مسجد میں آتے وقت زینت اختیارکرو
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مسجد اللہ کاگھر ہے اور دن رات میں پانچ مرتبہ اس گھرمیں اللہ کا دربار لگتاہے اور اس دربار کے لئے نہایت اہتمام کے ساتھ خصوصی اعلان کیا جاتاہے کہ اللہ کے دربار میں حاضری کا وقت آگیاہے لوگ اپنے کاموں سے فرصت پاکر اللہ کی دربار کی طرف آئیں ۔ اس دربار میں حاضری کا اعلان مؤذن بڑے احترام اور پابندی سے کرتاہے۔ دنیا کے بادشاہوں اور امیروں کے دربار میں حاضری کے وقت انسان طرح طرح کے زیب وزینت اختیار کرتاہے ، خوشبوؤں کااستعمال کرتاہے تاکہ بادشاہ یا امیر کی نظر میں اس کی وقعت ہو ، مسجد میں اس بادشاہ کادربار ہے جو سارے بادشاہوں کا بادشاہ ہے ،جوو زمین وآسمان خالق ہے ۔تو جب اس کے دربار میں حاضری کاموقع ملے تو جیسے تیسے کپڑے پہن کا جانا اس بادشاہ کی توہین ہے ۔اس لئے اس عالیشان دربار میں حاضری کے وقت بہترین لباس کااھتمام کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کاحکم دیا ہے۔ ارشاد ہے :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ(اعراف۔۳۱)
اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
اس آیت کے نزول کاپس منظر اور شان نزول یہ ہے کہ کفارو مشرکین اپنی ناقص عقل کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم ہر روز گناہ کرتے ہیں انہیں کپڑوں میں طواف کرنا مناسب نہیں لہذا وہ سب لباس فطرت میں ننگےہوکر طواف کیا کرتے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے پورے بنی آدم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ مسجد میں آتے وقت زینت اختیار کرو یعنی کپڑے پہن کر آیا کرو ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو تو مسجد کا ادب احترام کرنا ہے اور اس میںداخلہ کے وقت لباس زینت اختیار کرنا ہے اگر کوئی غیر مسلم بھی مسجد میں کسی کام سے آتاہے تو ایسے کپڑے پہن کر آئے جو زینت کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ جیسے مسجدوں میں کام کرنے والے مزدور اگر غیر مسلم ہیں تو انہیں بھی لازمی طور پر ضروروی لباس پہن کر ہی اندر آنے کی اجازت دینی چاہئے ۔ اس لئے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ پوری نسل انسانیت کو مخاطب کیا ہے۔” یابنی آدم یعنی اے اولاد آدم “
اللہ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کو پسند فرماتے ہیں اس لیے اس کے دربار میں حاضری کے وقت انسان کو جمال والی صفت اختیار کرنا چاہئے اور لباس انسان کے حسن وجمال میں اضافہ کا سبب ہے ۔ جس طرح دنیا وی مجالس میں انسان زیب زینت اختیار کرنے کے لیے اپنے بہترین لباس کو استعمال کرتا ہےاسی طرح مسجد میںداخلہ کے وقت بھی بہترین لباس کاانتخاب کرے۔لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دنیا وی مجالس میں انسان لباس زینت اختیار کرتاہے تو اس میں تفاخر کا جذبہ کارفرما ہوتاہے لیکن مسجد میں حاضری کے وقت تفاخر نہیں بلکہ تواضع اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ کی رضا کے بجائے ناراضگی حاصل ہوگی ۔رسول اللہ کی ھدایات سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ “، قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ، يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔(صحيح مسلم۔كِتَاب الْإِيمَانِ۔باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ۔حدیث نمبر: ٢٦٥)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔“ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ” اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
یعنی کوئی شخص اپنے قیمتی کپڑوں کی وجہ سے تکبر کا شکار ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کاراستہ بند کردیتے ہیں اور تکبر یہ ہے کہ حق بات واضح ہوجانے کےبعد بھی نہ مانے اور اللہ کی مخلوق کو اپنے سے حقیر سمجھے ۔ لیکن اگر کوئی شخص اس لئے اچھے لباس پہنے اور زیب وزینت اختیار کرے کہ اللہ تعالیٰ جمال کو پسند فرماتے ہیں تو اس کا زیب وزینت اختیار کرنا اللہ کی رضا حاصل کرنے کاسبب ہوگا۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں دے رکھی ہیں ان کاشکر یہ ہے کہ اس کااثر ہمارے جسموں پربھی نظر آنا چاہئے ۔ رسول اللہ کے پاس ایک صحابی آئے اور ان کے کپڑے نہایت پراگندہ تھے تو آپ ﷺ نے انہیں اچھے لباس پہننے کی تلقین کی۔
عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ أَمُرُّ بِهِ فَلَا يَقْرِينِي وَلَا يُضَيِّفُنِي، فَيَمُرُّ بِي أَفَأُجْزِيهِ، قَالَ: ” لَا، اقْرِهِ “، قَالَ: وَرَآَّنِي رَثَّ الثِّيَابِ، فَقَالَ: ” هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ؟ ” قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِيَ اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ، قَالَ: ” فَلْيُرَ عَلَيْكَ “، (سنن ترمذي ۔كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ باب مَا جَاءَ فِي الإِحْسَانِ وَالْعَفْوِ۔حدیث نمبر: ٢٠٠٦ )
حضرت ابوالاحوص اپنےوالد سے روایت کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے“۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں مسجد کی حاضری کے وقت مسواک کرنا ، خوشبو لگانا ، سرمہ لگانا، بدبودار چیزوں سے پرہیز کرنا۔ مثلا کچا پیاز اور لہسن کھاکر نہ آنا یہ سب اسی زیب وزینت کے زمرے میں آتے ہیں ۔
اس لئے مسلمانوں کو چاہئےکہ مسجد میں جب بھی آئیں تو وہ لباس پہن کر آئیں جو دربار شاہی کےمناسب ہو اورجوتجمل و زینت کاسبب بنے۔