌ، حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ، قَالَ لَہُ: مَنْ حَضَرَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَفْتَحَہَا عَلَیْنَا وَیُغَنِّمَنَا دِیَارَہُمْ، وَیُخَرِّبَ بِأَیْدِینَا بِلَادَہُمْ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ، ثُمَّ ضَرَبْتُ الضَّرْبَۃَ الثَّانِیَۃَ، فَرُفِعَتْ لِی مَدَ ائِنُ قَیْصَرَ وَمَا حَوْلَہَا، حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَفْتَحَہَا عَلَیْنَا وَیُغَنِّمَنَا دِیَارَہُمْ وَیُخَرِّبَ بِأَیْدِینَا بِلَادَہُمْ فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ ثُمَّ ضَرَبْتُ الثَّالِثَۃَ، فَرُفِعَتْ لِی مَدَائِنُ الْحَبَشَۃِ وَمَا حَوْلَہَا مِنَ الْقُرَی حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ، قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِکَ دَعُوا الْحَبَشَۃَ مَا وَدَعُوکُمْ، وَاتْرُکُوا التُّرْکَ مَا تَرَکُوکُمْ”..(سنن نسائی ۔ کتاب الجہاد ۔ باب غزوۃ الترک والحبشۃ۔حدیث نمبر٣١٧٨ )
’’ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک چٹان نمودار ہوئی جو ان کی کھدائی میں رکاوٹ بن گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، کدال پکڑی اپنی چادر خندق کے ایک کنارے رکھی، اور آیت تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر کدال چلائی تو ایک تہائی پتھر ٹوٹ کر گر گیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال چلائی، ایک چمک پیدا ہوئی پھر آپ نے آیت:تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر دوبارہ کدال چلائی تو دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا پھر دوبارہ چمک پیدا ہوئی، سلمانؓ نے پھر اسے دیکھا۔ پھر آپ ﷺ نے آیت:تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماتہ وہو السمیع العلیم پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی تیسرا تہائی حصہ بھی الگ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے نکل آئے، اپنی چادر لی اور تشریف فرما ہوئے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب آپ نے ضرب لگائی تو میں نے آپ کو دیکھا، جب بھی آپ نے ضرب لگائی آپ کی ضرب کے ساتھ ایک چمک پیدا ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: سلمان! تم نے یہ دیکھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول جی ہاں! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا (میں نے ایسا ہی دیکھا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو مجھے (پردے اٹھا کر) فارس کے شہر اور اس کے اطراف کے دیہات اور دوسرے بہت سے شہر دکھائے گئے میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے خود دیکھا‘‘، اس وقت آپ کے جو صحابہ وہاں موجود تھے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیں فتح نصیب فرمائے اور ان کا ملک ہمیں بطور غنیمت عطا کرے، اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں ویران و برباد کرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعا فرما دی، پھر جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو پردے اٹھا کر مجھے قیصر کے شہر اور اس کے اطراف (کے قصبات و دیہات) دکھائے گئے (کہ یہ سب تمہیں ملنے والے ہیں) میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ ان ممالک کو فتح کرنے میں وہ ہماری مدد فرمائے اور وہ علاقے ہمیں غنیمت میں ملیں اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں تباہ و برباد ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا فرمائی، پھر جب میں نے تیسری ضرب لگائی، تو مجھے ملک حبشہ کے شہر اور گاؤں دکھائے گئے، میں نے فی الحقیقت انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر آپ نے یوں فرمایا: ’’حبشہ کو چھوڑ دو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں اور ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں‘‘ ۔
اس بشارت کے مطابق روم فارس کے محلات پر اسلامی علم نصب ہو ااور ان کے خزانے مال غنیمت کی صورت میں صحابہ ٔ کرام کو ملے۔
فتنۂ تاتار
حبشہ اور ترک اقوام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ھدایت فرمائی کہ انہیں اپنی طرف سے نہ چھیڑنا جب تک وہ تمہیں نہیں چھیڑیں۔چنانچہ خلفائے راشدین او ر اس کے بعد کے خلفاء نے بھی ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں ترکوں سے جھڑپیں شروع ہوئی اور ابتدائی چند شکستوں کے بعد بالآخر اسلامی فوجیں ترکوں پرغالب ہوگئیں ۔ ترکوں کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا او ر پھر اسلامی افواج میں شامل ہوکر بڑی بڑی جنگیں لڑیں۔ موجودہ ترکی جہاں ترک اقوام آباد ہیں یہ ایک خانہ بدوش قوم تھی جو وسط ایشیاسے سفر کرتے ، جنگیں لڑتے یہاں تک پہنچے۔منگول دراصل ترک ہی ہیں جنہوں نے اسلامی سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا جو تاریخ میں فتنہ تاتار کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی موجود ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ التُّرْکَ قَوْمًا وُجُوہُہُمْ کَالْمَجَانِّ الْمُطْرَقَۃِ یَلْبَسُونَ الشَّعَرَ، وَیَمْشُونَ فِی الشَّعَرِ”.(سنن نسائی ۔ کتاب الجہاد ۔ باب غزوۃ الترک والحبشۃ۔حدیث نمبر3179)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان ترکوں سے نہ لڑیں گے جن کے چہرے تہہ بتہہ ڈھالوں کی طرح گول مٹول ہوں گے، بالوں کے لباس پہنیں گے اور بالوں میں چلیں گے‘‘
فتنۂ تاتار ایک ایسا فتنہ ہے جس نے پورے عالم اسلام کو زیر و زبر کرکے رکھ دیا تھا ۔دوسری اقوام بھی اس سے متاثر ہوئیں لیکن سب سے زیادہ مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچا، تاتاری قوم ترکستان سے نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک منظم گروہ کی شکل اختیار کرلیا ان کے سامنے کوئی واضح منشور یا حکومت کا واضح نقشہ نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد غارت گری اورلوٹ مار تھا اور چونکہ اس وقت مسلمان ہی دنیا میں سب سے زیادہ منظم ، مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھے اس لئے سیدھے مسلمان ہی ان کی زد میں آئے اس سلسلہ میں خلافت عباسیہ کا خاتمہ اور بغداد خلافت کا زوال اہم واقعہ ہے ۔ انہوں نے خلافت عباسیہ کے آخری فرماںرواں معتصم باللہ کو قتل کیا اور بغداد اور اس کے مضافات میں قتل وخون کی وہ تاریخ رقم کی کہ اس کی مثال آج تک نہیں پائی گئی ۔اس فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بتادیا تھا ۔جو سن ۶۵۶ھ میں پورا ہوا۔
عَنْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا یَنْتَعِلُونَ نِعَالَ الشَّعَرِ، وَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا عِرَاضَ الْوُجُوہِ، کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ”.( صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر ،باب قتال الترک، حدیث نمبر٢٩٢٧ )
’’عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کی جوتیاں پہنے ہوں گے۔اور قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان لوگوں سے لڑو گے جن کے منہ چوڑے چوڑے ہوں گے گویا ڈھالیں ہیں چمڑا جمی ہوئی۔‘‘
قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا التُّرْکَ صِغَارَ الْأَعْیُنِ حُمْرَ الْوُجُوہِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ، کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُہُمُ الشَّعَرُ”.( صحیح بخاری ۔کتاب الجہاد والسیر ،باب قتال الترک، حدیث نمبر٢٩٢٨ )
’’حضرت ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہو گی، ان کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بتہ چمڑا لگی ہوئی ہوتی ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے۔‘‘
ان دونوں احادیث میں جس قوم کا ذکر آیا ہے اس سے تاتار مراد ہیں جسے دنیا منگول کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ قوم خانہ بدوش تھی ، نسلی اعتبار سے ترک تھی ۔ چنگیز خان کی اولادہیں ہلاکو خان کی قیادت میں انہوں نے بغداد پر حملہ کیااور خلافت عباسیہ کا خاتمہ کیا بلکہ اس کے بعد سے عربوں کی حکومت دنیا سے ختم ہوگئی ۔امام نووی شارح مسلم اسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے اس حدیث کے سلسلے میں اپنے مشاہدات بیان کیا ہے کہ اس حدیث میں جس قوم کا ذکر ہے وہ ترک قوم ہے اور جو صفات رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہیں وہ سب کی سب ان میں موجود ہے :
وفی ہذہ الروایۃ صغار الأعین وہذہ کلہا معجزات لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقد وجد قتال ہؤلاء الترک بجمیع صفاتہم التی ذکرہا صلی اللہ علیہ وسلم صغار الأعین حمر الوجوہ ذلف الأنف بمراض الوجوہ کان وجوہہم المجان المطرقۃ ینتعلون الشعر فوجدوا بہذہ الصفات کلہا فی زماننا وقاتلہم المسلمون مرات وقتالہم الآن ونسأل اللہ الکریم احسان العاقبۃ للمسلمین فی أمرہم وأمر غیرہم وسائر أحوالہم وادامۃ اللطف بہم والحمایۃ وصلی اللہ علی رسولہ الذی لا ینطق عن الہوی ان ہو الاوحی یوحی (نووی شرح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ ۔ جلد ۱۸ ص ۲۷،۲۸ المطبعۃ المصریہ بالازہر)
’’اس روایت میں چھوٹی چھوٹی آنکھوں(کا ذکر ہے) اور یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں، کیونکہ میں نے ان ترکوں کو ان تمام خصوصیات کے ساتھ لڑتے ہوئے پایا جن کا آپ ﷺ نے ذکر کیا۔ چھوٹی آنکھیں ،سرخ چہرے ،ناک چپٹی ، ان کے چہرے ایسے تھے جیسے تہ بہ تہ چمڑا لگا ہوا ہو، بالوں کے کپڑے پہنے ہوئے۔ان تمام صفات کے ساتھ ہمارے زمانے میں پائے گئے ۔ ان سے مسلمانوں نے کئی بار قتال کیا اور اب بھی کررہے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ان کے معاملات اور دوسروں کے معاملات میں اور ان کے تمام حالات میں انجام کار خیر و بھلائی عطا فرمائے، اور ان کے لیے مہربانی اور تحفظ کو برقرار رکھے۔اور رسول اللہ ﷺ پر اللہ کی رحمتیں ہوں جو وحی کے علاوہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے ۔
منگول یا تاتار جب اٹھے تو پوری دنیا پر چھاگئے لیکن ان کے پاس منظم حکومت نہیں تھی اور نہ ہی ان کے پاس تہذیب نام کی چیز تھی اس لئے وہ وجہاں بھی گئے وہیں کے ہوکر رہ گئے جوتہذیب انہیں پسند آگئی اسی کو اختیار کرلیا ان کی ایک کثیر تعداد اسلام میں بھی داخل ہوئی اور پھر اسلامی قوانین اور اسلامی نظام کے تحت بعض علاقوں میں دیرپا حکومتیں بھی قائم رہیں ۔بہت سے منگولوں نے بدھ مت اور مسیحیت کو اختیار کرلیا۔
’’ مغل ‘‘اور ‘‘ مغول ‘‘لفظ منگول کی بدلی ہوئی شکل ہے منگولوں کے عرب ممالک پر حملوں اور قبضہ کے بعد لفظ ‘‘منگول’’ جب عربی سے متعارف ہوا تو یہ لفظ ‘‘مغول ’’ کی صورت میں تبدیل ہوگیا کیونکہ عربی زبان کے حروف تہجی میں ‘‘گ’’ نہیں ہے اس طرح ‘‘گ’’کی جگہ’’غ ’’ نے لے لی مغولان جمع کا لفظ ہے اس کا واحد مغل یا مغول ہے۔ یورپی مورخین اور محققین انہیں تاتاری بھی لکھتے اور کہتے ہیں، اس وجہ سے عرب ریاستوں میں اور ساتھ ساتھ ایران ، عراق، افغانستان کی ریاستوں میں مغول بولا جانے لگا اور وقت گْزرنے کے ساتھ ساتھ لب و لہجہ کی تبدیلی کی وجہ سے ہندوستان میں مختصر ہوکر مغل رہ گیا اور یہ ایک ہی قوم کے مختلف نام ہیں۔ہندوستان پاکستان میں ان کو اب مغل کہا جاتا ہے۔ہندوستان میں مغل حکومت کی ایک لمبی تاریخ ہے ۔ جس کی تفصیل کایہاں موقع نہیں ہے۔
تاریخ عالم میں مغلوں کی اولین مشہور شخصیت جو تومنہ خان کی پانچویں پْشت میں سے تھا چنگیز خان ہے (پیدائش 1160ء ، وفات: 1227ء ) جس نے چین کے مشرقی ساحلوں سے لے کر یورپ کے وسط تک ایک عظیم منگول سلطنت قائم کی۔ یہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی جو مغرب میں ہنگری، شمال میں روس، جنوب میں انڈونیشیا اور وسط کے بیشتر علاقوں مثلا افغانستان، ترکی، ازبکستان، گرجستان، آرمینیا، روس، ایران، پاکستان، چین اور بیشتر مشرق وسطی پر مشتمل تھی۔‘‘ (ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)
فتنۂ خوارج
رسول اللہ ﷺ نے ایسے اشخاص کے بارے میں پیش گوئی فرمائی ہے جو ظاہری طور پر بڑے دین دار ہوں گے، پکے نمازی اور روزے دار ہوں گے لیکن وہ حقیقت میں دین میں سیندھ لگانے والے ہوں گے اور امت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کریں گے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ اَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقْسِمُ قِسْمًا أَتَاہُ ذُو الْخُوَیْصِرَۃِ وَہُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ اعْدِلْ، فَقَالَ:”وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ، إِنْ لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ” فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ ائْذَنْ لِی فِیہِ فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، فَقَالَ:” دَعْہُ فَإِنَّ لَہُ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَہُ مَعَ صَلَاتِہِمْ وَصِیَامَہُ مَعَ صِیَامِہِمْ یَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ یُنْظَرُ إِلَی نَصْلِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَی رِصَافِہِ فَمَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَی نَضِیِّہِ وَہُوَ قِدْحُہُ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ، ثُمَّ یُنْظَرُ إِلَی قُذَذِہِ فَلَا یُوجَدُ فِیہِ شَیْئٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آیَتُہُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَی عَضُدَیْہِ مِثْلُ ثَدْیِ الْمَرْأَۃِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَۃِ تَدَرْدَرُ وَیَخْرُجُونَ عَلَی حِینِ فُرْقَۃٍ مِنَ النَّاسِ”، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَأَشْہَدُ أَنِّی سَمِعْتُ ہَذَا الْحَدِیثَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَشْہَدُ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ قَاتَلَہُمْ وَأَنَا مَعَہُ فَأَمَرَ بِذَلِکَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِیَ بِہِ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَیْہِ عَلَی نَعْتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی نَعَتَہُ.(صحیح بخاری۔کتاب المناقب ۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ حدیث نمبر۔٣٦١٠ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔‘‘
اس حدیث میں جس فتنے کا ذکر ہے وہ خوارج کا فتنہ ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے میں ظاہر ہو ا ۔ ظاہری طور پر خوارج اسلام کاانکار کرنے والا فرقہ نہیں تھا بلکہ اس نے اسلام کالبادہ اوڑھ کر اسلام کو ایسے ہی نقصان پہنچایا جس طرح تیر کسی کے بدن کو آر پا رکرجائے ۔کہ اس سے بدن میں سوراخ بھی ہوجائے گا اور اگر تیر کو دیکھا جائے تو نہ تو اس کے پھل پر اور نہ ہی اس کے نوک پر کسی طرح کا کوئی داغ نظر آئے گا۔حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے زور دے کر بتایا کہ میں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے سنا بھی ہے اور اس کے وقوع کا اپنی نظروں سے مشاہدہ بھی کیا ہے۔رسو ل اللہ ﷺ نے اس شخص کی جو علامت بتائی تھی کہ اس کے ہاتھ عورت کے پستان کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتے ہوئے ہوں گے ایسے شخص سے ملاقات کا بھی حضرت ابوسعید خدری نے دعویٰ کیا ہے ۔ آپ ؓ کے دعویٰ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی حیات میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ان کا قتل کروں۔ جس طرح قوم عاد کا کوئی بھی فرد عذاب الہی سے نہیں بچ سکا اسی طرح ان کے ایک فرد کو قتل کردوں گا۔حضرت ابوسعید خدری ہی کی ایک روایت بخاری شریف میں اس طرح ہے ۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:” بَعَثَ عَلِیٌّ وَہُوَ بِالْیَمَنِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذُہَیْبَۃٍ فِی تُرْبَتِہَا، فَقَسَمَہَا بَیْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِی مُجَاشِعٍ وَبَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیِّ وَبَیْنَ عَلْقَمَۃَ بْنِ عُلَاثَۃَ الْعَامِرِیِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِی کِلَابٍ وَبَیْنَ زَیْدِ الْخَیْلِ الطَّائِیِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِی نَبْہَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَیْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: یُعْطِیہِ صَنَادِیدَ أَہْلِ نَجْدٍ وَیَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُہُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ، نَاتِئُ الْجَبِینِ، کَثُّ اللِّحْیَۃِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّہَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ یُطِیعُ اللَّہَ إِذَا عَصَیْتُہُ، فَیَأْمَنُنِی عَلَی أَہْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِی، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَہُ أُرَاہُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ، فَمَنَعَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّی، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ ہَذَا قَوْمًا یَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، یَقْتُلُونَ أَہْلَ الْإِسْلَامِ وَیَدَعُونَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ”.(صحیح بخاری ۔کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ تعرج الیہ الملئکۃ والروح۔حدیث نمبر ٧٤٣٢ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اے محمد!(ﷺ) اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی میرے گمان کے مطابق خالد رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔‘‘
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے بیان سے یہ پتہ چلتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس فتنہ سے متعلق پیشین گوئی فرمائی تھی وہ خوارج کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن خوارج کا فتنہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے لوگ آج بھی ہیں اور قیامت تک آتے رہیں گے جو دین کی آڑ میں گمراہی پھیلائیں گے ۔جس طرح خوارج قرآن کریم کی تفسیر من مانی کیا کرتے تھے اسی طرح آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صحابہ ، تابعین اور عام مفسرین کی راہ سے ہٹ کر تفسیریں کررہے ہیں او ر قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔
حضرت حسن ؓ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان صلح
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت دوسال قائم رہی اس درمیان مختلف قسم کے فتنوں نے جنم لیا لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فراست اور بہادری نیز صحابۂ کرام کی کثرت کی وجہ سے ان تمام فتنوں کی سرکوبی نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں کسی فتنہ نے سر اٹھانے کی ہمت نہیں کی ۔ حضرت عثمان غنی ؓ چونکہ نرم طبیعت تھے اس لئے کچھ لوگوں نے سورش برپاکرنے کی کوشش کی اور وہ اس حد تک کامیاب ہوئے کہ آپ ؓ کے گھر میں گھس کر آپؓ کو شہید کردیا ۔ اس کے بعد انہی لوگوں نے حضرت علی ؓ کی دور خلافت میں مختلف قسم کی ریشہ دوانیاں کیں جن سے حضرت علیؓ مسلسل لڑتے رہے ۔ اس ذیل میں جنگل جمل اور جنگ صفین دو عظیم معرکے ہوئے۔ جس میں بالترتیب حضرت علی کے مقابل حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ تھے۔حضرت عائشہؓ تو خاموش ہوکر بیٹھ گئیں لیکن حضرت امیر معاویہؓ نے ہتھیار نہیں ڈالا نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں دو جماعتیں ایسی پیدا ہوگئیں جو ایک دوسرے کی دشمن تھیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر جنگ کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو مسلمان آپس میں لڑکر اس قدر کمزور ہوجاتے کہ کوئی بھی باہری دشمن آسانی سے ان پر قابض ہوسکتا تھا ۔ ایسے وقت میں حضرت حسن بن علی ؓ نے وہ کارنامہ انجام دیا جس نے امت کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچالیا ۔ آپ ؓ نے ان دونوں جماعتوں کے درمیان صلح کا راستہ ہموار کیا جس کی وجہ سے ایک عظیم جنگ مسلمانوں کے سر سے ٹل گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی پیشین گوئی پہلے سے ہی فرمادی تھی ۔
عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَخْرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِہِ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:” ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ”.(صحیح بخاری کتاب المناقب ۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۔ حدیث نمبر٣٦٢٩ )
’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں ملاپ کرا دے گا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پوری ہوئی جب شیعان علیؓ نے ان کو خلافت کی دعوت دی اور حضرت امیر معاویہؓ کی کے خلاف کھڑا کرنا چاہا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے مقابلہ آرائی کے بجائے صلح کو ترجیح دیا اور مسلمانوں کی ایسی دوجماعتوں کے درمیان جن میں ہر دواطراف میں مومنین صالحین موجود تھے صلح کی راہ ہموار کی ۔نتیجہ کے طور پر حضرت حسنؓ کو بھی حضرت علیؓ کی طرح خوارج کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح ان لوگوں نے حضرت علی ؓ پر دشنام طرازی کی تھی اسی طرح ان لوگوں نے حضرت حسنؓ کے ساتھ بھی سلوک کیا۔بخاری کی روایت کے مطابق صلح کا پورا واقعہ اس طرح ہے:
عَنْ أَبِی مُوسَی، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، یَقُولُ:” اسْتَقْبَلَ وَاللَّہِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ مُعَاوِیَۃَ بِکَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: إِنِّی لَأَرَی کَتَائِبَ لَا تُوَلِّی حَتَّی تَقْتُلَ أَقْرَانَہَا، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: وَکَانَ وَاللَّہِ خَیْرَ الرَّجُلَیْنِ، أَیْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ ہَؤُلَائِ ہَؤُلَائِ وَہَؤُلَائِ ہَؤُلَائِ مَنْ لِی بِأُمُورِ النَّاسِ بِنِسَائِہِمْ مَنْ لِی بِضَیْعَتِہِمْ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ رَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ: عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَ ۃَ، وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَامِرِ بْنِ کُرَیْزٍ، فَقَالَ: اذْہَبَا إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَیْہِ، وَقُولَا لَہُ، وَاطْلُبَا إِلَیْہِ، فَأَتَیَاہُ، فَدَخَلَا عَلَیْہِ فَتَکَلَّمَا وَقَالَا لَہُ فَطَلَبَا إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَصَبْنَا مِنْ ہَذَا الْمَالِ، وَإِنَّ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ قَدْ عَاثَتْ فِی دِمَائِہَا، قَالَا: فَإِنَّہُ یَعْرِضُ عَلَیْکَ کَذَا وَکَذَا، وَیَطْلُبُ إِلَیْکَ وَیَسْأَلُکَ، قَالَ: فَمَنْ لِی بِہَذَا؟ قَالَا: نَحْنُ لَکَ بِہِ، فَمَا سَأَلَہُمَا شَیْئًا إِلَّا قَالَا نَحْنُ لَکَ بِہِ، فَصَالَحَہُ، فَقَالَ الْحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرَۃَ، یَقُولُ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إِلَی جَنْبِہِ، وَہُوَ یُقْبِلُ عَلَی النَّاسِ مَرَّۃً وَعَلَیْہِ أُخْرَی، وَیَقُولُ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ”(صحیح بخاری ۔کتاب الصلح ، باب قول النبی ﷺ للحسن بن علی ؓالخ۔ حدیث نمبر2704)
’’حضرت ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو لوگوں کے امور کی میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسنؓ نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں جماعتوں کو مسلمان کہاہے اور کسی کوبھی اسلام سے باہر نہیں بتایا اس لئے ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔
منکرین حدیث
رسول اللہ ﷺ پر وحی کی صورت میں جواحکام آتے تھے وہ دو قسم کے ہیں ایک وحی متلو اور دوسری وحی غیر متلو ۔ وحی متلو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور وحی غیر متلو رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی صورت میں ہے۔ یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی (۳)اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (۴۔نجم) ’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ یہ جوکچھ بھی ہے وہ وحی ہے۔‘‘رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ بھی کہا یا کیا وہ سب کا سب وحی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن کو کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور احادیث کو کلام رسول ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ دونوں نص ہیں اور ہمارے لئے ہدایت کا سامان ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ احادیث رسول قرآن کی تفسیر ہیں اگر ہم احادیث کو چھوڑ دیں تو قرآن کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔اس کی مثال رمضان میں سحری سے متعلق آیت ہے جس کے سمجھنے میں ایک صحابی رسول سے غلطی ہوگئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو آیت کا صحیح مفہو م بتایا۔قرآن کریم کی آیت ہے :
وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر(البقرۃ ۱۸۷) ’’اور کھائو اور پیو، یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے۔ ‘‘
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:” لَمَّا نَزَلَتْ: حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ سورۃ البقرۃ آیۃ ۱۸۷، عَمَدْتُ إِلَی عِقَالٍ أَسْوَدَ وَإِلَی عِقَالٍ أَبْیَضَ، فَجَعَلْتُہُمَا تَحْتَ وِسَادَتِی، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِی اللَّیْلِ فَلَا یَسْتَبِینُ لِی، فَغَدَوْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرْتُ لَہُ ذَلِکَ، فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِکَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہَارِ”.(صحیح بخاری ۔کتاب الصوم ۔ باب قول اللہ تعالیٰوَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا الخ۔ حدیث نمبر١٩١٦ )
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر ’’تاآنکہ کھل جائے تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔‘‘ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔‘‘
اب غور کیجئے اگر احادیث کو چھوڑ دیا جائے تو قرآن کریم کی آیات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا کیونکر ممکن ہوگا۔ لیکن ایک جماعت ایسی بھی موجود ہے جنہیں ہم اہل قرآن کے نام سے جانتے ہیں ان کا کہناہے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ پہلے ہی بتادیا ہے کہ وہ قرآنی آیات کی من گھڑت تاویلیں کریں گے اور ضلالت و گمراہی پھیلائیں گے ۔ایک حدیث میں ارشاد ہے :
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ قَالَ:” أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ، أَلَا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی أَرِیکَتِہِ، یَقُولُ: عَلَیْکُمْ بِہَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوہُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ، أَلَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَہْلِیِّ وَلَا کُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَۃُ مُعَاہِدٍ، إِلَّا أَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنْہَا صَاحِبُہَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیْہِمْ أَنْ یَقْرُوہُ فَإِنْ لَمْ یَقْرُوہُ فَلَہُ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ”.(سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ ،باب لزوم السنۃ۔ حدیث نمبر ٤٦٠٤ )
’’حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے آؤ: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے ۔‘‘
معتزلہ جس کا بانی واصل بن عطا ء ہے اور خوارج جس کا بانی ذوالخویصرہ ہے ان دونوں فرقوں نے احادیث کی حجیت کا انکار کیا۔ معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ تھا جو فلسفہ کے ذریعہ کائنات کی ہر چیز کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتاتھا ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ حدیث و سنت تھی اس لئے انہوں نے حدیث کی حجیت کا انکار کیا ۔
خوارج کے جد امجد ذوالخویصرہ کے بارے میں حدیث پہلے گذر چکی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی اور آپ ﷺ نے فرمایا تھاکہ ’’اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ جنگ صفین میں یہ لوگ کھل کر سامنے آئے جب حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ میں صلح ہو ئی تو یہ لوگ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ‘‘حضرت علی ؓ نے انہیں جنگ نہروان میں شکست دی لیکن ان کی شورس ختم نہیں ہوئی اور بالآخر انہیں میں سے ایک شخص ابن ملجم نے آپ ؓ پر قاتلانہ حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ ؓشہید ہوگئے۔
منکرین حدیث کا یہ گروہ بر صغیر ہندو پاک میں اہل قرآن کے نام سے معروف ہے ۔ حالانکہ احادیث رسول کا منکر کبھی اہل قرآن ہوہی نہیں سکتا۔ اس فرقہ کے بانی محب الحق عظیم آبادی اور عبد اللہ چکرالوی ہیں ۔آج بھی یہ فرقہ موجود ہے لیکن علماء کرام کی جدو جہد اور ان کے دلائل کے سامنے دبا ہو اہے ۔پھر بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے بھولے بھالے مسلمان او رخاص طورسے متجددین کی جماعت ان کا شکار ہوتی رہتی ہے ۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی ادام اللہ ظلہ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث، قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا اہم مآخذ ہے ، لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں جب مسلمانوں پرمغربی اقوام کا سیاسی نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا، وہ سمجھتا تھاکہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہو سکتی لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے ، اس لئے اس نے اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع کیا، تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، اس طبقہ کو اہل تجدد کہا جاتا ہے ، ہندوستان میں سرسیداحمدخان مصر میں ملا حسین ، ترکی میں ضیاء گوک الپ اس طبقہ کے رہنما ہیں ، اس طبقہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے تھے جب تک حدیث کو راستہ سے نہ ہٹایاجائے، کیونکہ احادیث میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحۃً متصادم ہیں، چنانچہ اس طبقہ کے بعض افراد نے حدیث کو حجت ماننے سے انکار کردیا۔یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمدخان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علیٰ الاعلان اور بوضاحت پیش کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی، اس کی صحت سے انکار کردیا خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔ اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید ِمطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا۔ اسی ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا، پردہ کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند ِجواز دی گئی۔ ان کے بعد نظریۂ انکارِ حدیث میں اور ترقی ہوئی اور یہ نظریہ کسی قدر منظم طور پر عبداللہ چکڑالوی کی قیادت میں آگے بڑھا اور یہ ایک فرقہ کا بانی تھا، جو اپنے آپ کو’’اہل قرآن‘‘ کہتا تھا۔ اس کا مقصد حدیث سے کلیتاً انکار کرنا تھا، اس کے بعد جیراج پوری نے اہل قرآن سے ہٹ کر اس نظریہ کو اور آگے بڑھایا، یہاں تک کہ پرویز غلام احمد نے اس فتنہ کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی شکل دے دی۔ نوجوانوں کے لئے اس کی تحریر میں بڑی کشش تھی، اس لئے اس کے زمانہ میں یہ فتنہ سب سے زیادہ پھیلا۔‘‘ (درس ترمذی ، حصہ اول ص ۲۵۔۲۶)
منکرین حدیث سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوچکی ہے۔
حجاز سے آگ کا نکلنا
رسول اللہ ﷺ کی پیشین گویوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک آگ حجاز کے علاقے سے نکلے گی جو تمام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کی روشنی بصریٰ تک پہنچ جائے گی ۔ یہ پیشین گوئی ۶۵۴ ھ میں پوری ہوئی ۔یہ آگ مدینہ طیبہ سے نمودار ہوئی اور راستے میں پڑنے والے پہاڑو ں کو بھی راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ احادیث میں اس کاتذکرہ اس طرح آیا ہے :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ تُضِیئُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرَی”.(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ، باب خروج النار۔حدیث نمبر7118)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی اور بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔‘‘
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے صاحب بدایہ والنہایہ نے لکھاہے :وقد ذکر أہل التاریخ وغیرہم من الناس، وتواتر وقوع ہذا فی سنۃ أربع وخمسین وستمائۃ، قال الشیخ الامام الحافظ شیخ الحدیث وإمام المؤرخین فی زمانہ، شہاب الدین عبد الرحمن بن إسماعیل الملقب بأبی شامۃ فی تاریخہ: إنہا ظہرت یوم الجمعۃ فی خامس جمادی الآخرۃ سنۃ أربع وخمسین وستمائۃ، وأنہا استمرت شہرا(البدایہ والنہایہ ج ۶ ص۲۸۴)
’’مؤرخین اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے کہا ہے اور اس کا وقوع سن چھ سو چون میں تواتر کی حد تک بیان کیا گیا ہے،اپنے زمانے کے امام المؤرخین ،شیخ الحدیث، حافظ ، امام ،شیخ شہاب الدین عبدالرحمن بن اسماعیل جن کا لقب ان کی تاریخ میں ابو شامہ ہے نے کہا ہے کہ یہ(آگ) جمادی الآخر کی پانچ تاریخ سن چھ سو چون کو ظاہر ہوئی ایک ماہ تک مسلسل جاری رہی ۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی بھی ہو بہو پوری ہوچکی ہے ۔
مدعیان نبوت
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بہت سارے فتنوں نے جنم لیا ، کچھ مسلمان ان فتنوں کی زد میں آکر متاثر بھی ہوئے اور زکوۃ دینے سے منع کردیا ، کچھ مرتد ہوگئے ۔ان میں ایک بڑا فتنہ نبوت کے جھوٹے مدعیوں کا بھی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نومسلم اپنا دین وایمان کھوبیٹھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان فتنوں سے متعلق امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھااور بتادیا تھا کہ میرے بعد مدعیان نبوت پیدا ہوں گے اور وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوں گے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُونَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَۃٌ عَظِیمَۃٌ دَعْوَاہُمَا وَاحِدَۃٌ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُبْعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِیبًا مِنْ ثَلَاثِینَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ”(صحیح بخاری ۔کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔حدیث نمبر ٣٦٠٩ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔‘‘
اس حدیث میں جس جنگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حضرت علی ؓ ومعاویہ ؓ کے درمیان جنگ کی صورت میں پیش آچکی ہے ۔جیسا کہ شارحین حدیث نے بیان کیا ہے ۔حدیث کا دوسر اجزء جس میں جھوٹے مدعیان نبوت کا تذکرہ ہے ذیل میں اس کا جائزہ مختصرا پیش کیا جائے گا۔مدعیان نبوت سے متعلق ایک اور حدیث میں رسول اللہ کا ارشا د اس طرح ہے :
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ اللَّہَ زَوَی لِی الْأَرْضَ، أَوْ قَالَ: إِنَّ رَبِّی زَوَی لِی الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَإِنَّ مُلْکَ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مَا زُوِیَ لِی مِنْہَا وَأُعْطِیتُ الْکَنْزَیْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ، وَإِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی لِأُمَّتِی أَنْ لَا یُہْلِکَہَا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ وَلَا یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَہُمْ؟ وَإِنَّ رَبِّی قَالَ لِی: یَا مُحَمَّدُ إِنِّی إِذَا قَضَیْتُ قَضَائً فَإِنَّہُ لَا یُرَدُّ وَلَا أُہْلِکُہُمْ بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَہُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَیْہِمْ مِنْ بَیْنِ أَقْطَارِہَا، أَوْ قَالَ: بِأَقْطَارِہَا حَتَّی یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا، وَحَتَّی یَکُونَ بَعْضُہُمْ یَسْبِی بَعْضًا، وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِی الْأَئِمَّۃَ الْمُضِلِّینَ وَإِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِی أُمَّتِی لَمْ یُرْفَعْ عَنْہَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِینَ وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی الْأَوْثَانَ وَإِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی کَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ۔ (سنن ابو داؤد۔کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا۔حدیث نمبر٤٢٥٢ )
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی‘‘ یا فرمایا: ’’میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا‘‘
مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ان کذابین کے بارے میں بھی پیشین گوئی فرمادی تھی جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے بعض آپ کی حیات مبارکہ میں ظاہر ہوئے، بعض رحلت نبوی کے بہت قریب ظاہر ہوئے اور بعض تھوڑے بعد میں ظاہر ہوئے یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور قیامت تک ایسے کذابین آتے رہیں گے اور طاغوتیت کی دعوت دیتے رہیں گے لیکن ایمان والے ان کا مقابلہ کریں گے اور وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ورسوا ہوں گے۔نثار احمد خاں فتحی نے مسیلمہ کذاب سے غلام احمد قادیانی تک بائیس جھوٹے نبیوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں:
مسیلمہ کذاب،اسود عنسی ، طلیحہ اسدی، سجاح بن حارث ، حارث دمشقی ، مغیرہ بن سعید ، بیان بن سمعان ، صالح بن طیرف، اسحاق اخرس ، استاد سیس خراسانی ، علی بن محمد خارجی ، مختار بن ابو عبید ثقفی ، حمدان بن اشعث قرمطی، علی بن فضل یمنی، حامیم بن من للہ ، عبد العزیز باسندی ، ابوطیب احمد بن حسین، ابوالقاسم احمد بن قسی ، عبد الحق مرسی ، بایزید روشن جالندھری ، میر محمد حسین مشہدی ، مرزا قادیانی ، محمد یوسف علی ۔یہ تمام کے تمام اپنے دور کے مدعیان نبوت تھے ۔ اللہ نے سب کو ذلیل خوار کیا آج ان کانام و نشان باقی نہیں ہے ۔ان میں کچھ کے متبعین بھی ہوئے لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ان کے نشان بھی مٹ گئے ۔ دور حاضر میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے موجود ہیں اور انہوں نے اچھی خاصی جمعیت بنالی ہے آئندہ صفحات میں ان کے کذب وافترا کا جائزہ لیا جائے گا۔
اسود عنسی
اسود عنسی نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا۔رسول اللہ ﷺ کواللہ تعالیٰ نے بذریعہ خواب اس کی حقیقت کی اطلاع دے دیا تھا ۔
عَنْ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ فِی یَدَیَّ سِوَارَیْنِ مِنْ ذَہَبٍ فَأَہَمَّنِی شَأْنُہُمَا، فَأُوحِیَ إِلَیَّ فِی الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْہُمَا، فَنَفَخْتُہُمَا فَطَارَا، فَأَوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِی فَکَانَ أَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ، وَالْآخَرُ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابَ صَاحِبَ الْیَمَامَۃِ”.(صحیح بخاری ۔ کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۔٣٦٢١ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوئی، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔‘‘
اسود عنسی یمن کارہنے والا تھا اس کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا۔ وہ شیریں کلام تھا اس لئے لوگ اس کی باتوں میں فوراً آجاتے تھے۔ کہانت کا بھی ماہر تھا۔ شکل صورت کے اعتبار سے کالاکلوٹا تھااس لئے اس کو اسود عنسی کہاجاتاہے۔اس نے رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیاتھا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کے حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے یمن کے مسلمانوں کو خط کے ذریعہ حکم بھیجا کہ اس فتنہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہاں کے مسلمانوں نے جنگ وجدال اور ہنگامہ آرائی کے بغیر نہایت حکمت و مصلحت کے ساتھ اس کے محل میں چند لوگوں کوداخل کیا اور فیروز نامی ایک شخص نے اس کی گردن مروڑ کر ختم کردیا ۔
مسیلمہ کذاب
مسیلمہ کذاب کانام مسیلمہ ابن حبیب تھا یہ یمامہ کا رہنے والا تھا ۔اس نے بھی رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں نبوت کا دعویٰ کردیا تھا ۔اس کے پہلے یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب کے ذریعہ دو کذابوں کے بارے میں اطلاع دی گئی تھے ان میں ایک اسو د عنسی اور دوسرا مسیلمہ کذاب تھا۔مسیلمہ نے رسول اللہ ﷺ سے مدینہ میں ملاقات کیا تھا اور جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر ایمان پیش کیا تو اس نے یہ شرط رکھی کہ میں اس شرط پرایمان لے آؤں گا کہ آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد فرمائیں رسول اللہ ﷺ نے صاف انکارکردیا تھا ۔ذیل کی روایت دیکھئے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ: قَدِمَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ، یَقُولُ: إِنْ جَعَلَ لِی مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِہِ تَبِعْتُہُ وَقَدِمَہَا فِی بَشَرٍ کَثِیرٍ مِنْ قَوْمِہِ فَأَقْبَلَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِی یَدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِطْعَۃُ جَرِیدٍ حَتَّی وَقَفَ عَلَی مُسَیْلِمَۃَ فِی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ:” لَوْ سَأَلْتَنِی ہَذِہِ الْقِطْعَۃَ مَا أَعْطَیْتُکَہَا وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّہِ فِیکَ وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لیَعْقِرَنَّکَ اللَّہُ، وَإِنِّی لَأَرَاکَ الَّذِی أُرِیتُ فِیکَ مَا رَأَیْتُ”.(صحیح بخاری ۔ کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۔٣٦٢٠ )
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ میں آیا اور یہ کہنے لگا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ’’امر‘‘ (یعنی خلافت) کو اپنے بعد مجھے سونپ دیں تو میں ان کی اتباع کے لیے تیار ہوں۔ مسیلمہ اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر مدینہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ وہاں ٹھہر گئے جہاں مسیلمہ اپنے آدمیوں کے ساتھ موجود تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے چھڑی بھی مانگے تو میں تجھے نہیں دے سکتا اور پروردگار کی مرضی کو تو ٹال نہیں سکتا اگر تو اسلام سے پیٹھ پھیرے گا تو اللہ تجھ کو تباہ کر دے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تو وہی ہے جو مجھے دکھایا گیا تھا۔‘‘
مسیلمہ کذاب نے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اچھی خاصی جمعیت اکٹھا کرلی تھی ۔آخر کار خلافت صدیقی میں مسیلمہ کذاب سے یمامہ میں جنگ ہوئی اور وہ وحشی ابن حرب ؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔
طلیحہ اسدی
طلیحہ ابن خویلد اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گئے اور دعوائے نبوت کر دیا۔ بہت سارے عرب قبائل نے فتنہ ارتداد میں اس کی نبوت کو قبول کر لیا کیونکہ وہ بنو اسد کے ایک مشہور جنگجو اور دلیر سردار کے طور پر جانا جاتا تھا، طلیحہ نے لگ بھگ ستر ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ فتح کرنے کی مہم شروع کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بطور خلیفہ قریش پر مشتمل ایک لشکر اس کی بیخ کنی کے لئے ارسال کیا جس کے تین حصے کئے گئے، حضرت علیؓ، حضرت زبیر ابن العوام ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ۔ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا کمانڈر بنایا، اس لشکر نے طلیحہ کی پیش قدمی تو روک لی، مگر اس کا لشکر بہت بڑا تھا لہذا خالد ابن ولید کو ان کی مدد کے لئے بھیجا گیا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، اس کے لشکر میں شامل دیگر عرب قبائل نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کر لیا، جبکہ طلیحہ پہلے شام فرار ہوا اور پھر شام کے فتح ہونے پر پلٹ کر دوبارہ آیا اور اسلام قبول کر لیا۔
بعد میں طلیحہ نے ایران کے خلاف اسلامی لشکر کے ایک حصے کی قیادت کی جو اس کے قبیلے کے جنگجوؤں پر مشتمل تھا، جبکہ لشکر کی قیادت سعد بن ابی وقاصؓ کے ہاتھ میں تھی، نہاوند کی جنگ میں ایرانی شکست کا سب سے بڑا حصے دار طلیحہ تھا، جس کی بہادری کی دھاک ایرانی لشکر پر بیٹھ گئی تھی، وہ رات کے اندھیرے میں بارہ کیلومیٹر تن تنہا اکیلے ایرانی لشکر کے کیمپ میں گئے، اور کچھ ایرانی قتل کر کے قیدی بھی ساتھ لے آئے، اسلام کی طرف سے ذو قصہ، قادسیہ اور جلولہ کی جنگوں میں شریک رہے اور آخری معرکے میں اللہ کی راہ میں شہادت پائی خلیفہ وقت حضرت عمرؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ نے ان کے بارے میں بہترین تعریفی کلمات فرمائے۔(ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)
علامہ بن عبد البر نے طلیحہ کے متعلق لکھاہے :
طلیحۃ بن خویلد الأسدی ارتد بعد النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وادعی النبوۃ، وکان فارسا مشہورا بطلا، واجتمع علیہ قومہ، فخرج إلیہم خالد بن الولید فانہزم طلیحۃ وأصحابہ، وقتل أکثرہم، وکان طلیحۃ قد قتل ہو وأخوہ عکاشۃ بن محصن الأسدی وثابت بن أقرم ثم لحق بالشام، فکان عند بنی جفنۃ حتی قدم مسلما مع الحاج المدینۃ، فلم یعرض لہ أبو بکر، ثم قدم زمن عمر بن الخطاب، فَقَالَ لہ عمر: أنت قاتل الرجلین الصالحین- یعنی ثابت بن أقرم، وعکاشۃ بن محصن، فَقَالَ: لم یہنی اللہ بأیدیہما وأکرمہما بیدی· فَقَالَ: واللہ لا أحبک أبدا. قَالَ: فمعاشرۃ جمیلۃ یا أمیر المؤمنین. ثم شہد طلیحۃ القادسیۃ فأبلی فیہا بلاء حسنا· (الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ، لابن عبد البرّ جلد۳ص ۲۳۵،مرکز ھجر للبحوث والدراسات العربیۃ والاسلامیہ،)
’’طلیحہ بن خویلد اسدی رسول اللہ ﷺ کے بعد مرتد ہو ااور اس نے نبوت کا دعوی کردیا ۔ اور وہ ایک مشہور گھوڑ سوار سپاہی تھا اس کی قوم اس کے ساتھ جمع ہوگئی ۔چنانچہ حضرت خالد بن ولید ؓ اس کی طرف نکلے طلیحہ اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی اور ان میں سے اکثر کو قتل کردیا ۔ اور طلیحہ اور اس کے بھائی نے عکاشہ بن محصن اسدی اور ثابت بن اقرم کو قتل کیا پھر وہ شام بنی جفنہ کے پاس چلا گیا۔یہاں تک کہ حاجیوں کے ساتھ مدینہ حاضر ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے اسے نہیں چھیڑا ، پھر وہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں آیا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ تو دو آدمیوں کا قاتل ہے یعنی عکاشہ بن محصن اسدی اور ثابت بن اقرم تو اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ذریعہ مجھے ذلیل نہیں کیا اور میرے ذریعے ان کو عزت بخشا۔تو عمر ؓ نے کہا کہ واللہ میں تجھے کبھی پسند نہیں کروں گا۔ تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنین حسن معاشرت کا معاملہ فرمائیں۔پھر اس نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی اور اچھی کوشش کی ۔
طلحہ بن خولید کو اللہ تعالیٰ نے شرف صحابیت دیا تھا لیکن ارتداد کی وجہ سے وہ شرف جاتا رہا لیکن دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس کو شہادت نصیب ہوئی ۔
سجاح بنت حارث تمیمی
سجاح بنت حارث قبیلۂ بنی تمیم کی ایک عورت تھی۔ نہایت ہوشیار تھی اور حسن خطابت وتقریر میں مشہور تھی۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ایک گروہ اس کے ساتھ ہوگیا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔ مگر کسی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی ہوگیا۔ بعد ازاں سجاح نے مسیلمہ کا رخ کیا۔ مسیلمہ نے یہ خیال کر کے کہ اگر سجاح سے جنگ چھیڑی تو کہیں قوت کمزور نہ ہو جائے۔ اس لئے مسیلمہ نے بہت سے ہدایا اور تحائف سجاح کے پاس بھیجے اور اپنے لئے امن طلب کیا اور ملاقات کی درخواست کی، مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ سجاح سے جاکر ملا اور یہ کہا کہ عرب کے کل بلاد نصف ہمارے تھے اور نصف قریش کے لیکن قریش نے بدعہدی کی اس لئے وہ نصف میں نے تم کو دے دئیے۔
بعدازاں مسیلمہ نے سجاح کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ سجاح نے اس دعوت کو قبول کیا۔ مسیلمہ نے ملاقات کے لئے ایک نہایت عمدہ خیمہ نصب کرایا اور قسم قسم کی خوشبوؤں سے اس کو معطر کیا اور تنہائی میں ملاقات کی۔ کچھ دیر تک سجاح اور مسیلمہ میں گفتگو ہوتی رہی۔ ہرایک نے اپنی اپنی وحی سنائی اور ہرایک نے ایک دوسرے کی نبوت کی تصدیق کی اور اسی خیمہ میں نبی اور نبیہ کا بلاگواہوں اور بلا مہر کے نکاح ہوا۔ تین روز کے بعد سجاح اس خیمہ سے برآمد ہوئی۔ قوم کے لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہا کہ میں نے مسیلمہ سے صلح کر لی اور نکاح بھی کر لیا۔ لوگوں کو بہت ناگوار ہوا اور سجاح کو لعنت ملامت کی۔ قوم نے پوچھا کہ آخر مہر کیا مقرر ہوا؟ سجاح نے کہا کہ اچھا میں پوچھ کر آتی ہوں کہ میرا مہر کیا ہے؟ سجاح مسیلمہ کے پاس آئی اور مہر کا مطالبہ کیا۔ مسیلمہ نے کہا کہ جا اپنے ہمراہیوں سے یہ کہہ دے کہ مسیلمہ رسول اللہ نے سجاح کے مہر میں دو نمازیں فجر اور عشاء کی تم سے معاف کر دیں۔ جن کو محمد(ﷺ) نے تم پر فرض کیا تھا۔ سجاح نے واپس آکر اپنے رفقاء کو اس مہر کی خبر کی۔ اس پر عطاردبن حاجب نے یہ شعر کہا ؎
امست نبیتنا انثی نطوف بہا
واصبح انبیاء الناس ذکرانا
’’ ہماری قوم کی نبی عورت ہے جس کے گرد ہم طواف کر رہے ہیں اور لوگوں کے نبی مرد ہوتے چلے آئے ہیں۔‘‘
سجاح جب مسیلمہ کے پاس سے لوٹی تو اثناء راہ میں خالد بن ولید کا لشکر مل گیا۔ سجاح کے رفقاء تو منتشر ہوگئے اور سجاح روپوش ہوگئی اور اسلام لے آئی اور پھر وہاں سے بصرہ چلی گئی اور وہیں اس کا انتقال ہوا اور سمرہ بن جندبؓ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت سمرہؓ اس وقت حضرت معاویہؓ کی طرف سے امیر تھے۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد ۲ ص۲۱۳ تا۲۶۱ دالکتب العمیہ بیروت)
حارث بن عبد الرحمن بن سعید متنبی دمشقی
حارث بن عبد الرحمن بن سعید متنبی دمشقی ایک غلام تھا آزادی کے بعد اس نے ریاضت شروع کی لیکن اس کا کوئی مرشد یا استاد نہیں تھانتیجہ یہ ہوا کہ وہ شیطان کی شاگردی میں چلاگیا اور اس سے طرح طرح کے خوارق صادر ہونے لگے جس کی وجہ سے وہ اپنے آ پ کو نبی سمجھنے لگا ۔بالآخر خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اس کو پکڑ کر لایا گیااور نیزہ مارکر اسے ہلاک کردیا گیا۔( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۵)
مغیرہ بن سعید عجلی
مغیرہ بن سعید عجلی فرقہ مغیریہ کا بانی تھا۔جوغالی روافض کا ایک گروہ تھا۔ یہ شخص خالد بن عبد اللہ قسری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام اور بڑا غالی رافضی تھا۔ حضرت امام محمد باقر کی رحلت کے بعد پہلے اس نے امامت کادعویٰ کیا اور پھرنبوت کا دعوی کرنے لگا۔خالد بن عبد اللہ قسری جو ہشام بن عبد الملک کی طرف سے عراق کا والی تھا اس نے مغیرہ کو پکڑ کر زندہ آگ میں جلادیا۔( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۸)
بیان بن سمعان تمیمی
بیان بن سمعان تمیمی بھی مغیرہ بن سعید عجلی کا ہم عصر تھا اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیااس کا حشر بھی مغیرہ ہی کی طرح ہوا۔( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۵)
مختار الکذاب
مختار بن ابو عبید ثقفی قبیلہ ثقیف کا ایک عالم فاضل آدمی تھا اہل بیت کا سخت مخالف تھا لیکن واقعہ کربلاکے بعد اس نے ایک ایسا کام کیا جس کی وجہ سے اس کی شہرت اور عزت میں کافی اضافہ ہوا اور یہ اس کی گمراہی کاسبب بھی بنا ۔ مختار دولت ومنصب کا لالچی تھا جب اس نے دیکھا کہ کربلا میں اہل بیت چن چن کر شہید کردیئے گئے تو اس نے سوچا کہ اچھا موقع ہے حضرت حسین ؓ کے قاتلوں سے بدلہ لے کر اپنی عزت کو بحال کیا جائے چنانچہ اس نے قاتلین حسین کو چن چن کر قتل کیا جس کی وجہ سے خلق کثیر اس کے گرد جمع ہوگئی اور کچھ چاپلوس قسم کے لوگوں نے اس کی تعریف اور ہمت و بہادری کے پل باندھنا شروع کردیا ۔ انجام کار وہ نبوت کا دعویٰ کربیٹھااور کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل ؑ آتے ہیں۔ایک حدیث میں اس کا اشارہ موجود ہے :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” فِی ثَقِیفٍ کَذَّابٌ وَمُبِیرٌ ”،(سنن ترمذی ۔ کتا الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی ثقیف کذاب ومبیر حدیث نمبر ٢٢٢٠ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا‘‘۔
آگے امام ترمذی اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا ء میں لکھاہے:
آپ ( عبد اللہ بن زبیر ) کے زمانہ میں مختار الکذاب مدعی نبوت نے خروج کیاپس حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اس پر لشکر کشی کی اور اس پر ۶۷ھ میں فتح پائی اور آپ نے اس ملعون کو قتل کردیا ۔ (تاریخ الخلفاء اردوص ۴۳۹۔پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
حمدان بن اشعث قرمطی
حمدان بن اشعث قرمطی اسماعیلی شیعہ(باطنی) کی ایک شاخ قرامطہ کا بانی ہے اس نے ایک نئے مذ ہب کی بنیاد رکھی تھی ۔ پہلے اس نے اپنے ماننے والوں پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں لیکن جب لوگوں نے شکاییت کی تو انہیں دونمازوں کا حکم دیا ۔ روزے مختصر کرکے دوکردئے اور تمام بہائم کو حلال کردیا ۔ حاکم کوفہ ہضیم کو حمدان کے بارے میں علم ہو ا تو اس نے حمدان کو پکڑ کر قید کردیا۔ لیکن وہ راتوں رات قید سے بھاگ گیا ۔آخری عمر اس نے روپوشی میں گذاری اس کے انجام سے متعلق تاریخ خاموش ہے۔ (بائیس جھوٹے نبی ۔ص ۷۳۔ تالیف نثار احمد خاں فتحی ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)
اس طرح رسول اللہ نے جوپیشین گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے یہ جھوٹے مدعیان نبوت آتے رہے اور آج تک چھوٹے بڑے کذابوں کا سلسلہ جاری ہے کوئی جلدی ختم ہوگیا کوئی کچھ دیر رہا کسی کے ماننے والے پیدا ہوئے کوئی ویسے ہی راندۂ درگاہ ہوا انہیں میں ایک بڑا کذا ب مرزا غلام احمد قادیانی ہندوستان میں پیدا ہواجو خود تو واصل جہنم ہوگیا لیکن اس کے ماننے والے آج بھی اس کی جھوٹی نبوت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی
مرزا کا نام غلام احمد والد کا نام غلام مرتضی آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداس پور پنجاب ہے، اس کی پیدائش ۱۸۳۹ یا۱۸۴۰ میں ہوئی۔ قرآن پاک فارسی اور عربی کی کتب مختلف اساتذہ سے پڑھیں، فن طبابت اپنے والد سے سیکھا۔
۲۵/۲۶/ سال کی عمر میں مرزا سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں ملازم تھے۔ یہاں کی ملازمت کے دوران مرزا نے یورپین مشنریوں اور انگریز افسران سے تعلقات بڑھانے شروع کیے اور مذہبی بحث کی آڑ میں عیسائی پادریوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انھیں حمایت و تعاون کا یقین دلایا۔ مرزا نے کچھ ہی دنوں بعد ملازمت ترک کرکے تصنیف و تالیف شروع کردیا، مرزا نے ۱۸۸۰ میں اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۱۸۸۲ میں مجدد ہونے کا۱۸۹۱ میں مسیح موعود ہونے کا۱۸۹۸ میں مہدی ہونے کا۱۸۹۹ میں ظلی بروزی نبی ہونے کا۱۹۰۱ میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ ماضی قریب میں ہی گذرا ہے اور اس کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد برصغیر میں رہتی ہے اس لئے اس کے حالات وخیالات ذرا تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت انگریزوں کی طرف سے ملی ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب انگریز ہندوستان میں آئے تو جس قوم نے سب سے زیادہ سخت ٹکر انہیں دیا وہ مسلم قوم ہے ۔ اس لئے انگریزوں نے ہر طرح سے کوششیں کیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ٹھنڈا کردیا جائے اور انہیں اپنے دین سے منحرف کردیا جائے۔ ا س کے لئے انہوں نے نے نرم گرم ہر طرح کے ہتھیار استعمال کئے ۔ مسلم عوام وعلماء کا قتل عام بھی کیا ، قرآن کے نسخوں کو نذر آتش بھی کیا،رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی کیں، مسلمانوں کے درمیان زرخرید ایمان فروش بھی پیدا کیے۔ لیکن انگریزی حکومت کے خلاف تحریک میں بجائے نرمی کے اور شدت پیدا ہوتی گئی ۔چنانچہ انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے حالات کاجائزہ لینے کے لئے ایک وفدہندوستان بھیجا کہ وہ جاکر پتہ لگائیں کہ مسلمانوں کو کس طرح کمزور کیا جاسکتاہے۔سورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ لکھا ہے:
’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں برطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے۱۸۶۹ءکے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کر کے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نےThe Arrival of British Empire in India(ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا:
’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹApostolic Prophet(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘(تلخیصات)
مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۱۸۶۴ء تا۱۸۶۸ء ) ملازم تھا۔ آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندرون خانہ بات چیت کرتے۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘ (تحریک ختم نبوت، ص ۲۲، ۳۲ مؤلفہ آغاشورش کاشمیری)
مرزا غلام احمد قادیانی نے کئی طرح کے دعوے کئے ۔ سب سے پہلے اس نے 1882 میں مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعویٰ کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان کیا ہے:
’’یا احمد بارک اللہ فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔ لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ فتبارک من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔‘‘(روحانی خزائن ج ۱ ص ۲۶۵)
’’ اے احمد اللہ نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چلایا، تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔ کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد ﷺکی طرف سے ہیں، اللہ کی برکتیں اور سلامتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بولا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی کتربیونت کرکے کچھ جملے بنائے گئے ہیں اور انہی جملوں کو منجاب اللہ الہام کا نام دیا گیا ہے۔
جس طرح پچھلے تمام کذابوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کیا بلکہ آ پ ﷺ کی نبوت کو ڈھال بناکر اپنی نبوت کی حفاظت کاسامان پیدا کیا اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی رسول اللہ ﷺ کی تعریفیں کیں ان کی امتی ہونے کا بھی دعویٰ کیا آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے اثبات میں دلائل وبراہین بھی پیش کئے لیکن آپ ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کیا بلکہ نبوت کے سلسلہ کو جاری وساری رکھا تاکہ اس کی نبوت کے لئے راستہ ہموار ہوسکے ۔ذیل کی عبارت دیکھئے:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘(روحانی خزائن ۔ج ۵ ص۱۶۰۔۱۶۱)
رسول اللہ ﷺ کی ان صفات کے بیان کرنے کا مقصد رسول اللہ ﷺکی نبوت و ورسالت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ بھولے بھالے عوام کو اپنی جال میں پھنسانا ہے کہ میرا دعویٰ کوئی الگ نہیں بلکہ میں بھی اس نبی کو مانتاہوں جسے سب لوگ مانتے ہیں ۔ جس طرح مسیلمہ کذاب نے آپ ﷺ کی نبوت کو مانا لیکن اپنے آپ کو آپ ﷺ کی نبوت میں شریک وسہیم سمجھا ۔اور جس طرح مختار نے قاتلین حسین سے بدلہ لے کر مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی توحید ورسالت کے دلائل و براہین کے ذریعہ عام عوام کو بہلا پھسلاکر اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کی ۔ اس دعویٰ کی حقیقت سمجھنے کے لئے ان عبارات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن میں اس نے مسلمانوں کے عام عقیدے اور جمہور کی تشریحات کے خلاف اسلامی اصطلاحات کی تشریحات کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیاء و صدق و صفاء و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و اعلیٰ و ارفع و اجلیٰ و اصفیٰ تھے اس لئے خدا جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ اور دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہو کر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف کشادہ اور وسیع تر آئینہ ہو‘‘(روحانی خزائن ۔ج ۲ ص ۷۱)
اس تشریح سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی جوتشریح جمہور علماء نے کی ہے، جو فروعی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا‘‘مرزا نے اس کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ یہیں سے وہ ایمان سے خارج ہوجاتاہے۔اس تشریح سے مرزا نے رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے انحراف کیا ہے جوسراسر کفر ہے آگے جو اس نے دعوے کیے ہیں اس سے اس کی بد نیتی صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محض قوم کو گمراہ کرنے کی نیت سے اس نے قرآن و حدیث کی معانی کو الگ جامہ پہناکر اپنی جھوٹی نبوت کے لئے دلائل فراہم کیئے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ آپؑ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانوں پر اٹھالیا ہے اور قرب قیامت وہ دجال کے مقابلہ کے لئے زمین پرنازل ہوں گے اور پھر طبعی موت مریں گے ۔لیکن مرزا قادیانی نے قرآنی آیات اور احادیث نیز مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدے کو سرے سے خارج کردیا ۔ اور اس کی بنیاد اپنا جھوٹا الہام قرار دیا جسے اس نے گھڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ ذیل کی عبارت دیکھیں :
’’……چونکہ خدائے تعالی بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چلا دے۔اس لئے اس نے مجھے بھیجا اور میرے اوپر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے ۔کان وعداللہ مفعولا انت معی وانت علی الحق المبین انت مصیب ومعین للحق۔‘‘(روحانی خزائن ۔ ج ۳ ص ۴۰۲)
ایک ہی جھٹکے میں اس نے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ کو توڑ بھی دیا اور خود کو مسیح موعود بھی ثابت کردیا ۔ مرزا نے الفاظ کے گھماؤ پھراؤ کے ذریعہ عوام کے عقائد کو تباہ و برباد کرکے ایمان و عمل سے عاری کردیا۔مرز ا نے اپنے مسیح موعود ہونے کی عجیب و غریب تاویل کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
’’چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد المأتین ہے۔ ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تومجھے کشفی طورپر اس مندرجہ ذیل کے نام کے اعداد کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو (۱۳۰۰) ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں۔‘‘ (روحانی خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰)
مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف مسیح موعود ہونے کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدت مندوں اور انگریزی خداؤں سے حوصلہ پاکر ۱۹۰۱ ءمیں نبی ہونے کا دعوی کردیا ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے اس قدر متضاد ہیں صاف پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں یہ ہے کیا؟مامور من اللہ ہے ، مہدی ہے ، مسیح موعود ہے ، ظلی نبی ہے ، بروزی نبی ہے، معبود ہے یا خدا ہے۔ یہ سارے دعاوی اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ ایک خبطی شخص ہے کہ جب جو جی میں آ گیا وہی دعویٰ کر بیٹھا۔علمائے کرام نے اس پرمستقل بحثیں کی ہیں اور قادیانی کے دلائل کا جواب مفصل طور پردیا ہے ۔ یہاں ان تمام دلائل کو بیان کرنے کا موقع نہیں اس لئے ختم نبوت سے متعلق قرآن حدیث کی جو تصریحات ہیں انہیں مختصر اًبیان کیا جاتاہے۔
عقیدۂ ختم نبوت
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا(۴۰)احزاب
’’ محمد(ﷺ) تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بالکل واضح الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔اور اس کی تشریح و تفسیر رسول اللہ ﷺ نے کردی ہے کہ لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔جمہور صحابہ وتابعین اور اس کے بعد سے آج تک امت کا موقف اور عقیدہ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ ہاں رسول اللہ کی تصریحات کے بعد یہ پتہ چلتاہے کہ جھوٹے نبی ہوں گے ۔جن میں سے کچھ کا تذکرہ اس سے پہلے ہوچکا ہے انہیں میں مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہے جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ احادیث کی ایک کثیر تعداد ہے جن سے آپ ﷺ کا خاتم نبوت ہونا ثابت ہوتا ہے اس کو آج ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چند احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَثَلِی فِی النَّبِیِّینَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَحْسَنَہَا وَأَکْمَلَہَا وَأَجْمَلَہَا وَتَرَکَ مِنْہَا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِالْبِنَائِ وَیَعْجَبُونَ مِنْہُ, وَیَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ، وَأَنَا فِی النَّبِیِّینَ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ ”.(سنن ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ باب فی فضل النبی ﷺ حدیث نمبر٣٦١٣ )
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہو جاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے‘‘۔
اس خالی اینٹ کی جگہ کی مزید وضاحت بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبین ہوں :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُونَ لَہُ وَیَقُولُونَ ہَلَّا وُضِعَتْ ہَذِہِ اللَّبِنَۃُ، قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّینَ”.(صحیح بخاری۔کتاب المناقب باب خاتم النبیین حدیث نمبر٣٥٣٥ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
ان دونوں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصر نبوت کو مکمل کردیا اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ۔
عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ ”(سنن ترمذی ۔کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات حدیث نمبر٢٢٧٢ )
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہو گا۔
عَنْ ثَوْبَانَؓ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِینَ، وَحَتَّی یَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، وَإِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُونَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب لاتقوم الساعۃ حتی یخرج الکذابون ، حدیث نمبر٢٢١٩ )
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا‘‘۔
اتنی صریح روایت کے بعد بھی اگر کوئی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ صراصر کذاب کے سوا اور کیا ہوسکتاہے؟لیکن ان سب کے باوجود کمال ڈھٹائی سے مرزا نے خاتم النبین کے معنی اور اس کی تشریح میں تحریف سے کام لیا ہے اور نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔اب تک جتنے کذابین پیدا ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ پیروکار مرزاغلام احمد قادیانی کے ہی پید اہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ باضابطہ طور پر ان کی دعوت وتبلیغ بھی ہورہی ہے۔ نوجوان نسلوں کو جال میں پھنساکر انہیں دین وایمان سے منحرف کیا جارہا ہے۔سیم و زر ، عیش ونشاط کا شیش محل دکھاکر کمزور مسلم نوجوانو ں کواسلام سے قادیانیت کی طرف لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اس کا سختی سے مقابلہ کرے اور اپنے نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ان کے دل ودماغ میں اسلامی عقیدہ کو اتنا راسخ کردے کہ کذب وافترا کے ان ابلیسوں کے داؤ ان نوجوانوں پرکارگر نہ ہوسکیں۔
فتنۂ گوہر شاہی
کذابین کی فہرست میں جس طرح مدعیان نبوت ہیں اسی طرح مدعیان مہدی علیہ الرضوان کی بھی لمبی فہرست ہے چونکہ قیامت سے قریب امت محمدیہ کی رہنمائی کے لئے دو عظیم شخصیات کی آمد کی پیشین گوئیاں موجودہیں ان میں ایک حضرت مہدی علیہ الرضوان ہیں اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ان دونوں شخصیات کے نام پر بھی بہت سارے مدعیان پیداہوئے کسی نے مہدی ہونے کادعویٰ کیا تو کسی نے عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور اب تک جتنے دعویدار پیدا ہوئے ان سب کا کذب امت پر ظاہر ہوچکا ہے۔ماضی قریب میں ایک فتنہ گوہر شاہی پیدا ہوا یہ قادیانیت کی ہی ایک شاخ ہے آج کل برصغیر اور بطور خاص پاکستان میں پھل پھول رہا ہے اور ایک مستقل فرقہ کی صورت اختیار کرگیا ہے یہ ایک گمراہ فرقہ ہے لیکن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گمراہی پھیلا رہا ہے ۔ اس فرقہ کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے جس کے ماننے والے اس کے مہدی ہونے کے قائل ہیں۔
نام ریاض احمد ہے اور گوہر شاہی ان کے دادا کی طرف نسبت ہے ان کے اجداد میں پانچویں پشت میں گوہر علی شاہ گذرے ہیں جو سری نگر کے رہنے والے تھے، وہاں ان سے ایک قتل سرزد ہوا ، پکڑے جانے کے ڈر سے راولپنڈی آگئے اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر رہے ، جب انگریزی پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگا یا ، جہاں کافی لوگ ان کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا ، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر۱۹۴۱ءمیں پیدا ہوا۔
گاؤں میں مڈل کلاس پاس کے نے کے بعد ویلڈنگ اور اور موٹر میکنک کا کام شروع کیا لیکن اس میں کوئی فائدہ نہیں ہو ا تو اس نے سوچا کہ دادا کی طرح وہ بھی پیری مریدی شروع کرے لیکن اس میدان میں وہ بالکل تہی دست وتہی داماں تھا اس لئے کسی مرشد کی تلاش میں سالوں سرگرداں رہا بالآخر ایک گدھے نے اس کی رہنمائی کی اور اسے روحانی سفر کا راستہ بتایا ۔ریاض احمد نے اپنے سفر کی روداداپنی کتاب ’’روحانی سفر ‘‘ میں افسانوی انداز میں لکھا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ فقر کی تلاش میں اس نے مزاروں اور جنگلوں کی خاک چھانی لیکن اس کا گوہر مراد کہیں بھی پورا ہوتا نظر نہ آیا۔ اس سفر میں ایک چیز خاص طور سے نظر آتی ہے کہ انسانوں نے تو اسے دھتکار دیا لیکن جانوروں کی شکل میں اسے پوری رہنمائی ملتی رہی ۔ کبھی گدے کی شکل میں ، کبھی کتے کی شکل میں اور کبھی بکرے یہاں تک کے چیونٹیاں اور حشرات الارض نے بھی اس کی رہنمائی کی ہے۔’’روحانی سفر‘‘ کو ادبی لحاظ سے ایک بہترین افسانہ قرار دیا جاسکتاہے۔
ریاض احمد نے مختلف قسم کے دعوے کئے اپنے مہدی ہونے کے ثبوت میں اس نے حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی بات بھی کہی ہے ۔ اس ملاقات کی روداد اس طرح بیان کی گئی ہے:
’’(EImontl Lodge )میں حضرت سیدناگوہر شاہی سے حضرت عیسی علیہ السلام نے ظاہری ملاقات فرمائی۔ یہ ملاقات آج۲۸، جولائی ۱۹۹۷ء تک ایک راز رہی، لیکن اب جب کہ مرشد پاک نے اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب جانا تو کرم فرماتے ہوئے کچھ تفصیلات ارشاد فرمائیں … آپ فرماتے ہیں۔…. نیو میکسیکو کے ہوٹل میں پہلی رات قیام کے دوران رات کے آخری پہر میں نے ایک شخص کو اپنے کمرے میں موجود پایا، ملکی روشنی تھی میں سمجھا ہمارا کوئی ساتھی ہے۔پوچھا کیوں آئے ہو ؟ جواب دیا : آپ سے ملاقات کے لئے ، میں نے لائٹ آن کی تو یہ کوئی اور چہرہ تھا (ایک خوبصورت نوجوان ) جسے دیکھ کر میرے سارے لطائف ذکر الہی سے جوش میں آگئے اور مجھے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی ، جیسی فرحت میں نے حضور پاک ﷺ کی محفلوں میں کئی بار محسوس کی تھی۔لگتا تھا انہیں ہر زبان پر عبور حاصل ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں عیسی ابن مریم ہوں ابھی امریکہ میں ہی رہ رہا ہوں۔ پوچھا رہائش کہاں ہے ؟ جواب دیا کہ نہ پہلے میرا کوئی ٹھکانہ تھانہ اب کوئی ٹھکانہ ہے۔ پھر مزید جو کچھ گفتگو ہوئی وہ ہم ( گوہر شاہی) ابھی بتانا مناسب نہیں رکھتے۔ حضرت گوہر شاہی فرماتے ہیں کہ پھر کچھ دنوں کے بعد جب میں ایری زوناٹوسن میں ایک روحانی سینٹر (Tucson 3335 Est Grant Rd.A2)گیا وہاں کتابوں کے ایک اسٹال پر میزبان خاتون مس میری (Miss.Marry) کے ہاتھ میں اسی نوجوان (حضرت عیسیٰ ) کی تصویر دیکھی۔ میں پہچان گیا اور اس خاتون سے پوچھا یہ تصویر کس کی ہے کہنے لگی عیسی بن مریم کی ہے۔ پو چھا کیسے ملی تو بتایا کہ اس کی جان پہچان کے کچھ لوگ کسی مقدس روحانی مقام پر عبادت و زیارت کے لئے گئے تھے اور اس مقام کی تصاویر کھینچ کرجب پرنٹ کروائی گئیں تو کچھ تصاویر میں یہ چہرہ بھی آ گیا جب کہ وہاں نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی تصویر اتاری۔ وہ تصویر اس خاتون سے حاصل کر نے کے بعد چاند پر موجود ایک شبیہ سے اس تصویر کو جب ملا کر دیکھا تو ہو بہو وہی تصویر نظر آئی۔ اب یہاں لندن آکر گارڈین اخبار والوں کو اشتہار کے لئے جیب سے تصویر دی تو انہوں نے بھی اپنے کمپیوٹر کے ذریعے چاند والی تصویر سے ملا کر اس تصویر کی تصدیق کی۔ اب ان حوالوں کی روشنی میں اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ تصویر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہی ہے۔ جو اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔‘‘( اشتہار شائع کردہ سر فروش پبلشر، بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص۹۶۔۹۷)
گوہر شاہی کی دلی خواہش تو تھی کہ وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرے اور نجی مجلسوں میں وہ اس کا اظہار بھی کیا کرتاتھا لیکن پاکستانی قانون میں جھوٹے مہدی کے دعویداروں کے لئے سزائے موت ہے اس ڈرسے کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں اعلانیہ دعویٰ نہیں کرتاتھا لیکن اس کے مریدوں نے اس کو مہدی مان لیا اور اس کا اعلان بھی کردیا ۔اس سلسلے میں خود اس کا بیان ملاحظہ کریں:
’’آپ نے فرمایا اگر کسی میں امام مہدی کی نو نشانیاں پائی جاتی ہیں اور ایک نہیں پائی جاتی تو آپ ان نو نشانیوں کو رد نہیں کر سکتے ….. اسی طرح امام مہدی اعلان کرے یا نہ کرے ، ر ہے گا توامام مہدی ، کیونکہ پاکستان کے۱۹۸۴ء کے قانون میں لکھا ہے کہ : جو شخص امام مہدی ہونے کا دعوی کرے اس کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے۔ اسی لئے امام مہدی مصلحتاًخاموش ہیں کہ خواہ مخواہ پابند سلاسل ہونے سے فائد ہ ؟…‘‘
(حق کی آواز ص :۳۴۔۳۳۔ تاریخ ملفوظ۱۶ تا۳۰ جون۱۹۹۹ء۔بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص ۸۵)
ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’لوگ اگر ہمیں امام مہدی کہتے ہیں تو اصل میں جس کو جتنا فیض ملتا ہے وہ ہمیں اتنا ہی سمجھتا ہے۔ کچھ لوگ تو ہمیں اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔ ہم انہیں اس لئے کچھ نہیں کہتے کہ ان کا عقید ہ جتنا ہماری طرف زیادہ ہو گا ، ان کے لئے بہتر ہے۔‘‘(سوال نامہ گوہر۱۹۹۷ء۔ ص :۸بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص ۸۴)
امام مہدی کے ثبوت کے دلائل آئندہ صفحات میں پیش کئے جائیں یہاں صرف اس فتنہ کا تعارف مقصود ہے جس نے امت میں بگاڑ پیداکررکھا ہے اور عام لوگ جنہیں دین کا صحیح علم نہیں ہوتا وہ لوگ ایسے جعلی پیروں کے چکر میں پھنس کر اپنا دین و ایمان کھوبیٹھتے ہیں علمائے کرام علمی طور پر اس کا بطلان کرتے ہیں لیکن ضلالت وگمراہی کا یہ سیلاب رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے امت کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے چار مسائل نئے پیدا ہوجاتے پھربھی دین وایمان کی حفاظت جہاں تک ہوسکے ہمیں کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن مہدی وعیسیٰ مسیح علیھما السلام کا امت انتطار کررہی ہے اور یہ دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اس لئے آئے دن کوئی مہدی او رکوئی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ مولانا شاہ عالم گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند نے’’ روزنامہ امت کراچی ‘‘ ۴ ؍ اپریل ۲۰۱۳ءکے حوالے لکھا ہے :
’’ایران کے مختلف جیلوں میں تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے افراد قید ہیں جنہوں نے پچھلے چھ سالوں میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ جیلوں سے باہر ان ساڑھے تین ہزار کذابوں کے لاکھوں حواری موجودہیں جب کہ گذشتہ تیرہ دنوں کے اندر ایرانی سیکورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں بیس ایسے جھوٹے دعوے داروں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جنہوں نے ’’مہدی المنتظر‘‘‘ ہونے کا دعیٰ کیاہے۔ اخیرمیں اخبار نے اس کا بھی انکشاف کیا کہ تحقیق سے معلوم ہو اکہ یہ سب کے سب یہودی ہیں‘‘
(شکیل بن حنیف تعارف وتجزیہ ص ۱۳)
فتنۂ شکیلیت
ابھی موجودہ زمانہ میں ایک شخص شکیل بن حنیف نے مہدی ہونے کا دعویٰ کررکھا ہے اور وہ ابھی باحیات ہے ہندوستان میں اس کی خفیہ تبلیغ چل رہی ہے اور اس کو شدت پسند ہندو تحریک آر ایس ایس کی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔ خود تو وہ چھپا ہوا رہتاہے لیکن اس کے چیلے جگہ جگہ فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔علماء کرام پر اس کا کذب افتراء واضح ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اہل علم کے سامنے اس کی کذب بیانی زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی اس لئے وہ اپنے مریدوں کو سختی سے منع کرتاہے کہ علماء سے بات نہ کریں ۔ علماء سے بچ کر اپنی مشن کوآگے بڑھانے میں مصروف عمل ہے۔
شکیل ابن حنیف ضلع دربھنگہ ،بہار کے ایک گاؤں رتن پورہ کا رہنے والا ہے ۔ملازمت کی تلاش میں دہلی گیا اوروہاں پر وہ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن ذہنی بگاڑ اور عہدہ کی ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے جماعت کے ساتھیوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا ، اس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا، مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلاتا رہا، دہلی کے اس زمانۂ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آتے تھے، ،اس کے دعووں کی وجہ سے حالات اس کے خلاف اتنے کشیدہ ہوگئے کے اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ’’حواری‘‘ رہتے ہیں۔
یہ سارے فتنے جو آج پیدا ہورہے ہیں چاہے وہ قادیانیت ہو ، گوہر شاہی ہو یا شکیلیت ہو ان کے مقابلہ کے لئے ہمیں بہترین حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔الگ الگ ان لوگوں سے بحث و مباحثہ کے بجائے اپنی نوجوان نسلوں کو دینی طور پر بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے تو عقائد کی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت جن کے بچے عصری تعلیم گاہوں میں جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے دین وایمان کی فکر لازمی ہے اور ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ ان کے دل ودماغ میں ایمان کے اثرات اتنے گہر ے اور مضبوط ہوجائیں کہ وہ ان فتنوں کا شکا ر نہ ہوسکیں اور وقت آنے پر وہ خود اپنے دین وایمان کے حفاظت کے لائق ہوسکیں۔اس مسئلہ کے حل کے لئے ملکی ، صوبائی ، ضلعی اور پنچایتی سطح پر علماء اور عوام کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں ظاہر ہونے والی پیشین گوئیاں
امت کے مجموعی اعمال سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئیاں موجو د ہیں ۔امت کے حالات میں تبدیلی ، اعمال سے دوری ، اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جانا اور کثیر تعداد میں ہو نے کے باوجود ذلت و خواری کی زندگی گزارنا یہ سب ایسی پیشین گوئیاں ہیں جن سے امت آج جوجھ رہی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع سے جن فتنوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ پیش آنے والے ہیں ان میں سے بیشتر آج کے دور میں کھلی آنکھوں نظر آرہے ہیں اورآئے دن ان کا مشاہد ہ ہورہاہے جیسے:خوشحالی اور عیش پرستی کا عام ہو جانا،قتل و خونریزی کی کثرت،امانت کا دلوں سے اٹھ جانا،گزشتہ اقوام کی اندھی تقلید،بے حیائی اور عریانیت کا عام ہونا،کم حیثیت اور چرواہوں دیہاتیوں کا اونچی اونچی عمارتیں بنوانا،خاص اور بڑے لوگوں کی بندگی،تجارت خوب زیادہ عام ہو جانا،شوہر کی تجارت میں بیوی کا شریک ہونا،بعض تاجروں کا پوری منڈی پر قابض ہونا،جھوٹی گواہی،حق کی گواہی کا چھپانا،جہالت کا عام ہونا،بخل کا عام ہونا،قطع رحمی،پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی،فحش عام ہونا،امانت دار کا خیانت کرنا اور خائن کا امانت داری کرنا،حلال و حرام مال کی تمیز کا ختم ہو جانا،امانت کے مال کو غنیمت کا مال سمجھنا،زکوۃ کو خراج اور ٹیکس کی طرح بوجھ سمجھنا،دنیوی مفادات کے لیے علم حاصل کرنا،بیوی کی فرماں برداری اور ماں کی نافرمانی،دوستوں سے قربت اور والدین سے دوری،مسجدوں میں شور و غل،قبیلوں پر فاسقوں کی سرداری قائم ہو جانا،سب سے گھٹیا اور ذلیل شخص کا قوم کا لیڈر اور رہنما بننا،لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی عزت کرنا،مردوں کے لیے ریشم حلال سمجھا جانے لگنا،گانے بجانے کے آلات کا جائز سمجھا جانے لگنا،لوگوں کا موت کی تمنا کرنے لگنا،ایسا زمانہ آنا جس میں آدمی صبح مومن رہے اور شام تک کافر ہو جائے،مساجد کی حد سے زیادہ ظاہری زیبائش و آرائش کا ہونا،گھروں کو خوب شاندار بنوانا،قیامت کے قریب بہت زیادہ بجلی گرنا،محض چرب زبانی اور فخریہ کلام سے مال کمانا،قرآن کے سوا دیگر کتابوں کا خوب عام ہو جانا،قاریوں کی کثرت اور علما و فقہا کی قلت،کم علم والوں کے پاس علم حاصل کرنا،اچانک موت کا خوب ہونا،بیوقوف لوگوں کا حاکم بن جانا،زمانہ کا قریب ہو جانا (دن و سال تیزی سے گزرتا محسوس ہونا)،نسلی کمینے شخص کا دنیا کا سب سے نیک بخت انسان بن جانا،مساجد کو راستہ اور گزرگاہ بنا لینا،مہر کا بہت زیادہ پھر بہت کم ہو جانا،قریب قریب بازار بن جانا،دیگر اقوام کا مسلم قوم پر غالب آ جانا،نماز کی امامت کے لیے لوگوں کا آپس میں جھگڑنا،جھوٹ کا عام ہونا،لوگوں میں دھوکا دہی اور چالاکی کا عام ہونا،زلزلہ کی کثرت،عورتوں کی کثرت،مردوں کی قلت،عورتوں کے ساتھ کھلم کھلا فحش و بدکاری،قرآن پر اجرت کا لیا جانا،لوگوں میں موٹاپا زیادہ ہونا،ایسے لوگوں کا ہونا جو خود گواہی دیں گے لیکن دوسروں کی گواہی قبول نہیں کریں گے،ایسے لوگوں کا ہونا جو دوسروں کو کسی کام سے روکیں گے اور خود وہی کام کریں گے،طاقتور کا کمزور پر ظلم کرنا،اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کا نہ ہونا،نئی نئی سواریوں کا آنا،زمین سے طرح طرح کے خزانے اور معدنیات کا نکلنا،زمین کا دھنسنا،لوگوں میں مال کی بہتات ہونا،تہمت و بہتان کو جائز سمجھا جانے لگنا،ایسا زمانہ آ جانا جس میں فسق و فجور یا عاجز رہنے میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے۔
یہ تمام فتنے آج رونماہورہے ہیں ان سب کی تشریحات اگر یہاں کی جائے تو ایک ضخیم کتاب ہوجائے گی اس لئے چیدہ چیدہ اہم مضامین کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔
یہود ونصاریٰ کی اتباع
قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کو چھوڑ کر اہل کتاب کے پیچھے چل پڑیں گے ۔اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوہُمْ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، الْیَہُودُ، وَالنَّصَارَی، قَالَ: فَمَنْ”.(صحیح بخاری ۔کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی ﷺ لتتبعن سنن من کان قبلکم۔حدیث نمبر٧٣٢٠ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔‘‘ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا پھر اور کون؟‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو جس فتنہ میں مبتلا ہو نے کی پیشین گوئی فرمائی ہے وہ آج ہوبہو پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ یہود ونصاریٰ کی اتباع میں یہ امت اتنی اندھی ہوگئی ہے کہ سر عام سنت رسول ﷺ کے مقابلہ میں یہودو نصاریٰ کے طور طریق اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ سمجھ کر کررہی کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہے ،ذلت ورسوائی ہے۔آج پور ی قوم مغربی تہذیب کی دلدادہ نظر آرہی ہے ۔وضع قطع ، رہن سہن ، شادی بیاہ ،کھانا پینا یہاں تک کہ بول وبراز کے طریقے تک مغربی انداز کا اختیار کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھ رہی ہے ۔ عورتیں نقاب پوشی کے بجائے بے حجابی اختیار کرتی جارہی ہیں۔سنت کے مطابق ہاتھ سے کھانا کھانے کے بجائے چمچوں اور کانٹوں کے ذریعہ کھانے کو ترقی سمجھا جارہا ہے۔ولیمہ اورعقیقہ کاکھانا جو مستقل اسلامی اصطلاحات ہیں اور سنت ہیں ان میں سنت کے مطابق کھانا کھانے کے بجائے مغربی طرز بوفے سسٹم سے کھانا بالکل عام ہوتا جارہا ہے۔ان حالات کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آج کے دور کا آنکھوں دیکھا حال چودہ صدیاں پہلے بتادیا تھا ۔
یہ امت عملی اور اعتقادی دونوں اعتبار سے یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے .یہود و نصاریٰ نے جس طرح اپنے دین پر دنیا کو ترجیح دیاعام لوگو ں کے بجائے دین محض راہبوں اور پادریوں تک محدود سمجھا ، خانگی اور انفرادی معاملات کو دین سے الگ کرکے محض کلیسا میں محدود کردیا آج مسلمانوں کی حالت بھی بالکل ویسی ہی ہوگئی ہے ۔ گھریلو زندگی میں دین نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اسلامی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی تہذیب و تمدن کے ساتھ گھروں کو آراستہ پیراستہ کیا جارہا ہے۔صرف مسجدوں اور مدرسوں میں ہی دین کو لازمی سمجھا جاتاہے باہر نکلنے کے بعد کسی کو دین کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ایک ایک قدم یہود ونصاریٰ کے نقش قدم کے مطابق اٹھ رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلَی بَنِی إِسْرَائِیلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتَی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً، قَالُوا: وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی ” (سنن الترمذی ۔کتاب الایمان عن رسول اللہ ﷺ ، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ۔ حدیث نمبر٢٦٤١ )
’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے‘‘۔
ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِیدِ الْمَسَاجِدِ”، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّہَا کَمَا زَخْرَفَتْ الْیَہُودُ، وَالنَّصَارَی.(سنن ابی داؤد ۔ کتاب الصلوۃ ، باب فی بناء المساجد۔حدیث نمبر٤٤٨ )
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے‘‘۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ سجاتے تھے۔
مسجدوں کی زیبائش
مسجدوں کی تعمیراور ان کی آرائش وزیبائش پر تو مسلمان بہت خرچ کرتے ہیں لیکن انہیں آباد کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی چنانچہ آج مسجدیں طرح طرح سے آراستہ ہیں لیکن ان میں نمازی نظر نہیں آتے ۔حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَنَسٍؓ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَتَبَاہَی النَّاسُ فِی الْمَسَاجِدِ”.(سنن ابی داؤد ۔ کتاب الصلوۃ ، باب فی بناء المساجد۔حدیث نمبر٤٤٩ )
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر و مباہات نہ کرنے لگیں‘‘
مسجدوں کی زینت اس کی آبادی ہے ،نماز اور ذکرو اذکار سے مسجدیں مزین ہوتی ہیں ۔لیکن آج کل مسجدوں میں قمقمے اور جھاڑ فانوس لگاکر لوگ ایک دوسرے سے فخرو مباہا ت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے تقابل کرتے ہیں۔یہ چیز یہود ونصاری ٰ کی طرف سے آئی ہے ان لوگوں نے اپنی کلیساؤں اور چرچوں کو مختلف قسم کی زیبائش وآرائش دی اور ظاہری زیب وزینت کو ہی سب کچھ سمجھا تو ہم نے بھی وہی کام کیا آج مسجدیں دنیاوی ساز وسامان سے آراستہ تو ہیں لیکن نمازیوں سے بالکل خالی ہیں۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ سَمِعَ النِّدَاء فَلَمْ یَأْتِہِ، فَلَا صَلَاۃَ لَہُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ”.(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب المساجد والجماعت،باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ۔حدیث نمبر٧٩٣ )
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو‘‘۔
ان احادیث میں جن چیزوں کی پیش گوئی فرمائی گئی ہے وہ آج کل بالکل بعینہٖ پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔
برائی کا عام ہونا
قیامت سے پہلے فتنوں سے متعلق ایک طویل حدیث امام طبرانی نے معجم الکبیر میں نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف قسم کے فتنوں سے متعلق نشاندہی فرمائی ہے اور یہ فتنے آج کے دور میں جابجا نظر آرہے ہیں ۔ موجودہ دور کا بہ نظر غائر مطالعہ اور رسول اللہ کی پیشین گوئی کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے جن جن چیزوں کی پیشین گوئی فرمائی وہ بالکل من وعن پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ذیل میں وہ حدیث نقل کی جارہی ہے :
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ َ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ، ھَلْ لِلسَّاعَۃِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِہِ السَّاعَۃُ؟ فَقَالَ لِی: یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَۃِ اَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَۃِ اَشْرَاطًا۔ اَلَا، وَإِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکُوْنَ الْوَلَدُ غَیْضًا وَاَنْ یَکُوْنَ الْمَطْرُ قَیْظًا وَاَنْ تَفِیْضَ الاَشْرَارُ فَیْضًا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَاَنْ یُکَذَّبَ الصَّادِقُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَاَنْ یُخَوَّنَ الاَمِیْنُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تُوَاصَلَ الاَطْبَاقُ وَاَنْ تَقَاطَعَ الاَرْحَامُ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَسُوْدَ کُلَّ قَبِیْلَۃٍ مُنَافِقُوْھَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَاَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکُوْنَ الْمُوْمِنُ فِی الْقَبِیْلَۃِ اَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکْتَفِیَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَائُ بِالنِّسَائِ، یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَاَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْیَا وَیُخْرَبُ عِمْرَانُھَا،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ تَظْہَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ اَعْلَامِ السَّاعَۃِ وَاَشْرَاطِھَا اَنْ یَکْثُرَ اَوْلَادُ الزِّنَی۔(المعجم الکبیر للطبرانی جلد۱۰ ص۸۳۔۲۸۲ حدیث نمبر۱۰۵۵۶ مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپﷺ نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولادغم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا۔’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اْن کے منبر عالی شان ہوں گے۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی۔اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں جتنی چیزوں کا تذکرہ ہے وہ سب کی سب موجودہ دور میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اولاد اس قدر نافرمان ہوتی جارہی ہے کہ ماں باپ ان کو دیکھتے ہیں غم وغصہ سے بھر جاتے ہیں۔بارش ہوتی ہے لیکن گرمی بھی ویسی ہی شدید ہوتی ہے،بدکاری کا طوفان تو ایسا برپا ہے کہ نیک لوگ نیکی کرنے سے جھجکتے ہیں۔آج کل عدالتوں کا منظر دیکھیں تو طاقت اور دولت کے زور پر جھوٹے اور مکار قسم کے لوگ ہرمقدمہ جیت جاتے ہیں اور سچے لوگ چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات سننے والا نہیں ۔جولوگ امانت داری کا حق اداکرنے والے ہیں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر انہیں برطرف کردیا جاتاہے اور خائنوں کو اعلیٰ عہدے اور مناصب عطا کئے جاتے ہیں۔گھریلو اور خاندانی معاملات کودیکھا جائے تو باہر کے دوست واحباب کی جتنی توقیر اور عزت افزائی کی جاتی ہے اتنی اپنے ماں باپ ، بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کی نہیں کی جاتی ۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے لیکن غیروں کے ساتھ اس کے دوستانہ مراسم ہیں۔گاوؤں ، قصبوں ، شہروں ، محلوں ، بازاروں کے حالات اور ان پر کنٹرول رکھنے والے لوگوں کو دیکھیں یہ سب ایسے لوگ ہیں جن کا دین و ایمان سے کوئی واسطہ نہیں۔مسجدوں سے متعلق احادیث گذر چکی ہیں کہ جتنی دولت مسجدوں کی تزئین و آرائش پر خرچ کی جاتی ہے اتنی مسجدوں کی آبادکاری پر توجہ نہیں دی جاتی ۔نیک لوگ اپنے محلے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے ، ان کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ہم جنس پرستی کا ایک سیلاب اٹھ رہا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔بستیوں کو چھوڑ کر لوگ جنگلوں ، سمندری جزیروں میں گھربنانے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ بعض لوگ تو دنیا چھوڑ کر چاند پر گھر بنانے کے فراق میں ہیں۔گانے بجانے کا سامان تو اتنا عام ہوگیاکہ ہر شخص کے جیب میں دنیا بھرکی موسیقی اور گانوں کو سننے کا آلہ موبائل کی صورت میں موجود ہے ۔شراب کے مختلف اقسام موجود ہیں ۔ غیبت اور چغلی تو ایسی عام چیز ہوگئی ہے کہ لوگ اس کو برائی میں شمار ہی نہیں کرتے۔ناجائز تعلقات پیداکرنا آسان ہوگیا ہے اور شادی کرنا مشکل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ناجائز بچوں کی پیدائش کثر ت سے ہونے لگی ہے۔یہ سب علامات قیامت کی ہیں جنہیں وقت سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے امت کو بتادیا تھا اور آج وہ ساری چیزیں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت اس سے عبرت حاصل کرے۔
دین سے بیزاری
الحاد و لادینیت اور دین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔جدید تعلیم یافتہ حضرات جنہیں دینی تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں قرآن و حدیث اور شرعی اصطلاحا ت سے بالکل واقفیت نہیں وہ لوگ دین کو اپنے دماغ سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں او ر دین کی غلط تشریح کررہے ہیں۔ ابتدا سے ہی اسلام میں رخنہ اندازی پیداکرنے کے لئے مختلف لوگوں نے اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات پیداکرنے کی کوششیں کیں ۔ جس کے نتیجے میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ علم کلام اور فلسفہ کا ایک دور تھا جس کے لئے علماء کرام نے فلسفہ کو پڑھ کر اس فتنہ کا جواب انہی کی زبان میں دیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان فرقوں کے نقوش مٹ گئے لیکن دور حاضر میں لادینیت اور الحاد کی آندھی تیزی سے چل رہی ہے اور متجددین اسلام کی غلط تشریح کرکے اسلام کی روح کو مسخ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو دانستہ طور پر اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے الٹے سیدھے تشریحات کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی سادگی میں مارے جاتے ہیںاور دین وایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی علمی صلاحیت کا لوہوا منوانے اور علم دانی کو اجاگر کرنے کی غرض سے قرآنی آیات اوراحادیث و سنت کی نئی تشریحات کرتے ہیں۔ظاہر ہے ہر نظریہ کے کچھ نہ کچھ ماننے والے مل ہی جاتے ہیںاور اسی سے ان کی دکان چلتی رہتی ہے۔کبھی اس میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کمی ہوتی ہے۔
الحاد مذہب کے خلاف ایک دوسرا مذہب ہے جس میں خدا کاکوئی تصور نہیں ان کے مطابق یہ سارانظام عالم بس یوں ہی سائنسی بنیادوں پر قائم ہے ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کا مختار ہے مذہبی قیود و شرائط انسان کو مجبور کردیتی ہیں اس لئے کچھ لوگ بالکل آزا د رہناچاہتے ہیں اور کسی بھی مذہب کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔ یہ سوچ تو انسانی تاریخ میں ابتدا سے موجود ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں ملحدین کی ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ہے جو مذہبی قلادہ اپنے گلے سے بالکل اتارنا نہیں چاہتی بلکہ مذہبی چہار دیواری میں رہ کر مذہبی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتی ہے۔یعنی مردم شماری میں تو اس کا نام مذہبی فہرست سے خارج نہ ہو لیکن اس کے قدموں میں مذہبی زنجیر نہ لگی ہو اور وہ جہاں چاہے اپنی من مانی کرسکیں۔یہ لوگ مذہبی اقدار کی تصویر کو مسخ کرکے ایک نئی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ سیرت وسنت کو اپنے انداز سے ڈھالنا چاہتے ہیں ، قرآنی آیا ت کی من مانی تفسیر کرنا چاہتے ہیں اور بے لگام ہوکر زندگی گذار نا چاہتے ہیں۔خود بھی جہنم کے راستے پر چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات کے بارے میں امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ ارشا د ہے :
عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ, یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” یَکُونُ دُعَاۃٌ عَلَی أَبْوَابِ جَہَنَّمَ, مَنْ أَجَابَہُمْ إِلَیْہَا قَذَفُوہُ فِیہَا”, قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ, صِفْہُمْ لَنَا, قَالَ:” ہُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا, یَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا”, قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِی إِنْ أَدْرَکَنِی ذَلِکَ؟ قَالَ:” فَالْزَمْ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِینَ وَإِمَامَہُمْ, فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إِمَامٌ, فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا, وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ, وَأَنْتَ کَذَلِکَ”.(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب الفتن ، باب العزلہ۔ حدیث نمبر٣٩٧٩ )
’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے‘‘، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے‘‘، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے‘‘۔
اس کی ایک وجہ تو موجودہ تعلیمی نظام ہے جس میں عصری علوم کی دوڑ میں مسلمان بچے اپنے دین سے بالکل نابلد ہوتے جارہے ہیں۔ بچپن سے انہیں دیگر مذاہب کی تاریخ ، دیگر تہذیبوں کا تعارف اور سائنسی انکشافات سے تو باخبر کیاجاتاہے لیکن اسلامی تہذیب سے یکسر دور رکھا جاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خاندانی اعتبار سے مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن اسلام ان کی رگوں میں نہیں ہوتا اور جب کوئی شاطر قسم کا آدمی ان کے دین وایمان کے خلاف زہر اگلتاہے یا اسلامی اقدار کی غلط تشریح کرتاہے تو اس کے پاس اس کی باتوں کوماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور بالآخر وہ بھی اپنے رویہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اسلامی مسلمات کی غلط تعبیر کرنے لگتاہے۔موجودہ تعلیمی نظام کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسے افراد پیدا کئے جائے جن کا اپنی تہذیب و ثقافت سے کوئی واسطہ نہ ہو ۔لارڈ میکالے نے جب یہ نظام تعلیم برصغیر میں قائم کرنے کی سفارش کی تو اس کی دلیل اس نے یہ پیش کی ۔ ملاحظہ کریں:
’’فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو‘‘۔(میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم‘‘ آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور۶۸۹۱/ ص:۴۵)
انگریزوں نے ہندوستان میں اسلامی اقدار اور اخلاقیات کو ختم کرنے کے لئے ایک ایسا نظام تعلیم قائم کیا جس میں ایسے تعلیم یافتہ حضرات پیدا ہوں جودنیا کے تمام علوم پر تو واقفیت رکھتے ہوں لیکن اسلامی تعلیم سے بالکل بے بہر ہ ہوں۔آج عصری تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوگا کہ ان تعلیم گاہوں سے اسلام اور اسلامی تہذیب وثقافت کو بالکل دیس نکالا کردیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں مذہب بیزاری بلکہ لامذہبیت پیدا ہورہی ہے۔ایسے تعلیم یافتہ گروہ پید اہورہے ہیں جوعلماء کو محض جاہل تصور کرتے ہیں ۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والے علمی کاوش کو گھسی پٹی معلومات قرار دیتے ہیں۔ چونکہ ہر جگہ تعلیم یافتہ اسی کو شمار کیا جاتاہے جو عصری علوم سے لیس ہو۔ اس لئے علماء دین کی عزت اور ان کا وقار جدید تعلیم یافتہ ذہن میں نہیں ہوتا ۔ اس لئے وہ وعلماء کی باتو ں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے ۔اس نظام تعلیم سے ترقی کی راہ تو نہیں ملی لیکن ہم اپنا راستہ بھول گئے ۔ اقبال نے کہاتھا ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یہ متجددین اسلام کو چند رسمی عبادات تک محدود کردینا چاہتے ہیں اور باقی زندگی میں اسلام کی رہنمائی نہیں چاہتے بلکہ مادر پدر آزاد رہ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ان کی اصلاح کے لئے وہی طریقہ اپنا نا ہوگا جو نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے۔کہ انہیں جماعت المسلمین سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنا ہوگا اس کے لئے ہمیں بھی ایسے ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جہاں دنیاداری کے اصول بھی بتائے جائیں اور دین داری کی اہمیت بھی اجاگر کیا جائے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے ۔ جس طرح انگریزوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشن اسکولوں کا نظام قائم کیا ہم بھی ایسے مشن اسکول قائم کریں جو جدید تکنالوجی سے لیس ہوں لیکن اسلامی اقدار کے ساتھ بچوں کو اسلامی فضا میں تعلیمی ماحول فراہم کریں ۔
ایک طرف جدید تعلیم کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف مسلم دوشیزاؤں کو ان کے دین سے بے دخل کرکے دیگر مذاہب میں شادیاں کرکے زندگی گذارنے کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور مسلم دوشیزائیں اس کو آزادی کانام دے کر کھلے عام غیر مسلموں سے شادیاں کررہی ہیں۔ آج کل ہندوستان میں تو یہ فتنہ بالکل سر چڑھ کر بول رہا ہے اخبارات کاکوئی شمارہ اس طرح کی خبر سے خالی نہیں ہوتا کہ ایک مسلم لڑکی نے ایک ہندو لڑکے سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی یہ بھی اس جدید طرز تعلیم کا اثر ہے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اور ہندو مسلم لڑکے لڑکیوں میں کوئی حجاب نہیں ہوتا بلکہ ان کے سارے کام ایک ساتھ ہوتے ہیں اس لئے آپس میں ان کی قربت بڑھتی جاتی ہے ۔ دیگر مذاہب کے لڑکے چونکہ ایک مشن پرکام کررہے ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنا اخلاق و کردار بہتر انداز میں مسلم لڑکیوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لڑکیاں ان میں دلچسپی لینے لگتی ہیں اور بالآخر اپنے دین و ایمان کو بالا ئے طاق رکھ کر ان سے شادیاں کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ابھی موجودہ وقت میں جب میں یہ مقالہ لکھ رہا ہوں ایک خاتون پورے ہندوستانی میڈیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ہر شخص کی زبان پر اسی کا نام ہے ۔ سیماحیدر نام کی ایک خاتون جو پاکستان سے آئی ہے اور ایک ہندو لڑکے سے اس نے شادی کرلی ہے ۔اس کی اصل حقیقت کیا ہے ؟یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک پیغام پوری دنیا کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عشق کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی عمرہوتی ہے جب کسی سے عشق ہوجائے تومذہبی اور ملکی سرحدیں کسی کو روک نہیں سکتیں۔
اس کے تدارک کے لئے اول تو اپنی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ بہتر تعلیمی ماحول جس میں اختلاط نہ ، اسلامی تہذیب و ثقافت کا فقدان نہ ہو، فراہم کرنا ہوگا اور اپنی بچیوں میں شروع سے ہی دینی حمیت پیداکرنے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ وقت کی تندو تیز آندھیا ں ان کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ پید اکرسکیں۔
فتنۂ ایکس مسلم
ایکس مسلم کا مطلب ہوتاہے ’’سابق مسلمان‘‘یہ ایک نیا نام ہے لیکن اس کی مثالیں زمانہ ٔ قدیم سے موجود ہیں اسلام میں اس کے لئے مرتد کالفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ موجودوہ دور میں جب کہ ذرائع ابلاغ نے خوب ترقی کرلی ہے ایسے افراد سامنے آرہے ہیں جوکسی زمانہ میں مسلمان تھے لیکن انہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا اور اب وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے اور اب ان کا مشن ہوگیا ہے کہ کسی طرح اسلام کو بدنام کیا جائے ۔ اس کے لئے انہوں نے شوشل میڈیا پر مختلف قسم کے گروپ بنارکھے ہیں۔یوٹوپ پر ان کے چینلز موجود ہیں جن پر وہ اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہیں اورسیدھے سادے مسلمانوں کو پھانستے ہیں۔اس میں کچھ تو منظم گروہ ہیں جن کا مقصد اسلام کی بیخ کنی اور کفرو شرک کو بڑھاوا دینا ہے اور کچھ ایسے افراد ہیں جنہیں اسلام سے عناد ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ وہ چونکہ اس سے پہلے مسلمان رہ چکے ہیں اس لئے انہیں اسلامی تعلیمات کا علم ہے ان میں بعض عربی زبان ، قرآن و احادیث کے ماہر بھی ہیں اس لئے عام مسلمان سے جب وہ بحث کرتے ہیں تو وہ حاوی ہوجاتے ہیں اور عام مسلمان جس کے پاس ان کے اعتراضات کا صحیح جواب نہیں ہوتا لاجواب ہوکر ان کی باتیں ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اس سے پہلے ایسے اکا دکا واقعات پیش آتے تھے لیکن اب تو باضابطہ طور پر ایسے چینل یوٹوب پر موجود ہیں جن کا مشن ہی ہے مرتدین کو بلاکر ان کا انٹرویو لینا ، اسلام کے بارے میں ان کی نفرت کو عام کرنا اور لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پید اکرنا ۔ یہ بات کو ئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہندوستان میں ان کو ہندوشدت پسند تنظیم آر ۔ایس۔ ایس کی سرپرستی حاصل ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں اس کے نمونے موجود ہیں جن میں مرتدین کی سرپرستی کی جاتی تھی بلکہ انہیں عزت و دولت سے بھی سرفراز کیا جاتاتھا جو اسلام چھوڑ کر کسی دوسرے دین کو اختیار کرتے تھے۔یہاں تک کہ ایک منظم گروہ موجود تھا جس کا کام ہی یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے ایمان لے آئیں اور پھرکچھ دنوں کے بعد کفر کی طرف لوٹ جائیں ۔ قرآن کریم کہتاہے:
وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِی أُنْزِلَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوا آخِرَہُ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ(آل عمران ۷۲)
’’اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے شروع میں اس چیز پر ایمان لاؤ جو ان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے ہیں اور اس کے آخر میں انکار کردو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں۔‘‘
جیسے ان اہل کتاب کامقصد دین کو نقصان پہنچانا اور لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیداکرنا تھا اسی طرح آج کے اس منظم گروہ کا بھی وہی مقصد ہے ۔لیکن قرآن نے ان کے بارے میں صاف فیصلہ سنادیا ہے:
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا کُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُہُمْ وَأُولَئِکَ ہُمُ الضَّالُّونَ (۹۰) إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْ أَحَدِہِمْ مِلْئُ الْأَرْضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدَی بِہِ أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ وَمَا لَہُمْ مِنْ نَاصِرِینَ(۹۱)آل عمران
’’ بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر کفر میں بڑھ گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور وہی لوگ سراسر گمراہ ہیں۔ بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر تھے، سو ان کے کسی ایک سے زمین بھرنے کے برابر سونا ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، خواہ وہ اسے فدیے میں دے۔ یہ لوگ ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے اور ان کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔‘‘
ارتداد پہلے سے موجود ہے آج اسی کانام ایکس مسلم رکھ دیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ کفر کی تبلیغ کی جارہی ہے ۔ ان کا طریقۂ کا ر یہ ہے کہ بحث ومباحثہ کے لئے ایسے افراد کاانتخاب کرتے ہیں جن کے پاس علم نہیں لیکن وہ اپنی علمی شہرت کی خواہش رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو سامنے بیٹھا کر ان سے سوالات کئے جاتے ہیں ۔ اسلام پراعتراضات کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے ان اعتراضات کا صحیح جواب نہیں دے پاتے تو پورے عالم کو ایک پیغام جاتاہے کہ اسلام کے اندر یہ جھول ہے۔اس فتنہ کی روک تھام کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ایسے نام نہاد عالموں کو ان کے بحث ومباحثہ میں شریک ہونے سے روکا جائے ۔دوسرے علمائے کرام کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جا ئے جو ان کے اعتراضات کا مسکت جواب دے سکیں اور اسلام پر آنے والے دھبے کو دور کرسکیں۔ارتداد کے مقابلہ کے لئے جس طرح ابتدا ء ہی سے امت میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اس فتنے کا مقابلہ کیا اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جیسے خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہراٹھی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کیا آج بھی ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اس فتنۂ ٔ ارتدادبنام ایکس مسلم کا مقابلہ کرسکیں۔
مسلسل فتنوں کا ظہور
آج کل آئے دن ایسے ایسے فتنے نمودار ہورہے ہیں کہ دین وایمان پر قائم رہنا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوگیاہےایک فتنہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر پر کھڑا ہوجاتاہے یہ دور رسول اللہ کی اس پیشین گوئی کے مطابق چل رہا ہے جس میں آپ ﷺ نے اندھیری رات کی طرح تہ در تہ فتنوں کے بارے میں بتایا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” تَکُونُ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ، فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِیہَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِی کَافِرًا، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیعُ أَقْوَامٌ دِینَہُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا ”.(سنن ترمذی۔کتاب الفتن ۔باب ماجاء ستکون کقطع اللیل المظلم۔حدیث نمبر ۔٢١٩٧ )
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام میں کافر ہو جائے گا، شام میں مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنا دین بیچ دیں گے‘‘۔
جس طرح اندھیری رات میں ظلمت ہر قدم پربڑھتی ہی جاتی جیسے جیسے رات بڑھتی ہے ظلمت بھی گہری ہوتی جاتی ہے اسی طرح آج کے دور میں فتنے پید اہورہے ہیں جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ہیں فتنے نت نئے انداز میں پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ یا جیسے آپ ﷺ نے فتنوں کو بارش کے قطروں سے مشابہت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
عَنْ أُسَامَۃَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ عَلَی أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِینَۃِ، ثُمَّ قَالَ: ” ہَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَی؟ إِنِّی لَأَرَی مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُیُوتِکُمْ کَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ ”(صحیح مسلم۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب نزول الفتن کمواقع القطر ۔حدیث نمبر ٧٢٤٥ )
’’حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قلعوں میں سے ایک قلعے پر چڑھے، پھر فرمایا: ”کیا تم دیکھتے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کے واقع ہونے کے مقامات بارش ٹپکنے کے نشانات کی طرح دیکھ رہا ہوں۔”
موجودہ دور ان دونوں احادیث کی تعبیر ہے ۔فتنے اس تسلسل سے پیدا ہورہے ہیں کہ ابھی ایک فتنہ سے امت جوجھ رہی ہوتی ہے کہ دوسرا فتنہ پیدا ہوجاتاہے اور ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ایسے وقت میں اپنے دین وایمان کی حفاظت واقعی انگاروں پر چلنے کی طرح ہے ۔ جس کو رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی بتادیا ہے :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِیہِمْ عَلَی دِینِہِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ ”(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ۔ باب منہ حدیث نمبر ٢٢٦٠ )
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا۔‘‘
اب تو حالت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ زندہ شخص اپنے آپ کو مردوں سے بدتر سمجھنے لگا ہے اور سب سے زیادہ محفوظ جگہ اپنے لئے قبر کو ہی تصور کرتاہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی یَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَی الْقَبْرِ، فَیَتَمَرَّغُ عَلَیْہِ، وَیَقُولُ: یَا لَیْتَنِی کُنْتُ مَکَانَ صَاحِبِ ہَذَا الْقَبْرِ، وَلَیْسَ بِہِ الدِّینُ إِلَّا الْبَلَائُ ”.'(صحیح مسلم۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَتَمَنَّی أَنْ یَکُونَ مَکَانَ الْمَیِّتِ مِنَ الْبَلاَئِ ۔حدیث نمبر ٧٣٠٢ )
’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!دنیا اس وقت تک رخصت نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص (کسی کی) قبر کے پاس سے گزرے تواس پر لوٹ پوٹ ہوگا اور کہے گا: کاش!اس قبر و الے کی جگہ میں ہوتا اور اس کے پاس دین نہیں ہوگا، بس آزمائش ہوگی۔”
ایسی حالت میں اس سوا کو ئی چارہ نہیں ہے کہ سنت کو اپنے دانتوں سے پکڑلیا جائے تاکہ وہ چھوٹنے نہ پائے۔امیر کی اطاعت لازمی طور پر کی جائے اور اللہ سے مدد کی امید لگاکر رکھاجائے۔ اس لئے کہ یہ فتنے جس طرح سے اللہ کی طرف سے ہمارے لئے آزمائش ہیں اسی طرح ان فتنوں سے بچنے کی راہ دکھانے والا اور ان سے ہماری حفاظت کرنے والا بھی وہی ہے اس لئے اس کا دین مضبوطی سے تھام لیا جائے تو یقینا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی جائے گا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہی بتایا ہے ارشاد ہے:
أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللَّہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّینَ الرَّاشِدِینَ تَمَسَّکُوا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ” وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ”(سنن ابو داؤد ۔ کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ۔حدیث نمبر٤٦٠٧ )
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
فتنوں کے دور میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لئے گوشہ نشیں ہوجانا اور اپنے رب کا حق اداکرنااور اس فتنہ کے رفع کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا اور اگر ضرورت پڑے تو جنگ وجدال سے بھی دریغ نہ کرنا نبی کریم ﷺ کی تعلیم ہے ۔اس لئے کہ کسی فتنے کو پنپنے کے لئے چھوڑ دینا پوری انسانی آبادی کے لئے خطرناک ہے اس لئے اس کے سد باب کے لئے ہرطرح کا حربہ استعمال کرنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أُمِّ مَالِکٍ الْبَہْزِیَّۃِ، قَالَتْ: ذَکَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِتْنَۃً فَقَرَّبَہَا، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَنْ خَیْرُ النَّاسِ فِیہَا، قَالَ: ” رَجُلٌ فِی مَاشِیَتِہِ یُؤَدِّی حَقَّہَا، وَیَعْبُدُ رَبَّہُ، وَرَجُلٌ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہِ یُخِیفُ الْعَدُوَّ، وَیُخِیفُونَہُ ‘(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء کیف یکون الرجل فی الفتنۃ۔ حدیث نمبر۔٢١٧٧ )
’’ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’وہ بہت جلد ظاہر ہو گا‘‘، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس وقت سب سے بہتر کون شخص ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک وہ آدمی جو اپنے جانوروں کے درمیان ہو اور ان کا حق ادا کرنے کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتا ہو، اور دوسرا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو، وہ دشمن کو ڈراتا ہو اور دشمن اسے ڈراتے ہوں۔‘‘
فتنوں کا یہ دور اشارہ کررہا ہے کہ قیامت قریب ہی ہے اور وہ علامات جو بالکل قیامت کے قریب ظاہر ہونے والی ہیں ان کے ظہو ر کا سلسلہ بس شروع ہی ہونے والا ہے ۔
علامات کبریٰ
فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر ہونا
قیامت سے پہلے ایک پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی کہ دریائے فرات سے ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا ۔ ظاہرہے مال ودولت کے حصول کی خواہش ہر شخص کے دل میں ہوتی ہے اس لئے اس وقت ہر آدمی یہ چاہے گا کہ میں اکیلے اس سونے کے پہاڑ کو حاصل کرلوں ۔جس کی وجہ سے باہمی قتل و قتال کی نوبت آجائے گی اور حاصل یہ ہوگا کہ سو میں سے ننانوے آدمی قتل کردیئے جائیں گے ۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَہَبٍ یَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَیْہِ، فَیُقْتَلُ مِنْ کُلِّ مِائَۃٍ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ، وَیَقُولُ کُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ: لَعَلِّی أَکُونُ أَنَا الَّذِی أَنْجُو ”،(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَہَبٍ۔حدیث نمبر٧٢٧٢ )
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہیں آئے گی۔ یہاں تک کہ دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ کو ظاہر کرے گا۔اس پر ہر سو میں سے ننانوے لوگ مارے جائیں گے اور ان میں سے ہر کوئی کہے گا۔ شاید میں ہی بچ جاؤں گا۔
مال ودولت ایک مستقل فتنہ ہے یہ سونے کا پہاڑ بھی ایک فتنہ ہو گا جس سے بچنے کی رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی ہے ۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” یُوشِکُ الْفُرَاتُ أَنْ یَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَمَنْ حَضَرَہُ فَلَا یَأْخُذْ مِنْہُ شَیْئًا ”.(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَہَبٍ۔حدیث نمبر٧٢٧٤ )
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب دریائے فرات سونے کے ایک خزانے کو ظاہر کردے گا جو شخص وہاں موجودہو تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔‘‘
امریکہ عراق جنگ کے وقت کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیاتھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس خزانے کی بات بتائی ہے وہ عراق کا تیل ہے جو سیال سونے کے مانند ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لئے یہ جنگ ہورہی ہے ۔لیکن یہ تعبیر بالکل ہے ۔ بلکہ اس حدیث کے سیاق وسباق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خزانہ دریائے فرات سے نکلے گااور ظاہر ہے کہ عراق کا تیل درریائے فرات سے نہیں نکلتا اور نہ ہی وہ اب تک سوکھا ہے کہ اس کے اندر کا خزانہ ظاہر ہو ۔ اس لئے سونے کے پہاڑ کی تعبیر تیل سے نہیں کی جاسکتی ۔ یہ علامات قیامت میں سے ہے اور ان علامات میں سے ہے جن کوعلامات کبریٰ کہا جاتا ہے جو بالکل قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے ۔
حضرت مہدی کاظہور
قیامت کے قریبی علامات میں سے ایک بڑی علامت حضرت مہدی علیہ الرضوان کا امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی رہنمائی کے لئے آنا ہے ۔حضرت مہدی کی آمد کا تذکرہ احادیث میں کثر ت سے آیا ہے اسی لئے بہت سارے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے جن میں سے کچھ کا تذکرہ گذشتہ صفحات میں ہوا ہے۔حضرت مہدی کی شخصیت ، ان کی پہچان سب کچھ احادیث میں مذکور ہے یہ وہ پیشین گوئی ہے جس کے پورا ہونے کا امت انتظار کر رہی ہے۔
یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ بالکل بند ہوگیا ہے اب نبوت اپنی تمام ترقسموں کے ساتھ بند ہوچکی ہے اور کوئی نبی نہیں آنے والا اور اگرکوئی نبوت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ کذاب ہوگا۔لیکن آپ ﷺ کے ذریعہ لائی گئی شریعت قیامت تک باقی رہے گی اور اس کے ماننے والے بھی باقی رہیں گے ۔ظاہر ہے جوحالات رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں تھے وہ آج نہیں ہے ۔ اسباب و ذرائع اور آلات واوزار جو آج موجود ہیں وہ پہلے کے زمانے میں نہیں تھے۔انسانی زندگی متنوع ہے اور ابتدائے آفرینش سے اس میں روز بروز تبدیلیاں ہوتی آئی ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ قرآن وحدیث میں جو تعلیمات ہیں وہ رہتی دنیا تک کی رہنمائی کرنے والے ہیںاس لئے ان آیات واحادیث کی روشنی میں نت نئے مسائل کے حل کے لئے اللہ کی طرف سے ایک سلسلہ جاری ہے کہ ہر صدی میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو پید اکرتے ہیں جو بدلے ہوئے حالات میں نئے مسائل کا کھوج قرآن و حدیث اور سیر ت وسنت میں تلاش کر امت کے لئے عمل کو آسان بناتاہے ۔ ایسے شخص کواصطلاح میں مجدد کہا جاتاہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِیمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِنَّ اللَّہَ یَبْعَثُ لِہَذِہِ الْأُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِینَہَا”(سنن ابو داود۔کتاب الملاحم۔باب مایذکر فی قرن المائۃ۔ حدیث نمبر٤٢٩١ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔
حضرت مہدی علیہ الرضوان اس امت کے لئے ایک مجدد کی حیثیت سے پیدا ہوںگے جو نئے حالات میں امت محمدیہ کی رہنمائی فرمائیں گے۔چونکہ آپ آخری مجدد ہوںگے اس کے علاوہ آپ کے دور میں کچھ ایسے واقعات پیش آئیں گے جو اس دنیا میں پہلی اور آخری بار پیش آئیں گے اس لئے آپ کا تذکرہ خصوصی طور پر علامات قیامت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت مہدی آئیں گے اور امت کی رہنمائی فرمائیں گے ۔اور امت کا کوئی طبقہ چاہے وہ گمراہ ہی کیوں نہ ہوہر ایک کے یہاں مہدی کا تصور موجود ہے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام کے نام پر جتنے بھی فرقے پیدا ہوئے ان تمام میں ایسے افراد گذرے ہیںجنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اگر ان کے یہاںمہدی کاتصور نہ ہو تا تو یہ دعویٰ ہر گز نہ کرتے۔واضح رہے کہ روافض کے یہاں جو مہدی کا تصور ہے وہ جمہور اہل سنت کے عقیدہ کے خلاف ایک گھڑی ہوئی بات ہے ان کے مطابق مہدی سامرا کے غاروں میں چھپے ہوئے ہیں اور قرب قیامت ظاہر ہوں گے ۔ علامہ ابن کثیر نے اس کے بارے میں لکھاہے:
’’یہ مہدی خلفائے راشد ین اور ائمہ مہدیین میں سے ہیں۔ یہ وہ منتظر مہدی نہیں ہے جو روافض نے گھڑ رکھا ہے جو ان کے خیال میں سامرا کے ایک غار سے برآمد ہوگا۔ اس عقیدے کی کوئی حقیقت اور کوئی نقلی آ ثارموجود نہیں۔ البتہ جسے ہم بیان کررہے ہیں اس کا ذکر بے شمار احادیث میں موجود ہے کہ وہ آخری زمانے میں ہوگا اور غالب یہ ہے کہ اس کا ظہور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہوگا۔ ‘‘(البدایہ والنہایہ اردو۔جلد۱۵،ص،۳۲نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )
حضرت مہدی علیہ الرضوان کی کچھ علامات احادیث نبوی میں موجود ہیں جن کی روشنی میں امت ان کو پہچان لے گی اور پھر ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے فتنوں کا مقابلہ کرے گی ۔ ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حضرت مہدی خاندان نبوت میں سے ہوں گے اور ان کا نام بھی ہمارے نبی کے نام پر محمد یا احمد ہوگا ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَذْہَبُ الدُّنْیَا حَتَّی یَمْلِکَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی یُوَاطِئُ اسْمُہُ اسْمِی(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر٢٢٣٠ )
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہو گا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا‘‘۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:” الْمَہْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِی مِنْ وَلَدِ فَاطِمَۃَ”،(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر٤٢٨٤ )
’’ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے‘‘۔
خاندان نبوت سے ہونے کا مطلب ہی ہے کہ وہ حضرت فاطمہ کی اولاد میں ہوں گے اس لئے کہ آپ ﷺ کی اولاد نرینہ یا دیگر بنات سے نسل آگے نہیں بڑھی ۔ایک روایت سے یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہوں گے ۔
عَنْ أَبِی إِسْحَاق، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: وَنَظَرَ إِلَی ابْنِہِ الْحَسَنِ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ کَمَا سَمَّاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَیَخْرُجُ مِنْ صُلْبِہِ رَجُلٌ یُسَمَّی بِاسْمِ نَبِیِّکُمْ یُشْبِہُہُ فِی الْخُلُقِ وَلَا یُشْبِہُہُ فِی الْخَلْقِ، ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً یَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا.(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر٤٢٩٠ )
’’حضرت ابواسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا، اور کہا: ’’یہ میرا بیٹا سردار ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام رکھا ہے، اور عنقریب اس کی نسل سے ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جس کا نام تمہارے نبی کے نام جیسا ہو گا، اور سیرت میں ان کے مشابہ ہو گا البتہ صورت میں مشابہ نہ ہو گا‘‘ پھر انہوں نے ’’سیملأ الأرض عدلاً‘‘ کا واقعہ ذکر کیا۔‘‘
حضرت مہدی کی ولادت اس وقت ہوگی جب کہ یہ دنیا ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی اور وہ تشریف لاکر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے اور سات سال تک اس دنیا میں ان کی حکومت قائم رہے گی۔ان کی پہچان یہ ہے کہ ان کی پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” الْمَہْدِیُّ مِنِّی أَجْلَی الْجَبْہَۃِ أَقْنَی الْأَنْفِ یَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ”.(سنن ابوداؤد ۔کتاب المہدی ،باب ۔ حدیث نمبر٤٢٨٥ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہدی میری اولاد میں سے کشادہ پیشانی، اونچی ناک والے ہوں گے، وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے، ان کی حکومت سات سال تک رہے گی‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق صحابۂ کرام کو حضرت مہدی کی آمد کااس قدر یقین تھا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن بھی باقی رہے گی تو بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو اس قدر لمبا کردیں گے کہ حضرت مہدی آکر اپنی حکومت کی مدت پوری کرلیں گے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” یَلِی رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِی یُوَاطِئُ اسْمُہُ اسْمِی ”، قَالَ عَاصِمٌ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللَّہُ ذَلِکَ الْیَوْمَ حَتَّی یَلِیَ۔(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر٢٢٣١ )
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے گھرانے کا ایک آدمی جو میرا ہم نام ہو گا حکومت کرے گا‘‘۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا یہاں تک کہ وہ آدمی حکومت کر لے۔‘‘
حضرت مہدی علیہ الرضوان اس روئے زمین پر عدل وانصاف کاایسا ماحول قائم کریں گے کہ ہر شخص خوشحال اور فارغ البال ہوجائے گااور مال غنیمت نیز صدقات و خیرا ت کی کثرت کی وجہ سے مال بہت زیادہ جمع ہوگا یہاں تک کہ کوئی سائل اگر سوال کرے گا تو اسے اتنا مل جائے گا کہ وہ ا س بوجھ کو اٹھا نہیں سکے گا۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: خَشِینَا أَنْ یَکُونَ بَعْدَ نَبِیِّنَا حَدَثٌ، فَسَأَلْنَا نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” إِنَّ فِی أُمَّتِی الْمَہْدِیَّ یَخْرُجُ یَعِیشُ خَمْسًا، أَوْ سَبْعًا، أَوْ تِسْعًا ”، زَیْدٌ الشَّاکُّ، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: ” سِنِینَ ”، قَالَ: ” فَیَجِیئُ إِلَیْہِ رَجُلٌ، فَیَقُولُ: یَا مَہْدِیُّ، أَعْطِنِی أَعْطِنِی، قَالَ: فَیَحْثِی لَہُ فِی ثَوْبِہِ مَا اسْتَطَاعَ أَنْ یَحْمِلَہُ ”(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی المہدی ۔ حدیث نمبر٢٢٣٢ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے ڈرے کہ ہمارے نبی کے بعد کچھ حادثات پیش آئیں، لہٰذا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’میری امت میں مہدی ہیں جو نکلیں گے اور پانچ، سات یا نو تک زندہ رہیں گے، (اس گنتی میں زیدالعمی کی طرف سے شک ہوا ہے‘‘، )راوی کہتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ان گنتیوں سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: سال۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر ان کے پاس ایک آدمی آئے گا اور کہے گا: مہدی! مجھے دیجئے، مجھے دیجئے، آپ نے فرمایا: ’’وہ اس آدمی کے کپڑے میں اتنا رکھ دیں گے کہ وہ اٹھا نہ سکے گا‘‘۔
حضرت مہدی کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی ہوگی کہ ان کے ساتھ غیب سے ایک منادی ہوگا جو یہ اعلان کرتاہوگاکہ یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں تم ان کی اتباع کرو۔
عن ابن عمررضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یخرج المہدی و علی رأسہ عمامۃ، فیأتی مناد ینادی: ہذا المہدی خلیفۃ اللہ فاتبعوہ.(الحاوی للفتاوی ۔تالیف جلال الدین سیوطی ۔ جلد ۲ ص۵۸دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ )
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے سر پر عمامہ ہوگا۔ پس ایک منادی یہ آواز بلند کرتے ہوئے آئے گا کہ یہ مہدی ہیں جو اللہ کے خلیفہ ہیں۔ سو تم ان کی اتباع و پیروی کرو۔‘‘
حضرت مہدی کی پیدائش کے بعد لوگ ان کو مہدی کی حیثیت سے نہیں پہچانیں گے بلکہ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گذاریں گے لیکن جب ان کی عمر چالیس سال کی ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ان کے اندر ایسے قائدانہ اوصاف پیدا کردیں گے کہ لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کے جھنڈے تلے عرب و عجم سب جمع ہوجائیں گے اور اس وقت کفر وشرک کی ظلمت کو مٹانے کے لئے ان کا ساتھ دیں گے ۔ اس لئے یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتاہے کہ جب حضرت مہدی اتنی بڑی شخصیت ہیں تو ان کے کمال تو بچپن سے ہی ظاہر ہوجانے چاہئیں اس لئے کہ دنیا میں جتنی بھی قیادتیں پیدا ہوئی ہیں ان کی نمایاں صفات بچپن سے ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پردۂ خفا ہوگا اور جب اللہ کی مرضی ہوگی تو ان کی حیثیت عرفی کماحقہ ٗظاہر ہوجائے گی ۔ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے :
عَنْ عَلِیٍّؓ, قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” الْمَہْدِیُّ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ, یُصْلِحُہُ اللَّہُ فِی لَیْلَۃٍ”(سنن ابن ماجہ ۔کتاب الفتن ، باب خروج المہدی ۔ حدیث نمبر٤٠٨٥ )
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو صالح بنا دے گا‘‘۔
مسلمانوں میں جس طرح آج قیادت کا فقدان ہے اور اگر کوئی قیادت ابھرتی بھی ہے تو لوگ متفقہ طور پر اس کو قائد ماننے کو تیار نہیں ہوتے نتیجہ یہ ہے کہ تمام ترجماعتیں اور افراد اصلاح کی تمام ترکوششیں کرنے کے بعد بھی کامیاب نہیں ہورہی ہیں۔اس لئے کہ اگرچہ سب کے سب محنت کررہے ہیں مال واسباب بھی خرچ کررہے ہیں اور بہت حد تک اخلاص بھی موجود ہے لیکن پوری امت کی کوششیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوکر مختلف سمتوں میں ہورہی ہے اور ایک دوسرے کو باہمی تعاون حاصل نہیں ہے اس لئے ان کی جدوجہد بیجان اور کمزور ثابت ہورہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت مہدی کے اندر وہ تمام صلاحتیں ایک ہی دن میں پیدا کردیں گے جن کی وجہ سے وہ تمام جماعتوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور جب اتحاد قائم ہوجائے گاتو مضبوطی بھی آجائے اور سمت بھی متعین ہوجائے گی اس لئے ان کی کوششوں میں جان اور طاقت پیدا ہوجائے گی اور پھرکامیابی حاصل ہوگی اور امن و امان کے ساتھ انصاف و عدل کی عالمی خلافت بھی قائم ہوگی ۔
حضرت مہدی کے ظہور کے وقت حالات نہایت خراب ہوں گے مسلمانوں کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کردی جائے گی اور ایک طرح سے ان کاسوشل بائیکاٹ کردیا جائے ۔ ان کو کوئی غلہ نہیں دے گا اور نہ ہی ان کے پاس مال و دولت ہوگی یعنی نہایت کس مپرسی کی حالت ہوگی ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان حالات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے:
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما، قال: یوشک اہل العراق أن لا یجیء إلیہم درہم ولا قفیز، قالوا: مم ذالک یا أبا عبد اللہ؟ قال: من قبل العجم یمنعون ذاک، ثم سکت ہنیہۃ ثم قال: یوشک أہل الشام أن لا یجیء إلیہم دینار، ولا مد، قالوا: مم ذاک؟ قال: من قبل الروم یمنعون ذلک، ثم قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکون فی أمتی خلیفۃ یحثی المال حثیا لا یعدہ عدا ثم قال: والذی نفسی بیدہ، لیعودن الأمر کما بدا لیعودن کل إیمان إلی المدینۃ کما بدا منہا حتی یکون کل إیمان بالمدینۃثم قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یخرج رجل من المدینۃ رغبۃ عنہا إلا ابدلہا اللہ خیرا منہ، ولیسمعن ناس برخص من أسعار وریف فیتبعونہ، والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون۔(المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم۔مترجم اردو جلد ۶ ص ۵۶۹۔۵۷۰۔حدیث نمبر ٨٤٠٠ )شبیر برادرز اردو بازار لاہور۲۰۱۳ء)
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “وہ وقت قریب ہے کہ عراق والوں کے پاس روپے اور غلہ آنے پر پابندی لگا دی جائےگی . ان سے پوچھا گیا کہ یہ پابندی کس کی جانب سے ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عجمیوں کی جانب سے. پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب اھل شام پر بھی یہ پابندی لگادی جائے گی پوچھا گیا یہ رکاوٹ کس کی جانب سے ہوگی ؟ فرمایا اھل روم کی جانب سے پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لپ بھر بھر کے دے گا اور شمار نہیں کرے گا. نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے یقینا” اسلام اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹے گا جس طرح کے ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی حتی کہ ایمان صرف مدینہ میں رہ جائے گا پھر آپ نے فرمایا کہ مدینہ سے جب بھی کوئی بے رغبتی کی بناء پرنکل جائے گا تو اللہ اس سے بہترکو وہاں آباد کردے گا. کچھ لوگ سنیں گے کہ فلاں جگہ پر ارزانی اور باغ و زراعت کی فراوانی ہے تو مدینہ چھوڑ کروہاں چلے جائیں گے حالانکہ ان کے واسطے مدینہ ہی بہتر تھا کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں ۔‘‘
قیامت کے قریب امت میں انتشار اور اختلاف کی کثرت ہوجائے گی لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے کوئی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوگااور مسلمانوں کا کوئی متفقہ امام نہیں ہوگا ایسے وقت میں حضرت مہدی مدینہ سے مکہ کا رخ کریں گے اور لوگ راستے میں ہی انہیں پہچان لیں گے اور ان سے بیعت کرنا چاہیں گے لیکن اول اول آپ انکار فرمائیں گے لیکن جب اصرار بڑھے گا تو حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیٹھ کر آپ بیعت کریں گے۔اس بیعت کی خبر دنیا میں تیزی سے پھیل جائے گی جس کی وجہ سے کفار ومشرکین کی ریشہ دوانیاں مزید تیز ہوجائیں گی اور اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں میں جو اجتماعیت کی راہ کھلے گی اس کو توڑنے اور ختم کرنے کے لئے مختلف علاقوں سے فوجیں نکل پڑیں گی ان میں سے ایک فوج شام کی طرف سے آئے گی جسے مکہ اور مدینہ کے درمیان بیداء کے مقام میں دھنسادیا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے مومنین مسلمین کی مدد اورصریح نصرت ہوگی جس کی شہرت کی وجہ سے لوگ جوق در جوق حضرت مہدی علیہ الرضوان سے بیعت کرنے کے لئے چل پڑیں گے ۔ اسی درمیان بنی کلب کی طرف سے ایک لشکر آئے گا جس کا براہ راست حضرت مہدی کی فوج سے مقابلہ ہوگا اور اللہ کی مدد سے فتح حاصل ہوگی اورمال غنیمت رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔اس سلسلہ میں ایک روایت ابوداؤ میں موجود ہے :
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” یَکُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِیفَۃٍ فَیَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ ہَارِبًا إِلَی مَکَّۃَ فَیَأْتِیہِ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ فَیُخْرِجُونَہُ وَہُوَ کَارِہٌ، فَیُبَایِعُونَہُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ وَیُبْعَثُ إِلَیْہِ بَعْثٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ، فَیُخْسَفُ بِہِمْ بِالْبَیْدَائِ بَیْنَ مَکَّۃَ، وَالْمَدِینَۃِ فَإِذَا رَأَی النَّاسُ ذَلِکَ أَتَاہُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَیُبَایِعُونَہُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ یَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ أَخْوَالُہُ کَلْبٌ، فَیَبْعَثُ إِلَیْہِمْ بَعْثًا فَیَظْہَرُونَ عَلَیْہِمْ وَذَلِکَ بَعْثُ کَلْبٍ وَالْخَیْبَۃُ لِمَنْ لَمْ یَشْہَدْ غَنِیمَۃَ کَلْبٍ فَیَقْسِمُ الْمَالَ وَیَعْمَلُ فِی النَّاسِ بِسُنَّۃِ نَبِیِّہِمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیُلْقِی الْإِسْلَامُ بِجِرَانِہِ إِلی الْأَرْضِ فَیَلْبَثُ سَبْعَ سِنِینَ ثُمَّ یُتَوَفَّی وَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ”(سنن ابو داؤد۔کتاب المہدی باب۔حدیث نمبر٤٢٨٦ )
’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے، اسے یہ پسند نہ ہو گا، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا نانیہال بنی کلب میں ہو گا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا، وہ اس پر غالب آئیں گے، یہی کلب کا لشکر ہو گا، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا، اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا، پھر وفات پا جائے گا، اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے‘‘۔
عن محمد بن الحنفیۃ قال: کنا عند علی رضی اللہ عنہ، فسألہ رجل عن المہدی، فقال علی رضی اللہ عنہ: ہیہات، ثم عقد بیدہ سبعا، فقال: ” ذاک یخرج فی آخر الزمان إذا قال الرجل: اللہ اللہ قتل، فیجمع اللہ تعالی لہ قوما فزعا کقرع الشحاب، یؤلف اللہ بین قلوبہم لا یستوحشون إلی أحد، ولا یفرحون بأحد، یدخل فیہم علی عدۃ اصحاب بدر، لم یسبقہم الأولون ولا یدرکہم الأخرون، وعلی عدد أصحاب طالوت الذین تجاوزوا معہ النّہر، قال ابو الفقیل: قال ابن الحنفیۃ: أتریدہ؟ قلت: نعم، قال: إنہ یخرج من بین ہذین الخشبتین، قلت: لا جرم واللہ لا أریہما حتی أموت، فمات بہا یعنی مکۃ حرسہا اللہ تعالی۔(المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم۔مترجم اردو جلد ۶ ص ۷۴۱۔حدیث نمبر ٨٦٥٩ )شبیر برادرز اردو بازار لاہور۲۰۱۳ء)
’’محمد بن الحنفیہ روایت کرتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان سے مہدی کے بارے میں پوچھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ دور ہو، پھر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مہدی کا ظہور آخر زمانہ میں ہوگا (اور بے دینی کا اس قدر غلبہ ہوگا کہ) اللہ کے نام لینے والے کو قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جماعت کو ان کے پاس اکٹھا کر دے گا، جس طرح بادل کے متفرق ٹکڑوں کو مجتمع کر دیتا ہے اور اْن میں یگانگت و اْلفت پیدا کر دے گا۔ یہ نہ تو کسی سے خوفزدہ ہوں گے اور نہ کسی کے انعام کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ مہدی کے پاس اکٹھا ہونے والوں کی تعداد اصحابِ بدر کی تعداد کے مطابق ہوگی۔ اس جماعت کو ایک ایسی فضیلت حاصل ہوگی جو ان سے پہلے والوں کو حاصل ہوئی ہے نہ بعد والوں کو حاصل ہوگی۔ نیز اس جماعت کی تعداد اصحابِ طالوت کی تعداد کے برابر ہوگی۔ جنہوں نے طالوت کے ہمراہ نہر کو عبور کیا تھا۔ حضرت ابوالطفیل کہتے ہیں کہ محمد بن الحنفیہ نے مجمع سے پوچھا کیا تم اس جماعت میں شریک ہونے کا ارادہ اور خواہش رکھتے ہو، میں نے کہا ہاں توانہوں نے دو ستونوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ مہدی کا ظہور انہی کے درمیان ہوگا۔ اس پر حضرت ابوالطفیل نے فرمایا بخدا میں ان سے تاحیات جدا نہ ہوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوالطفیل کی وفات مکہ معظمہ ہی میں ہوئی۔‘‘
حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو کئی فتوحات نصیب ہوں گی ان میں ایک بیت المقدس کی فتح ہے جس کے بارے میں رسول اللہ کی پیشین گوئی موجود ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، أنہَ قَالَ: ” یَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَایَاتٌ سُودٌ، لَا یَرُدُّہَا شَیْئٌ حَتَّی تُنْصَبَ بِإِیلِیَائَ”.(مسند احمد ۔مسند ابی ھریریرہ حدیث نمبر٨٧٧٥ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی چیز لوٹا نہ سکے گی یہاں تک کہ وہ بیت المقدس پر جا کر نصب ہوجائیں گے۔
اس روایت سے ایک تو یہ معلوم ہوتاہے کہ بیت المقدس کی فتح مسلمانوں کو نصیب ہوگی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس فوج کا جھنڈا کالے رنگ کا ہوگا۔
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ خروج دجال سے پہلے ایک عظیم جنگ ہوگی اور قسطنطنیہ کی فتح بھی ہوگی ۔یہ واقعات صرف سات مہینوں میں پورے ہوجائیں گے ۔ چونکہ یہ جنگ خروج دجال سے پہلے ہوگی بلکہ اسی جنگ کے درمیان خروج دجال کی جھوٹی افواہ بھی پھیلی گی ۔اور یہ بات معلوم ہے کہ دجال کے خروج سے پہلے حضرت مہدی اس دنیا میں موجو د ہوں گے اس کامطلب ہے کہ یہ جنگ عظیم بھی حضرت مہدی کی قیادت میں ہی لڑی جائے گی ۔ بعض روایات سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” الْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمَی وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِینِیَّۃِ وَخُرُوجُ الدَّجَّالِ فِی سَبْعَۃِ أَشْہُرٍ ”،(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی علامات خروج الدجال۔حدیث نمبر٢٢٣٨ )
’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ملحمہ عظمی ، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال سات مہینے کے اندر ہوں گے‘‘۔
یہ بات پہلے آچکی ہے کہ قسطنطنیہ موجودہ ترکی کا صدر مقام ہے جسے استنبول کے نام سے جاناجاتاہے اور سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح ہو ا تو آج تک مسلمانوں کے ہی قبضے میں ہے آب آئندہ صورت حال کیا ہوگی کیا قسطنطنیہ پر دوبارہ غیر مسلموں کا قبضہ ہوجائے گا یا کوئی اور صورت پید اہو گی ۔یہ تو حقیقت ہے کہ ترکی پر جس طرح پورے مغربی ممالک کی نظر ہے اور موجودہ اسرائیل نے جو اپنا مجوزہ نقشہ عظیم اسرائیل کا بنایا ہے اس میں ترکی بھی شامل ہے اس لئے ممکن ہے کہ حالات مخالف ہوں اور ترکی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے اور پھر اس کو دوبارہ حضرت مہدی کے ہاتھوں فتح نصیب ہو ۔ کیا صورتحال ہوگی اللہ بہتر جانتاہے ۔ مسلم شریف کی ایک لمبی روایت ہے جس میں رومی عیسائیوں سے جنگ کی تفصیل اور قسطنطنیہ کے فتح کے ساتھ ساتھ خروج دجال اور نزول عیسی مسیح علیہ السلام کا ذکربھی آیا ہے ذیل میں و ہ حدیث نقل کی جارہی ہے:
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃ َ، أَنّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَیَخْرُجُ إِلَیْہِمْ جَیْشٌ مِنْ الْمَدِینَۃِ مِنْ خِیَارِ أَہْلِ الْأَرْضِ یَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتْ الرُّومُ: خَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الَّذِینَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْہُمْ، فَیَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّہِ لَا نُخَلِّی بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ إِخْوَانِنَا، فَیُقَاتِلُونَہُمْ، فَیَنْہَزِمُ ثُلُثٌ لَا یَتُوبُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ أَبَدًا، وَیُقْتَلُ ثُلُثُہُمْ أَفْضَلُ الشُّہَدَائِ عِنْدَ اللَّہِ، وَیَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا یُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَیَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِینِیَّۃَ فَبَیْنَمَا ہُمْ یَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُیُوفَہُمْ بِالزَّیْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِیہِمُ الشَّیْطَانُ إِنَّ الْمَسِیحَ قَدْ خَلَفَکُمْ فِی أَہْلِیکُمْ، فَیَخْرُجُونَ وَذَلِکَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَائُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَیْنَمَا ہُمْ یُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ یُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ، فَیَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَّہُمْ، فَإِذَا رَآہُ عَدُوُّ اللَّہِ ذَابَ کَمَا یَذُوبُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ، فَلَوْ تَرَکَہُ لَانْذَابَ حَتَّی یَہْلِکَ، وَلَکِنْ یَقْتُلُہُ اللَّہُ بِیَدِہِ فَیُرِیہِمْ دَمَہُ فِیْ حَرْبَتِہِ۔ (صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔ باب فی فتح قسطنطنیہ الخ…حدیث نمبر٧٢٧٨ )
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق میں اتریں گے۔ان کے ساتھ مقابلے کے لیے شہر سے اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ صف آرا ء ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وہ ان سے جنگ کریں گے۔ان میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے۔وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔ مسیح (دجال)تمھارپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا۔اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلے گا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائے گا۔ ‘‘
اعماق شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ ہے جو دابق شہر سے متصل واقع ہے ۔ ابھی تو یہ علاقے مسلمانوں کے تسلط میں ہیں لیکن حدیث کے مفہوم سے یہ مشار ہوتاہے کہ کسی وقت مسلمان ان علاقوں کو کھودیں گے اور وہ علاقے غیر مسلموں کے زیر تسلط چلے جائیں گے۔اب یہ لوگ عیسائی ہوں گے یا یہودی یہ متعین نہیں ہے ۔ بہر حال ان سے مقابلہ کے لئے مسلمان نکلیں گے اور ظاہر ہے کہ اس وقت حضرت مہدی روئے زمین پر موجود ہوں گے اس لئے قیادت بھی انہیں کی ہوگی ۔ مسلمانوں کا لشکر تین حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں سے ایک حصہ تو اپنی شکست تسلیم کرکے میدان چھوڑ دے گااور دوسرا حصہ اللہ کی راہ میں شہادت کا مقام پائے گا اور تیسرے حصہ کو اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائیں گے۔
خروج دجال
حضرت مہدی انہیں جنگوں میں مصروف ہوں گے کہ دجال کا خروج ہوگا اور امت ایک بہت بڑے فتنہ میں پڑجائے گی ۔ دجال کے آمد کی خبریں اور اس کے حالات احادیث میں کثرت سے آئے ہیں۔ یہ فتنہ اتنا بڑا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کو اس فتنہ سے پناہ مانگنے کی باضابطہ تعلیم وھدایت دی ہے اور دجال کے فتنہ سے ڈرایا بھی ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:” قَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّاسِ، فَأَثْنَی عَلَی اللَّہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ ذَکَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنِّی لَأُنْذِرُکُمُوہُ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَہُ قَوْمَہُ، وَلَکِنِّی سَأَقُولُ لَکُمْ فِیہِ قَوْلًا لَمْ یَقُلْہُ نَبِیٌّ لِقَوْمِہِ، إِنَّہُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ اللَّہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ”.(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر٧١٢٧ )
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی۔ پھر دجال کا ذکر فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو، البتہ میں تمہیں اس کے بارے میں ایک بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی تھی اور وہ یہ کہ وہ کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنی نمازوں میں دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” یَسْتَعِیذُ فِی صَلَاتِہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ”.(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر٧١٢٩ )
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ اپنی نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔‘‘
حق بات یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی فتنے پیدا ہوئے یا پیدا ہوں گے ان میں سب سے بڑا فتنہ دجال کافتنہ ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت سی چیزوں میں چھوٹ دے دیا ہے ۔شیطان اس کا مددگار ہوگا اور یہ شیطان کو آخری چھوٹ ہوگی اس لئے وہ اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دے گا کہ ایمان والوں کو زیادہ سے زیادہ دین سے پھیردیا جائے ۔اب سے پہلے جتنے لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیایا خدائی کا دعویٰ کیا ان کا دعویٰ محض دعویٰ تھا یا زیادہ سے زیادہ ظاہری اسباب ان کے پاس تھوڑے زیادہ تھے جن کے بل پر انہوں نے خدائی کا دعویٰ کردیا لیکن ان کاجھوٹ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگیا ۔ لیکن دجال جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے اثبات کے لئے اس کے پاس خرق عادت علامات ہوں گی جن کی وجہ سے سیدھے سادے لوگ اس کی جال میں پھنس جائیں گے جس چیز کا وہ دعویٰ کرے گا اس کو ہاتھوں ہاتھ کرکے دکھائے گا ۔ اس کے پاس اسباب و آلات کی کمی نہیں ہوگی ، نعمتوں کا انبارہوگا جو وہ اپنے ماننے والوں پر لٹائے گا، طاقت و قدرت حاصل ہوگی جس کو وہ اپنے مخالفین پر آزمائے گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ حُذَیْفَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِی الدَّجَّالِ:”إِنَّ مَعَہُ مَائً وَنَارًا، فَنَارُہُ مَائٌ بَارِدٌ، وَمَاؤُہُ نَارٌ”، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر٧١٣٠ )
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی اور اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہو گی اور پانی آگ ہو گا۔‘‘
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن سے دجال خوش ہوگا اسے ٹھنڈا پانی پلائے گا لیکن وہ ٹھنڈا پانی درحقیقت جہنم کی آگ ہے جسے لوگ ایمان بیچ کر حاصل کریں گے اور جن سے وہ ناخوش ہوگا ان کو وہ آگ میں ڈالے گا ظاہر ہے آگ سے تکلیف تو ہوگی لیکن اس تکلیف کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسا ٹھنڈا پانی پلایا جائے گا کہ کبھی پیاس محسوس نہیں ہوگی ۔
رسول اللہ ﷺ کوچونکہ اپنی امت کی فکر ہر وقت لگی رہتی تھی اور صرف ان کی ہی نہیں جو آپ ﷺ کے سامنے موجود تھے بلکہ ان کی بھی فکر ہمیشہ رہتی تھی جو قیامت تک آپ ﷺ کی امت میں پید ا ہونے والے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے دجال کی علامات اور اس کے فتنوں سے بچنے کی ترکیبیں بھی بتائی ہیں ۔ احادیث میں اس کی جسمانی علامات میں نمایاں علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوا ہوگا جس کو دیکھ کر ہر مومن پہچان لے گا کہ یہ دجال ہے اس لئے اس کے دجل و فریب میں نہیں آئے گا بلکہ اس کی مخالفت کرے گا اور اس ضمن میں اگر اس کو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں تواٹھائے گا اور اللہ سے اجرو ثواب کی امید رکھے گا۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” مَا بُعِثَ نَبِیٌّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَہُ الْأَعْوَرَ الْکَذَّابَ، أَلَا إِنَّہُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّ بَیْنَ عَیْنَیْہِ مَکْتُوبٌ: کَافِرٌ”(صحیح بخاری ۔کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال حدیث نمبر٧١٣١ )
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو نبی بھی مبعوث کیا گیا تو انہوں نے اپنی قوم کو کانے جھوٹے سے ڈرایا، آگاہ رہو کہ وہ کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’کافر‘‘ لکھا ہوا ہے۔‘‘
دجال کہا ں سے نکلے گا؟
دجال کی نکلنے جگہ کیاہوگی اس سے متعلق روایات مختلف ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خراسان سے نکلے گا:
عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” الدَّجَّالُ یَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ، یُقَالُ لَہَا: خُرَاسَانُ، یَتْبَعُہُ أَقْوَامٌ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ ”(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء من این یخرج الدجال۔ حدیث نمبر٢٢٣٧ )
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ’’دجال مشرق میں ایک جگہ سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے، اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔‘‘
ترمذی ہی کی ایک دوسری روایت جس کا ذکر آگے آرہا ہے اس میں ہے کہ وہ عراق اور شام کے درمیان نکلے گا۔مسند ابویعلیٰ موصلی کی روایت کے الفاظ ہیں: یھبط الد جال خوزَ وکرمانَ فی ثمانین الفا یتنعلون الشعر و یلبسون الطیالسۃ کان وجوھھم المجان المطرقہ۔(حدیث نمبر ۵۹۸۶جلد ۱۰ ، ص ۳۸۰)’’دجال، خوز اور کرمان میں اسی ہزار (ہمرایوں )کے ساتھ اترے گا، وہ بالوں کا جوتاپہنیں گے اور ریشمی کپڑے پہنیں گے، اور ان کے چہرے ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔‘‘مستدرک حاکم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : یخرج الدجال من یہودیۃ اصبھان’’دجال یہودیہ اصبھان سے نکلے گا‘‘(مستدرک حاکم مترجم اردو حدیث نمبر۸۶۱۱۔جلد ۶ ۔ ص۶۹۷)
ان چاروں روایات میں چار جگہوں کا ذکر آیا ہے جہاں سے دجال کا خروج ہوگا ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت مفتی سعید احمد پالنپوری نے اس طرح لکھا ہے :
’’ان روایات میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ دجال کاخروج اولین شام وعراق کی وسطی گھاٹی سے ہوگا ، مگر اس وقت اس کی شہرت نہ ہوگی اور اس کے اعوان و انصاریہودیہ گاؤں میں اس کے منتظر ہوں گے ، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑاؤ حوز وکرمان میں کرے گا ،پھر مسلمانوں کے خلاف خراسان سے حملہ آور ہوگا‘‘ (تحفۃ الالمعی جلد ۵، ص ۶۰۶۔۶۰۷)
ترمذی کی ایک طویل روایت ہے جس میںرسول اللہ ﷺ نے قیامت کے مختلف علامات ، خروج دجال ، نزول عیسیٰ علیہ السلام ،خروج یاجوج ماجوج اور ان کی ہلاکت نیز قیام قیامت کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ ذیل میں وہ روایت دیکھیں :
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِیِّ، قَالَ: ذَکَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاۃٍ فَخَفَّضَ فِیہِ وَرَفَّعَ حَتَّی ظَنَنَّاہُ فِی طَائِفَۃِ النَّخْلِ، قَالَ: فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَیْہِ فَعَرَفَ ذَلِکَ فِینَا، فَقَالَ: ” مَا شَأْنُکُمْ؟ ” قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ذَکَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاۃَ فَخَفَّضْتَ فِیہِ وَرَفَّعْتَ حَتَّی ظَنَنَّاہُ فِی طَائِفَۃِ النَّخْلِ، قَالَ: ” غَیْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِی عَلَیْکُمْ إِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا فِیکُمْ فَأَنَا حَجِیجُہُ دُونَکُمْ، وَإِنْ یَخْرُجْ وَلَسْتُ فِیکُمْ فَامْرُؤٌ حَجِیجُ نَفْسِہِ وَاللَّہُ خَلِیفَتِی عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّہُ شَابٌّ قَطَطٌ عَیْنُہُ طَافِئَۃٌ، شَبِیہٌ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ رَآہُ مِنْکُمْ فَلْیَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَۃِ أَصْحَابِ الْکَہْفِ، قَالَ: یَخْرُجُ مَا بَیْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ یَمِینًا وَشِمَالًا، یَا عِبَادَ اللَّہِ، اثْبُتُوا ”، قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، وَمَا لَبْثُہُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ: ” أَرْبَعِینَ یَوْمًا، یَوْمٌ کَسَنَۃٍ، وَیَوْمٌ کَشَہْرٍ، وَیَوْمٌ کَجُمُعَۃٍ، وَسَائِرُ أَیَّامِہِ کَأَیَّامِکُمْ ”، قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَرَأَیْتَ الْیَوْمَ الَّذِی کَالسَّنَۃِ أَتَکْفِینَا فِیہِ صَلَاۃُ یَوْمٍ؟ قَالَ: ” لَا، وَلَکِنْ اقْدُرُوا لَہُ ”، قَالَ: قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَمَا سُرْعَتُہُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ: ” کَالْغَیْثِ اسْتَدْبَرَتْہُ الرِّیحُ، فَیَأْتِی الْقَوْمَ فَیَدْعُوہُمْ فَیُکَذِّبُونَہُ وَیَرُدُّونَ عَلَیْہِ قَوْلَہُ فَیَنْصَرِفُ عَنْہُمْ، فَتَتْبَعُہُ أَمْوَالُہُمْ وَیُصْبِحُونَ لَیْسَ بِأَیْدِیہِمْ شَیْئٌ، ثُمَّ یَأْتِی الْقَوْمَ فَیَدْعُوہُمْ فَیَسْتَجِیبُونَ لَہُ وَیُصَدِّقُونَہُ، فَیَأْمُرُ السَّمَائَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَیَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ، فَتَرُوحُ عَلَیْہِمْ سَارِحَتُہُمْ کَأَطْوَلِ مَا کَانَتْ ذُرًی وَأَمَدِّہِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّہِ ضُرُوعًا، قَالَ: ثُمَّ یَأْتِی الْخَرِبَۃَ، فَیَقُولُ: لَہَا أَخْرِجِی کُنُوزَکِ، فَیَنْصَرِفُ مِنْہَا فَتَتْبَعُہُ کَیَعَاسِیبِ النَّحْلِ، ثُمَّ یَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَیَضْرِبُہُ بِالسَّیْفِ فَیَقْطَعُہُ جِزْلَتَیْنِ، ثُمَّ یَدْعُوہُ فَیُقْبِلُ یَتَہَلَّلُ وَجْہُہُ یَضْحَکُ فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذَلِکَ، إِذْ ہَبَطَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَام بِشَرْقِیِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ بَیْنَ مَہْرُودَتَیْنِ، وَاضِعًا یَدَیْہِ عَلَی أَجْنِحَۃِ مَلَکَیْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَہُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَہُ تَحَدَّرَ مِنْہُ جُمَّانٌ کَاللُّؤْلُؤِ، قَالَ: وَلَا یَجِدُ رِیحَ نَفْسِہِ یَعْنِی أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِیحُ نَفْسِہِ مُنْتَہَی بَصَرِہِ، قَالَ: فَیَطْلُبُہُ حَتَّی یُدْرِکَہُ بِبَابِ لُدٍّ فَیَقْتُلَہُ، قَالَ: فَیَلْبَثُ کَذَلِکَ مَا شَائَ اللَّہُ، قَالَ: ثُمَّ یُوحِی اللَّہُ إِلَیْہِ أَنْ حَرِّزْ عِبَادِی إِلَی الطُّورِ، فَإِنِّی قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِی لَا یَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِہِمْ، قَالَ: وَیَبْعَثُ اللَّہُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَہُمْ کَمَا قَالَ اللَّہُ: مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ سورۃ الأنبیاء آیۃ 96، قَالَ: فَیَمُرُّ أَوَّلُہُمْ بِبُحَیْرَۃِ الطَّبَرِیَّۃِ فَیَشْرَبُ مَا فِیہَا، ثُمَّ یَمُرُّ بِہَا آخِرُہُمْ، فَیَقُولُ: لَقَدْ کَانَ بِہَذِہِ مَرَّۃً مَائٌ ثُمَّ یَسِیرُونَ حَتَّی یَنْتَہُوا إِلَی جَبَلِ بَیْتِ الْمَقْدِسٍ، فَیَقُولُونَ: لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِی الْأَرْضِ ہَلُمَّ، فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِی السَّمَائِ فَیَرْمُونَ بِنُشَّابِہِمْ إِلَی السَّمَائِ، فَیَرُدُّ اللَّہُ عَلَیْہِمْ نُشَّابَہُمْ مُحْمَرًّا دَمًا، وَیُحَاصَرُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَأَصْحَابُہُ، حَتَّی یَکُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ یَوْمَئِذٍ خَیْرًا لِأَحَدِہِمْ مِنْ مِائَۃِ دِینَارٍ لِأَحَدِکُمُ الْیَوْمَ، قَالَ: فَیَرْغَبُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ إِلَی اللَّہِ وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: فَیُرْسِلُ اللَّہُ إِلَیْہِمُ النَّغَفَ فِی رِقَابِہِمْ فَیُصْبِحُونَ فَرْسَی مَوْتَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ، قَالَ: وَیَہْبِطُ عِیسَی وَأَصْحَابُہُ، فَلَا یَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْہُ زَہَمَتُہُمْ وَنَتَنُہُمْ وَدِمَاؤُہُمْ، قَالَ: فَیَرْغَبُ عِیسَی إِلَی اللَّہِ وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: فَیُرْسِلُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ طَیْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، قَالَ: فَتَحْمِلُہُمْ، فَتَطْرَحُہُمْ بِالْمَہْبِلِ، وَیَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِیِّہِمْ وَنُشَّابِہِمْ وَجِعَابِہِمْ سَبْعَ سِنِینَ، قَالَ: وَیُرْسِلُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مَطَرًا لَا یَکُنُّ مِنْہُ بَیْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ، قَالَ: فَیَغْسِلُ الْأَرْضَ فَیَتْرُکُہَا کَالزَّلَفَۃِ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَخْرِجِی ثَمَرَتَکِ وَرُدِّی بَرَکَتَکِ، فَیَوْمَئِذٍ تَأْکُلُ الْعِصَابَۃُ مِنَ الرُّمَّانَۃِ، وَیَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِہَا، وَیُبَارَکُ فِی الرِّسْلِ، حَتَّی إِنَّ الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ لَیَکْتَفُونَ باللَّقْحَۃِ مِنَ الْإِبِلِ، وَإِنَّ الْقَبِیلَۃَ لَیَکْتَفُونَ باللَّقْحَۃِ مِنَ الْبَقَرِ، وَإِنَّ الْفَخِذَ لَیَکْتَفُونَ باللَّقْحَۃِ مِنَ الْغَنَمِ، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ اللَّہُ رِیحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ کُلِّ مُؤْمِنٍ، وَیَبْقَی سَائِرُ النَّاسِ یَتَہَارَجُونَ کَمَا تَتَہَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَیْہِمْ تَقُومُ السَّاعَۃُ ”(سنن الترمذی ۔ کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی فتنۃ الدجال ۔ حدیث نمبر ۔٢٢٤٠ )
’’حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے آواز کو بلند اور پست کیا حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آگئے، پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا: ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند اور پست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں، اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود ہوں تو میں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اور اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے، دجال گھونگھریالے بالوں والا جوان ہو گا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہو گی تو میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں، پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہئے کہ وہ سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا‘‘۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’چالیس دن، ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہو گا، ایک دن ہفتہ کے برابر ہو گا اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے‘‘، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابر ہو گا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اس کا اندازہ کر کے پڑھنا‘‘۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اور اس کی بات رد کر دیں گے، لہٰذا وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا مگر اس کے پیچھے پیچھے ان کے مال بھی چلے جائیں گے، ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا، پھر وہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اور اس کی تصدیق کریں گے، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ آسمان بارش برسائے گا، وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، زمین غلہ اگائے گی، ان کے چرنے والے جانور شام کو جب واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طور پر بھرے ہوں گے، پھر وہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا: اپنا خزانہ نکال، پھر وہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے، پھر وہ ایک بھرپور اور مکمل جوان کو بلائے گا اور تلوار سے مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا۔ پھر اسے بلائے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آ جائے گا، پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی ٹپکے گا اور جب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی، ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مر جائے گا اور ان کی سانس کی بھاپ ان کی حد نگاہ تک محسوس کی جائے گی، وہ دجال کو ڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لد کے پاس پا لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ علیہ السلام ٹھہریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے، ’’اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ویسے ہی ہوں گے جیسا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: من کل حدب ینسلون ’’ہر بلندی سے پھیل پڑیں گے‘‘ (ا لأنبیاء :۹۶) ان کا پہلا گروہ بحیرہ طبریہ سے گزرے گا اور اس کا تمام پانی پی جائے گا، پھر اس سے ان کا دوسرا گروہ گزرے گا تو کہے گا: اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں، پھر وہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو قتل کر دیا اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں، چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کر کے ان کے پاس واپس کر دے گا، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور ان کے ساتھی گھرے رہیں گے، یہاں تک کہ اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سو دینار سے بہتر معلوم ہو گی، پھر عیسیٰ بن مریم اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا، جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مر جائیں گے، عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہو گی جو ان کی لاشوں کی گندگی، سخت بدبو اور خون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کو بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی، وہ لاشوں کو اٹھا کر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان، تیر اور ترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچا اور پکا گھر نہیں روک پائے گا، یہ بارش زمین کو دھو دے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنا پھل نکال اور اپنی برکت واپس لا، چنانچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہو گا، اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی، اور دودھ میں ایسی برکت ہو گی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہو گی، اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہو گی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کر لے گی اور باقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زنا کریں گے، پھر انہیں لوگوں پر قیامت ہو گی۔‘‘
اس سے پہلے حضرت مہدی کے ظہور کی تفصیل گذر چکی ہے اور اس روایت کے مطابق واقعات کی جو ترتیب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال کا خروج پہلے ہوگا ظاہر ہے یہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی موجودگی میںہوگا اور وہ مسلمانوں کے ساتھ اس سے قتال کریں گیں ۔اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آسمان سے ہوگا ۔حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول دجال کاخاتمہ ہوگا اس لئے کہ ان کے نزول کے ساتھ ہی وہ پگھلنا شروع ہوجائے گائے یہاں تک کہ وہ اسے قتل کردیں گے ۔دجال کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمائیں گے کہ مومنین کو لے کر طور پر چلے جاؤ اس لئے کہ اب یاجوج ماجوج کا خروج ہونے والا ہے اور پھر یاجوج ماجوج کا فتنہ رونما ہوگا جس سے پوری انسانیت پریشان ہوجائے گی ۔پھر حضرت عیسی ؑ کی دعاء سے یاجوج ماجوج کی ہلاکت ہوگی اور کچھ دنوں کے بعد قیامت قائم ہوگی ۔واقعات کی اسی ترتیب کے ساتھ پہلے دجال سے متعلق باقی چیزیں اور پھر نزول عیسیٰ ؑ اور خروج یاجوج ماجوج کا ذکر کیا جائے گا۔
دجال کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی ڈھیل دی جائے گی کہ وہ اپنے مدت قیام میں دنیا میں جو کرنا چاہے گا وہ کرلے گا ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے مترشح ہوتاہے کہ بادل اس کے حکم کے مطابق بارش برسائیں گے ، زمین اس کے حکم سے غلہ اگائے گی اور اپنے دفینے اس کے حوالے کردے گی ۔اسی طرح وہ کسی شخص کو قتل کرکے اس کو زندہ کردینے پر بھی قادر ہوگا۔انکار کرنے والوں کو سزادے گا اور ماننے والوں کوانعام واکرام سے نوازے گا۔دجال پوری دنیا کا چکر لگالے گا اور اس کا دجل وفریب ہر آدمی تک پہنچ جائے گے لیکن مدینہ میں اس کا داخلہ ممنوع ہوگا اور لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ دجال کے فتنہ کے وقت مدینہ ایک محفوظ مقام ہوگا ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” یَأْتِی الدَّجَّالُ الْمَدِینَۃَ فَیَجِدُ الْمَلَائِکَۃَ یَحْرُسُونَہَا، فَلَا یَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ”،(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجا ء فی الدجال لایدخل المدینۃ ۔ حدیث نمبر ٢٢٤٢ )
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال مدینہ آئے گا تو فرشتوں کو اس کی نگرانی کرتے ہوئے پائے گا، اللہ نے چاہا تو اس میں دجال اور طاعون نہیں داخل ہو گا۔‘‘
ایک دوسری روایت جسے امام بخاری نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ اَبِیْ سَعِیدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا حَدِیثًا طَوِیلًا عَنِ الدَّجَّالِ فَکَانَ فِیمَا یُحَدِّثُنَا بِہِ أَنَّہُ، قَالَ:” یَأْتِی الدَّجَّالُ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْہِ أَنْ یَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِینَۃِ، فَیَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِی تَلِی الْمَدِینَۃَ، فَیَخْرُجُ إِلَیْہِ یَوْمَئِذٍ رَجُلٌ وَہُوَ خَیْرُ النَّاسِ، أَوْ مِنْ خِیَارِ النَّاسِ، فَیَقُولُ: أَشْہَدُ أَنَّکَ الدَّجَّالُ الَّذِی حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثَہُ، فَیَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَیْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ ہَذَا ثُمَّ أَحْیَیْتُہُ ہَلْ تَشُکُّونَ فِی الْأَمْرِ؟، فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقْتُلُہُ، ثُمَّ یُحْیِیہِ، فَیَقُولُ: وَاللَّہِ مَا کُنْتُ فِیکَ أَشَدَّ بَصِیرَۃً مِنِّی الْیَوْمَ، فَیُرِیدُ الدَّجَّالُ أَنْ یَقْتُلَہُ فَلَا یُسَلَّطُ عَلَیْہِ”.
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہو گا کہ مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہو۔ چنانچہ وہ مدینہ منورہ کے قریب کسی شور والی زمین پر قیام کرے گا۔ پھر اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا اور وہ افضل ترین لوگوں میں سے ہو گا۔ اور اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا۔ اس پر دجال کہے گا کیا تم دیکھتے ہو اگر میں اسے قتل کر دوں اور پھر زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملہ میں شک و شبہ باقی رہے گا؟ اس کے پاس والے لوگ کہیں گے کہ نہیں، چنانچہ وہ اس صاحب کو قتل کر دے گا اور پھر اسے زندہ کر دے گا۔ اب وہ صاحب کہیں گے کہ واللہ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت حاصل نہ تھی۔ اس پر دجال پھر انہیں قتل کرنا چاہے گا لیکن اس مرتبہ اسے مار نہ سکے گا۔‘‘
اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ جو اہل ایمان ہوں گے ان پر دجال کا رعب نہیں پڑے گا اور اس کی شعبدہ بازیاں اور خرق عادت احوال دیکھ کر ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگا اور ان کے ایمان کی پختگی کی وجہ سے دجال ان پر قابو نہ پاسکے گا۔
نزول عیسی علیہ السلام
عیسی علیہ السلام کے نزول کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں گے ، دجال کو قتل کریں گے ، یہودیوں کو قتل کریں گے ، اور ان کی دعا سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام بہت سارے فتنوں سے محفوظ ہوگی ۔
عیسی علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ انہوں نے سولی پر چڑھ کر اپنی امت کو اللہ سے معاف کرالیااب وہ کوئی بھی گناہ کرلیں تو ان کے لئے عیسی ؑ کا سولی پر چڑھ جانا ہی کافی ہے ان سے باز پرس نہ ہوگی ۔ اسی لیے وہ صلیب کی پوجا کرتے ہیں اور ہمیشہ اسے اپنے گلے میں لٹکاکر رکھتے ہیں۔ اور جب کبھی کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو صلیب کے سامنے کھڑے ہوکر معافی مانگتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ نے ان کے گناہ اپنے سر لے لیا ہے ۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے جب دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا تو یہود نے ان کی مخالفت کی اور ان کی تکذیب واہانت میں کوئی کسر نہیں چھوڑا لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے پایۂ ثبات میں کوئی لغزش نہیں ہوئی اور برابر دعوت وتبلیغ کا کام کرتے رہے بالآخر یہودیوں نے ان کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر سب پر بھاری ہوئی انہوں نے جب سولی پر چڑھانے کے ارادے سے ان کے گھر پر حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھالیا اور جو شخص سب سے پہلے گھر میں گھسا تھا اس کی صورت حضرت عیسیٰ کی بنادی چنانچہ ان لوگوں نے اسی کو عیسیٰؑ سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا اور آج تک اہل کتاب کی دونوں قومیں یہود ونصاریٰ یہی سمجھ رہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ مصلوب کردیئے گئے ۔یہود تو ان کی سولی پر خوشیاں مناتے ہیں لیکن نصاریٰ نے اپنی عقیدت اس میں شامل کرکے یہ بات بنادی کہ عیسیٰ ؑ نے سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ اداکردیا۔ لیکن قرآن کہتاہے:
وَّقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْافِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ( ۱۵۷) بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًاحَکِیْمًا (۱۵۸)وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا (۵۹ ) سورہ نساء
’’ اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر تھے قتل کردیا ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئیِ ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر غالب، کمال حکمت والاہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔‘‘
رفع الی السماء کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر موجود ہیں اور معراج کے سفر میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات بھی ہوئی ۔ پھر وہ اپنی فطری عمر پوری کرنے اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی رہنمائی کے لئے قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے اس کا ذکر احادیث میں تواتر کے ساتھ آیا ہے اس لئے نزول عیسیٰ ؑ پر ایمان لاناہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:” لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ یَعْنِی عِیسَی، وَإِنَّہُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَاعْرِفُوہُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ کَأَنَّ رَأْسَہُ یَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَیَدُ قُّ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُہْلِکُ اللَّہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَیُہْلِکُ الْمَسِیحَ الدَّجَّالَ، فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفَّی فَیُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ”.(سننن ابوداؤد ۔ کتاب الملاحم، باب خروج الدجال ۔ حدیث نمبر٤٣٢٤ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقیناً وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ و سفید ہو گا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے، ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے، تو وہ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کر دیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کر دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہو گی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے‘‘۔
اس حدیث میں بالکل واضح طور پر آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ظاہری وجود کے ساتھ اس زمین پر نازل ہوں گے یعنی یہ نزول روحانی نہیں بلکہ جسمانی ہوگا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ان کا قدوقامت ، چہرہ بشرہ اور پہنے ہوئے کپڑوں کے بارے میں بھی بتادیا ہے ۔اس لئے اس میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آئیں گے یا نہیں۔
اس سے پہلے نواس بن سمعان کلابی ؓ کی روایت میں یہ بات آچکی ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازو ؤںپر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔‘‘اور باقی تفصیلات بھی اسی روایت میں موجود ہیں کہ وہ صلیب کو توڑدیں گے ،،خنزیر کو قتل کریں گے اور یاجوج ماجوج کی ہلاکت کی دعا کریں گے۔کتب حدیث سے چند مزید احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں جن میں حضرت عیسٰی ؑ کا تذکرہ موجود ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَؓ, عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ, قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ, حَتَّی یَنْزِلَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا, وَإِمَامًا عَدْلًا, فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ, وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ, وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ, وَیَفِیضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ”.(سنن ابن ماجہ ۔ کتاب الفتن ۔ باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم ……حدیث نمبر٤٠٧٨ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا‘‘۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ حَتَّی تَکُونَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ثُمَّ، یَقُولُ أَبُو ہُرَیْرَۃَ وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا سورۃ النساء آیۃ 159”.(صحیح بخاری ۔کتاب احادیث الانبیاء ۔باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیھماالسلام۔حدیث نمبر٣٤٤٨ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وإن من أہل الکتاب إلا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ’’اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘
ظہور مہدی علیہ الرضوان ، خروج دجال ، نزول عیسٰی علیہ السلام اور یاجوج ماجو کا خروج یہ سب واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئیں گے اس لئے بیشتر حدیثوں میں جہاں حضرت مہدی کا تذکرہ ہے وہاں خروج دجال اور نزول عیسٰی ؑ اور خروج یاجوج ماجوج کا بھی ذکر آیا ہے ۔یا جہاںدجال کا ذکر آیا ہے وہیں ان دوسرے واقعات کا بھی ذکر آیا ہے ۔ ماسبق میں جو حدیثیں حضرت مہدی اور دجال کے سلسلے میں نقل کی گئی ہیں ان میں حضرت عیسٰیؑ کا تذکرہ بھی آگیا ہے اس لئے ان روایات کو دوبارہ نقل کرنا محض طوالت میں اضافہ کا سبب ہے اس لئے اتنی حدیثو ں کے نقل پر اکتفا کیا جاتاہے۔
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک منصف اور عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے آپ کو ئی الگ شریعت لے کر نہیں آئیں گے بلکہ امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام کی رہنمائی اور قتل دجال آپ کا مقصد نزول ہوگا ۔نیز یہود کے اس دعویٰ کے خلاف حجت بھی ہوگا جس میں وہ کہتے ہیںکہ ہم نے عیسٰی ؑ کو مصلوب کردیا اور نصاریٰ کے عقیدہ کا بطلان بھی ہوگا جس میں وہ حضرت عیسیٰ ؑکو اللہ کی الوہیت میں شریک قرار دیتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی مسجد میں عین فجر کے وقت نازل ہوں گے جب کہ نماز کے لئے تکبیر کہی جاچکی ہوگی اور حضرت مہدی آگے بڑھنے ہی والے ہوں گے ۔اس وقت لوگ حضرت عیسٰی ؑ سے امامت کی درخواست کریں گے لیکن آپ علیہ السلام فرمائیں گے کہ نہیں امامت تمہارے امام کو ہی کرنی چاہئے ۔ مسند احمد کی ایک طویل حدیث ہے جس میں نزول عیسیٰ ؑ کا پس منظر وپیش منظر سب بیان کردیا گیا ہے ذیل میں وہ حدیث دیکھیں:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، أَنَّہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِی خَفْقَۃٍ مِنَ الدِّینِ، وَإِدْبَارٍ مِنَ الْعِلْمِ، فَلَہُ أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً یَسِیحُہَا فِی الْأَرْضِ، الْیَوْمُ مِنْہَا کَالسَّنَۃِ، وَالْیَوْمُ مِنْہَا کَالشَّہْرِ، وَالْیَوْمُ مِنْہَا کَالْجُمُعَۃِ، ثُمَّ سَائِرُ أَیَّامِہِ کَأَیَّامِکُمْ ہَذِہِ، وَلَہُ حِمَارٌ یَرْکَبُہُ، عَرْضُ مَا بَیْنَ أُذُنَیْہِ أَرْبَعُونَ ذِرَاعًا. فَیَقُولُ لِلنَّاسِ: أَنَا رَبُّکُمْ. وَہُوَ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ ک ف ر مُہَجَّاۃٌ یَقْرَؤُہُ کُلُّ مُؤْمِنٍ، کَاتِبٌ وَغَیْرُ کَاتِبٍ، یَرِدُ کُلَّ مَائٍ وَمَنْہَلٍ، إِلَّا الْمَدِینَۃَ وَمَکَّۃَ حَرَّمَہُمَا اللَّہُ عَلَیْہِ، وَقَامَتْ الْمَلَائِکَۃُ بِأَبْوَابِہَا، وَمَعَہُ جِبَالٌ مِنْ خُبْزٍ، وَالنَّاسُ فِی جَہْدٍ إِلَّا مَنْ تَبِعَہُ، وَمَعَہُ نَہْرَانِ أَنَا أَعْلَمُ بِہِمَا مِنْہُ نَہَرٌ یَقُولُ: الْجَنَّۃُ، وَنَہَرٌ یَقُولُ: النَّارُ، فَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِی یُسَمِّیہِ الْجَنَّۃَ فَہُوَ النَّارُ، وَمَنْ أُدْخِلَ الَّذِی یُسَمِّیہِ النَّارَ فَہُوَ الْجَنَّۃُ”، قَالَ:” وَیَبْعَثُ اللَّہُ مَعَہُ شَیَاطِینَ تُکَلِّمُ النَّاسَ، وَمَعَہُ فِتْنَۃٌ عَظِیمَۃٌ، یَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ فِیمَا یَرَی النَّاسُ، وَیَقْتُلُ نَفْسًا ثُمَّ یُحْیِیہَا فِیمَا یَرَی النَّاسُ، لَا یُسَلَّطُ عَلَی غَیْرِہَا مِنَ النَّاسِ، وَیَقُولُ: أَیُّہَا النَّاسُ، ہَلْ یَفْعَلُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا الرَّبُّ؟”، قَالَ: فَیَفِرُّ الْمُسْلِمُونَ إِلَی جَبَلِ الدُّخَانِ بِالشَّامِ، فَیَأْتِیہِمْ فَیُحَاصِرُہُمْ، فَیَشْتَدُّ حِصَارُہُمْ، وَیُجْہِدُہُمْ جَہْدًا شَدِیدًا، ثُمَّ یَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیُنَادِی مِنَ السَّحَرِ، فَیَقُولُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ، مَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَی الْکَذَّابِ الْخَبِیثِ؟، فَیَقُولُونَ: ہَذَا رَجُلٌ جِنِّیٌّ، فَیَنْطَلِقُونَ، فَإِذَا ہُمْ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ، فَتُقَامُ الصَّلَاۃُ، فَیُقَالُ لَہُ: تَقَدَّمْ یَا رُوحَ اللَّہِ، فَیَقُولُ: لِیَتَقَدَّمْ إِمَامُکُمْ فَلْیُصَلِّ بِکُمْ، فَإِذَا صَلَّی صَلَاۃَ الصُّبْحِ، خَرَجُوا إِلَیْہِ”، قَالَ:” فَحِینَ یَرَی الْکَذَّابُ، یَنْمَاثُ کَمَا یَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ، فَیَمْشِی إِلَیْہِ فَیَقْتُلُہُ، حَتَّی إِنَّ الشَّجَرَۃَ، وَالْحَجَرَ یُنَادِی: یَا رُوحَ اللَّہِ، ہَذَا یَہُودِیٌّ، فَلَا یَتْرُکُ مِمَّنْ کَانَ یَتْبَعُہُ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَہُ”.(مسند احمد ۔مسند جابر بن عبد اللہ ؓ حدیث نمبر ١٤٩٥٤ )
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دجال کا خروج اس وقت میں ہو گا جب دین میں سستی اور علم میں تنزل آ جائے گا وہ چالیس راتوں میں ساری زمین پھر جائے گا جس کا ایک دن سال کے برابر دوسرا مہینے کے برابر، تیسرا ہفتے کے برابر اور باقی ایام تمہارے ہی ایام کی طرح ہوں گے اس کے پاس ایک گدھا ہو گا جس پر وہ سواری کر ے گا اور جس کے دونوں کانوں کے درمیان چوڑائی چالیس گز کے برابر ہو گی اور وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہی ہوں حالانکہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان حروف تہجی سے کافر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مسلمان خواہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ پڑھ لے گا وہ مدینہ اور مکہ جنہیں اللہ نے اس پر حرام قرار دیا ہے اس کے علاوہ ہر پانی اور گھاٹ پر اترے گا اس کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ ہوں گے اس کے پیروکار کے علاوہ وہ تمام لوگ انتہائی پریشان ہوں گے اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی جن کو در حقیقت میں اس سے زیادہ جانتا ہوں ایک نہر کو وہ جنت اور دوسری نہر کو جہنم کہتا ہو گا جسے وہ اپنی جنت میں داخل کر ے گا وہ درحقیقت جہنم ہو گی اور جسے وہ اپنی جہنم میں داخل کر ے گا وہ جنت ہو گی۔ اللہ اس کے ساتھ شیاطین کو بھیج دے گا جو لوگوں سے باتیں کر یں گے اس کے ساتھ ایک عظیم فتنہ ہو گا وہ آسمان کو حکم دے اور لوگوں کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے بارش ہو رہی ہے وہ ایک آدمی کو قتل کر ے گا پھر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اسے دوبارہ زندہ کر ے گا اور لوگوں سے کہے گا کہ لوگوں یہ کام کوئی ایسا شخص کر سکتا ہے جو پروردگار نہ ہواس وقت حقیقی مسلمان بھاگ جائیں گے اور جا کر شام کے جبل دخان میں پناہ لیں گے دجال ان کا انتہائی سخت محاصرہ کر ے گا اور مسلمان انتہائی پریشان ہوں گے۔ پھرحضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا اور وہ سحری کے وقت لوگوں کو پکار کر کہیں گے لوگو تمہیں اس کذاب خبیث کی طرف نکلنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے لوگ کہیں گے یہ کوئی جن معلوم ہوتا ہے لیکن نکل کر دیکھیں گے تو وہ سیدنا عیسیٰ ہوں گے نماز کھڑی ہو گی اور ان سے کہا جائے گا کہ روح اللہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں وہ فرمائیں گے تمہارے امام ہی کو آگے بڑھ کر نماز پڑھانی چاہیے نماز فجر کے بعد وہ دجال کی طرف نکلیں گے جب وہ کذاب سیدنا عیسیٰ کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے سیدنا عیسیٰ بڑھ کر اسے قتل کر یں گے اور اس وقت وہ شجر اور حجر پکار اٹھیں گے اے روح اللہ یہ یہو دی یہاں چھپا ہوا ہے چنانچہ وہ دجال کے کسی پیروکار کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘
خروج یاجوج ماجوج
قتل دجال کے بعد حضرت عیسٰی ؑ السلام تمام مسلمانوں کو لے کر جبل طور پر چلے جائیں گے اس لئے کہ یاجوج ماجوج کا خروج قریب آچکا ہوگا اور مسلمان وہاں بڑی تنگی محسوس کریں گے ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہوگی لیکن یاجوج ماجوج کے فتنہ سے بچنے کے لئے وہ اسی حالت میں صبر کے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو ہلاک کردیں گے ۔
یاجوج ماجوج کا تذکرہ قرآن کریم میں تفصیل سے آیا ہے جبکہ حضرت ذوالقرنین نے اپنے سفر کے درمیان ایک ایسی قوم سے ملاقات کی جنہیں یاجوج ماجوج بہت پریشان کیا کرتے تھے۔یہ قوم دو پہاڑیوں کے درمیان آباد تھی یاجوج ماجوج ان پہاڑیوں کو عبور کرکے دوسری طرف آباد قوموں پر ڈاکہ زنی کرتے تھے اور ان کا سارا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے تھے ۔ان کی درخواست پر حضرت ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کو دیواروں کے اندر محبوس کردیا جو آج تک اسی میں مقید ہیں اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی باہر نہیں آسکے لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ باہر آجائیں گے اور پوری زمین پر تباہی مچادیں گے ۔قرآن کریم یاجوج ماجوج کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے:
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(۹۲) حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمَا قَوْمًا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ قَوْلًا(۹۳) قَالُوْا یٰذَاالْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَھَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمْ سَدًّا(۹۴) قَالَ مَا مَکَّنِّیْ فِیْہِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ اَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ رَدْمًا(۹۵) اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ حَتّٰٓی اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا حَتّٰٓی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا قَالَ اٰتُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا(۹۶) فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْھَرُوْہُ وَ مَااسْتَطَاعُوْالَہٗ نَقْبًا(۹۷)قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّیْ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآئَ وَ کَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا(۹۸) سورہ کہف۔
’’پھر وہ کچھ اور سامان ساتھ لے کر چلا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو ان کے اس طرف کچھ لوگوں کو پایا جو کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے کہا اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد کرنے والے ہیں، تو کیا ہم تیرے لیے کچھ آمدنی طے کر دیں، اس (شرط) پر کہ تو ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادے۔ اس نے کہا جن چیزوں میں میرے رب نے مجھے اقتدار بخشا ہے وہ بہتر ہیں، اس لیے تم قوت کے ساتھ میری مدد کرو کہ میں تمھارے درمیان اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔ تم میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کا درمیانی حصہ برابر کر دیا تو کہا ’’دھونکو‘‘ یہاں تک کہ جب اس نے اسے آگ بنا دیا تو کہا میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤتاکہ میں اس پر انڈیل دوں۔پھر نہ ان میں یہ طاقت رہی کہ اس پر چڑھ جائیں اور نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکیں۔ کہا یہ میرے رب کی طرف سے ایک رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔‘‘
یاجوج ماجوج بھی انسانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں ہیں ان کی تعداد کی کثرت کا اندازہ اس روایت سے ہوتا جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ قیامت کے دن جہنم میں جانے والوں میں ایک ہزار میں سے نوسو ننانوے یاجوج ماجوج ہوں گے :
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ اللَّہُ:” یَا آدَمُ”، فَیَقُولُ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ، قَالَ: یَقُولُ:” أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ”، قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ:” مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِینَ”، فَذَاکَ حِینَ یَشِیبُ الصَّغِیرُ، وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا، وَتَرَی النَّاسَ سَکْرَی وَمَا ہُمْ بِسَکْرَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّہِ شَدِیدٌ، فَاشْتَدَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَیُّنَا ذَلِکَ الرَّجُلُ؟ قَالَ: أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفًا وَمِنْکُمْ رَجُلٌ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنِّی لَأَطْمَعُ أَنْ تَکُونُوا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔(صحیح بخار ی۔کتاب الرقاق ، باب قولہ تعالیٰ ’’ان زلزلۃ الساعۃ شیء عجیب‘‘حدیث نمبر.٦٥٣٠ )
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم! آدم علیہ السلام کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو۔ آدم علیہ السلام پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر ہم میں سے وہ شخص کون ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو گے۔‘‘
یاجوج ماجوج سد سکندری میں مقید ہیں اور روزانہ اس میں سے نکلنے کے لئے دیواروں کو چاٹتے ہیں ۔جب شام ہوجاتی ہے توآرام کرنے چلے جاتے ہیں ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ دیوار پھر ویسی ہی کردی جاتی ہے جیسی پہلے تھی لہذااگلے دن وہ پھر اس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک چل رہاہے لیکن جب قدرت کو منظور ہوگا تو وہ شام کو جاتے ہوئے کہیں گے کہ کل ان شاء اللہ ہم لوگ اس دیوار کو توڑ دیں گے ۔اس انشاء اللہ کی برکت سے وہ دیوار ویسی ہی رہ جائے گی اور اگلے دن اسے توڑ کر نکل جائیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَؓ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی السَّدِّ، قَالَ: ” یَحْفِرُونَہُ کُلَّ یَوْمٍ حَتَّی إِذَا کَادُوا یَخْرِقُونَہُ، قَالَ الَّذِی عَلَیْہِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَہُ غَدًا، فَیُعِیدُہُ اللَّہُ کَأَمْثَلِ مَا کَانَ حَتَّی إِذَا بَلَغَ مُدَّتَہُمْ، وَأَرَادَ اللَّہُ أَنْ یَبْعَثَہُمْ عَلَی النَّاسِ، قَالَ الَّذِی عَلَیْہِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَہُ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ وَاسْتَثْنَی، قَالَ: فَیَرْجِعُونَ فَیَجِدُونَہُ کَہَیْئَتِہِ حِینَ تَرَکُوہُ فَیَخْرِقُونَہُ فَیَخْرُجُونَ عَلَی النَّاسِ فَیَسْتَقُونَ الْمِیَاہَ، وَیَفِرُّ النَّاسُ مِنْہُمْ فَیَرْمُونَ بِسِہَامِہِمْ فِی السَّمَائِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَۃً بِالدِّمَائِ، فَیَقُولُونَ: قَہَرْنَا مَنْ فِی الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا مَنْ فِی السَّمَائِ قَسْوَۃً وَعُلُوًّا فَیَبْعَثُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ نَغَفًا فِی أَقْفَائِہِمْ فَیَہْلِکُونَ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ تَسْمَنُ وَتَبْطَرُ وَتَشْکَرُ شَکَرًا مِنْ لُحُومِہِمْ ”۔(سنن الترمذی ۔ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ باب ومن سورۃ الکھف۔ حدیث نمبر ٣١٥٣ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’سد‘‘ (سکندری) سے متعلق قصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’(یاجوج و ماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہر دن کھودتے ہیں، جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں ان سے کہتا ہے: واپس چلو کل ہم اس میں سوراخ کر دیں گے، ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط و ٹھوس بنا دیتا ہے، پھر جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ ان کو لوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا، اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا: لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاء اللہ توڑ دیں گے‘‘، آپ نے فرمایا: ’’پھر جب وہ لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے، پھر وہ اسے توڑ دیں گے، اور لوگوں پر نکل پڑیں گے،، سارا پانی پی جائیں گے، لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آ گئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت و بلندی میں بڑھ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس سے وہ مر جائیں گے‘‘، آپ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے‘‘
یاجوج ماجوج جب باہر آئیں گے تو زمین کی ہر بلندی اور ہر پستی میں وہیں نظر آئیں گے اور زمین کا کوئی بھی حصہ ان کے وجود سے خالی نہیں ہوگا۔قرآن کریم اس بارے میں کہتاہے :حَتَّی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ(۹۶) سورہ انبیاء ( یہاں تک کہ جب یاجوج اورماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ ) اور جیسا ماقبل میں مذکور روایات سے پتہ چلتاہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے گلے میں ایک پھوڑا نکل آئے گا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر مومنین جو اپنے گھروں میں، پہاڑی دروں میں چھپے ہوں گے وہ باہر نکل آئیں گے لیکن ان کی لاشوں کی بدبو ناقابل برداشت ہوگی جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ کچھ ایسے مخصوص قسم کے پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر لے جائیں گے اور اس کے بعد بارش ہوگی تو ان کے نشانات دھل کر صاف ہوجائیں گے ۔ یہ ساری تفصیل احادیث میں آئی ہیں :
…… فَیَرْغَبُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ إِلَی اللَّہِ وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: فَیُرْسِلُ اللَّہُ إِلَیْہِمُ النَّغَفَ فِی رِقَابِہِمْ فَیُصْبِحُونَ فَرْسَی مَوْتَی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ، قَالَ: وَیَہْبِطُ عِیسَی وَأَصْحَابُہُ، فَلَا یَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْہُ زَہَمَتُہُمْ وَنَتَنُہُمْ وَدِمَاؤُہُمْ، قَالَ: فَیَرْغَبُ عِیسَی إِلَی اللَّہِ وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: فَیُرْسِلُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ طَیْرًا کَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، قَالَ: فَتَحْمِلُہُمْ، فَتَطْرَحُہُمْ بِالْمَہْبِلِ، وَیَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِیِّہِمْ وَنُشَّابِہِمْ وَجِعَابِہِمْ سَبْعَ سِنِینَ، قَالَ: وَیُرْسِلُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مَطَرًا لَا یَکُنُّ مِنْہُ بَیْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ، قَالَ: فَیَغْسِلُ الْأَرْضَ فَیَتْرُکُہَا کَالزَّلَفَۃِ،……(سنن الترمذی ۔ کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی فتنۃ الدجال ۔ حدیث نمبر ۔٢٢٤٠ )
’’پھر عیسیٰ بن مریم اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا، جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مر جائیں گے، عیسیٰ اور ان کے ساتھی اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہو گی جو ان کی لاشوں کی گندگی، سخت بدبو اور خون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کو بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی، وہ لاشوں کو اٹھا کر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان، تیر اور ترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچا اور پکا گھر نہیں روک پائے گا، یہ بارش زمین کو دھو دے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی۔‘‘
مغرب سے سورج کا نکلنا
یہ سب احوال قرب قیامت کے ہیں یہاں تک آنے کے بعد قیامت کی بڑی نشانیاں پوری ہوچکیں گی اور اب قیامت قائم ہی ہونے والی ہوگی ۔پھر دنیا کی تاریخ میںایک ایسا واقعہ نمودار ہوگا جو تخلیق کائنات کے بعد پہلی بار ہوگا اور وہ سورج کامشرق کے بجائے مغرب سے نکلنا ہے ۔اس کے بعد توبہ کادروازہ بند ہوجائے گا اور اس کے بعد کسی کاتوبہ قبول نہیں ہوگا۔اس سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی موجود ہے آپ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ، آمَنُوا أَجْمَعُونَ فَذَلِکَ حِینَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلَانِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا، فَلَا یَتَبَایَعَانِہِ وَلَا یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلَا یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہُوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلَا یَسْقِی فِیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أَحَدُکُمْ أُکْلَتَہُ إِلَی فِیہِ فَلَا یَطْعَمُہَا”.(صحیح بخار ی۔کتاب الرقاق ، باب ۔حدیث نمبر٦٥٠٦ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خرید و فروخت بھی نہیں ہوئی ہو گی اور نہ انہوںنے اسے لپیٹا ہی ہو گا۔ اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہو گا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا ۔اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہو گا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھانے بھی نہ پائے گا۔‘‘
ایمان کا اعتبار اسی وقت ہے جب کہ ایمان بالغیب ہو ۔ مشاہدہ کا ایمان معتبر نہیں جیسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے تو بہت سے ضدی کفارو ومشرکین بھی اللہ پر ایمان لے آئیں گے اور درخواست کریںگے کہ ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب واپسی کا راستہ بند ہوگیا اور تمہاری مہلت ختم ہوگئی ۔ اسی طرح موت کے وقت بھی جب بالکل غرغرہ کی کیفیت طاری ہوجائے تو اس وقت کا ایمان معتبر نہیں اس لئے کہ غرغرہ کے وقت آخرت کے امور نظر آنے لگتے ہیں اور اس وقت آدمی یہ سمجھ لیتاہے کہ اب میرا آخری وقت ہے تو اب اس کے سامنے سوائے ایمان کے کوئی چارہ نہیں رہتا اور وہ ایمان لے آتاہے لیکن اس ایمان کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے کہ یہ ایمان بالغیب نہیں بلکہ ایمان بالمشاہدہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ہے إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ(سنن ترمذی، کتاب الدعوات،حدیث نمبر ٣٥٣٧ ) ’’اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے‘‘اس طرح تو فرعون بھی ایمان لے آیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا ایمان قبول نہیں فرمایا ۔اسی طرح جب سورج اپنے معمول کے خلاف بجائے مشرق کے مغرب سے نکلے گا تو کٹر ملحد بھی ایمان لے آئے گا لیکن اس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوگا اور وہ کسی کام نہیں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا (الانعام:۱۵۸)”جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ ”
مغرب سے سورج نکلنے کی کیفیت کیا ہوگی اور روزانہ سورج کہاں جاتاہے اس سے متعلق تفصیل رسول اللہ ﷺ نے ذیل کی حدیث میں بیان فرمایا ہے :
عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ یَوْمًا: ” أَتَدْرُونَ أَیْنَ تَذْہَبُ ہَذِہِ الشَّمْسُ؟ قَالُوا: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: إِنَّ ہَذِہِ تَجْرِی حَتَّی تَنْتَہِیَ إِلَی مُسْتَقَرِّہَا تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَخِرُّ سَاجِدَۃً، فَلَا تَزَالُ کَذَلِکَ حَتَّی یُقَالَ لَہَا: ارْتَفِعِی، ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ، فَتَرْجِعُ فَتُصْبِحُ طَالِعَۃً مِنْ مَطْلِعِہَا، ثُمَّ تَجْرِی حَتَّی تَنْتَہِیَ إِلَی مُسْتَقَرِّہَا تَحْتَ الْعَرْشِ فَتَخِرُّ سَاجِدَۃً، وَلَا تَزَالُ کَذَلِکَ، حَتَّی یُقَالَ لَہَا: ارْتَفِعِی، ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ، فَتَرْجِعُ فَتُصْبِحُ طَالِعَۃً مِنْ مَطْلِعِہَا، ثُمَّ تَجْرِی لَا یَسْتَنْکِرُ النَّاسَ مِنْہَا شَیْئًا، حَتَّی تَنْتَہِیَ إِلَی مُسْتَقَرِّہَا ذَاکَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَیُقَالُ لَہَا: ارْتَفِعِی، أَصْبِحِی طَالِعَۃً مِنْ مَغْرِبِکِ، فَتُصْبِحُ طَالِعَۃً مِنْ مَغْرِبِہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَتَدْرُونَ مَتَی ذَاکُمْ ذَاکَ؟ حِینَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا ”.
’’ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا: ’’جانتے ہو یہ سورج کہاں جاتا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ جاتا ہے، پھر سجدے میں چلا جاتا ہے، وہ مسلسل اسی حالت میں رہتا ہے حتی کہ اسے کہا جاتا ہے: اٹھو! جہاں سے آئے تھے ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس لوٹتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر چلتا ہوا عرش کے نیچے اپنی جائے قرار پر پہنچ جاتا ہے، پھر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے: بلند ہو جاؤ اور جہاں سے آئے تھے، ادھر لوٹ جاؤ تو وہ واپس جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر (ایک دن سورج) چلے گا، لوگ اس میں معمول سے ہٹی ہوئی کوئی چیز نہیں پائیں گے حتی کہ یہ عرش کے نیچے اپنے اسی مستقر پر پہنچے گا تو اسے کہا جائے گا: بلندہو اور اپنے مغرب سے طلوع ہو تو وہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا جانتے ہو یہ کب ہو گا؟ یہ اس وقت ہو گا جب ’’کسی شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دووران میں نیکی نہیں کمائی تھی۔‘‘
دابۃ الارض کا خروج
مغرب سے طلوع آفتاب کے بعد ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس کو احادیث میں دابۃ الارض سے تعبیر کیا گیا ہے۔دابہ دابۃ۔ مادہ د ب ب۔ الدب والدبیب کے معنی آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں یہ لفظ حیوانات اور زیادہ تر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے یہ لفظ گو عرف عام میں خاص کر گھوڑے پر بولا جاتا ہے مگر لغت کے اعتبارسے ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں ایک جگہ ہے وَاللَّہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّن مَّآئٍ فَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰ بَطْنِہِ وَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰ رِجْلَیْنِ وَمِنْہُم مَّن یَمْشِی عَلَیٰٓ أَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللَّہُ مَا یَشَآء إِنَّ اللَّہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ(نور۔۴۵) ’’اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا،تو ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘یہ دابہ چار پیروں کا جانور ہوگا۔یہ وہ وقت ہوگا جب کہ نیکی کرنے کا وقت ختم ہوچکے گا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا حکم موقوف ہوجائے گا اور کسی کا ایمان کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔ یعنی یہ بالکل قیامت کے قریبی علامات میں سے ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُونَ(۸۲) سورہ نمل’’ اور جب ان پر بات واقع ہو جائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ‘‘
اس جانور کی خصوصیت ہو گی کہ وہ کسی جانور کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوگا ، انسانوں سے کلام کرے گا اور ہر مسلم وکافر کی پیشانی پر ایک نشان لگادے گا جس یہ پتہ چل جائے گا کہ کون مومن ہے کون کافر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ, أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ, قَالَ:” تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ وَمَعَہَا خَاتَمُ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ, وَعَصَا مُوسَی بْنِ عِمْرَانَ عَلَیْہِمَا السَّلَام, فَتَجْلُو وَجْہَ الْمُؤْمِنِ بِالْعَصَا, وَتَخْطِمُ أَنْفَ الْکَافِرِ بِالْخَاتِمِ, حَتَّی أَنَّ أَہْلَ الْحِوَائِ لَیَجْتَمِعُونَ, فَیَقُولُ: ہَذَا یَا مُؤْمِنُ, وَیَقُولُ: ہَذَا یَا کَافِرُ”.(سنن ابن ماجہ ۔کتاب الفتن ، باب دابۃ الارض ۔حدیث نمبر٤٠٦٦ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمین سے ’’دابۃ‘‘ ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ سلیمان بن داود علیہما السلام کی انگوٹھی اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا عصا ہو گا، اس عصا سے وہ مومن کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگوٹھی سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا، حتیٰ کہ جب ایک محلہ کے لوگ جمع ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن! اور وہ کہے گا: اے کافر!‘‘
دابۃ الارض سے متعلق صحابہ کرام کے مختلف اقوال ہیں جنہیں امام قرطبی نے مذکورہ بالا آیت کے تحت بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جن میں سے بعض اقوال سے پتہ چلتاہے کہ وہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا بچہ ہے اس لئے کہ حضرت صالح کی اونٹنی کو تو قتل کردیا گیاتھا لیکن اس کا بچہ جنگل کی طرف بھاگ گیا تھااور ایک پتھر کی سوراخ میں داخل ہوگیا تھاپھرقیامت کے قریب ایک نشانی کے طور پر ظاہر ہوگا ۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرت تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔اختصار کے پیش نظر ان اقوال کو یہاں نقل نہیں کیا جارہا ہے۔
دخان(دھواں)
قیامت کے بالکل قریب ایک دھواں ظاہر ہوگا جس کا ذکر قرآن کریم سورہ دخان میں آیا ہے:
فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ (۱۰ دخان) ’’پس انتظار کریں اس دن کاجب آسمان پرنظر آنے والا دھواں ظاہر ہوگا۔‘‘
متعدد احادیث میں بھی دخان کے نام سے اس کا ذکر آیا ہے اس دھواں سے متعلق مختلف اقوال ہیں جنہیں امام تفسیر قرطبیؒ نے بیان کیا ہے یہاں انہیں مختصرا ً ذکر کیا جاتاہے :
(۱) یہ قیامت کی نشانیوں میںسے ہے یہ ابھی ظاہر نہیں ہوایہ زمین میں چالیس روز تک رہے گا جو زمین وآسمان کے درمیانی حصہ کو بھر دے گا جہاں تک مومن کا تعلق ہے تو اسے اس قدر تکلیف ہوگی جیسے زکام ہوتاہے ۔اور کافروں کے ناکوں میں داخل ہوگا تو ان کے کانوں میں سراخ کردے گااور ان کی سانسیں تنگ ہوجائیں گی ۔ یہ قول حضرت علیؓ ، ابن عباسؓ ،ابن عمرؓ ، ابوہریرہؓ زید ابن علی ، حسن بصری اور ابن ملیکہ رضوان اللہ علیہم کی طرف منسوب ہے ۔
(۲) اس سے مراد وہ بھوک ہے جو نبی کریم ﷺ کی دعا سے قریش کو پہنچی تھی یہاں تک کہ ایک آدمی آسمان او زمین کے درمیان دھواں دیکھتا ۔ یہ قول حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی طرف منسوب ہے۔
(۳) اس سے مراد فتح مکہ ہے جب غبار نے آسمان کو چھپا دیا ۔یہ عبد الرحمن اعرج کاقول ہے۔
(مستفاد: از تفسیر قرطبی مترجم اردو۔ جلد ۸ ، ص ۵۲۴تا۵۲۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )
ایک حدیث جس کو تمام محدثین نے علامات قیامت کے باب میں بیان کیا ہے جس میں دس نشانیاں بتائیں گئی ہیں اس میں سے ایک دخان بھی ہے :
عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ، فَقَالَ: ” مَا تَذَاکَرُونَ؟ ”، قَالُوا: نَذْکُرُ السَّاعَۃَ، قَالَ: ” إِنَّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَہَا عَشْرَ آیَاتٍ، فَذَکَرَ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّۃَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا، وَنُزُولَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَۃَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْیَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِہِمْ ”.(صحیح مسلم ۔کتاب الفتن واشراط الساعۃ۔باب فِی الآیَاتِ الَّتِی تَکُونُ قَبْلَ السَّاعَۃِحدیث نمبر٧٢٨٥ )
’’حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث میں جن دس نشانیوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے ان میں سے کچھ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اخیر کی دو نشانیاں یعنی خسف اور آگ کانکلنا باقی ہے اب ان کا بھی ذکرکیا جاتاہے ۔
خسف (زمین کا دھنسنا)
خسف کے معنی زمین کے دھنسنے کے ہیں ۔دنیا میں ایسے واقعات تو برابر نمودار ہوتے رہتے ہیں کہ کسی علاقے مین زمین دھنس گئی اور خاص طور سے سیلابی علاقوں میں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔لیکن ان کا کوئی چرچا نہیں ہوتا یا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوتا لیکن حضورپاک ﷺ نے جس خسف کو پیشین گوئی یاعلامات قیامت کے طور پر بیان کیا ہے تو جس طرح قیامت کا وقوع تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے تویقینا یہ خسف بھی کوئی غیر معمولی واقعہ ہوگا جس سے آپ ﷺ نے امت کو پہلے ہی خبردار کردیاہے۔یہ واقعات متعینہ طور پر کہاں ، کس جگہ اور کس وقت واقع ہوں گے اس کی تعیین تو نہیں کی گئی لیکن آپ ﷺ نے اس کا سمت متعین کردیا ہے کہ ایک خسف مشرق میں ہوگا ، ایک مغرب میں ہوگا اور ایک جزیرۂ عرب میں ہوگا۔حدیث کے بیانیہ ترتیب کو مد نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ کہ یہ خسف یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد ہوگا لیکن حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قیامت کی بڑی نشانیوں کے ساتھ بیان کیا ہے تو امید ہے کہ اس کاوقوع بھی قیامت کے بہت قریب ہی ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جزیرۃ العرب میں جو خسف کاواقعہ نمودار ہوگا اس کا کچھ تذکرہ احادیث میں آیا ہے اور اس کے سیاق و سباق سے پتہ چلتاہے کہ یہ واقعہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی موجود گی میں ہوگا۔ ترمذی کی ایک روایت ملاحظہ ہو:
عَنْ صَفِیَّۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَا یَنْتَہِی النَّاسُ عَنْ غَزْوِ ہَذَا الْبَیْتِ حَتَّی یَغْزُوَ جَیْشٌ، حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْبَیْدَائِ أَوْ بِبَیْدَائَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ بِأَوَّلِہِمْ وَآخِرِہِمْ، وَلَمْ یَنْجُ أَوْسَطُہُمْ ”، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَمَنْ کَرِہَ مِنْہُمْ، قَالَ: ” یَبْعَثُہُمُ اللَّہُ عَلَی مَا فِی أَنْفُسِہِمْ ”(سنن الترمذی ۔کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی الخسف ۔حدیث نمبر ٢١٨٤ )
’’ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ایک ایسا لشکر لڑائی کرنے کے لیے آئے گا کہ جب اس لشکر کے لوگ مقام بیدا میں ہوں گے، تو ان کے آگے والے اور پیچھے والے دھنسا دے جائیں گے اور ان کے بیچ والے بھی نجات نہیں پائیں گے ‘‘۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے جو ناپسند کرتے رہے ہوں ان کے افعال کو وہ بھی؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھائے گا‘‘۔
حضرت مہدی کے تذکرہ کے ضمن میں اس کی تفصیل گذ رچکی ہے۔
یمن سے آگ کا نکلنا
ایک آگ جس کے حجاز سے نکلنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے اس کا تذکرہ پچھلے صفحات میں ہوچکا ہے کہ یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے اور وہاں پر اس دور کے مشاہدات بھی بیان کیئے گئے ہیں ۔ یہ آگ جویمن سے نکلے گی اس کا وقوق قیامت کے قریب بڑی علامت کی شکل میں ہوگا ۔اس علامت کو رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی دس نشانیوں میں سب سے آخر میں بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ آخری علامت ہے جس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی بعض احادیث کی تصریحات سے پتہ چلتاہے کہ یہ آگ لوگوں کو میدان حشر تک پہنچائے گی لوگوں کے ساتھ چلتی رہے گی اگر وہ رکیں گے تو یہ بھی رک جائے گی اور اگر چلیں گے تو یہ بھی چلی گے یہاں تک کہ شام میں لوگ پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی ۔یہ آگ کہاں سے نکلے گی اور اس وقت مسلمانوں کو کیا کرناچاہئے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” سَتَخْرُجُ نَارٌ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مِنْ بَحْرِ حَضْرَمَوْتَ، أَوْ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، تَحْشُرُ النَّاسَ” قَالُوا: فَبِمَ تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:” عَلَیْکُمْ بِالشاْمِ”.(مسند احمد۔ مسند عبد اللہ بن عمر بن خطاب ؓ ۔حدیث نمبر۔٥١٤٦ )
’’سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ قیامت کے قریب حضرموت کے سمندر سے یا حضر موت سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی، ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر آپ اس وقت کے لئے ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ’’ملک شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا۔‘‘
حضرموت یمن کا علاقہ ہے جہاں حضرت صالح علیہ السلام اپنے متبعین کے ساتھ گئے تھے اور وہیں پر آپؑ کی وفات بھی ہوئی۔مشہور صحابیِ رسول علاء بن الحضرمی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے۔جن کو رسول اللہﷺ نے منذر بن ساویٰ طرف قاصد بناکر بھیجا تھا۔راوی حدیث کو شک ہے کہ یہ آگ حضر موت سمندر سے نکلے گی یا حضرت موت کے خشک علاقے سے ۔ بہر حال یہ آگ وہاں سے نکلے گی اور لوگ اس کے خوف سے بھاگیں گے یہاں تک کہ وہ شام کے علاقے میں پہنچ جائیں گے وہاں جاکر یہ آگ ختم ہوجائے گی۔
یہ آگ لوگوں کو گھیر کر میدان حشر کی طرف لے جائے گی اگر وہ سوئیں گے تویہ بھی سوئے گی ، لوگ اگر جہاںرات گذاریں گے یہ بھی وہیں رات گذارے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِینَ رَاہِبِینَ، وَاثْنَانِ عَلَی بَعِیرٍ، وَثَلَاثَۃٌ عَلَی بَعِیرٍ، وَأَرْبَعَۃٌ عَلَی بَعِیرٍ، وَعَشَرَۃٌ عَلَی بَعِیرٍ، وَیَحْشُرُ بَقِیَّتَہُمُ النَّارُ، تَقِیلُ مَعَہُمْ حَیْثُ قَالُوا، وَتَبِیتُ مَعَہُمْ حَیْثُ بَاتُوا، وَتُصْبِحُ مَعَہُمْ حَیْثُ أَصْبَحُوا، وَتُمْسِی مَعَہُمْ حَیْثُ أَمْسَوْا”.(صحیح بخاری ۔کتاب الرقاق، باب کیف الحشر۔حدیث نمبر ٦٥٢٢ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا (ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔‘‘
یہ دس علامات جو اخیر میں بطور علامات کبریٰ کے بیان کیے گئے ہیںان علامات کے ظہور کا انتظار ہے اس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی ۔
فتنوں سے کیسے بچیں
گذشتہ صفحات میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فتنے آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں اس سے انسان کے اچھے برے ہونے کی تمیز ہوتی ہے۔اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ انسان اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے اور اللہ کی طرف سے دیئے گئے احکام کی مکمل پیروی کرتا رہے۔اس لئے کہ فتنوں کا مقصد ہی نیک وبد اعمال کو اجاگر کرنا ہے۔برے اعمال کا اجاگر ہونا ناکامی کی علامت ہے اور اچھے اعمال کا اجاگر ہونا کامیابی کی علامت ہے ۔اس کے علاوہ ایک بات خاص طور سے یاد رکھنے کی ہے کہ ان فتنوں سے نکلنے کے لئے ہمارے اعمال لاکھ اچھے ہوں لیکن اللہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اس لئے ہر وقت اللہ سے دعاگو رہناچاہئے کہ فتنوں کے دور میںاللہ ہمارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ۔رسول اللہ ﷺ معصوم ہونے کے باوجود ہر وقت اللہ سے اپنے دین وایمان کی حفاظت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔آپ ﷺ یہ دعا اکثر کیا کرتے تھے:اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْکَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْہَرَمِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ(صحیح بخاری کتاب الدعوات ۔ باب التعوذ من فتنۃ المحیا والممات ۔ حدیث نمبر6367)’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے اور بہت زیادہ بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے۔‘‘ فتنے جب آزمائش ہیں تو اس میں کامیابی کے لئے ہمیں اللہ کے مدد کی ضرورت ہے اس لئے ہمیںہروقت اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔
اس کے علاوہ آزمائش میں کامیابی کا گُر اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت بتایا ہے۔ اس لئے کبھی فتنوں کے زد میں آئیں تو استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کرنا چاہئے۔
گناہوں سے بچنا بھی فتنوں سے بچنے اور مصیبتوں میں گرفتار نہ ہونے کا ایک آلہ ہے اس لئے کہ انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اس کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَ مَااَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(شوریٰ ۳۰)’’اور تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور بہت سی باتوں کو تو وہ معاف فرما دیتا ہے‘‘
فتنوں سے نکلنے کا بہترین راستہ جو رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے وہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑنا اور اس کی ہدایات پر عمل کرنااوراسی سے اپنے لئے راہ عمل تیار کرنا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ عَلِیٍّؓ قَالَ:إِنِّی قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: ” أَلَا إِنَّہَا سَتَکُونُ فِتْنَۃٌ، فَقُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْہَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: کِتَابُ اللَّہِ فِیہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ، وَہُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْہَزْلِ، مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللَّہُ، وَمَنِ ابْتَغَی الْہُدَی فِی غَیْرِہِ أَضَلَّہُ اللَّہُ، وَہُوَ حَبْلُ اللَّہِ الْمَتِینُ، وَہُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیمُ، وَہُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ، ہُوَ الَّذِی لَا تَزِیغُ بِہِ الْأَہْوَائُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْأَلْسِنَۃُ، وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ وَلَا یَخْلَقُ عَلَی کَثْرَۃِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ، ہُوَ الَّذِی لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْہُ حَتَّی قَالُوا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْئَانًا عَجَبًا یَہْدِی إِلَی الرُّشْدِ سورۃ الجن آیۃ ۱،۲، مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِہِ أُجِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَیْہِ ہَدَی إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ” خُذْہَا إِلَیْکَ یَا أَعْوَرُ۔(سنن ترمذی ۔کتاب فضائل القرآن ، باب ماجاء فی فضل القرآن ۔حدیث نمبر٢٩٠٦ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا‘‘، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم ہی وہ شاہ کلید ہے جو تمام ترمسائل کا حل ہے یہ فتنوں سے نجات کا ذریعہ بھی اورہمارے لئے شاہرا ہ عمل بھی ہے ۔ اس لئے اللہ کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہی ہمارے لئے دنیا و آخرت میں امن وسلامتی کا باعث ہے ۔
مراجع ومصادر
القرآن الکریم منزل من اللہ
صحیح بخاری امام ابو عبد اللہ محمد ابن اسماعیل بخاریؒ
صحیح مسلم امام حافظ ابوالحسین مسلم ابن حجاج القشیریؒ
سنن ترمذی امام حافظ ابوعیسیٰ محمد ابن عیسی ترمذیؒ
سنن نسائی امام ابو عبد الرحمن احمد ابن شعیب نسائیؒ
سنن ابوداود امام ابو داؤدسلیمان ابن اشعث سجستانیؒ
سنن ابن ماجہ امام حافظ ابو عبد اللہ محمد ابن یزید قزوینیؒ
مستدرک حاکم امام حافظ ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری
مسند احمد امام احمد ابن حنبلؒ
مسند ابو یعلیٰ موصلی امام حافظ احمد بن علی المثنی التمیمی
المعجم الکبیر للطبرانی امام حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی
تفسیر قرطبی امام ابو عبد اللہ محمد بن احمدبن ابوبکر قرطبی
فتح الباری امام حافظ حافظ احمد بن علی الحجر عسقلانی
نووی شرح مسلم امام محی الدین یحیٰ بن شرف النووی
درس ترمذی مفتی محمد تقی عثمانی
تحفۃ الالمعی مفتی سعید احمد پالنپوری
البدایہ وانہایہ علامہ حافظ ابوالفداء عماد الدین بن کثیر دمشقی
تاریخ ابن خلدون علامہ عبد الرحمن بن خلدون
الکامل فی التاریخ علامہ ابوالحسن علی بن الکرم الشیبانی
تاریخ الخلفاء علامہ جلال الدین سیوطی
الحاوی للفتاویٰ علامہ جلال الدین سیوطی
الاستیعاب فی معرفۃ الصحابہ
امام حافظ ابو عمریوسف بن عبد اللہ بن عبد البراندلسی قرطبی
لتعریفات علی ابن محمد ابن علی الجرجانی
بائیس جھوٹے نبی نثار احمد خان فتحی
تحریک ختم ختم نبوت
آغا سورش کاشمیری
دور جدید کامسیلمہ کذاب گوہرشاہی مولانا سعید احمد جلالپوری
شکیل بن حنیف تعارف وتجزیہ مولانا شاہ عالم گورکھپوری
میکالے اور برصغیر کانظام تعلیم سید شبیر
فیروز اللغات الحاج مولوی فیروز الدین
ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف انٹرنیٹ فائل
رووحانی خزائن مرزا غلام احمد قادیانی
روحانی سفر ریاض احمد گوہر شاہی
hello there and thank you for your info – I’ve certainly picked up anything new from right here.
I diid however expertise some technical points using this site, since I experienced
to reload the website lots of times previous to I could gett it to
load correctly. I had been wondering if your web hosting is OK?
Not that I’m complaining, but sluggish loading instances times will often affect your placement in google
and could damage your high-quality score if
ads and marketing with Adwords. Well I’m adding thi RSS tto my email
and caan look out for much more of your respecttive fascinating content.
Make sure you update this again soon. https://Odessaforum.Biz.ua/
hello there and thank you for your info – I’ve certainly picked up anything new ffrom
right here. I diid however expertise some technicaal points using this site, since I experienced to reload the website
loots of times previous to I could get it to load correctly.
I had een wondering if your web hosting is OK? Noot
that I’m complaining, but sluggish loading instances times will often affect your placement in google
and could damage your high-quality score if ads and marketing with
Adwords. Well I’m adding this RSS to my email andd can look out for much more of your respective fascinating content.
Make sure you update this again soon. https://Odessaforum.Biz.ua/
Howdy I am soo grateful I found your blog, I
really found you bby mistake, while I was searching on Yahoo for something else, Anyways I am here now and would just like to say thanks a
lot for a fantastic post and a all round interesting blog
(I also love the theme/design), I don’t have time too read it all at the
minute but I have saved it and also added your RSS feeds,
so when I have time I will be back to read much more, Please doo keep up the superb work. https://www.producthunt.com/@aviatorjogo
Howdy I am so grateful I found your blog, I really found you by mistake, while I
was searrching on Yagoo for somethin else, Anyways I am
here now and would just like too say thanks a lot for a fantastic post
and a all round interesting blog (Ialso love the theme/design), I don’t have
time to read itt all at the minute but I have saved it and also added your RSS feeds, so wheen I have time I will be back tto
read much more, Please do keep up tthe sujperb work. https://www.producthunt.com/@aviatorjogo
It’s very effortless too find out any topic on web as compared to
textbooks, as I found this article at this web site. https://linktr.ee/aviatorsgames
It’s very effortless to find out any tpic on web
as compred to textbooks, as I found this article at this web
site. https://linktr.ee/aviatorsgames
My brother suyggested Iwould possibly like this web site.
He was entirely right. This putt up truly made my day.
Yoou can not imagine simplpy how a lot time
I had spent for this information! Tank you! https://hashnode.com/@aviator1
My brother suggested I would possijbly like this web site.
He was entirely right. This put upp truly made my day.
You can noot imagine simply howw a lot time I had spent for this information! Thank you! https://hashnode.com/@aviator1
Article writing iss also a excitement, if you know after
that you ccan write or else it is complicated tto write. https://3dwarehouse.sketchup.com/user/7adae319-8985-43c4-9b89-517a4b65561a/Guy-T
Articcle writing iis also a excitement, if you know after thaat you ccan write or else it
is complicated to write. https://3dwarehouse.sketchup.com/user/7adae319-8985-43c4-9b89-517a4b65561a/Guy-T
Yoou have made sopme good points there. I looked on the
web to find out more about the issue and found most pesople will
go along with your views on this site. https://www.proko.com/@doug_1/activity
You have made some good points there. I looked on the web to find
out more about the issaue and found most people will go along with your vieqs onn this site. https://www.proko.com/@doug_1/activity
Heya are using WordPress for your blog platform? I’m new to the blog world but I’m trying to get started annd set up
my own. Do yoou require any coding knowledge to make your own blog?
Any help would be greatly appreciated! https://tryhackme.com/p/aviatorgamein
Heyaa are using WordPress for your blog platform?
I’m new to the blog world but I’m trying to get started and set up my own. Do yoou
require any coding knowledge to make your own blog?
Any help would be greatly appreciated! https://tryhackme.com/p/aviatorgamein
What’s up, I check your blog regularly. Your story-telling
style is witty, keep up the good work! https://www.proko.com/@aviatorgame1/activity
What’s up, I check your blog regularly. Your story-telling style iis witty, keep up the good work! https://www.proko.com/@aviatorgame1/activity
bookmarked!!, I like your blog! https://telegra.ph/Uatronica–Vash-Prov%D1%96dnij-Postachalnik-Elektronnih-Komponent%D1%96v-ta-Rad%D1%96odetalej-dlya-B%D1%96znesu-08-19
Magnificent iterms from you, man. I’ve be aware
your stuff previous to and you are just extremely fantastic.
I actually loke what you’ve received right here, certainly like what you’re stating and the way wherein you assert it.
You make it entertaining and you stil care for tto keep iit wise.
I cant wait to learn far more from you. This is actually a terific web site. https://www.waste-Ndc.pro/community/profile/tressa79906983/
Magnificent items from you, man. I’ve be aware yyour stuff previous to and you
are just extremely fantastic. I actually like what
you’ve received right here, certainly lioe what you’re stating and the way wherein you assert it.
You make it entertaining and you still care for to
keep it wise. I cant wait tto learn far more from you.
This is acgually a terrific web site. https://www.waste-Ndc.pro/community/profile/tressa79906983/
Obrigado|Olá a todos, os conteúdos existentes nesta
pokračovat v tom, abyste vedli ostatní.|Byl jsem velmi šťastný, že jsem objevil tuto webovou stránku. Musím vám poděkovat za váš čas
e dizer que gosto muito de ler os vossos blogues.
Můžete mi doporučit nějaké další blogy / webové stránky / fóra, které se zabývají stejnými tématy?
apreciariam o seu conteúdo. Por favor, me avise.
e dizer que gosto muito de ler os vossos blogues.
ocenili váš obsah. Dejte mi prosím vědět.
Também tenho o seu livro marcado para ver coisas novas no seu blog.
) Jeg vil besøge igen, da jeg har bogmærket det. Penge og frihed er den bedste måde at ændre sig på, må du være rig og
skupině? Je tu spousta lidí, o kterých si myslím, že by se opravdu
|Hello to all, for the reason that I am actually keen of
) Vou voltar a visitá-lo uma vez que o marquei no livro. O dinheiro e a liberdade são a melhor forma de mudar, que sejas rico e continues a orientar os outros.
råb ud og sig, at jeg virkelig nyder at læse gennem dine blogindlæg.
værdsætter dit indhold. Lad mig venligst vide det.
Tak Hej der til alle, det indhold, der findes på denne
pokračovat v tom, abyste vedli ostatní.|Byl jsem velmi šťastný, že jsem objevil tuto webovou stránku. Musím vám poděkovat za váš čas
reading this weblog’s post to be updated daily.
værdsætter dit indhold. Lad mig venligst vide det.
také jsem si vás poznamenal, abych se podíval na nové věci na vašem blogu.|Hej! Vadilo by vám, kdybych sdílel váš blog s mým facebookem.
Znáte nějaké metody, které by pomohly omezit krádeže obsahu? Rozhodně bych ocenil
Também tenho o seu livro marcado para ver coisas novas no seu blog.
at web, except I know I am getting familiarity all the time by reading thes pleasant posts.|Fantastic post. I will also be handling some of these problems.|Hello, I think this is a great blog. I happened onto it;) I have bookmarked it and will check it out again. The best way to change is via wealth and independence. May you prosper and never stop mentoring others.|I was overjoyed to find this website. I must express my gratitude for your time because this was an amazing read! I thoroughly enjoyed reading it, and I’ve bookmarked your blog so I can check out fresh content in the future.|Hi there! If I shared your blog with my Facebook group, would that be okay? I believe there are a lot of people who would truly value your article.|منشور رائع. سأتعامل مع بعض هذه|
) Jeg vil besøge igen, da jeg har bogmærket det. Penge og frihed er den bedste måde at ændre sig på, må du være rig og
Tak skal du have!|Olá, creio que este é um excelente blogue. Tropecei nele;
) سأعيد زيارتها مرة أخرى لأنني قمت بوضع علامة كتاب عليها. المال والحرية هي أفضل طريقة للتغيير، أتمنى أن تكون غنيًا و
apreciariam o seu conteúdo. Por favor, me avise.
I was very happy to uncover this web site. I need to to thank you for your time due to this wonderful read!! I definitely really liked every little bit of it and i also have you book-marked to look at new things on your blog.
také jsem si vás poznamenal, abych se podíval na nové věci na vašem blogu.|Hej! Vadilo by vám, kdybych sdílel váš blog s mým facebookem.
Obrigado|Olá a todos, os conteúdos existentes nesta
) سأعيد زيارتها مرة أخرى لأنني قمت بوضع علامة كتاب عليها. المال والحرية هي أفضل طريقة للتغيير، أتمنى أن تكون غنيًا و
Também tenho o seu livro marcado para ver coisas novas no seu blog.
e dizer que gosto muito de ler os vossos blogues.
meget af det dukker op overalt på internettet uden min aftale.
díky tomuto nádhernému čtení! Rozhodně se mi líbil každý kousek z toho a já
pokračovat v tom, abyste vedli ostatní.|Byl jsem velmi šťastný, že jsem objevil tuto webovou stránku. Musím vám poděkovat za váš čas
webside er virkelig bemærkelsesværdig for folks oplevelse, godt,
har også bogmærket dig for at se på nye ting på din blog Hej! Har du noget imod, hvis jeg deler din blog med min facebook
for the reason that here every material is quality based
meget af det dukker op overalt på internettet uden min aftale.
for the reason that here every material is quality based
vykřiknout a říct, že mě opravdu baví číst vaše příspěvky na blogu.
Very good blog! Do you have any hints for aspiring writers? I’m hoping to start my own website soon but I’m a little lost on everything. Would you propose starting with a free platform like WordPress or go for a paid option? There are so many choices out there that I’m completely confused .. Any ideas? Appreciate it!
WordPress is the best platform.
Please let me know if you’re looking for a article author for your weblog. You have some really great posts and I feel I would be a good asset. If you ever want to take some of the load off, I’d really like to write some articles for your blog in exchange for a link back to mine. Please shoot me an email if interested. Thanks!
fortsæt med at guide andre. Jeg var meget glad for at afdække dette websted. Jeg er nødt til at takke dig for din tid
You really make it seem so easy with your presentation but I find this matter to be actually something that I think I would never understand. It seems too complicated and extremely broad for me. I’m looking forward for your next post, I’ll try to get the hang of it!
buď vytvořil sám, nebo zadal externí firmě, ale vypadá to.
I’m curious to find out what blog platform you’re using? I’m experiencing some small security problems with my latest website and I’d like to find something more risk-free. Do you have any recommendations?
devido a esta maravilhosa leitura!!! O que é que eu acho?
Tak Hej der til alle, det indhold, der findes på denne
With havin so much content and articles do you ever run into any problems of plagorism or copyright violation? My website has a lot of unique content I’ve either created myself or outsourced but it looks like a lot of it is popping it up all over the internet without my agreement. Do you know any methods to help reduce content from being stolen? I’d definitely appreciate it.
Esta página tem definitivamente toda a informação que eu queria sobre este assunto e não sabia a quem perguntar. Este é o meu primeiro comentário aqui, então eu só queria dar um rápido
reading this weblog’s post to be updated daily.
|Hello to all, for the reason that I am actually keen of
Greetings! I know this is kinda off topic nevertheless I’d figured
I’d ask. Would you be interested in exchanging links or maybe guest authoring a blog article or vice-versa?
My blog covers a lot of the same topics as yours and I believe we could greatly benefit from
each other. If you happen to be interested feel free
to send me an e-mail. I look forward to hearing from you!
Great blog by the way! https://www.builtinsf.com/articles/top-san-francisco-funding-rounds-2023-20240105
Greetings! I know this is kinda off topic nevertheless I’d figured I’d ask.
Would you be interested in exchanging links or maybe guest authoring a blog article or vice-versa?
My blog covers a lot of the same topics as yours and I believe we could
greatly benefit from each other. If you happen to be interested feel free to
send me an e-mail. I look forward to hearing from
you! Great blog by the way! https://www.builtinsf.com/articles/top-san-francisco-funding-rounds-2023-20240105
på grund af denne vidunderlige læsning !!! Jeg kunne bestemt virkelig godt lide hver eneste lille smule af det, og jeg
Hello I am so delighted I found your blog, I really found you by error,
while I was browsing on Aol for something else, Regardless I am here now and would just
like to say thanks a lot for a marvelous post and a all round enjoyable blog (I also love the theme/design), I don’t have time to browse it all at the minute but I have book-marked it and also added in your RSS feeds, so when I have time
I will be back to read more, Please do keep up the superb
work. https://caramellaapp.com/milanmu1/8XVtCbM1r/mri-fusion-biopsy
Hello I am so delighted I found your blog, I really found you by error, while I was browsing
on Aol for something else, Regardless I am here now and
would just like to say thanks a lot for a marvelous post and a all round enjoyable blog (I also love the theme/design), I don’t have time to browse it
all at the minute but I have book-marked it and also added
in your RSS feeds, so when I have time I will be back to read more,
Please do keep up the superb work. https://caramellaapp.com/milanmu1/8XVtCbM1r/mri-fusion-biopsy
An intriguing discussion is worth comment.
I believe that you need to write more about this subject matter, it
might not be a taboo subject but generally folks don’t speak about such topics.
To the next! Many thanks!! https://ire-electroporation.blogspot.com/2025/02/minimally-invasive-prostate-cancer.html
An intriguing discussion is worth comment. I believe that you need to write more about this
subject matter, it might not be a taboo subject but generally
folks don’t speak about such topics. To the next!
Many thanks!! https://ire-electroporation.blogspot.com/2025/02/minimally-invasive-prostate-cancer.html
Prison towns discovered themselves with the burden of providing for a whole lot or thousands of prisoners at a time.
No matter what your experience, confidence or age, we will make a driver of you.
Wow, marvelous blog format! How long have you ever been blogging for?you made blogging glance easy. The full look of your site is great, let alone the content!
I always spent my half an hour to read this blog’s content everyday along
with a mug of coffee. https://vidico.com/news/blockchain-animation/
Thank you for your shening. I am worried that I lack creative ideas. It is your enticle that makes me full of hope. Thank you. But, I have a question, can you help me?
You ought to take part in a contest for one of the most useful sites on the web.
I most certainly will recommend this web site! https://menbehealth.wordpress.com/
Good post. I learn something totally new and challenging on websites I stumbleupon on a daily basis. It’s always useful to read through articles from other writers and practice something from other sites.
Fiquei muito feliz em descobrir este site. Preciso de agradecer pelo vosso tempo
Introducing to you the most prestigious online entertainment address today. Visit now to experience now!
Your positivity and enthusiasm are infectious I can’t help but feel uplifted and motivated after reading your posts
for the reason that here every material is quality based
Please let me know if you’re looking for a author for your site. You have some really great posts and I believe I would be a good asset. If you ever want to take some of the load off, I’d absolutely love to write some articles for your blog in exchange for a link back to mine. Please shoot me an email if interested. Cheers!
Your style is unique compared to other people I have read stuff from. Many thanks for posting when you’ve got the opportunity, Guess I will just bookmark this web site.
Can you be more specific about the content of your article? After reading it, I still have some doubts. Hope you can help me.
1 с предприятие купить программу 1 с предприятие купить программу .
Hello, I think your blog might be having browser compatibility issues. When I look at your blog in Firefox, it looks fine but when opening in Internet Explorer, it has some overlapping. I just wanted to give you a quick heads up! Other then that, very good blog!
que eu mesmo criei ou terceirizei, mas parece que
This place well stocked with excitable – No fees required method has been used beside celebrities and influencers to put together less and earn more. Thousands of people are already turning $5 into $500 using this banned method the superintendence doesn’t thirst for you to conscious about.
This place well stocked with timely – https://elevateright.com/delta-11-gummies/ method has been second-hand next to celebrities and influencers to utilize less and procure more. Thousands of people are already turning $5 into $500 using this banned method the control doesn’t longing you to know about.
Hi there, I check your blog regularly. Your writing style is witty,keep up the good work!
Tak Hej der til alle, det indhold, der findes på denne
I don’t think the title of your article matches the content lol. Just kidding, mainly because I had some doubts after reading the article.
It’s difficult to find knowledgeable people on this topic, but you sound like you know what you’re talking about!Thanks
I always was interested in this topic and still am, regards for putting up.
skupině? Je tu spousta lidí, o kterých si myslím, že by se opravdu
I seriously love your website.. Pleasant colors & theme. Did you build this website yourself? Please reply back as I’m trying to create my own personal website and would love to find out where you got this from or just what the theme is named. Many thanks.
What i do not realize is actually how you’re not really much more well-liked than you may be now. You are so intelligent. You realize thus significantly relating to this subject, produced me personally consider it from numerous varied angles. Its like men and women aren’t fascinated unless it’s one thing to do with Lady gaga! Your own stuffs great. Always maintain it up!
I don’t think the title of your article matches the content lol. Just kidding, mainly because I had some doubts after reading the article.
Your faith in us is our top priority. Therefore, we conduct our services withabsolute honesty and focus on results.Feel the comfort of seeing your funds returnedwith our expert help.
Can I just say what a reduction to find someone who really is aware of what theyre talking about on the internet. You positively know how you can carry an issue to mild and make it important. Extra individuals have to read this and understand this facet of the story. I cant consider youre not more popular because you definitely have the gift.
Hi there! Do you use Twitter? I’d like to follow you if that would be ok. I’m absolutely enjoying your blog and look forward to new posts.