مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

میت کی تدفین اور زیارت قبور

میت کی تدفین

تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

 

تدفین کابیان

قبر یں دوطرح بنائی جاتی ہیں ایک بغلی اور دوسری صندوقی ۔ان دونوں میں بغلی قبر افضل ہے اس لئے کہ اس میںمیت کا احترام زیادہ پایا جاتاہے یعنی بظاہر میت کے بدن پر مٹی نہیںڈالی جاتی جبکہ صندوقی قبر میں میت کے اوپر ہی مٹی ڈالی جاتی ہیں ۔ نیز نبی کریم ﷺ کی کی قبر بغلی ہی بنائی گئی تھی اور آپ ﷺ کا اس بارے میں واضح ارشاد بھی موجود ہے ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۵۴) اس حدیث میں صندوقی قبر کی ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ صرف بغلی قبر کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس لئے کہ دور نبوی میں بھی اور اس کے بعد بھی صندوقی قبریں مسلمانوں میں رائج ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو مدینہ میں قبر بنانے والے دو شخص تھے، ایک بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا صندوقی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں، اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں اور جو بعد میں آئے اسے چھوڑ دیں گے، ان دونوں کو بلوایا گیا، تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آ گیا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر بنائی گئی۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۵۷)
حضرت ابوطلحہ ؓ بغلی قبر بناتے تھے اور حضرت عبیدہ صندوقی قبربنایا کرتے تھے۔
قبر کو کشادہ اور گہر ی کھودنا چاہئے تنگ نہیں کرنا چاہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’قبر کو خوب کھودو، اسے کشادہ اور اچھی بناؤ‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۶۰)

قبر کی گہرائی

قبر کی لمبائی میت کی قد سے تھوڑی زیادہ ہونی چاہے اور چوڑائی میت کے نصف قد کے برابر اور قبر کی گہرائی کم از کم نصف قدآدم ہونی چاہئے اور قد آدم کے برابر ہو تو افضل ہے ۔یہ صندوقی قبر کھودنے کی صورت میں ہے اور اگر بغلی قبرکھودی جائے تو گہرائی بقدر تشریح سابق کھودنے کے بعد قبلہ رخ والی دیوار میں ایک گڈھا کھودا جائے جس میں میت کو لٹاکر قبلہ کی طرف کے دروازے کو بانس بلیوں سے بند کردیا جائے اور اوپر سے مٹی ڈال دی جائے (فتاویٰ دارالعلوم ) اصل مقصود اس میں یہ ہے کہ قبر جتنی گہری ہوگی جانوروں کے کھودنے اور ان کی دسترس سے اتنی ہی زیادہ محفوظ بھی ہوگی اس لئے اس کی کم سے کم مقدار نصف قد ہے، سینہ تک اوسط درجہ اور افضل مقدار قد آدم کے برابرہے ۔ (ویحفر قبرہ فی غیر دارہ مقدار نصف قامتہ فان زاد فحسن ۔ شامی۔ کتاب الصلوۃ باب الجنازۃ)
جب جنازے کی نماز ہو جائے تو میت کو جلد از جلد قبر تک پہنچادینا چاہئے اس میں خواہ مخواۃ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔اگر میت کو ئی شیر خوار بچہ ہے تو بہتر ہے کہ اسے دست بدست اٹھاکر لے جائیں اور اگر میت کسی بالغ کی ہے تو اسے چارپائی پر ڈال کر لے جائیں اور اس کے چاروں پائے چار آدمی مل کر کندھوں اٹھائیں ۔جولوگ میت کے ساتھ قبرستان کی طرف جارہے ہوں انہیں چاہئے کہ میت کی چارپائی کو باری باری اٹھاکر آگے بڑھتے رہیں اس میں میت کا اعزاز بھی ہے اور کسی ایک آدمی یا چند آدمیوں پر بوجھ بننے کا امکان بھی نہیں ہے۔ بلا کسی عذر کے میت کو سواری پر لے کر نہیں چلنا چاہئے۔ ہاں اگر قبرستان کافی دور ہو اور میت کو اٹھانے والے لوگ کم ہوں تو سواری پر لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔جنازے کو تیز قدم سے لے جانا مسنون ہے لیکن اتنا تیز بھی نہ چلا جائے کہ میت کے گرجانے کا خطرہ ہو۔( بہشتی گوہر)

تدفین کا طریقہ

میت کو قبرستان پہنچانے کے بعد اس کی چارپائی کو قبرکی اس جانب رکھاجائے جدھر قبلہ ہے اور میت کو اٹھاکر قبر میں ڈال دیا جائے میت کو دائیں پہلو لٹاکراس کاچہرہ قبلہ روکردیا جائے۔ میت اگر عورت ہے تو قبر پر پردہ کرنا مستحب ہے اور اگرمیت کے بدن کے ظاہر ہوجانے کا خوف ہو تو واجب ہے ۔ میت کو قبرمیں اتارنے والا شخص یہ دعا پڑھے بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ۔میت کو قبر میں ڈالنے کے بعداس کے کفن کی گرہیں کھول دی جائیں اس کے بعد قبر کا منھ بند کرنے کے لئے کچی اینٹیں ،تختہ یابانس کی بلیاں رکھ دی جائیں تاکہ میت کے بدن پرمٹی نہ گرے اور پھر ہر شخص تین مٹھی مٹی قبر پر ڈال دے پہلی مٹھی ڈالتے وقت مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ دوسری مٹھی کے ساتھ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسری مٹھی کے ساتھ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰیٰ پڑھے۔ مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر پانی ڈال دینامستحب ہے۔ دفن کے بعد کچھ لوگ ٹھہر جائیں اور میت کے لئے مغفرت کی دعاکریں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ پڑھتے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۵۰)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھی، پھر میت کی قبر کے پاس تشریف لا کر اس پر سرہانے سے تین مٹھی مٹی ڈالی۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۵)

قبرستان جانے کے آداب

قبرستان میں اگر بیٹھنے کی ضرورت پیش آجائے تو بیٹھ سکتے ہیں لیکن کسی قبر پربیٹھنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کا آگ کے شعلہ پر جو اسے جلا دے بیٹھنا اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۶)

قبرستان جاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کسی قبر پر پاؤں نہ پڑے اسی طرح اگر استنجا کی حاجت ہو تو قبرستان سے باہر جاکر استنجا کرنا چاہئے قبرستان میں استنجا سے پرہیز کرنا لازمی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں انگارے یا تلوار پہ چلوں، یا اپنا جوتا پاؤں میں سی لوں، یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں، اور میں کوئی فرق نہیں سمجھتا کہ میں قضائے حاجت کروں قبروں کے بیچ میں یا بازار کے بیچ میں ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۷)

مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے شرم کی وجہ سے بازار میں آدمی کسی طرح پاخانہ پیشاب نہیں کر سکتا، پس ایسا ہی مُردوں سے بھی شرم کرنی چاہئے، اور قبرستان میں پاخانہ یا پیشاب نہیں کرنا چاہئے، اور جو کوئی قبروں کے درمیان پاخانہ پیشاب کرے وہ بازار کے اندر بھی پیشاب پاخانہ کرنے سے شرم نہیں کرے گا۔

قبرستان میں جتنے مردے ہیں وہ سب ہمارے سلف اور لائق احترام ہیں اس لئے قبرستان کے اندر جوتے چپل پہن کر نہیں چلنا چاہئے ۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

بشیر ابن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خصاصیہ! تجھے اللہ سے کیا شکوہ ہے (حالانکہ تجھے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے کہ) تو رسول اللہ کے ساتھ چل رہا ہے‘‘؟ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہیں۔ مجھے اللہ نے ہر بھلائی عنایت فرمائی ہے۔ (اسی اثنا میں) آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’انہیں بہت بھلائی مل گئی‘‘۔ پھر مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’یہ بہت سی بھلائی سے محروم رہ گئے‘‘۔ اچانک آپ کی نگاہ ایسے آدمی پر پڑی جو قبروں کے درمیان جوتوں سمیت چل رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جوتوں والے! انہیں اتار دے‘‘(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۸)

 

زیارت قبور وایصال ثواب

قبروں کی زیارت کرنا اور اپنے موتیٰ کے لئے دعا کرنا سنت ہے نبی کریم ﷺ خود بھی قبروں کی زیارت کے لئے قبرستان جایا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کے متعلق تلقین فرمایا کرتے تھے۔ابتدائے اسلام میں چونکہ لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کا خوف تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے قبروں کی زیارت سے منع فرمادیا تھا لیکن جب اسلام کی تعلیمات واضح طور پرآگئیں اور ایمان دلوں میںراسخ ہوگیا تو آپ ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت دے دیا بلکہ اس کی ترغیب بھی فرمائی ۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۷۱)

قبروں کی زیارت کا مقصد اپنے موتیٰ کے لئے دعاء مغفرت کرنا اور آخرت کو یاد کرنا ہے ۔ قبرستان میں قبروں کو دیکھ کر انسان کو اپنی آخرت یاد آجاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ایک دن مجھے بھی انہیں کی طرح قبر میں جاناہے جس سے اس کو خیر کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور شر سے نفرت پیداہوتی ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لیے کہ یہ تم کو آخرت کی یاد دلاتی ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۶۹)
عورتوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی اپنے موتیٰ کے لئے ایصال ثواب کرلیا کریں قبروں پر جاکر ایصال ثواب نہ کریں نبی کریم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبروں کی زیارت کے لئے نکلتی ہیں ۔

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۷۴)

ایصال ثواب کا طریقہ

انسان اپنے نیک اعمال کاثواب کسی بھی زندہ یا مردہ شخص کو پہنچاسکتاہے ۔ نماز ،روزہ ، حج ، عمرہ صدقہ، قربانی، یا قرآن کی تلاوت ، درود شریف اور دوسرے اذکار پڑھ کر کسی بھی شخص کو ثواب پہنچایا جاسکتاہے اور اس کا طریقہ یہ کہ بند ہ اللہ تعالیٰ سے دعاکرے کہ یااللہ میرے فلاں عمل کا ثواب فلاں شخص کو پہنچادے ۔ قبروں پر حاضری کے وقت نبی کریم ﷺ سے جو دعائیں منقول ہیں اس سلسلے کی چنداحادیث ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَومٍ مُؤْمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا فَرْطٌ وَاِنَّا بِکُمْ لَاحِقُوْنَ اَللّٰھُمَّ لَا تُحَرِّمْنَا اَجْرَھُمْ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَھمْ ‘‘(اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔) (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۵۶)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، تو ان کی طرف رخ کر کے آپ نے فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلْفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ ’’سلامتی ہو تم پر اے قبر والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے تم ہمارے پیش رَوہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں‘‘۔(سنن الترمذی حدیث نمبر۱۰۵۳)
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنّا اِنْ شائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقوْنَ نَسْاَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ‘‘ (اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلام ہو، ہم تم سے ان شاء اللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۴۷)

تعزیت

مسلمانوں کا آپس میں تعلق ایسا ہے جیسے اعضائے بدن کا آپس میں تعلق ہے کہ اگر بدن کے کسی بھی عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا بدن اس درد کومحسوس کرتاہے اسی طرح شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ جب ہمارا کو ئی بھائی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کا ایک طریقہ تو عیادت کا ہے جو کسی کے بیمار پڑ جانے پر کی کی جاتی ہے ۔ دوسرا طریقہ تعزیت کا ہے جو کسی عزیز کی موت پر کی جاتی ہے۔ لہذا اگر کسی مسلمان کی موت واقع ہوجائے تو اس کے پسماندگان سے تعزیت کرنا اور ان کو دلاسا دینا ہر مسلمان کا حق ہے جب کسی مسلمان کاانتقال ہوجائے تو دووسرے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کے گھر والوں سے تعزیت کریں انہیں صبر کی تلقین کریں اور ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کریں ۔میت کے متعلقین کو تسکین دیں اور میت کے لیے مغفرت کی دعاکریں۔ توفیق ہو تو قرآن پڑھ کر یا صدقہ دے کر میت کے لیے ایصال ثواب کریں۔تعزیت کے ایام تین دن ہیں اس کے بعد تعزیت مکروہ ہے ہاں اگر کوئی شخص موجود نہ ہو اور بعد میں کہیں سے آئے تو جس وقت وہ پہنچے اس کے لئے اس وقت تعزیت کرنا جائز ہے۔ ان کلمات کے ساتھ تعزیت کرنا مستحب ہے۔ غَفَرَ اللَّہْ تَعَالٰی لِمَیِّتِکَ وَتَجَاوَزَ عَنہْ وَتَغَمَّدَہُ بِرَحمَتِہِ وَرَزَقَکَ الصَّبْرَ عَلَی مْصِیبَتِہِ وَآجَرَکَ عَلَی مَوتِہِ۔(اللہ تعالیٰ تمہارے میت کی مغفرت کرے اور اسے معاف کر دے اوراس کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور آپ کواس مصیبت پر صبر دے اوراس کی موت پر تمہیں اجر دے۔) ( الفتاوی الہندیۃ : ۱/۱۸۳ دارالکتب العلمیہ بیروت)

 

تعزیت کی فضیلت

کسی بھی انسان کے ساتھ ہمدردی کارویہ رکھنا ، کسی مصیبت زدہ کو تسلی دینا اورتکلیف میں مبتلا شخص کی مدد کرنا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا اسلام کی اعلیٰ تعلیمات میں سے ہے ۔تعزیت بھی انسانی ہمدردی کا ایک ذریعہ ہے اس لئے جو شخص کسی کی تعزیت کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے عزت وتکریم اور اجرو ثواب سے نوازتے ہیں۔
محمد بن عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی مصیبت میں تسلی دے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۶۰۱)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے، تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا (جتنا مصیبت زدہ کو ملے گا)‘‘۔(سنن ابن ماجہ۔حدیث نمبر۱۶۰۲)

تعزیت کی دعا

اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہ مَا اَعْطیٰ وَکْلّْ شَیٍٔ عِنْدَہ بِاَجَلٍ مّْسَمًّی فَلْتَصْبِر وَلْتَحتَسِب۔ (بخاری حدیث نمبر۷۳۷۷)

’’یقیناً اللہ ہی کے لئے ہے جو اس نے لے لیا، اور اسی کے لئے ہے جو اس نے عطا کیا، اور ہر چیز اس کے پاس ایک مقررہ مدت کے ساتھ ہے، تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔‘‘
یہ دعا بھی دی جا سکتی ہے: اعظَمَ اللَہُ اَجْرَکَ، واحسَنَ عَزَائَکََ، وَغَفَرَ لِمَیِّتِکَ ’’اللہ تیرے اجر کو زیادہ کرے، تمہیں اچھی تسلی دے، اور تمہاری میت کو بخش دے۔‘‘(حصن المسلم ص ۶۱)

 

میت کے گھروالوں کے لئے کھانا بنانا

جس گھر میں کسی کی موت واقع ہوجائے وہ چونکہ غم میں ہوتے ہیں انہیں کھانے پینے کی پروا نہیں ہوتی۔ لیکن کھانا ایک فطری ضرورت ہے جس کے کوئی انسان خالی نہیں ہے۔ اس لئے ان کی ہمسائیگی اور اسلامی اخوت کا حق ہے کہ ان کے لئے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال کیا جائے اور باصرار انہیں کھلانے کی کوشش کی جائے۔رسول اللہ ﷺ کی سنت یہی ہے۔
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جعفرؓ کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آ پڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۶۱۰)

جنازہ کے احکام جاننے کے لئے اس لنک پر جائیں

6 thoughts on “میت کی تدفین اور زیارت قبور”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index