خواتین کا بغیر محرم کے حج یاعمرہ کاسفر
حج اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جن کے بغیر اسلام کاخیمہ استوار نہیں ہوسکتا ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے استطاعت کی قیدکے ساتھ مسلمانوں پر حج کوفرض فرمایا ہے ۔ استطاعت سے مراد یہ ہے کہ اتنی مالی وسعت ہو کہ آسانی کے ساتھ بیت اللہ جاکر واپس آسکے نیز اس کے زمانۂ غیبوبت میںاس کے اہل خانہ میں سے وہ افراد جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ان کی کفالت کابھی انتظام ہو ۔اسی طرح راستے کا پُر امن ہونا بھی استطاعت کے ذیل میں ہی آتاہے ۔ عورت کے لئے محرم کاہونا بھی اسی میںشامل ہے ۔ لہذا اگر کسی عورت کا کوئی محرم نہیں ہے تو اس پرحج فرض نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حج کے تفصیلی احکام نازل فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاوَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(البقرۃ۔۹۷ )
ترجمہ: اور اللہ کے لئے اس گھر کا حج فرض ہے ا س کے لئے جو استطاعت رکھتاہے اور جو شخص انکار کرے تو اللہ تمام جہاںسے بے نیاز ہے۔
جس طرح حج کی فرضیت کے لئے عاقل ،بالغ ،مسلمان،بیت اللہ تک جانے اور آنے کی سہولت اور راستے کا پرامن ہونا شرط ہے اسی طرح ایک عورت کے لئے محرم کا ساتھ ہونا بھی شرط ہے کوئی بھی عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ کا سفر نہیں کرسکتی ۔ بلکہ ایسی عورت جس کے ساتھ جانے کے لئے کوئی محرم نہ ہو اس پر حج فرض ہی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی عورت کے لئے تنہا سفرکرنے کو نہایت سختی سے منع فرمایاہے۔ ذیل میں رسول اللہ ﷺ کی چند احادیث جو متعدد طرق سے منقول ہیں پیش کی جارہی ہیں:
عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ”(صحیح بخاری كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بَابٌ في كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ:حدیث نمبر: ١٠٨٨ )
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ لَيْلَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا رَجُلٌ ذُو حُرْمَةٍ مِنْهَا “.(صحیح مسلم کتاب الحج باب سَفَرِ الْمَرْأَةِ مَعَ مَحْرَمٍ إِلَى حَجٍّ وَغَيْرِهِ ۔حدیث نمبر: ٣٢٦٦ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کسی مسلما ن عورت کے لیے حلال نہیں وہ ایک رات کی مسافت طے کرے مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ ایسا آدمی ہو جو اس کا محرم ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تُسَافِرَ ثَلَاثًا، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا “.(صحیح مسلم ۔کتاب الحج باب سَفَرِ الْمَرْأَةِ مَعَ مَحْرَمٍ إِلَى حَجٍّ وَغَيْرِهٖ حدیث نمبر: ٣٢٦٩ )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سفر کرے مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تُسَافِرُ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ “. (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَةُ وَحْدَهَا بِغَيْرِ مَحْرَمٍ حدیث نمبر: ١١٧٠ )
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے“۔
ایک روایت میں تو واضح طور پر رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کو یہ حکم دیا ہے کہ تم جہاد چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ حج پرجاؤ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ، فَقَامَ: رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، وَخَرَجَتِ امْرَأَتِي حَاجَّةً، قَالَ: اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ”.(صحیح بخاری كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ۔ بَابُ مَنِ اكْتُتِبَ فِي جَيْشٍ فَخَرَجَتِ امْرَأَتُهُ حَاجَّةً، وَكَانَ لَهُ عُذْرٌ، هَلْ يُؤْذَنُ لَهُ: حدیث نمبر: ٣٠٠٦ )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی اس کا محرم نہ ہو۔ اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! میں نے فلاں جہاد میں اپنا نام لکھوا دیا ہے اور ادھر میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو بھی جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔
اتنی صریح احادیث کے باوجود کسی عورت کا تنہا حج یا عمرہ کے لیے سفر کرناکیسے جائز ہوسکتاہے ۔
بعض لوگ راستہ پر امن ہونے کی حالت میں عورت کے لئے بغیر محرم کے سفر کو جائز مانتے ہیں ۔ اور دلیل میں ایک پیشین گوئی جو رسول اللہ ﷺ نے کی ہے اسے پیش کرتے ہیں ۔ ذیل میںوہ حدیث ذکر کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے مختلف قسم کی پیشین گوئیاں فرمائی ہیں:
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ:” يَا عَدِيُّ هَلْ رَأَيْتَ الْحِيرَةَ، قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، قَالَ: فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ، قُلْتُ: فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى، قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ، فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ وَلَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، فَلَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَيُبَلِّغَكَ، فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَيْكَ، فَيَقُولُ: بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ، قَالَ: عَدِيٌّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، قَالَ: عَدِيٌّ فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا، قَالَ: النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ”،(صحيح البخاري ،كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ،حدیث نمبر: ٣٥٩٥ )
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدی! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جو دن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہو گا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو؟ وہ عرض کرے گا بیشک تو نے بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی؟ وہ جواب دے گا بیشک تو نے دیا تھا۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جہنم سے ڈرو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہو۔ اگر کسی کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہ آ سکے تو (کسی سے) ایک اچھا کلمہ ہی کہہ دے۔ عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور (مکہ پہنچ کر) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے (ڈاکو وغیرہ) کا (راستے میں) خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شریک تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ اور اگر تم لوگ کچھ دنوں اور زندہ رہے تو وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں (زکوٰۃ کا سونا چاندی) بھر کر نکلے گا (لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا)
اس حدیث میں منجملہ دوسری چیزوں کے ایک پیشین گوئی ہے کہ ” اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔“ اور پھر آگے چل کر حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے” میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور (مکہ پہنچ کر) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے (ڈاکو وغیرہ) کا (راستے میں) خوف نہیں تھا “ گویا رسول اللہ ﷺ کی وہ پیشین گوئی عدی بن حاتم ؓ کی حیات میں ہی پوری ہوگئی۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی بالکل برحق ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن عورت کے سفر کے سلسلے میں دیگر واضح احادیث کی موجودگی میں اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتاہے ۔ اس لئے کہ اول تو یہ ایک پیشین گوئی ہے اور پیشین گوئی کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا ورنہ اور بہت سے احکام ثابت ہوجائیں گے جو آپ ﷺ کے ارشادات سے ثابت ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اس پیشین گوئی میں رسول اللہ ﷺ کا مقصد صرف حالت امن کو بیان کرنا ہے نہ یہ کہ عورتوں کے بغیر محرم کے سفر کے جواز کو بیان کرنا مقصود ہے۔عورتوں کے سفر سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی طرف سے واضح حکم وہی ہے جو اوپر کی احادیث میں بیان کیا گیا۔
کچھ لوگ ازواج مطہرات کے حج کو بھی حجت بناتے ہیں کہ خلیفہ دوم عمر فاروقؓ عنہ نے انہیں حضرت عثمان غنی اور عبد الرحمن بن عوف کے ساتھ حج کے لئے بھیجا تھا ۔اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا اس لئے کہ ازواج مطہرات امت کے لئے ماں کے درجہ میں ہیں اور ان سے نکاح امت کے لئے حرام ہے اس لئے وہ حضرت عثمان غنی اور عبد الرحمن بن عوف کی بھی مائیںہیں اور یہ ان کی خصوصیت ہے ۔
سعودی حکومت کے اجازت نامہ کووجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا اس لئے کہ یہ کوئی دلیل نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے ۔ اور آج کل سعودی حکومت جو فیصلے کررہی ہے اس سے سارے اہل علم واقف ہیں۔
رہایہ معاملہ کہ بعض خواتین جن کے پاس کوئی محرم نہیں اور ان کے پاس حج یاعمرہ کے لیے جانے کے اخراجات موجود ہیں اور دل میں چاہت بھی ہے لیکن محض اس عارض کی وجہ سے وہ حج کے سفر سے محروم ہیںتو انہیںمایوس نہیںہونا چاہئے ۔بلکہ صبرکرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ حج یا عمرہ پر جانا محض اللہ کی رضا کے لئے ہے اور یہاں اللہ ورسول کاحکم ہی وہاں جانے سے مانع ہے اس لئے وہ گھر پر رہ کر بھی اللہ کی رضا حاصل کرسکتی ہیں اور امید ہے کہ دل میں سچی طلب ہو گی تو گھربیٹھے اللہ تعالیٰ حج و عمرہ کاثواب عطا فرمائیںگے ۔ جیسا کہ غزوہ تبوک سےواپسی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جس جگہ بھی سفر کیا اور جو وادی بھی طے کی ، وہ تمہارے ساتھ رہے انہیں عذر نے روک رکھتا تھا۔‘‘ لوگوں نے کہا ۔ یارسول اللہ ﷺ ! وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ تھے ؟ آپﷺ نے فرمایا! ہاں ، مدینہ میں رہتے ہوئے بھی !۔
لہذا جوخواتین شدید خواہش کے باوجود صرف محرم نہ ہونے کی وجہ سے حج یاعمرہ سے محروم ہیں انہیں صبر کرنا چاہئے اور اللہ سے دعاکرتے رہنا چاہئے کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی سبب پید افرمادے یا انہیں بغیر عمل کےہی عاملین میںشامل فرمادے ۔بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *