حاجیوں کی موت پر واویلا کیوں
رواں سال حج کے درمیان تقریبا تیرہ سو حجاج کرام جاں بحق ہوئے اللہ تعالیٰ ان کےحج کو قبول فرمائے۔حج کے دوران اموات کوئی نئی بات نہیں یہ توشروع سے ہی ہوتارہاہے حجاج کرام جب حج کے ارادے سے نکلتے ہیں تو ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں سرزمین پاک کی موت نصیب ہو۔ احرام کی شکل کفن کی ہے اور ایک طرح سے محرم اپنے بدن سے کفن لپیٹ کر نکلتاہے ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ارض پاک کی موت نصیب ہوتی ہے ۔اسی لئے جولوگ احرام کی حالت میں جاں بحق ہوتے ہیں انہیں محرم کی طرح ہی دفن کردیا جاتاہے ۔اور وہ قیامت کے دن جب اٹھے گا تو تلبیہ پڑھتاہو ااٹھے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے دوران ایک شخص کی موت ہوگئی تو آپ ﷺ نے اس کے لئے ایسی ہی ہدایت فرمائی۔
عن عبد الله بن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , قَالَ:” كَانَ رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَوَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ أَيُّوبُ: فَوَقَصَتْهُ، وَقَالَ عَمْرٌو: فَأَقْصَعَتْهُ فَمَاتَ فَقَالَ: اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”، قَالَ أَيُّوبُ: يُلَبِّي، وَقَالَ عَمْرٌو: مُلَبِّيًا.(صحیح بخاری ، کتاب الجنائز،حدیث نمبر ١٢٦٨ )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا، اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ایوب نے کہا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی۔ اور عمرو نے یوں کہا کہ اونٹنی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ سر ڈھکو کیونکہ قیامت میں یہ اٹھایا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ (یعنی) تلبیہ کہتے ہوئے (اٹھایا جائے گا) اور عمرو نے (اپنی روایت میں ”ملبی“ کے بجائے)”ملبيا “کا لفظ نقل کیا۔ (یعنی لبیک کہتا ہوا اٹھے گا)۔
محرم کے کفن کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتاہوا اٹھے گا ۔ اور یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ قیامت کے دن جب کہ ہر شخص اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے گا ایسا شخص جو حالت احرام میں مرا وہ جب اٹھے گا تو اس کی زبان پر تلبیہ کے کلمات ہوں گے ۔
بندۂ مومن جب کوئی عمل خیر کرنے کاارادہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا اجرو ثواب اسی وقت سے جاری ہوجاتاہے جب وہ ارادہ کرتاہے اور اگر اس عمل کے کرنے سے پہلے ہی اس کی موت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا وہ عمل اپنے فضل سے قبول فرمالیتے ہیں ۔
وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا(١٠٠ )نساء
اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بے شک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
اس آیت کریمہ سے صاف پتہ چلتاہے کہ جوشخص ہجرت کے اردہ سے گھرسے نکلا اور راستہ میں ہی اسے موت نے پالیا تو اس کااجر ضائع نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو ہجرت کااجرو ثواب عطافرمائیں گے۔ یہ حال تمام اعمال صالحہ کا ہے کہ جس نے بھی کوئی نیک عمل شروع کیا اور راستے میں قضا حائل ہوگئی تو اس کا وہ عمل اللہ کے یہاں مکمل طور پر قبول ہے۔ حج وعمرہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کاارشاد موجودہے :
عن أبي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من خرج حاجًّا فمات، كُتب له أجر الحاج إلى يوم القيامة، ومن خرج معتمرًا فمات، كتب له أجر المعتمر إلى يوم القيامة، ومن خرج غازيًا فمات، كتب له أجر الغازي إلى يوم القيامة”؛ (صحيح الترغيب والترهيب: ١١١٤ )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ جوشخص حج کے ارادہ سے نکلااور مرگیا تو اس کے لیے تو اس کے لیے قیامت تک حج کرنے کا اجر لکھا جائے گا۔ اور جو عمرہ کے ارادہ سے نکلے اور مر جائے تو اس کے لئے قیامت کے عمرہ کرنے کا اجر لکھا جائے گااور جو اللہ کی راہ میں جہاد کےلیے نکلے اورمرجائے تو اس کے لیے قیامت تک غازی کااجرلکھاجائےگا۔
ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے اعمال کااجروثواب جاری ہے اور اللہ تعالیٰ عمل سے پہلے ہی اسے قبول کرلے ۔
اس کے علاوہ موت کاایک وقت مقرر ہے اس سے کوئی مفر نہیں دنیا کی ساری تدبیریں اور سارے اسباب مل کربھی کسی کی موت کو ایک لمحے کےلیے ٹال نہیں سکتے ۔یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے پھر کیسے حجاج کرام کی اموات پر سوال کھڑے کیے جارہے ہیں کہ بد انتظامی کی وجہ سے اموات ہوئیں اور اس کے ذمہ دار سعودی انتظامیہ ہے۔ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حکام اپنی ذمہ داری میں کوتاہی برتیں گے تو وہ عند اللہ ماخوذہوں گے اور انہیں اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ لیکن جن لوگوں کی اموات ہوگئی ہیں ان کے لئے دعائے خیر کی بجائےحکام کو کوسنا اور ان کی برائیوں اورکوتاہیوں کوشمار کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔
نیز جولوگ بخیر و عافیت واپس آگئے ان کو اللہ کاشکر اداکرنا چاہئے کہ ایک فریضہ ادا ہوگیااب انہیں اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہمارایہ عمل اللہ کے یہاں قابل قبول ہوجائے۔نہ کہ حج کے درمیان بدانتظامی کی شکایت کرتے پھریں۔
آخر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور آپ ﷺ کےبعد زمانۂ بعید تک لوگ جب حج کرنے جاتے تھے تو ان کے لئے کیاانتظامات ہوتے تھے ۔وہ سب کے سب عرفات کے میدان میں کھلے میدان میں ٹھہرتے تھے اور نہایت گرمجوشی سے حج کے ارکان بھی پورے کرتے تھے ۔ آج تو بہت ساری سہولتیں اللہ نے پیدافرمادی ہیں جس کی وجہ سے پریشانیاں بہت کم ہوگئی ہیں ۔ تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات پر شکر اداکرنا چاہئے ۔نیز یہ بات بھی ذہن نشیں رہنا چاہئے کہ سفر میں پریشانیاں ہوتی ہیں اور ان پریشانیوں کو برداشت کرنا ہی منزل مقصود تک پہنچنے کی ضمانت ہیں۔دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حجاج کرام کاحج قبول فرمائے جو اس راہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کے حج بھی قبول فرمائے جو تمام ارکان بحسن وخوبی پورا کرکے اپنے گھروں کولوٹ آئے۔آمین یارب العالمین۔
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
