محرم الحرام اور یوم عاشورہ
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
دن اور رات سب کاخالق اللہ تعالیٰ ہیں اور وقت کی تبدیلی اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے وہی دن کو رات میں تبدیل کرتاہے اور رات کو دن میں تبدیل کرتاہے۔ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ (تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔آل عمران 27)اللہ تبارک وتعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے متعین فرمائے ہیں اور ان بارہ مہینوں میں کچھ مہینوں کو خاص طور سے فضیلت عطافرمائی ہے۔إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ(بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ )یہ چار مہینے جو حرمت والے ہیں وہ یہ ہیں:(۱)ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ(۳) محرم الحرام (۴)رجب المرجب ۔ رسول اللہ ﷺ نے حرمت والے مہینوں کو اسی ترتیب سے بیان کیا ہے ۔چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ۔الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ: اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى، وَشَعْبَانَ۔صحیح بخاری ۔كِتَاب الْمَغَازِي۔ بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ۔حدیث نمبر: ٤٤٠٦ (زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آ گیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ )
محرم الحرام اسلامی سال کاپہلا مہینہ ہے اور اشہر حرم کی وجہ سے اس کی فضیلت واضح ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض دنوں اور مہینوں کو اپنے فضل سے فضیلت عطا فرمائی ہے جن میں محرم الحرام کامہینہ بطور خاص شامل ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی اہمیت وفضیلت کو واضح انداز میں بیان کیاہے۔ جیسے آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ “سنن ترمذی كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔باب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ الْمُحَرَّمِ حدیث نمبر: ٧٤١ )(اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں کی توبہ قبول کی اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا“۔)
پہلی بات تویہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اس مہینہ کو اللہ کامہینہ کہا ہے ۔ ویسے تو سارے ہی دن اور سارے ہی مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن محرم الحرام کو بطور خاص اللہ کی طر ف منسوب کرنا اس مہینے کی فضیلت واہمیت کو ظاہر کرتاہے۔ دوسری چیز رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قوم کا توبہ قبول فرمایا ۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ مہینہ قبولیت توبہ کاخاص مہینہ ہے ۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں تاکہ اس ماہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہماری مغفرت فرمادیں۔عبادات کاخصوصی اہتمام کریں اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے سائل کو فرمایا کہ اگر تم رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں روزہ رکھنا چاہتے ہوتو محرم کے مہینہ میں روزہ رکھو۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔آپ ﷺکا معمول تھا کہ ہجرت سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کی تاکید نہیں فرمایا کرتے تھے ۔ ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کی تاکید فرمایا بلکہ اس حد تک تاکید فرمایا کہ ایک بار عاشورہ کے دن مدینہ اور اس کے گردو نواح میں اعلان کروادیا کہ جولوگ اب تک کچھ کھائے پئے نہیں ہیں وہ روزہ کی نیت کرلیں اور جن لوگوں نے کچھ کھاپی لیا ہے تو وہ اب کے بعد شام تک کچھ کھائیں پئیں نہیں بلکہ روزہ داروں کی طرح پورا دن گذاریں ۔
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:” أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَنْ أَذِّنْ فِي النَّاسِ، أَنَّ مَنْ كَانَ أَكَلَ فَلْيَصُمْ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَكَلَ فَلْيَصُمْ، فَإِنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ”(صحيح البخاري۔كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ۔حدیث نمبر: ٢٠٠٠ )
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیونکہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔
اس انداز کی تاکید سے پتہ چلتاہےکہ یہ روزہ فرض تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس روزہ کو فرض نہیں فرمایا بلکہ محض اس کی فضیلت کی وجہ آپ ﷺ نے اس طرح کا اعلان فرمایا تاکہ کوئی اس کی برکات سے محروم نہ رہ جائے۔بلکہ بعض روایات میں وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ یہ روزہ فرض نہیں بلکہ نفل ہے جس کاجی چاہے رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يَكْتُبْ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ۔حدیث نمبر: ٢٠٠٣ )
حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کاروزہ برابر رکھا ہے اور کبھی ترک نہیں فرمایا اور جب آپ ﷺ کو یہ بتایا گیا کہ اس دن کااحترام یہود بھی کرتے ہیں اور وہ اس دن کا روزہ بھی رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر زندگی رہی تو اگلے سال ہم اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی رکھیں گے تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے۔
محرم الحرام کامہینہ احترام وعزت کامہینہ ہے اور عاشورہ کی اہمیت ابتدا سے ہی مسلم ہے اور اس تاریخ کو دنیاکے اہم واقعات پیش آئے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کے لئے بڑی بڑی نعمتیں نازل کی ہیں ۔اس لئے یہ موقع ہمارے لئے خوشی کا ہے۔اس کو غم کے ساتھ منسوب نہیں کرنا چاہئے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یوم عاشورہ کو ہی نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی جس کی وجہ سے پورا عالم اسلام سوگوار تھا۔لیکن محض اس شہادت کی وجہ سے اس دن کو غم کادن نہیں کہاجاسکتاہے ۔ اس لئے کہ اس طرح کا غم اور ماتم کااسلام اجازت نہیں دیتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہادت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا غم منایاجائے بلکہ یہ تو ایک سعادت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ہی عطاکرتے ہیں۔اور اگر ہمیں غم یا ماتم کرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے زیادہ اس ماتم کے حقدار تو رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس تھی ۔ جن کی رحلت کے وقت صحابۂ کرام نے اپنے ہوش وحواس کھودیئے تھے۔اور پورامدینہ ہی نہیں بلکہ پورا عالم اس دن سوگوار تھالیکن ہم جس رسول کی امت میں ہیں وہ رسول ہی نہیں چاہتا کہ ہم کسی کی موت پرماتم کریں اس لئے ہم ماتم نہیں کرتے اور نہ کسی کو کرنا چاہئے۔
عاشورہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور آپﷺ کی معمولات سے جوثابت ہوتاہے وہ یہی ہے کہ عاشورہ کا روزہ رکھا جائے اور یہود کی مخالفت کے لئے اس کے ساتھ ایک روزہ اورملالیا جائے اب وہ روزہ چاہے نویں محرم کاہو یا گیارہویں محرم کا ۔ اس کے علاوہ بیہقی کی روایت سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ اس دن اپنے اہل و عیال پر خرچ میں فراخی کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ جوبھی کیا جاتا ہے وہ سب خرافات وبدعات ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔