مریض ، میت اور جنازہ کے احکام
تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
﷽
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ : اَمَّا بَعْدُ
موت ایک ابدی حقیقت ہے جس سے کوئی مفر نہیں ۔ہر شخص جو اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کے آغوش میں جانا ہے ۔دنیا کا کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی دین کاماننے والا ہو، یا نہ ماننے والا ہو اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اسے جو حیات ملی ہے وہ فانی ہے ابدی نہیں ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر مومن کایہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک حیات ہے جو ابدی ہے اس میں فنا نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے چاہے وہ زندگی اللہ کی عطاکردہ عظیم نعمتوں سے بھرے مقام جنت میں ہو یااللہ کے غضب کامظہر جہنم میں ہو موت اس حیات میں نہیں ہے ۔
جب انسان مرجاتاہے تو اس کے دینی بھائی اپنے اپنے رسم ورواج کے مطابق اسے آخری سفر کے لئے تیار کرتے ہیں اور اسے روانہ کردیتے ہیں ۔ ہر مذہب میں اس کی شکلیں الگ الگ ہیں۔ کوئی زیر زمیں دفن کرتاہے ، کوئی جلاکر راکھ ہو امیں اڑا دیتاہے یا پانی میں ڈال کربہادیتاہے ۔
اسلام ایک کامل دین ہے اس میں زندگی کے ہر موڑ پر پیش آنے والے حالات وواقعات سے متعلق ہدایات موجود ہیں ۔ جس طرح زندگی میں انسان کے لئے کچھ اصول وضوابط اور ہدایات ہیں جن کے مطابق ایک ایمان والا اپنی زندگی گذارتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے اجرو ثواب کی امید رکھتاہے اسی طرح مرنے کے بعد زندوں پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں کہ مرنے والے کی تدفین کا انتظام کرکے اس کو عزت ووقار کے ساتھ دووسری دنیا کی طرف رخصت کریں ۔ جس میں میت کے غسل ،تکفین ، جنازہ،تدفین اور اس کے لئے ایصال ثواب شامل ہے ۔
زیر نظرمضمون میں ان ضروری مسائل وھدایات کوجمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کامیت کے ساتھ تعلق ہے۔قارئین سے گزارش ہے کہ اس مضمون میں کوئی چیز اگر قابل اعتراض ہو تو مضمون نگار کی رہنمائی فرمائیں اور دعاکریں کہ یہ ادنیٰ کاوش اللہ رب العزت کے دربار میں شرف قبولیت پائے اور آخرت کے لئے ذخیر ہ بن جائے ۔ آمین
رنج وبلا ایک امتحان
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہیں اوررحم وکرم ہی پسند کرتے ہیں ۔ انسان پر عیش ومسرت طاری کرنا یا اسے رنج وتکلیف میں مبتلا کرنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی مرضی کے خلاف اس کائنات میں کوئی بھی شیٔ حرکت نہیں کرتی ۔ایک مومن بندہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ جب وہ عیش ونشاط کی حالت میں ہوتاہے تو اپنے رب کاشکر اداکرتا ہے اور جب اس پر رنج والم کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ صبر سے کام لیتاہے جولوگ مصائب کی شدت اور آلام کی کثرت سے گھبراتے نہیں ان کواللہ تعالیٰ بہت پسند کرتے ہیں اور ان پراپنی رحمتوں کی بارشیں برساتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ(۱۵۶) اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ(۱۵۷) (البقرۃ)
ترجمہ: اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن بندہ کوایک پودے سے تعبیر کیا ہے کہ جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ ادھر ادھر لہراتاہے ، جھکتاہے ، اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔لیکن وہی پودا جب دھوپ کی شدت برداشت کرکے سردوگرم ہواؤں کو جھیل کر بڑا تناور درخت بن جاتاہے تو لوگوں کو پھل او ر سایہ کے ذریعہ فائدہ پہنچاتاہے ۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کر دیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے اور آخر ایک جھونکے میں کبھی اکھڑ ہی جاتا ہے۔‘‘(بخاری۔ حدیث نمبر۵۶۴۳)
جب مومن بندہ پر کوئی مصیبت آتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس مصبیت کو بندہ مومن کے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘(بخاری۔ حدیث نمبر۵۶۴۲)
جب کوئی مومن بندہ مصیبت کے وقت کوئی دعاکرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں ضرور قبول فرماتے ہیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا فرماتے تھے: ’’کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کو مصیبت پہنچے اور وہ یہ کہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن اَللّٰھُمَّ اَجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَأَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا اِلَّا اَخْلَفَ اللّٰہُ لَہٗ خَیْرًا مِّنْھَا ۔ ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اور اس کے بدلہ میں اس سے اچھی چیزعنایت فرما مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر چیز اس کو دیتا ہے۔‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہ (یعنی ان کے شوہر) انتقال کر گئے تو میں نے کہا: اب ان سے بہتر کون ہو گا، اس لئے کہ ان کا پہلا گھر تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر میں نے یہی دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے بدلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شوہر بنا دیا۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دینے آئے، میں نے عرض کیا کہ میری ایک بیٹی ہے اور مجھ میں غصہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کی بیٹی کے لئے تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ اللہ ان کو بیٹی کے فکر سے بے غم کر دے گا اور ان کے غصہ کے لئے ہم دعا کریں گے وہ اللہ کھو دے گا۔(ختم کردے گا)‘‘(مسلم۔حدیث نمبر۲۱۲۶)
عیادت مسلمان کاحق ہے
مسلمانوں کا آپس میں اس طرح کا تعلق ہے جس طرح انسان کے اعضائے بدن کا تعلق ہوتاہے اگر بدن کے کسی بھی حصہ میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا بدن اس درد کومحسوس کرتاہے ۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان بھائی جب کسی تکلیف میں مبتلاہو تو دوسرے مسلمان بھائیوں کو اس کا دردمحسوس کرنا چاہئے اور اس کے دواعلاج کی فکر کرنی چاہئے نیز اس کے پاس جاکر اس کی تیمار داری اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے یہ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر حق ہے۔ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کی مزاج پر سی اور تیمارداری کیاکرتے تھے اور ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔اپنی امت کو بھی رسول اللہ ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ جب تمہار ا کوئی بھائی بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرو اور اس کی صحت یابی کے لئے دعاکرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ’’ بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت یعنی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔‘‘(بخاری ۔حدیث نمبر۵۶۴۹)
عیادت کی فضیلت
عیادت کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلم بھائی کی عیادت کرے تو وہ دوزخ سے ستر خریف کی مسافت کی مقدار دور کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ( ابو داؤد ۔حدیث نمبر۳۰۹۷)خریف کا مطلب سال ہے یعنی مریض کی عیادت کرنے والا جہنم سے ستر سال کی مسافت کے بقدر دور کردیا جاتاہے۔اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ نے مریض کی عیادت کرنے والے کہ لئے یہ بشارت بھی سنائی ہے : ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے آے وہ جنت کے کھجور کے باغ میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے، جب بیٹھ جائے، تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، اگر صبح کے وقت عیادت کے لیے گیا ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں‘‘۔(ابن ماجہ۔حدیث نمبر۱۴۴۲)نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’جس نے کسی مریض کی عیادت کی تو آسمان سے منادی (آواز لگانے والا) آواز لگاتا ہے: تم اچھے ہو اور تمہارا جانا اچھا رہا، تم نے جنت میں ایک ٹھکانا بنا لیا‘‘۔( ابن ماجہ۔حدیث نمبر۱۴۴۳)اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے پاس پڑوس میں یا عزیر رشتہ داروں میں یا عام مسلمانوں میں کسی کی بیماری کی خبر ملے تو اس کی عیادت ضرور کریں ۔ ا س میں ایک تو مریض کی دلجوئی ہے اور دوسرے اجروثواب کاعظیم ذخیرہ ۔
مریض کے لئے دعاکرنا
بیماروں کی عیادت کرتے وقت ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھنا اور ان کے لئے دعاکرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا میں مکہ میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا پھر میرے سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا ،پھر دعا کی:اَللّٰھُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَاَتْمِمْ لَہٗ ہِجْرَتَہٗ ’’اے اللہ! سعد کو شفاء دے اور ان کی ہجرت کو مکمل فرما۔ ( ابو داؤد ۔حدیث نمبر۳۱۰۴)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت ابھی قریب نہ آیا ہو اور اس کے پاس سات مرتبہ یہ دعا پڑھے: اَسْئَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَشْفیَکَ ’’میں عظمت والے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو شفا دے‘‘ تو اللہ اسے اس مرض سے شفاء دے گا‘‘۔( ابو داؤد ۔حدیث نمبر ۳۱۰۶)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے اَذْھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ،اِشْفِ وَاَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَائَ اِلاَّ شِفَاؤُکَ لَایُغَادِرُسَقْمًا ’’اے پروردگار لوگوں کے! بیماری دور کر دے، اے انسانوں کے پالنے والے! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔‘‘( بخاری ۔۵۶۷۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے لاَبَأْسَ طُہُوْرٌ اِنْ شَاء اللّٰہُ ’’کوئی فکر کی بات نہیں۔ ان شاء اللہ یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے‘‘ لیکن اس دیہاتی نے آپ کے ان مبارک کلمات کے جواب میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ پاک کرنے والا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کے رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہو گا۔( بخاری ۔حدیث نمبر ۵۶۵۶)
عیادت کے وقت آنسو نکلنا
مریض کی عیادت ایک مسلمان کاحق ہے ۔مریض کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا چاہئے اور ا س کے درد کو محسوس کرنا چاہئے اور احساس کی شدت میں اگر آنکھو ں سے آنسو نکل پڑے تو کوئی حرج نہیں لیکن آہ و بکا آواز کے ساتھ نہیں ہونی چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ ( بخاری ۔ حدیث نمبر۱۳۰۴)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو کہلوا بھیجا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد رضی اللہ عنہ اور ہمارا خیال ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے کہ میری بچی بستر مرگ پر پڑی ہے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے ہر چیز اس کے یہاں متعین و معلوم ہے۔ اس لیے اللہ سے اس مصیبت پر اجر کی امیدوار رہو اور صبر کرو۔ صاحبزادی نے پھر دوبارہ قسم دے کر ایک آدمی بلانے کو بھیجا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے پھر بچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں اٹھا کر رکھی گئی اور وہ جانکنی کے عالم میں پریشان تھی۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔( بخاری ۔حدیث نمبر۵۶۵۵)
عیادت کے لئے بار بار جانا
اگرمریض کو تکلیف نہ ہوتو ان کی عیادت کے لئے بار بار جانا چاہئے اور ان کے لئے صحت وشفا کی دعاکرتے رہنا چاہئے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔( ابوداؤد ۔حدیث نمبر ۳۱۰۱)
غیر مسلموں کی عیادت
سماجی طور پر ایسے لوگوں کی بھی عیادت کرنا چاہئے کہ جواسلام مخالف ہوں یا ان کا نفاق ظاہر ہو۔ عبد اللہ ابن ابی جس کا نفاق بالکل ظاہر تھا لیکن اس کے باوجود بھی نبی کریم ﷺ نے اس کی عیادت کی ۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: ’’میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا‘‘، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئے تاکہ میں اس میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔( ابوداؤد۔حدیث نمبر ۳۰۹۴)
عورتوں کی عیادت
عورتوں کی عیادت بھی پردے کے لحاظ کے ساتھ کرنا چاہئے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے نیز ان کی صحت وشفا کے لئے دعاکرناچاہئے۔
حضرت ام العلاء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میں بیمار تھی تو میری عیادت کی، آپ نے فرمایا: ’’خوش ہو جاؤ، اے ام العلاء ! بیشک بیماری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے آگ سونے اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے‘‘۔(ابو داؤد ۔حدیث نمبر۳۰۹۲)
بے پردگی کاخوف نہ ہو تو عورتوں کے لئے مردوں کی عیادت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس (عیادت کے لیے) گئی اور پوچھا، محترم والد بزرگوار آپ کا مزاج کیسا ہے؟ بلال رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ بیان کیا کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
کُلُّ اِمْرِیٍٔ مُصْبِحٌ فِیْ اَھْلِہ
وَالْمَوْتُ اَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖ
ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے اور موت اس کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔‘‘
اور بلال رضی اللہ عنہ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے تھے ؎
اَلَا لَیْتَ شِعْرِیْ ، ھَلْ اَبِیْتُنَّ لَیْلَۃً
بِوَادٍ وَحَوْلِیْ اِذْخِرٌ وَّجَلِیْلٌ
وَھَلْ اُرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مُجِنَّۃٍ
وَھَلْ تُبْدُوْنَ لِیْ شَامَۃً وَطَفِیْلٗ
کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کیا پھر ایک رات وادی میں گزار سکوں گا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (مکہ مکرمہ کی گھاس) کے جنگل ہوں گے اور کیا میں کبھی مجنہ (مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ایک بازار) کے پانی پر اتروں گا اور کیا پھر کبھی شامہ اور طفیل (مکہ کے قریب دو پہاڑوں) کو میں اپنے سامنے دیکھ سکوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس کی اطلاع دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ کی محبت بھی اتنی ہی کر دے جتنی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما، اللہ اس کا بخار کہیں اور جگہ منتقل کر دے اسے مقام جحفہ میں بھیج دے۔( بخاری ۔حدیث نمبر۵۶۵۴)
عیادت کے لئے پیدل جانا
عیادت میں جانے والاجب اپنے گھر سے نکلتاہے تب ہی سے عبادت میں شمار ہوتاہے اس لئے عیادت کے لئے پیدل جانا باعث اجرو ثواب ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی خچر اور گھوڑے پر سوار ہوئے میری عیادت کو تشریف لاتے تھے۔( ابو داؤد ۔۳۰۹۶)
حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ بیمار پڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیدل میری عیادت کو تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ مجھ پر بے ہوشی غالب ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے ہوش آ گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال میں کیا کروں کس طرح اس کا فیصلہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔( بخاری ۔۵۶۵۱)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ انصار کا ایک شخص آیا اور سلام کیا اور پھر لوٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اے انصار کے بھائی، میرا بھائی! سعد کیسا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں کون ان کی عیادت کرتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے زیادہ آدمی تھے کہ نہ ہمارے پاس جوتے تھے، نہ موزے اور نہ ٹوپیاں اور ہم چلے جاتے تھے اس کنکریلی زمین میں یہاں تک کہ ان تک پہنچے اورجو لوگ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس تھے وہ ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کے پاس گئے۔ ( مسلم ۔۲۱۳۸)
بلا امتیاز ہر ایک کی عیادت کرنا
مریض کی عیادت کرنے میں دوست، دشمن کا امتیاز نہیں برتنا چاہئے بلکہ انسانیت کے تعلق سے ہرایک کی عیادت کرنی چاہئے اس لئے کہ تمام کے تمام انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں چاہے انسان کا تعلق کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو ان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا معاملہ رکھنا چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ بلاتخصیص مذہب و ملت بیماروں کی عیادت کرتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت بھی دیا کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا (عبدوس نامی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔( بخاری ۔حدیث نمبر۵۶۵۷)
چھوٹی چھوٹی بیماریوں میں عیادت کرنا
عیادت کے لئے کوئی ضروری نہیں ہے بڑی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی ہی عیادت کریں بلکہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں میں بھی عیادت کرنے کے لئے جانا چاہئے ۔جیسے سر درد ، آنکھ درد ، دانت درد وغیرہ۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کے درد میں میری عیادت کی۔( ابو داؤد ۔حدیث نمبر۳۱۰۲)
مذکورہ بالا تمام حدیثوں میں نبی کریمؐ نے اپنے قول وعمل سے یہ ترغیب دی ہے کہ بیمار کی عیادت کرنی چاہئے اور اس کو دلاسا دے کر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اس لئے کہ مریض کاحوصلہ جب تک بلند ر ہتاہے بیماری اس پر حاوی نہیں ہوتی اور اگر مریض نے پہلے ہی مرحلہ میں ہاتھ پاؤں ڈھیلے کردیئے تو بیماری مکمل طور سے اس پرحاوی ہوجاتی ہے اور اس کے قُویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کودیکھا گیا ہے کہ بڑی سی بڑی بیماری میں بھی وہ ہنستے مسکراتے موت کے آغوش میں چلے گئے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیماری آتے ہی مضمحل ہوتے ہیں ۔ ڈر اور خوف انہیں لاغر وکمزور کردیتاہے اورموت ان کو بہت قریب نظر آنے لگتی ہے۔ بیمار کو یہ امید رکھنا چاہئے کہ ا س تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کومعاف کریں گے اور درجات کو بلند فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاء سے ناامید نہیں ہونا چاہئے ۔مرض سے گھبراکر مریض کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ مرض میں جتنی تکلیف ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اتنے ہی گناہوں کو معاف کرتے ہیں اور درجات کو بلند فرماتے ہیں ۔ مریض کی عیادت کرنے والے اس کی حوصلہ افزائی کاسبب بنتے ہیں اور ان کی وجہ سے بیمار اپنی شفا کے بارے میں زیادہ پُر امید ہوجاتاہے اس لئے نبی کریم ؐ کی سنت ہے کہ مسلمان مریضوں کی عیادت کریں اور ان کی شفا ء کے لئے دعا کرتے رہیں۔
مریض کی عیادت کے لئے جاتے وقت اس کے لئے تحفہ وغیرہ لے کر جانا جس سے اس کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی ہو بہتر ہے۔نیز مریض کی عیادت کرنے والوں کے لئے لازم ہے کہ وہ مریض کے پاس جا کر زیادہ باتیں اور شور نہ کریںاور اگر مریض کہے کہ پاس سے اٹھ کر آپ چلے جائیں تو بغیر برامانے اٹھ کر چلے جانا چاہئے۔
معاشرے میں محبت و الفت کی فضا قائم کرنے کے لئے عیادت نہایت موثر طریقہ ہے اس سے عیادت کرنے والوں اورمریضوں کے درمیان محبت بھی قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اجروثواب بھی ملے گا اس لئے اس نیک عمل میں ایمان والوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔
موت ایک ابدی حقیقت
موت ایک ابدی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر مخلوق کوکرناہے ۔ مومن بندہ کے لئے موت اللہ سے ملنے کا ایک سبب ہے یہ ایک پُل ہے جو دنیا وآخرت کے درمیان ہے ایک طرف دنیا اور دوسری طرف آخرت کی منزل ہے جہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہوگی جس کی بنیاد دنیا کے اعمال پر قائم ہوگی اگر دنیاوی زندگی میں انسان نیک عمل کرتارہا اور اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچتارہا تو اس کی عاقبت خیرسے مملو ہوگی اور اگر اس دنیا میںرہ کر اللہ کی نافرمانیاں کرتارہا تو آخرت میں اسے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان کے ساتھ خیروشر ہمیشہ لگا رہتاہے اور انسان سے کبھی نہ کبھی غلطی ہوہی جاتی ہے ۔ بندہ ٔ مومن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر مصر نہیں ہوتا بلکہ جیسے ہی اسے تنبہ ہوتا ہے فورا ً اپنے گناہوں سے توبہ کرتاہے ۔ اگر کسی کو زندگی بھر توبہ کا موقع نہیں مل سکا اور اس کی موت کا وقت قریب آگیا تو ابھی بھی موقع ہے اسے فوراً اپنے گناہوں سے توبہ کرلینا چاہئے ۔موت کے وقت بندہ ٔ مومن کی کیفیت امید وبیم کی ہونی چاہئے یعنی جب وہ اپنے گناہوں کی طرف دیکھے تو اس پر خوف طاری ہوجائے اور جب اپنے رب کی رحمت کی طرف نظر کرے تو اسے اپنی مغفرت کی امید قائم ہوجانی چاہئے ۔ ایک نوجوان صحابی جو موت و حیات کی کشمکش میں تھے ایسی حالت میں نبی کریم ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اورآپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیا پارہے ہو یعنی کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں خوف اور امید دونوں پارہاہوں توآپؐ نے فرمایا : لَایَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ مِثْلَ ھٰذَاالْمَوْطِنِ اِلَّااَعْطَاہُ اللّٰہُ الَّذِیْ مَایَرْجُوْ ،وَآمَنَہٗ مِمَّا یَخَافُ (ایسے موقع پرجس بندے کے دل میں یہ دو نوں کیفیتیں (امید وبیم) جمع ہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کووہ چیز عطاکردیتاہے جس کی وہ امید کرتاہے اوراس چیز سے امن عطاکردیتا ہے جس سے وہ ڈرتاہے۔ ( ابن ماجہ ۔ حدیث ۴۲۶۱)
محتضرکے مسائل
جس شخص پر موت کی کیفیت طاری ہوجائے یعنی اس کا آخری وقت آجائے اور اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں،اس کو محتضر کہا جاتاہے ۔ایسے شخص کے لئے مستحب ہے کہ اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جائے ۔ قبلہ رو کرنے کی کئی صورتیں ممکن ہیں :
(۱) محتضر کو داہنے کروٹ لٹا کر اس کا چہر ہ قبلہ رخ کردیا جائے۔ یہ طریقہ قبر میں لٹانے کے طریقہ سے قریب ہے اور محتضر اب قبر میں جانے کے قریب ہے اس لئے اس کی ہیئت وہی بنادی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔یہ سنت طریقہ ہے۔(ھدایہ اول باب الجنائز) اس صورت میں سر شمال کی جانب اور پیر جنوب کی جانب ہوں گے۔(فتاویٰ محمودیہ ج ۸ باب الجنائز)
(۲) اس طرح چت لٹایا جائے کہ اس کے پاؤں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں اور اس کے سر کے نیچے کوئی چیز تکیہ وغیرہ رکھ دیا جائے تاکہ اس کا چہر ہ قبلہ کی طرف ہوجائے آسمان کی جانب نہ رہے ۔ اس لئے کہ اس میں روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے ۔(ھدایہ)
یہ صورت صلوۃ المریض کے مشابہ ہے یعنی بیمار آدمی جب لیٹ کر نماز اداکرتاہے تو اس کی یہی صورت ہوتی ہے ۔
(۳) اس طرح چت لٹا دیا جائے کہ قبلہ اس کی داہنی طرف ہواور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جائے۔ ( احکام میت ص ۲۶۔ڈاکٹر عبد الحی عارفی)
پہلی صورت زیادہ بہتر ہے اس میں قبلہ کااحترام بھی ہے اور محتضر کے چہرے کے ساتھ اس کا سینہ بھی قبلہ رو ہوجاتاہے ۔
جوصورت زیادہ آسان ہو اسے اختیار کیا جائے لیکن چہرہ قبلہ کی جانب ہونا چاہئے ۔ (فتاویٰ دار العلوم پنجم۔کتاب الجنائز) اور اگر قبلہ کی طرف رخ کرنے میںزیادہ پریشانی ہو تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دیناچاہئے۔
محتضر کے قریب خوشبو رکھنا
اگر خوشبو میسر ہو تو اس کے قریب رکھ دیا جائے۔(فتاویٰ عالمگیری ج ۱ ص ۳۹۸) یعنی اگربتی یا لوبان وغیرہ جلادیا جائے۔لیکن اس بات کاخیال کررکھنا چاہئے کہ اس کے دھویں سے محتضر کو تکلیف نہ ہو جیسے کوئی شخص سانس کا مریض ہو تو دھواں اس کے لئے تکلیف کا باعث ہے اس چیز کا ادراک اس کے قریب رہنے والے لوگوں کو بخوبی ہوسکتاہے اس لئے کہ جانکنی کے وقت انسان خود ہی تکلیف میں مبتلا ہوتاہے ا ور اس کی تکلیف میں مزید اضافہ کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
محتضر کو یہ دعا پڑھنی چاہئے
نبی کریم ﷺ پر جب سکرات کی کیفیت طاری تھی توآپ ﷺ کہ زبان اقدس پر یہ کلمات جاری تھے اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ اے اللہ سکرات الموت میں میری مدد فرما۔ (ترمذی حدیث نمبر ۹۷۸) اس لئے اگر محتضراپنے حواس میں ہو تو اسے یہ دعا پڑھتے رہنا چاہئے۔
کلمہ کی تلقین
محتضر کے قریب جولوگ موجود ہوں وہ اسے لاالہ اللہ کی تلقین کریں ۔ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ (مسلم حدیث ۲۱۲۳)یعنی اپنے مُردوں کو جو قریب المرگ ہیں انہیں لاالہ الااللہ کی تلقین کرو۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہاں موجود لوگ بلند آواز سے لاالہ اللہ کا ورد کریں جسے سن کر وہ بھی کلمہ پڑھ لے ۔اسے کلمہ پڑھنے کے لئے نہیں کہنا چاہئے اس لئے کہ سکرات موت میں آدمی شدیدتکلیف میں مبتلا ہوتاہے کہیں جھنجھلاہٹ میں وہ کلمہ کا انکار نہ کربیٹھے ۔
ایک بار جب مرنے والا اس کلمہ کو پڑھ لے تو بار بار تلقین کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اگر اس کے بعد وہ کوئی اور دنیاوی بات کرے تو دوبارہ تلقین کرنا چاہئے تاکہ اس کاآخری کلمہ لاالہ الا اللہ ہوجائے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہٖ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (ابوداؤد حدیث نمبر۳۱۱۶)کہ جس کا آخری کلام لاالہ الااللہ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس لئے جولوگ مرنے والے کے قریب موجود ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی زبان سے جوآخری کلمہ نکلے وہ کلمۂ توحیدکا اقرار ہو ، ادھر ادھر کی باتیں کرنے یا میت کے پاس رونے دھونے سے پرہیز کرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تکلیف یا شدت غم کی وجہ سے کوئی ایسا کلمہ اس کی زبان سے نکل جائے جو اس کی عاقبت کو خراب کردے۔
قرآن کریم کی تلاوت
جب کسی شخص پر جانکنی کی حالت طاری ہوجائے تو وہاں موجود لوگوں میں سے کسی ایک کو سورہ یٓس کی تلاوت کرنی چاہئے اس سے روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورہ یٰس پڑھو‘‘۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر۱۴۴۸، ابوداؤد ۳۱۲۱،)
موت کی سختی کسی کے گناہ گار ہونے کی دلیل نہیں
موت کے وقت سختی کاپیش آنا انسان کے گنہ گار ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ سختی ان شاء اللہ اس کے گناہوں کے مٹانے کاذریعہ بنے گی ۔ اس لئے اگر کوئی شخص بوقت نزع زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی طرف سے بدگمان نہیں ہونا چاہئے ۔ نبی کری ﷺ پر جب سکرات کاعالم طاری تھا تو حضرت عائشہ ؓ اس وقت کی شدت کو بیان فرماتی ہیں:
’’میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا جب کہ جانکنی کاوقت تھا ، آپ ؐ کے پاس ایک پیالہ رکھا تھا جس میں پانی تھا، آپؐ اپناہاتھ پیالے میںڈالتے تھے اوربھیگاہو اہاتھ چہرہ پر پھیرتے تھے اور فرماتے تھے ’’ اے اللہ ! موت کی سختیوں میں میری مددفرما‘‘(ترمذی کتاب الجنائزحدیث نمبر ۶۶۶)
نبی کریم ﷺ کی بے چینی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ سخت تکلیف میں مبتلا تھے اور کائنات میںآپ سے بہتر اورا فضل کوئی نہیں آپ محبوب رب العالمین اورخلق میں سب سے بہتر ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ موت کے وقت شدت یانرمی سے مبغوضیت یا محبوبیت کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس تکلیف کے بدلے اللہ تعالیٰ مزید کچھ اور نعمتوں سے نوازنا چاہتے ہیں اوردرجات کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔بلکہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ مومن کی موت اس کے پیشانی کے پسینہ کے ساتھ ہوتی ہے‘‘(ترمذی حدیث نمبر۹۶۸) پیشانی پر پسینہ آنا شدت تکلیف کی علامت ہے ۔
موت کے بعد کا عمل
(۱) موت کے بعد میت کی آنکھیں اگرکھلی ہوں تو انہیں نرمی سے بند کردینا چاہئے اور اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کردیئے جائیں،منھ کو بندکرکے کسی پاک کپڑے سے باندھ دیا جائے تاکہ منھ کھلا نہ رہے اور اس کے پاؤں کے دونوں انگوٹھے ایک ساتھ ملاکر باندھ دیئے جائیں تاکہ پاؤں پھیل نہ جائے اور اس کے بدن پرایک کپڑاڈال دیا جائے۔میت کے پیٹ پر کوئی وزنی چیز رکھ دیا جائے تاکہ اس کا پیٹ نہ پھولے۔(کوئی لوہا یا تر مٹی رکھ دیاجائے۔ فتاویٰ عالمگیری ج ،ا، ص، ۳۹۹) ویوضع علیٰ بطنہ سیف او حدید لئلا ینتفخ درمختار اردو ج،۱، ص ۴۴۵۔ناشرایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی)
پیٹ پر کوئی چیز رکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ زیادہ بھاری چیز نہ رکھی جائے یعنی کوئی ایسی چیز نہ رکھی جائے جو اگر اس کے حیات میں رکھی جاتی تو اسے تکلیف ہوتی ۔میت کااحترام بہر حال لازم ہے۔ جس طرح زندگی میں اس کا احترام کیا جاتاتھا مرنے کے بعد بھی اس کی حرمت کا خیال رکھنا چاہئے۔فقہ کی کتابوں میں تلوار وغیرہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے ۔یہ تعیین نہیں ہے بلکہ ایک مثال ہے کہ تلوارا یا اس کے ہم وزن کوئی شیٔ رکھ دی جائے جس میں اس کا وقار بھی بحال رہے اور وزن بھی زیادہ نہ ہو۔
(۲) جوشخص میت کے زیادہ قریب ہو وہ نہایت نرمی سے اس کی آنکھیں بندکردے ۔آنکھیں بند کرنے والا شخص یہ دعا پڑھے : بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَللّٰھُمَّ یَسِّرْ عَلَیْہِ اَمْرَہٗ وَسَھِّلْ عَلَیْہِ مَابَعْدَہٗ وَاَسْعِدْہُ بِلِقَائِکَ وَاجْعَلْ مَاخَرَجَ اِلَیْہِ خَیْرًا مِمَّا خَرَجَ عَنْہُ ۔(اللہ تعالیٰ کے نام سے اور رسول اللہ ﷺ کے دین پر اے اللہ اس(میت) پر اس کامعاملہ آسان فرما اور اس کے بعد کے حالات آسان فرما اور اس کو اپنی ملاقات کی سعادت نصیب فرما اورجہاں گیا ہے اس کو اس جگہ سے بہتر بنادے جہا ں سے یہ گیا ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۱ ص ۳۹۹۔ فتح القدیر ج ۲ ص ۱۰۶۔ بحر الرائق ص ج،۲ ، ص، ۲۰۰۔دار الکتب العلمیہ بیروت)
(۳) موت کے بعد وہا ں موجود افراد کو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلّیْہِ رَاجِعُوْنَ( ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا ہے) پڑھنا چاہئے اورمیت کے لئے مغفرت کی دعاکرنی چاہئے ۔یہ کلمۂ صبر ہے اور بندۂ مومن کو جب کسی تکلیف کا سامنا ہویا کوئی صدمہ پہنچے تونبی کریم ﷺ نے یہ دعاء پڑھنے کی تعلیم دی ہے ۔ جولوگ کسی مصیبت کے وقت انا للہ پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور برکت کے مستحق ہوتے ہیں۔
(۴) کوئی ناپاک آدمی میت کے قریب نہ آئے چاہے مرد ہو یا عورت۔ (ویخرج من عندہ الحائض والنفساء والجنب ۔درمختار اردو ج،۱ ص،۴۵۵)
(۵) جولوگ میت کی تعزیت کے لئے آئے ہیں انہیں چاہئے کہ میت کے پاس بیٹھ کر خیر کی باتیں کریں ، مرنے والے کے محاسن بیان کریںاس کی برائیوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ جب میت کے لئے دعاکریں تو اپنے لئے دعاکرنا نہ بھولیں اس لئے کہ اس وقت کی دعا پرفرشتے آمین کہتے ہیں اورجس دعا پر فرشتے آمین کہیں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے شوہر ابو سلمہؓ سے بڑی محبت تھی جب ان کا انتقال ہوگیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کاانتقا ل ہوگیا اب میں کیا کہوں تو آپ ﷺ نے انہیں یہ دعا سکھائی :اَللّٰھمَ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ وَاَعْقِبْنِیْ مِنْہُ عُقْبًی حَسَنَۃً (اے اللہ میر اور اس(ابوسلمہؓ) کی مغفرت فرما اور مجھے ان کااچھاعوض عطافرما)
حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابوسلمہؓ سے بہتر کون ہوسکتاہے لیکن عدت کے بعد جب حضور پاک ﷺ کاپیغام آیا تو میں سمجھ گئی کہ اس سے رسول اللہ ﷺ مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہؓ سے بہتر شوہر عطا فرمایا۔(ترمذی کتاب الجنائزحدیث نمبر ۹۶۵)
میت کے رشتہ داروں ، عزیزوں کو صبر سے کام لینا چاہئے رونے دھونے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ وفور محبت میں اگر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں تو کوئی حر ج نہیں لیکن آواز کے ساتھ رونے اور بین یا سینہ کوبی کرنے سے شدت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہئے۔
میت کے پاس قرآن کی تلاوت
میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس بلند آواز سے قرآن کریم کا پڑھنا مکروہ ہے۔ تکرہ القرا ء ۃ عندہ حتی یغسل۔لیکن اگرکوئی شخص آہستہ قران کریم کی تلاوت کرے تو جائز ہے۔ وکذا ینبغی تقیید الکراہۃ بما اذا قرا جہراً۔ ابن عابدین(رد المحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ،جزء الثالث ۔ص ۸۴/۸۵دار الکتب العلمیہ بیروت )
غسل میت
ہرانسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے چاہے وہ کسی بھی دین کا ماننے والا کہیں کا بھی رہنے والا ہو ۔ اسلام نے انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کے اصول متعین کئے ہیں اور ایمان والوں کو ان اصولوں پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے ۔مرنے کے بعدانسان چونکہ ایک لاش بن جاتاہے اور وہ اپنی ضروریات خود پوری نہیں کرسکتا اس لئے آس پاس رہنے والے عزیزوں ، رشتہ داروں، دوست واحباب،پڑوسیوں یہاں تک کہ عام مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ میت کے آخری سفر کی تیاری کریں۔ان میں سب سے پہلا عمل میت کو غسل دینا ہے۔میت کو غسل دینا فرض ہے ۔ایک بات واضح رہے کہ میت کو نہلانے کاعلیٰحدہ کوئی خاص طریقہ نہیں ہے ۔ جس طرح زندگی میں غسل جنابت کے فرائض اور مستحبات ہیں میت کے غسل میں بھی وہی فرائض ومستحبات ہیں ۔فرائض کو بجالانا تو ضروری ہے لیکن مستحبات میں کوئی کمی ہوگئی تو بھی غسل ہوجائے گا۔اصل چیز یہ ہے کہ میت کو اچھی طرح دھوکر صاف کردیا جائے۔میت چونکہ اب دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جارہا ہے اس لئے شریعت کاحکم یہ ہے کہ اسے نہایت ہی عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا جائے اور غسل دینا عزت وتکریم کی علامت ہے اس لئے میت کو بغیر غسل دیئے جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔مردہ چونکہ بذات خود کوئی عمل نہیں کرسکتا اس لئے زندہ افراد پرلازم ہے کہ اس کو غسل دیں ۔
میت کو غسل دینے والے کی فضیلت
میت کو غسل دینے والے اور اس کے عیوب پرپردہ پوشی کرنے والے کی اللہ تعالیٰ چالیس بار مغفرت فرماتے ہیں اور کفن پہنانے والے کو جنتی لباس پہنایا جائے گا جو سندس اور استبرق سے تیار ہوگا اور قبر تیار کرنے اور اس میں میت کو دفن کرنے والے کو اتنا ثواب ملتاہے جتنا اس شخص کو ملے گا جس نے اپنے مکان میں کسی کو قیامت تک ٹھہرایا۔ (مستدرک حاکم کتاب الجنائز۔ حدیث نمبر۱۳۳۸)
میت کو کون غسل دے
بہتر ہے کہ میت کے قریبی رشتہ دار غسل دیں اور اگر کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہیں ہویا موجود تو ہو لیکن غسل دینے کے طریقے سے واقف نہ ہو تو دوسرے لوگ بھی غسل دے سکتے ہیں ۔متقی اور پرہیز گار لوگ غسل دیں تو بہتر ہے۔(فتاویٰ عالمگیری اردو ج۔۱۔ ص ۱۰۲۔)
مرد کو مرد غسل دے اور عورت کو عورت غسل دے ۔ کسی مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی عورت کوغسل دے اسی طرح کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مرد کو غسل دے۔جس طرح مرد کا کسی اجنبی مرد کے بدن کو بلا شہوت چھونا جائز ہے اسی طرح کسی بھی اجنبی مرد کا کسی اجنبی کو غسل دینا جائز ہے ۔اسی طرح جیسے کسی عورت کے لئے کسی اجنبیہ عورت کا بدن چھونا بلاشہوت جائز ہے ۔ مرنے کے بعد بھی اجنبیہ عورت کاکسی اجنبیہ عورت کو غسل دینا جائز ہے لیکن جس طرح کسی جنس مخالف کو حیات میں بلا شہوت چھونا بھی جائز نہیں اسی طرح کسی جنس مخالف کو مرنے کے بعد بھی چھونا جائز نہیں اور غسل ایسی شیٔ ہے کہ بغیر مس کئے ممکن نہیں۔ (الجنس یغسل الجنس فیغسل الذکر الذکر والانثی الانثی لان حل المس من غیر شہوۃ ثابت للجنس حالۃ الحیات فکذا بعد الموت ( بدائع الصنائع ج ۔۱۔ ص ۳۰۴)
ایسے نابالغ بچے جنہیں دیکھنے سے شہوت پیدانہیں ہوتی انہیں کوئی بھی غسل دے سکتاہے چاہے بچی کو کوئی مرد غسل دے چاہے بچے کو کوئی عورت غسل دے دونوں جائز ہے۔ والصغیر والصغیرۃ اذا لم یبلغا حد الشھوۃ یغسلھا الرجال والنساء۔( فتح القدیر۔ج ۔۲۔ ص۱۱۳)
اگرجنس موافق موجود نہ ہو
اگر کسی مرد کاانتقال ہوجائے اور اس کو غسل دینے والا کوئی دوسرا مرد موجود نہیں ہو تو اس کی بیوی اسے غسل دے ۔اذا مات الرجل فی سفر فان کان معہ رجال یغسلہ الرجل وان کان معہ لارجل فیھن فان کان فیھن امرتہ غسلتہ وکفنتہ وصلین علیہ وتدفنہ( بدائع الصنائع ج۔۱۔ ص ۳۰۴)
لیکن بیوی کے علاوہ کسی عورت کے لئے کسی مرد کو غسل دینا جائز نہیں ہے ۔اگر بیوی بھی موجو دنہیں ہے تو محرم عورتیں اسے تیمم کرادیں اور اگر محرم عورتیں بھی موجود نہیں ہیں تو غیر محرم عورتیں میت کو ہاتھ لگائے بغیر دستانے پہن کر اسے تیمم کرادیں۔
لیکن اس کے برعکس اگرکسی عورت کاانتقال ہوجائے اور وہاں کوئی دوسری عورت موجود نہ ہو جو اسے غسل دے سکے تو اس کا شوہر بھی اسے غسل نہیں دے سکتا بلکہ اسے کوئی محرم تیمم کرادے اور اگر محرم نہ ہو تو شوہر یا کوئی اجنبی شخص دستانے پہن کر یا کپڑا لپیٹ کر تیمم کرادے۔ ماتت بین رجال او ھو بین نساء یممہ المحرم ، فان لم یکن فالاجنبی بخرقۃ ۔( رد المحتار کتاب الصلاۃ ،باب صلوۃ الجنازۃ ص۹۳ ج ۳ بیروت)
غسل کی تیاری پہلے کرلیں
غسل کے جو لوازمات ہیں انہیں پہلے جمع کرلینا چاہئے تاکہ غسل دیتے وقت ہر چیز کو تلاش نہیں کرنا پڑے ۔سہولت کے لئے ان چیزوں کے نام درج کئے جاتے ہیں ۔ (۱)نہلانے کے لئے پانی کابرتن ، بالٹی یا ٹب وغیرہ جس میں پانی رکھا جاسکے ۔(۲) لوٹا ، یاکوئی ایسا چھوٹا برتن جیسے جگ یا مگ وغیرہ جس سے پانی نکال کر میت کے بدن پر ڈالاجائے (۳)غسل کا تختہ ،مسجدوں میں ہوتے ہیں یا گھر میں بھی کوئی تخت موجود ہو جس پرمیت کو لٹاکر غسل دیاجاسکے پاک صاف ہو نا ضروری ہے تشفی کے لئے اسے غسل دینے سے پہلے دھولینا چاہئے ۔(۴) بیری کے پتے جنہیں پانی میں ڈال کر ابالا جائے ۔(۵) لوبان مناسب مقدار میں جسے جلاکر خوشبو بسایاجائے۔(۶) عطر (۸) روئی (۷) صابن(۸)کافور (۹) تہبند(۱۰) دستانے۔
غسل دینے کا طریقہ
جس تختہ پر میت کو غسل دینا ہے اسے طاق مرتبہ لوبان کی دھونی دے دی جائے اور میت کو اس طرح لٹایا جائے کہ اس کادایا حصہ قبلہ کی جانب ہواور اگر ایسا کرنا مشکل ہو تو جس صورت میں زیادہ سہولت ہووہی صورت اختیار کیا جائے۔ (فتح القدیر)میت کو غسل دینے کے لئے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر جوش دے دیا جائے اس سے بدن کے میل کچیل کی صفائی اچھی طرح ہوجاتی ہے ۔میت کو ایک تختہ پر لٹا دیا جائے اور اس کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کسی موٹے کپڑے سے ڈھک دیاجا ئے اور باقی بدن کے کپڑے اتار دیئے جائیں۔ میت کے کانوں اور ناک میں روئی یا کپڑا ڈال دیا جائے تاکہ غسل دیتے وقت کانوں میں یاناک میں پانی نہ جائے۔ میت کو سب سے پہلے وضوکرایا جائے لیکن مردہ کے منھ اور ناک میں پانی نہیں ڈالا جائے اس لئے کہ اس کا نکالنامشکل ہوگاکلی کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اگرمنھ کھلاہوا ہے تو کسی کپڑے یا روئی وغیرہ کوبھگاکر منھ کے اندر پھیر دیا جائے اور اگرمنھ بند ہے تو ہونٹوں اور دانتوں پر کپڑا یا روئی بھگاکر پھیر دیا جائے۔ اسی طرح ناک کے اندر بھی بھگا ہوا کپڑا یا روئی پھیر دیا جائے۔ وضو کے بعد اس کی داڑھی اور سر کو صابن سے اچھی طرح دھودیا جائے اس کے بعد بائیں کروٹ کرکے دایاں حصہ دھو دیاجائے اور پھردائیں کروٹ کرکے بایاں حصہ دھودیا جائے۔پھر غسل دینے والے میت کو جہاں تک آسان ہو بیٹھانے کی کوشش کریں اور اس کے سرکی طرف کسی چیز کاتکیہ لگادیں اور اس کے پیٹ کو ہلکا ہلکا سہلائیں اور پیشاب پاخانہ کے راستوں سے کچھ خارج ہو تو اسے دھوڈالیں ۔میت کو طاق مرتبہ غسل دیا جاناچاہئے لہٰذاتین با ر یا ضرورت ہوتو پانچ بار پانی بدن پر بہا سکتے ہیں۔ مقصودیہ ہے کہ میت کابدن اچھی طرح صاف ہوجائے۔مناسب ہے کہ پہلی بار صاف پانی سے اس کے جسم کو دھودیا جائے اور دوسری بار بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دیا ہواپانی استعمال کیا جائے اور آخری بار کافور ملاہوا پانی استعمال کیا جا ئے(بدائع الصنائع فی بیان کیفیۃ الغسل) تاکہ میت کا بدن خوشبودار ہوجائے اس کے علاوہ کافور سے بدن کی جلد بھی محفوظ ہوجاتی ہے پہلے سے موجود کیڑے بھی ختم ہوجاتے ہیں اور باہر کے کیڑے بھی جلدی نہیں لگتے ۔کافور کی جگہ صابن کااستعمال بھی کیا جاسکتاہے ۔اس کے بعد میت کے بدن کو کسی صاف کپڑے سے اچھی طرح پونچھ دیا جائے تاکہ کفن نہ بھیگے۔میت کے ناخن اور بال نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی چہرے کے بالوں جیسے داڑھی یا مونچھوں کوکاٹا جائے بلکہ جس حالت میں موت واقع ہوئی ہے اسی حالت میں غسل دے کر کفن پہنا دیا جائے۔
میت بچوں کا غسل
نومولود بچہ اگر مردہ حالت میں پیداہوا تو اس کو غسل دیا جائے گا اور کسی کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نماز جنازہ کے دفن کردیا جائے گااور اگر بچہ وقت سے پہلے پیداہو گیااور اس کے اعضا نہیں بنے ہیں تو اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر کہیں دفن کردیا جائے۔ اگر کوئی بچہ زندہ حالت میں پید اہوا جیسے پیداہوتے ہی کوئی حرکت کیا یا رویا چلایا یعنی اس کی زندگی کے آثار محسوس کئے گئے تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کے جنازہ کی نماز بھی پڑھی جائے گی ۔
کفن کا بیان
مردوں کو تین کپڑوں اور عورتوں کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مسنون ہے مرد کے تین کپڑے یہ ہیں ۔
(۱) ازار سرسے پاؤں تک۔
(۲) کرتا (قمیص،کفنی)گردن سے پاؤں تک
(۳) لفاف(چادر) ازار سے تھوڑا بڑا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا۔ (ترمذی ۹۹۶)
سفید رنگ کے کپڑے میں کفن دینا مسنون ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مُردوں کو بھی کفناؤ‘‘(ترمذی۔حدیث نمبر ۹۹۴)
مرد کو تین اور عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مسنون ہے اور اگر میسر نہ ہوتومردکو دوکپڑوں (ازار اور لفافہ) اور عورت کو تین کپڑوں (ازار، لفافہ اور سربند) میں کفن دینا بھی کافی ہے۔ اگر کپڑے میسر نہ ہوں تودو کپڑوں میں اور بوقت مجبوری ایک کپڑے میں بھی کفن دیا جاسکتاہے۔( فتاویٰ عالمگیری ج۱ ص ۴۰۳ )
نوٹ: عرف میں لفافہ کو بڑی چادر ازار کو چھوٹی چادر اورقمیص کو الفی کہا جاتاہے۔
کفن کی پیمائش
میت کے سر سے پاؤں تک کسی دھاگے یا لکڑی سے ناپ لیں اس میں چھ سات گرہ بڑھالیں ۔پھر میت کے سینہ کے نیچے سے دھاگہ لگاکر ناپ لیں اور اس میں بھی چھ سات گرہ بڑھالیں ۔ اس کو ازار کہتے ہیں ۔ازار سے چار پانچ گرہ لمبا ایک اور کپڑا لیں اس کو لفاف کہتے ہیں۔گردن سے پاؤں تک ایک کپڑا دوہرا کرکے کاٹ لیں اس کو قمیص یا کفنی کہتے ہیں۔قمیص کو دوہرا کرکے بیچ سے عرض میں شگاف کردیں تاکہ میت کاسر اس میں سے نکل جائے اس کا آدھا حصہ جسم کے نیچے یعنی پشت کی جانب ہوگا اور آدھا حصہ جسم کے اوپر یعنی سینہ کی جانب ہوگا۔
کفن پہنانے کاطریقہ
مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ بچھادیا جائے پھر اس پر ازار بچھا دیں، پھر کرتہ کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپرکے باقی حصہ میں اتنا کپڑا کاٹ دیں جس میں آسانی سے سر نکل جائے اور چہرہ کھل جائے پھر باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو ستر کا خیال رکھتے ہوئے غسل کے تختے سے آہستہ سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹا دیں اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اْس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ گلے میں آ جائے چہرہ نظر آنے لگے اور اسے پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ کرتا پہنانے کے بعد غسل کے بعد جو تہبند میّت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں، اور میت کے سَر اور داڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ پھراعضاء سجدہ یعنی پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پرکافور مل دیں۔پھر بائیں طرف سے ازار میت کے اوپر لپیٹ دیں اور اس کے اوپردائیں طرف کاازار لپیٹ دیں اسی طرح لفافہ کولپیٹ دیں خیال رہے کہ بایاں پلہ نیچے اور دایا پلہ اوپر رہے۔اس کے بعد کپڑے کاکترن لے کر سراور پاؤں کی طرف کفن کوباندھ دیں اسی طرح کمرپر بھی ایک کپڑا باندھ دیا جائے تاکہ ہواوغیرہ کی وجہ سے کفن کھل نہ جائے۔
مستعمل کپڑوں کا کفن
مردوں کے لئے زندگی میں جن کپڑوں کا پہننا جائز ہے ان کپڑوں میں کفن دینا بھی جائز ہے اور جن کپڑوں کو پہننا ناجائز ہے ان میں کفن دینا بھی ناجائز ہے۔ ( فتاویٰ عا لمگیری ج ۱ ص۴۰۴)
بچوں کا کفن
جو بچے قریب البلوغ ہوں ان میں لڑکوں کومردوں والا کفن دیا جائے اور لڑکیوں کو عورتوں والا کفن دیا جائے اور اگر لڑکوں کودوکپڑوں میں اور لڑکیوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے تو بھی کافی ہے لیکن پہلی صورت بہتر ہے ۔نابالغ بچوں کو بھی اگر بالغ مردوں اورعورتوں کی طرح کفن دے دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ دو یا ایک کپڑے میں بھی کفن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بچے زندہ پیدا ہوں اور اس کے بعد فورا انتقال کرجائیں تو انہیں غسل بھی دیا جائے اور ان کے جنازہ کی نماز بھی پڑھی جائے نیز ان کا کچھ نام بھی رکھ دیا جائے ۔ جو بچے ساقط ہوجائیں انہیں پورا کفن نہیں دیا جائے بلکہ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔(فتاویٰ عالمگیری ج ا ص ۳۹۹۔۴۰۱)
خوشبو کی دھونی
میت کو تین بار خوشبو کی دھونی دینی چاہئے روح نکلتے وقت ،غسل کے وقت اورکفن پہناتے وقت ۔ اس کاطریقہ یہ ہے کہ لوبان جلاکر میت کی چارپائی یا تختہ کے چاروں طرف کم از کم تین بار گھمادیا جائے۔کفن کو بھی تھوڑا دھواں دکھا دیا جائے تاکہ اس میں خوشبو رچ بس جائے۔ اس کے بعد خوشبو دینے کی حاجت نہیں۔ ہاںغسل کے بعد میت کی داڑھی اور پیشانی پرخوشبو مل دینی چاہئے اسی طرح کفن میں بھی خوشبو بسالیا جائے تو بہتر ہے۔
غسل میت سے غسل واجب نہیں
میت کو غسل دینے سے آدمی ناپاک نہیں ہوتا اس لئے غسل دینے والے کو غسل کرنا ضروری نہیں اچھی طرح ہاتھ پاؤں دھولے اور وضوکرکے نماز جنازہ پڑھ لے اور اگر کوئی ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو کرلینامستحب ہے۔ ہمارے علاقے میں جو یہ بات مشہور ہے کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب ہوجاتاہے اس کی کوئی اصل نہیں۔
شہدا کابیان
جو لوگ دین کی سر بلندی کے لئے اپنی جانوں کو کوقربان کرتے ہیں ان مجاہد کہا جاتاہے اور اس راہ میں جن کی موت واقع ہوجائے انہیں شہید کہا جاتاہے۔ شہد اکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے یہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں:
(۱) خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آ جاتا ہے۔
( ۲) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے۔
(۳) حشر کی بڑی گھبراہٹ سے مامون و بے خوف رہے گا۔
( ۴) ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔
( ۵) حورعین سے نکاح کر دیا جاتا ہے۔
( ۶) اس کے اعزہ و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۷۹۹)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ) کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مانگیں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے خلاصی نہیں تو کہنے لگیں: ہمارا سوال یہ ہے کہ تو ہماری روحوں کو دنیاوی جسموں میں لوٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جائیں، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۸۰۱)
شہید کی دوقسمیں ہیں
ایک شہید وہ ہے جسے غسل وکفن نہیںدیا جاتاہے بلکہ اسے انہی کپڑوں میں بغیر غسل کے دفن کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے ہتھیار اور پوستین اتار لی جائے، اور ان کو انہیں کپڑوں میں خون سمیت دفنایا جائے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۱۵)
دوسرا شہید وہ ہے جسے غسل وکفن دونوں دیا جاتاہے۔
پہلی قسم کے شہید کے لئے چند شرائط ہیں جن کے پائے جانے کے بعد دنیا میں بھی اس پر شہید کاحکم لگایا جائے گا یعنی اس کے بدن سے خون وغیرہ صاف نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسے غسل دیا جائے گا بلکہ صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر اسے دفن کردیا جائے گا۔
پہلی شرط یہ ہے کہ مقتول مسلمان ہو ۔یعنی اگر کسی غیر مسلم کو ظلماً قتل کردیا گیا تو اس پر شہید کااطلاق نہیں ہو گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مکلف ہو ۔ یعنی کسی مجنون یا دیوانے کو اگر ظلما قتل کردیا گیا تو اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح اگر کو ئی نابالغ مقتول ہو ا تو بھی اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔
تیسری شرط حدث اکبر سے پاک ہونا ہے یعنی اگر کوئی شخص حالت جنابت یا کوئی عورت حیض و نفاس کی حالت میں مقتول ہو تو اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔وہ عند اللہ اگرچہ شہید ہے لیکن غسل دے کر دفن کیا جائے گا۔
چوتھی شرط بے گنا ہ قتل ہوا ہو یعنی اگر کسی شرعی حد میں کوئی شخص قتل کیا گیا تو اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوگے۔
پانچویں شرط یہ ہے کہ مقتول کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دھار دار چیز سے قتل کیا گیا ہو یعنی کسی لاٹھی یا پتھر سے ماراگیا ہو تو اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔
چھٹی شرط یہ ہے کہ اس قتل کے عوض اولاًقصاص لازم ہو نہ کہ خون بہا۔جیسے کسی مسلمان نے مسلمان کو خطاً قتل کردیا تو اس پرخون بہا لازم ہوتاہے قصاص نہیں اس لئے اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔
ساتویں شرط یہ ہے کہ زخم لگنے کے بعد فوری موت واقع ہوگئی ہو دوا علاج یا مال ومتاع سے تمتع حاصل نہ کیا ہو۔
ان تمام صورتوں میں وہ شہید کے قسم اول میں شامل ہوگا اور اس کو غسل نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی اسے کفن دیا جائے گا بلکہ اسی حالت میں اس کی نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جائے گا۔ہاں اگر کفن کے ضروری کپڑے اس کے بدن پر نہ ہوں تو اس کو ضروری کفن دے دیا جائے گا لیکن غسل کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اگراس کے بدن پر کفن مسنون سے زیادہ کپڑے ہوں تو انہیں اتار لیا جائے گا ۔ ایسے کپڑے جو کفن میں نہیں دیئے جاتے جیسے ٹوپی ، عمامہ ، موزے ،دستانے یا جوتے وغیرہ بھی اتار دیئے جائیں گے ۔ اگر خون کے علاوہ اس کے بدن پر کوئی نجاست وغیرہ لگ گئی ہو تو اسے صاف کردیا جائے۔
شہدا کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ بشارت سنائی ہے کہ ان کاحشر شہدا کے ساتھ ہوگا ان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن میں قسم اول کے شرائط نہیں پائے جاتے انہیں غسل بھی دیا جائے گااور مسنون کفن بھی دیا جائے گا۔ایسے شہداکی بہت ساری قسمیں ہیں جنہیں مختلف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔چند صورتیں درج کی جاتی ہیں۔
کسی مسلمان نے کسی کافر یا باغی یاڈاکو پر وارکیامگر وار خطا کرگئی اور وہ خود ہی موت کا شکار ہوگیا ۔سرحد کی حفاظت پرمامور سپاہی طبعی موت مرجائے ۔جس نے اللہ کی راہ میں جان دینے کی دعاکی ہو اور وہ طبعی موت مرجائے ۔جو خود کو یا اپنے گھر والوں کو یااپنے مال و متاع کی حفاظت میں مارا گیا ہو ۔ مظلوم قیدی جو قید کی وجہ سے مرجائے ۔جو شخص ظلم سے بچنے کے لئے چھپاہواہو اور اسی حالت میںاس کی موت آجائے ۔ طاعون میں مرنے ولا۔کسی زہریلے جانور کے کاٹنے سے موت واقع ہوجائے۔ پانی میں ڈوب کر یا آگ میں جل کر مرنے والا۔دین کا طالب علم۔دیانت دار تاجر ،حادثاتی اموات کا شکار اس کے علاوہ اور بھی صورتیں احادیث وفقہ کی کتابوں میں موجود ہیں تفصیلات کے لئے مطولات کا مطالعہ کریں۔ ایسے شہد االلہ تعالیٰ کے یہاں شہادت کادرجہ پائیں گے لیکن دنیا میں ان پر شہید کاحکم جاری نہیں کیاجائے گا یعنی ان کے کفن دفن اورغسل کاانتظام ویسے ہی کیاجائے گا جس طرح عام مسلمان میت کاکیا جاتاہے ۔اس سلسلے کی چنداحادیث درج کی جاتی ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔‘‘(صحیح بخاری حدیث نمبر۲۸۲۹)
جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، ان کے اہل خانہ میں سے کسی نے کہا: ہمیں تو یہ امید تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں شہادت کی موت مریں گے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تب تو میری امت کے شہداء کی تعداد بہت کم ہے! اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہادت ہے، مرض طاعون میں مر جانا شہادت ہے، عورت کا زچگی (جننے کی حالت) میں مر جانا شہادت ہے، ڈوب کر یا جل کر مر جانا شہادت ہے، نیز پسلی کے ورم میں مر جانا شہادت ہے‘‘ ( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۸۰۳)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی دوہنے والے کے دو بار چھاتی پکڑنے کے درمیان کے مختصر عرصہ کے بقدر بھی جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور جس شخص نے اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت مانگی پھر اس کا انتقال ہو گیا، یا قتل کر دیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے، اور جو اللہ کی راہ میں زخمی ہوا یا کوئی چوٹ پہنچایا گیا تو وہ زخم قیامت کے دن اس سے زیادہ کامل شکل میں ہو کر آئے گا جتنا وہ تھا، اس کا رنگ زعفران کا اور بو مشک کی ہو گی اور جسے اللہ کے راستے میں پھنسیاں (دانے) نکل آئیں تو اس پر شہداء کی مہر لگی ہو گی‘‘۔(سن ابوداؤد حدیث نمبر۲۵۴۱)
جنازہ کے احکام
مسلمان چاہے جہاں بھی ہوں،جس قبیلے یاخاندان سے تعلق رکھنے والے ہوں ایک ملت ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان نہایت ہی گہر اتعلق ہے ۔ اسی لئے مسلمانوں کو آپس میں محبت کرنے کاحکم دیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جو ہرمسلما ن پرلازم ہیں۔ انہی میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو کر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں بخشش کی دعا ودرخواست کریں ۔جنا زہ کی نماز میں شرکت میت کے لئے مغفرت کا ذریعہ ہے اور نماز جنازہ پڑھنے والے کے لئے اجرو ثواب کا باعث ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے جنازے کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بھی بارہا بتائے ہیں۔جنازے کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگوں نے جنازے کی نماز پڑھ لی تو فرضیت ساقط ہوجائے گی ورنہ سارے لوگ ترک فرض کے گنہ گار ہوںگے ۔
اہل قبلہ کاجنازہ پڑھنا
جو لوگ اللہ کوایک مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اورحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں نیز بیت اللہ (خانۂ کعبہ ) کو اپنا قبلہ مانتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ شخص حقیقی مومن نہیں اور دل سے اللہ کوایک نہیں مانتا اس لئے کہ دلوں کے بھید کو جاننے والا اللہ ہے وہی اس کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کون حقیقی مومن ہے اور کس کے ایمان میں کھوٹ ہے ۔ ہمیں تو بس یہ حکم ہے کہ جو ہمارے قبلہ کو اپناقبلہ مانے اور اللہ کو ایک مانے نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرے تو اس کاجنازہ پڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینکنے والے کو جواب دینا ۔‘‘(بخاری ۔حدیث نمبر ۱۲۴۰)
جنازہ کے ساتھ چلنا اور تدفین میں شرکت
جنازہ کے ساتھ چلنا ، جنازہ کی نماز پڑھنا اورمیت کی تدفین میںشریک ہونا ان سب کا الگ الگ اجرو ثواب ہے اس لئے مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ اجرو ثواب جمع کرنے کے لئے جناز ہ کی نماز بھی پڑھنی چاہئے اس کی متابعت بھی کرنی چاہئے اور اس کی تدفین میں بھی شریک ہونا چاہئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو جنازہ کی نماز پڑھے اور ساتھ نہ جائے، اس کے لئے ایک قیراط ہے اور جو ساتھ جائے اس کے لئے دو قیراط ہیں۔‘‘ کسی نے پوچھا: دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: ’’چھوٹا ان میں سے احد کے برابر ہے۔(مسلم ۔ حدیث نمبر۲۱۹۲)
جنازہ کی نماز مومنین کی سفارش ہے
جنازہ کی نماز اصل میں میت کے لئے دعا ہے او رمومنین کی طرف سے اللہ کے یہاں اس کی مغفرت کی سفارش ہے اس لئے جتنے زیادہ سفارش کرنے والے ہوں گے سفارش اتنی ہی موثر ہوگی نبی کریم ؐ نے چالیس اور بعض روایات میں سوافراد کی سفارش کومیت کی مغفرت کاذریعہ بتایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مردہ ایسا نہیں کہ اس پر ایک گروہ مسلمانوں کا نماز پڑھے جس کی گنتی سو تک پہنچتی ہو اور پھر سب اس کی شفاعت کریں (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعا کریں) مگر ضرور ان کی شفاعت قبول ہو گی۔( مسلم ۔حدیث نمبر۲۱۹۸)
آپ ﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے ’’جس مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی ایسے ہوں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ضرور ان کی شفاعت قبول کرتا ہے۔‘‘( مسلم ۔۲۱۹۹)
جنازہ کی صفیں
نماز جناز ہ کی فرضیت تو چند لوگوں کے پڑھ لینے سے بھی ساقط ہوجاتی ہے لیکن میت کے حق میں زیادہ مفید یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھیں ۔ مسلمانوں کی تین صفیں جن کے جنازے میں شریک ہوں تو ان کے لئے جنت کی راہ ہموارہوجاتی ہے اس لئے لوگ اگرکم بھی ہوں تو جنازے کی تین صفیں بنالینی چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا‘‘۔ راوی کہتے ہیں: نماز (جنازہ) میں جب لوگ تھوڑے ہوتے تو مالک ؓان کی تین صفیں بنا دیتے۔( ابو داؤد ۔حدیث نمبر ۳۱۶۶)
اللہ تعالیٰ طاق ہیں اور طاق عدد کو پسند کرتے ہیں اس لئے جب نماز جنازہ کی صف بندی کی جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ صفیں طاق عدد میں ہوں جن کی اقل تعداد رسو ل اللہ ﷺ نے تین متعین کردی ہیں اگر نمازیوں کی تعدا زیادہ ہو تو پانچ ، سات ، نو، یا اس ے زیادہ صفیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔
جنازہ کے ساتھ پیدل چلنا چاہئے
مومن بندہ اللہ کاپیار اہوتاہے اس لئے جب اس کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے استقبال کے لئے ملائکۂ رحمت اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں بندہ کے اعمالِ خیر جتنے زیادہ ہوتے ہیں فرشتوں کی تعداد بھی اسی کے بقدر زیادہ ہوتی ہے اس لئے فرشتوں کی حاضری کا لحاظ کرتے ہوئے جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو پیدل ہی چلناچاہئے یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سواری پیش کی گئی اور آپﷺ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے سے انکار کیا۔ جب جنازے سے فارغ ہو کر لوٹنے لگے تو سواری پیش کی گئی تو آپ سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’جنازے کے ساتھ فرشتے پیدل چل رہے تھے تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سواری پر چلوں، پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہو گیا‘‘۔( ابوداؤد۔حدیث نمبر ۳۱۷۷)
جنازہ کے ساتھ چلنے والوں میں سے اگر کچھ لوگ سواری پر ہوں تو انہیں جنازہ کے پیچھے چلناچاہئے اور پیدل چلنے والے جنازے کی چاروں طرف سے چل سکتے ہیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوار جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے اور کچے بچوں (ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں اور زندہ رہ کر مر جائیں۔)کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے‘‘۔( ابوداؤد۔حدیث نمبر۳۱۸۰)
جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوجانا
مومن بندہ اپنے ایمان کی وجہ سے قابل قدر اور لائق احترام ہے اس لئے اگر کسی کاجنازہ سامنے سے گزررہا ہوتو اس کے احترام میں کھڑے ہوجانا چاہئے۔ اگر موقع ہوتو جنازے کے ساتھ چلیں اور اگر بیٹھنا ہوتوجنازہ گزر جانے کے بعد ہی بیٹھناچاہئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جنازہ دیکھ کرآدمی کواپنی موت یاد آجاتی ہے اور موت کی یاد انسان کو اعمال خیر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور برائیوں سے روکنے کاسبب بنتی ہے اس لئے جنازہ دیکھتے ہی کھڑے ہوجانا چاہئے اگرچہ وہ کسی غیر ایمان والے کاہی جنازہ کیوں نہ ہو۔ہمارے علاقے میں جویہ بات رائج ہے کہ کسی کافر کا جنازہ دیکھ کر لوگ فِیْ نَارِ جَہَنَّمْ پڑھتے ہیں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک جنازہ گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے پھر ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موت گھبراہٹ کی چیز ہے۔ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ۔ حدیث نمبر۲۲۲۲)
جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے بارے میں تھوڑااختلاف ہے اور اس کی وجہ ایک حدیث ہے جسے امام مسلم وابوداؤد نے نقل کیاہے کہ نبی کریم ؐ پہلے جنازہ کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے بعد میں آپ نے کھڑا ہونا چھوڑ دیا ۔ اس لئے بعض حضرات نے کھڑا ہونے والے حکم کو منسوخ مانا ہے۔ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ میںاس کے لئے منسوخ کالفظ استعمال کرنے کے بجائے متروک کالفظ استعمال کرتاہوں یعنی ایک طریقہ تھا اس کو چھوڑ دیا ۔ واجب پہلے بھی نہیں تھا اب بھی نہیں ہے لیکن پہلے عمل کرتے تھے اب چھوڑ دیا ۔ (افادات: از انعام الباری ،ج، ۴ ص، ۴۶۹ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے گزر جائے یا (زمین پر) رکھ دیا جائے‘‘۔ (ابوداؤد۔حدیث نمبر ۲۲۱۷)
جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا
جولوگ جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جائیں ان کو چاہئے کہ جب تک جنازہ زمین پر نہیں رکھ دیا جاتا وہ خود نہ بیٹھیں ہاں اگر جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب بیٹھ جانے کی اجازت ہے۔ اصل بات اس میں یہ ہے کہ جنازہ جب کندھوں پرہے تو اسے اتارنے کے لئے زیادہ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ اتارتے وقت جنازہ کے نیچے گرجانے کاخطرہ نہ رہے اور جب جنازہ زمین پررکھ دیا گیا تو اب مدد کی حاجت نہیں رہی اس لئے بیٹھ جانے کی اجازت ہے یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ جنازہ میں شریک لوگوں کی تعداد کم ہواور اگر جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تو جولوگ جنازے کے قریب ہوں وہ نہ بیٹھیں باقی لوگوں کے لئے بیٹھنا جائز ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ نہ رکھ دیا جائے۔( بخاری ۔حدیث نمبر۱۳۱۰ )
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اگر میت کو چارپائی سے اتارنے کی ضرورت ہوتو لوگ نہ بیٹھیں اور ضرورت نہ ہوتو بیٹھ جانے کی اجازت ہے ۔ اس میں یہود کی مخالفت ہے اس لئے کہ وہ جنازہ کو لحد میں رکھنے تک کھڑے رہنا لازم سمجھتے ہیں اور نبی کریمﷺ کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے یہود کی مخالفت میں کھڑا رہنا لازم نہیں رکھا ہاں ضرورۃً کھڑے رہنے کاحکم دیا ہے جیسا کہ ماقبل کی حدیثوں ںسے مفہوم ہوتاہے۔
منافقین کی نماز جنازہ پڑھنا
منافقین اللہ تعالیٰ کو نہایت مبغوض او رناپسندیدہ ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ا ن کاٹھکانا رکھاہے یہ لوگ اللہ کے دین کے دشمن ہیں اس لئے نبی کریم ؐ کو ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے منع فرمادیاگیاتھا ۔ شروع میں آپ ؐ منافقین کی نماز جنازہ محض اس وجہ سے کہ وہ اہل قبلہ ہیں پڑھاکرتے تھے لیکن منافقوں کے سردار عبداللہ ابن ابی کا جنازہ جب آپؐ نے پڑھا اور اس کی قبر پرکھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پرمنافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ﷺ کومنع فرمادیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مر گیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مَّنْھُمْ مَاتَ اَبَداً وَّلاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ (سورہ توبہ آیت ۔۸۴)’’منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ آپ کبھی بھی نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔ (ابن ماجہ ۔حدیث نمبر ۱۵۲۳)
نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیااب ہم کسی کے بارے میں حتمی طورپر منافق ہونے کافیصلہ نہیں کرسکتے اس لئے تمام اہل قبلہ کی نماز جنازہ پڑھناچاہئے۔
جنازہ کی نماز پڑھنا ہر مسلمان کاحق ہے اس لئے ہمارے آس پاس میں کسی مسلمان کی موت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہونا چاہئے اگرچہ اعمال کے اعتبار سے وہ کمزور ہو۔
اوقات مکروہہ
جس طرح طلوع آفتاب ، زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دوسری نمازیں پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح ان تین اوقات میں نماز جنازہ پڑھنا بھی مکروہ ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے یا اپنے مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے: جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، اور جس وقت ٹھیک دوپہر ہو رہی ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور جس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔( سنن ترمذی۔حدیث نمبر ۱۰۳۰)
نماز جنازہ کابیان
جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی مسلمانوں کی ایک جماعت اگر جنازہ کی نماز پڑھ لے تو سب کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجائے گااور اگر کسی نے بھی نہیں پڑھی تو سارے کے سارے گنہہ گار ہوں گے نماز جنازہ کے دو راکان ہیں
(۱) چار تکبیریں کہنا (۲) قیام
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے چار تکبیریں کہیں۔( ترمذی۔ حدیث نمبر۱۰۲۲)
میت کا مسلمان ہونا ، پاک صاف ہونا ،میت کاامام کے سامنے موجود ہونا یاحادثاتی موت میں میت کے بدن کااکثر یا سرکے ساتھ آدھا حصہ موجود ہونا جنازہ کے شرائط میں داخل ہیں۔
نماز جنازہ کی چار سنتیں ہیں
(۱) پہلی تکبیر کے بعد ثنا ء پڑھنا (۲) دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑ ھنا (۳) تیسری تکبیر کے بعد جنازہ کی دعا پڑھنا (۴) چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دینا ۔
نماز جنازہ کا طریقہ
نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو سامنے رکھے اور اس کے سینہ کے برابر کھڑا ہو پھر نیت کرے اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھوں کو اٹھائے پھر ثنا پڑھے ۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِ کَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَااِلٰہَ غَیْرُکَ
پھر دوسری تکبیر کہے اور ہاتھوں کو نہ اٹھائے اوردرود شریف پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبرَاھِیْم وَعَلٰی اٰل اِبْرِاھِیْمِ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَابَارَکْتَ عَلٰی اِبرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرِاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔
پھر تیسری تکبیر کہے اورجنازہ کی دعاء پڑھے اگر بالغ مر د یا عورت کا جنازہ ہے تویہ دعاء پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیّیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔
اگر جنازہ کسی نابالغ بچے کا ہو تو یہ دعاء پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا ۔
اور اگر جنازہ کسی نابالغ بچی کا ہو تو یہ دعاء پڑھے ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًاوَّ اجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً۔
پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیر دے ۔
اجتماعی جنازہ
اگر بہت سارے جنازے ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو امام کو اختیار ہے چاہے تو سب کی نماز جنازہ ایک ساتھ پڑھائے اور چاہے تو سب کی نماز جنازہ الگ الگ پڑھائے۔اگر جنازے کی نماز ایک ساتھ پڑھی جائے تو میت کو رکھنے کی دوصورتیں ہیں چاہیں تو ایک ہی صف میں سب کو رکھ دیں لمبائی میں رکھ دیں اور ان میں جو افضل ہو اس کے سامنے کھڑے ہوکر امام نماز پڑھائے اور چاہیں تو آگے پیچھے قبلہ رخ کرکے سب کو رکھ دیں اس میں ترتیب نماز کی صف بندی کی طرح ہوگی سب سے آگے امام کے قریب مردوں کے جنازے ہوں گے اس کے بعد لڑکوں کے اس کے بعد خنثوں کے اس کے بعد عورتوں کے اور اس کے بعد قریب البلوغ لڑکیوں کے جنازے ہوں گے (فتاویٰ عالمگیری کتاب الصلوۃ ج ۱ ص ۴۰۹)
اگر جنازے کی نماز اجتماعی پڑھی جارہی ہو اور تمام کے تمام جنازے بالغ مردوں یا عورتوں کے ہوں تو ایک ہی دعا سب کے لئے کافی ہے اس لئے کہ اللھم اغفر لحینا الخ ۔میں جمع کی ضمیر سب کو شامل ہے۔ ہاں اگر جنازہ بالغوں کے ساتھ نابالغوں کی کی بھی ہے تو اس صورت میں پہلے بالغ کی دعا پڑھی جائے گے اور اس کے بعد نابالغ کی ۔ نابالغوں میں بچے اور بچیاں دونوں اگر شامل جنازہ ہوں تو پہلے بالغ بچوں کی دعا اور اس کے بعد بالغ بچیوں کی دعا پڑھی جائے گی ۔ اس لئے کہ مذکر بہر حال مونث پر مقدم ہے۔
قولہ (صلی مرۃ واحدۃ صح) ویکتفی لھم بدعاء واحد کما بحثہ بعضھم ویؤیدہ ان الضمائر ضمائر جمع فی اللھم اغفر لحیینا…الخ بقی ما اذا کان فیھم مکلفون وصغار والظاہر انہ یاتی بدعاء الصغار بعد دعاء المکلفین کمامر۔(حاشیۃ الطحطاوی مع المراقی الفلاح کتاب الصلوۃص ۵۹۳)
غائبانہ جنازہ
غائبانہ نماز جنازہ کامطلب یہ ہے کہ میت حاضر نہ ہو اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے ۔ اس معاملے میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒکے یہاں نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت ملتی ہے اور دلیل میں میں نجاشی شاہ حبش کی نماز جنازہ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ لیکن احناف اورمالکیہ کے نزدیک نمازِ جنازہ غائبانہ جائز نہیں، حنفی ومالکی مسلک کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھادیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے معجزہ کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی۔ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت ووفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو، خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول نہیں ملتا۔( فتاویٰ دارالعلوم )
قبر پر نماز جنازہ
اگر کہیں کسی علاقے میں یہ نوبت آجائے کہ کوئی نماز جنازہ پڑھنے والا نہ ہو یا کسی وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے کا موقع نہ ملے اور میت کو نمازِ جنازہ پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا گیا ہو تو میت کی نعش گلنے سے پہلے اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنا واجب ہے ۔ جسم کے گلنے کی کوئی حتمی مدت معلوم نہیں ہے بعض علاقوں میں جہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے وہاں جلدی بدن گلنا شروع ہوجاتاہے اور جن علاقوں میں ٹھنڈی زیادہ پڑتی ہے وہاں بدن دیر سے گلنا شروع ہوتا ہے۔بعض فقہاء نے تین دن کی تحدید کی ہے لہذا معتدل موسم اور معتدل علاقوں میں تین دن کے اندر نماز جنازہ پڑھنا واجب ہے اس کے بعد نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہئے ۔
(وان دفن) واھیل علیہ التراب (بغیر صلاۃ)او بھا بلا غسل او ممن لا ولایۃ لہ (صلی علی قبرہ) استحساناً (ما لم یغلب علی الظن تفسخہ) من غیر تقدیر، ھو الاصح. وظاھرہ انہ لو شک فی تفسخہ صلی علیہ،(در مختاروحاشیہ ابن عابدین )
تدفین کابیان
قبر یں دوطرح بنائی جاتی ہیں ایک بغلی اور دوسری صندوقی ۔ان دونوں میں بغلی قبر افضل ہے اس لئے کہ اس میںمیت کا احترام زیادہ پایا جاتاہے یعنی بظاہر میت کے بدن پر مٹی نہیںڈالی جاتی جبکہ صندوقی قبر میں میت کے اوپر ہی مٹی ڈالی جاتی ہیں ۔ نیز نبی کریم ﷺ کی کی قبر بغلی ہی بنائی گئی تھی اور آپ ﷺ کا اس بارے میں واضح ارشاد بھی موجود ہے ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۵۴) اس حدیث میں صندوقی قبر کی ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ صرف بغلی قبر کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس لئے کہ دور نبوی میں بھی اور اس کے بعد بھی صندوقی قبریں مسلمانوں میں رائج ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو مدینہ میں قبر بنانے والے دو شخص تھے، ایک بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا صندوقی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں، اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں اور جو بعد میں آئے اسے چھوڑ دیں گے، ان دونوں کو بلوایا گیا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آ گیا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۵۷)
حضرت ابوطلحہ ؓ بغلی قبر بناتے تھے اور حضرت عبیدہ صندوقی قبربنایا کرتے تھے۔
قبر کو کشادہ اور گہر ی کھودنا چاہئے تنگ نہیں کرنا چاہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’قبر کو خوب کھودو، اسے کشادہ اور اچھی بناؤ‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۶۰)
قبر کی گہرائی
قبر کی لمبائی میت کی قد سے تھوڑی زیادہ ہونی چاہے اور چوڑائی میت کے نصف قد کے برابر اور قبر کی گہرائی کم از کم نصف قدآدم ہونی چاہئے اور قد آدم کے برابر ہو تو افضل ہے ۔یہ صندوقی قبر کھودنے کی صورت میں ہے اور اگر بغلی قبرکھودی جائے تو گہرائی بقدر تشریح سابق کھودنے کے بعد قبلہ رخ والی دیوار میں ایک گڈھا کھودا جائے جس میں میت کو لٹاکر قبلہ کی طرف کے دروازے کو بانس بلیوں سے بند کردیا جائے اور اوپر سے مٹی ڈال دی جائے (فتاویٰ دارالعلوم ) اصل مقصود اس میں یہ ہے کہ قبر جتنی گہری ہوگی جانوروں کے کھودنے اور ان کی دسترس سے اتنی ہی زیادہ محفوظ بھی ہوگی اس لئے اس کی کم سے کم مقدار نصف قد ہے، سینہ تک اوسط درجہ اور افضل مقدار قد آدم کے برابرہے ۔ (ویحفر قبرہ فی غیر دارہ مقدار نصف قامتہ فان زاد فحسن ۔ شامی۔ کتاب الصلوۃ باب الجنازۃ)
جب جنازے کی نماز ہو جائے تو میت کو جلد از جلد قبر تک پہنچادینا چاہئے اس میں خواہ مخواۃ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔اگر میت کو ئی شیر خوار بچہ ہے تو بہتر ہے کہ اسے دست بدست اٹھاکر لے جائیں اور اگر میت کسی بالغ کی ہے تو اسے چارپائی پر ڈال کر لے جائیں اور اس کے چاروں پائے چار آدمی مل کر کندھوں اٹھائیں ۔جولوگ میت کے ساتھ قبرستان کی طرف جارہے ہوں انہیں چاہئے کہ میت کی چارپائی کو باری باری اٹھاکر آگے بڑھتے رہیں اس میں میت کا اعزاز بھی ہے اور کسی ایک آدمی یا چند آدمیوں پر بوجھ بننے کا امکان بھی نہیں ہے۔ بلا کسی عذر کے میت کو سواری پر لے کر نہیں چلنا چاہئے۔ ہاں اگر قبرستان کافی دور ہو اور میت کو اٹھانے والے لوگ کم ہوں تو سواری پر لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔جنازے کو تیز قدم سے لے جانا مسنون ہے لیکن اتنا تیز بھی نہ چلا جائے کہ میت کے گرجانے کا خطرہ ہو۔( بہشتی گوہر)
تدفین کا طریقہ
میت کو قبرستان پہنچانے کے بعد اس کی چارپائی کو قبرکی اس جانب رکھاجائے جدھر قبلہ ہے اور میت کو اٹھاکر قبر میں ڈال دیا جائے میت کو دائیں پہلو لٹاکراس کاچہرہ قبلہ روکردیا جائے۔ میت اگر عورت ہے تو قبر پر پردہ کرنا مستحب ہے اور اگرمیت کے بدن کے ظاہر ہوجانے کا خوف ہو تو واجب ہے ۔ میت کو قبرمیں اتارنے والا شخص یہ دعا پڑھے بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ۔میت کو قبر میں ڈالنے کے بعداس کے کفن کی گرہیں کھول دی جائیں اس کے بعد قبر کا منھ بند کرنے کے لئے کچی اینٹیں ،تختہ یابانس کی بلیاں رکھ دی جائیں تاکہ میت کے بدن پرمٹی نہ گرے اور پھر ہر شخص تین مٹھی مٹی قبر پر ڈال دے پہلی مٹھی ڈالتے وقت مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ دوسری مٹھی کے ساتھ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسری مٹھی کے ساتھ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰیٰ پڑھے۔ مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر پانی ڈال دینامستحب ہے۔ دفن کے بعد کچھ لوگ ٹھہر جائیں اور میت کے لئے مغفرت کی دعاکریں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ پڑھتے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۵۰)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھی، پھر میت کی قبر کے پاس تشریف لا کر اس پر سرہانے سے تین مٹھی مٹی ڈالی۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۵)
قبرستان جانے کے آداب
قبرستان میں اگر بیٹھنے کی ضرورت پیش آجائے تو بیٹھ سکتے ہیں لیکن کسی قبر پربیٹھنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کا آگ کے شعلہ پر جو اسے جلا دے بیٹھنا اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۶)
قبرستان جاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کسی قبر پر پاؤں نہ پڑے اسی طرح اگر استنجا کی حاجت ہو تو قبرستان سے باہر جاکر استنجا کرنا چاہئے قبرستان میں استنجا سے پرہیز کرنا لازمی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں انگارے یا تلوار پہ چلوں، یا اپنا جوتا پاؤں میں سی لوں، یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں، اور میں کوئی فرق نہیں سمجھتا کہ میں قضائے حاجت کروں قبروں کے بیچ میں یا بازار کے بیچ میں ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۷)
مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے شرم کی وجہ سے بازار میں آدمی کسی طرح پاخانہ پیشاب نہیں کر سکتا، پس ایسا ہی مُردوں سے بھی شرم کرنی چاہئے، اور قبرستان میں پاخانہ یا پیشاب نہیں کرنا چاہئے، اور جو کوئی قبروں کے درمیان پاخانہ پیشاب کرے وہ بازار کے اندر بھی پیشاب پاخانہ کرنے سے شرم نہیں کرے گا۔
قبرستان میں جتنے مردے ہیں وہ سب ہمارے سلف اور لائق احترام ہیں اس لئے قبرستان کے اندر جوتے چپل پہن کر نہیں چلنا چاہئے ۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
بشیر ابن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خصاصیہ! تجھے اللہ سے کیا شکوہ ہے (حالانکہ تجھے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے کہ) تو رسول اللہ کے ساتھ چل رہا ہے‘‘؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں۔ مجھے اللہ نے ہر بھلائی عنایت فرمائی ہے۔ (اسی اثنا میں) آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’انہیں بہت بھلائی مل گئی‘‘۔ پھر مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’یہ بہت سی بھلائی سے محروم رہ گئے‘‘۔ اچانک آپ کی نگاہ ایسے آدمی پر پڑی جو قبروں کے درمیان جوتوں سمیت چل رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جوتوں والے! انہیں اتار دے‘‘(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۸)
زیارت قبور وایصال ثواب
قبروں کی زیارت کرنا اور اپنے موتیٰ کے لئے دعا کرنا سنت ہے نبی کریم ﷺ خود بھی قبروں کی زیارت کے لئے قبرستان جایا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کے متعلق تلقین فرمایا کرتے تھے۔ابتدائے اسلام میں چونکہ لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا خوف تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے قبروں کی زیارت سے منع فرمادیا تھا لیکن جب اسلام کی تعلیمات واضح طور پرآگئیں اور ایمان دلوں میںراسخ ہوگیا تو آپ ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت دے دیا بلکہ اس کی ترغیب بھی فرمائی ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۷۱)
قبروں کی زیارت کا مقصد اپنے موتیٰ کے لئے دعاء مغفرت کرنا اور آخرت کو یاد کرنا ہے ۔ قبرستان میں قبروں کو دیکھ کر انسان کو اپنی آخرت یاد آجاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ایک دن مجھے بھی انہیں کی طرح قبر میں جاناہے جس سے اس کو خیر کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور شر سے نفرت پیداہوتی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لیے کہ یہ تم کو آخرت کی یاد دلاتی ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۹)
عورتوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی اپنے موتیٰ کے لئے ایصال ثواب کرلیا کریں قبروں پر جاکر ایصال ثواب نہ کریں نبی کریم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبروں کی زیارت کے لئے نکلتی ہیں ۔
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۷۴)
ایصال ثواب کا طریقہ
انسان اپنے نیک اعمال کاثواب کسی بھی زندہ یا مردہ شخص کو پہنچاسکتاہے ۔ نماز ،روزہ ، حج ، عمرہ صدقہ، قربانی، یا قرآن کی تلاوت ، درود شریف اور دوسرے اذکار پڑھ کر کسی بھی شخص کو ثواب پہنچایا جاسکتاہے اور اس کا طریقہ یہ کہ بند ہ اللہ تعالیٰ سے دعاکرے کہ یااللہ میرے فلاں عمل کا ثواب فلاں شخص کو پہنچادے ۔ قبروں پر حاضری کے وقت نبی کریم ﷺ سے جو دعائیں منقول ہیں اس سلسلے کی چنداحادیث ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَومٍ مُؤْمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا فَرْطٌ وَاِنَّا بِکُمْ لَاحِقُوْنَ اَللّٰھُمَّ لَا تُحَرِّمْنَا اَجْرَھُمْ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَھمْ ‘‘(اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔) (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۶)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلْفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ ’’سلامتی ہو تم پر اے قبر والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش رَوہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں‘‘۔(سنن الترمذی حدیث نمبر۱۰۵۳)
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنّا اِنْ شائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقوْنَ نَسْاَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ‘‘ (اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلام ہو، ہم تم سے ان شاء اللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۴۷)
تعزیت
مسلمانوں کا آپس میں تعلق ایسا ہے جیسے اعضائے بدن کا آپس میں تعلق ہے کہ اگر بدن کے کسی بھی عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا بدن اس درد کومحسوس کرتاہے اسی طرح شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ جب ہمارا کو ئی بھائی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کا ایک طریقہ تو عیادت کا ہے جو کسی کے بیمار پڑ جانے پر کی کی جاتی ہے ۔ دوسرا طریقہ تعزیت کا ہے جو کسی عزیز کی موت پر کی جاتی ہے۔ لہذا اگر کسی مسلمان کی موت واقع ہوجائے تو اس کے پسماندگان سے تعزیت کرنا اور ان کو دلاسا دینا ہر مسلمان کا حق ہے جب کسی مسلمان کاانتقال ہوجائے تو دووسرے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کے گھر والوں سے تعزیت کریں انہیں صبر کی تلقین کریں اور ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کریں ۔میت کے متعلقین کو تسکین دیں اور میت کے لیے مغفرت کی دعاکریں۔ توفیق ہو تو قرآن پڑھ کر یا صدقہ دے کر میت کے لیے ایصال ثواب کریں۔تعزیت کے ایام تین دن ہیں اس کے بعد تعزیت مکروہ ہے ہاں اگر کوئی شخص موجود نہ ہو اور بعد میں کہیں سے آئے تو جس وقت وہ پہنچے اس کے لئے اس وقت تعزیت کرنا جائز ہے۔ ان کلمات کے ساتھ تعزیت کرنا مستحب ہے۔ غَفَرَ اللَّہْ تَعَالٰی لِمَیِّتِکَ وَتَجَاوَزَ عَنہْ وَتَغَمَّدَہُ بِرَحمَتِہِ وَرَزَقَکَ الصَّبْرَ عَلَی مْصِیبَتِہِ وَآجَرَکَ عَلَی مَوتِہِ۔(اللہ تعالیٰ تمہارے میت کی مغفرت کرے اور اسے معاف کر دے اوراس کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور آپ کواس مصیبت پر صبر دے اوراس کی موت پر تمہیں اجر دے۔) ( الفتاوی الہندیۃ : ۱/۱۸۳ دارالکتب العلمیہ بیروت)
تعزیت کی فضیلت
کسی بھی انسان کے ساتھ ہمدردی کارویہ رکھنا ، کسی مصیبت زدہ کو تسلی دینا اورتکلیف میں مبتلا شخص کی مدد کرنا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا اسلام کی اعلیٰ تعلیمات میں سے ہے ۔تعزیت بھی انسانی ہمدردی کا ایک ذریعہ ہے اس لئے جو شخص کسی کی تعزیت کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے عزت وتکریم اور اجرو ثواب سے نوازتے ہیں۔
محمد بن عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی مصیبت میں تسلی دے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۶۰۱)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا (جتنا مصیبت زدہ کو ملے گا)‘‘۔(سنن ابن ماجہ۔حدیث نمبر۱۶۰۲)
تعزیت کی دعا
اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہ مَا اَعْطیٰ وَکْلّْ شَیٍٔ عِنْدَہ بِاَجَلٍ مّْسَمًّی فَلْتَصْبِر وَلْتَحتَسِب۔ (بخاری حدیث نمبر۷۳۷۷)
’’یقیناً اللہ ہی کے لئے ہے جو اس نے لے لیا، اور اسی کے لئے ہے جو اس نے عطا کیا، اور ہر چیز اس کے پاس ایک مقررہ مدت کے ساتھ ہے، تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔‘‘
یہ دعا بھی دی جا سکتی ہے: اعظَمَ اللَہُ اَجْرَکَ، واحسَنَ عَزَائَکََ، وَغَفَرَ لِمَیِّتِکَ ’’اللہ تیرے اجر کو زیادہ کرے، تمہیں اچھی تسلی دے، اور تمہاری میت کو بخش دے۔‘‘(حصن المسلم ص ۶۱)
میت کے گھروالوں کے لئے کھانا بنانا
جس گھر میں کسی کی موت واقع ہوجائے وہ چونکہ غم میں ہوتے ہیں انہیں کھانے پینے کی پروا نہیں ہوتی۔ لیکن کھانا ایک فطری ضرورت ہے جس کے کوئی انسان خالی نہیں ہے۔ اس لئے ان کی ہمسائیگی اور اسلامی اخوت کا حق ہے کہ ان کے لئے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال کیا جائے اور باصرار انہیں کھلانے کی کوشش کی جائے۔رسول اللہ ﷺ کی سنت یہی ہے۔
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جعفرؓ کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آ پڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۶۱۰)
Hi, i think that i saw yoou vsited myy web site thus i came tto “return tthe favor”.I’m tryjng to find thikngs to improve my website!I
suppose its ok to use a ffew of your ideas!! https://leon.bet/en-au/casino
Hi, i think that i saw yoou visited my web site thus i
came to “return the favor”.I’m trying to find thinngs to improve my
website!I suppokse its ok to use a few off your ideas!! https://leon.bet/en-au/casino
Hi there! This article couldn’t be written any better!
Going through this pkst reminds me of my previous roommate!
He continually kept talking abbout this.
I most certainly will forward this post to him. Pretty sure he’s going tto have a very good
read. Thanks for sharing! https://demenagementsdelavallee.fr/comment-parier-sur-le-sport-guide-complet-pour/