روزہ کی اہمیت اور عاشورہ کاروزہ
صوم کے معنی رک جانے اور روزہ رکھنے کے ہیں۔روزہ رکھنے والاچونکہ ایک متعین مدت تک کھانے پینے اور دیگر مفسدات صوم سے رک جاتاہے اس لئے روزہ کوبھی صوم کہاجاتاہے۔
اصطلاح شر ع میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اللہ کے لئے کھانے پینے اورجماع وغیرہ سے رک جانے کوروزہ کہتے ہیں۔ شریعت مطہرہ نے مسلمانوں پر پورے رمضان کاروزہ فرض کیا ہے اوریہ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن کے بغیر اسلام کاخیمہ کھڑ انہیں ہوسکتا۔ روزہ پچھلی امتوں میں بھی ایک خاص عبادت کی شکل میں موجود تھا اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے روزے کوفرض فرمایا ہے ۔
روزہ ایک اہم عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے گناہوں سے بچانے کا ایک ذریعہ ہے ۔اس سے انسان کو قوت شہوانیہ پر غلبہ حاصل ہوتاہے ۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو جو نکاح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں یعنی نان و نفقہ ادا نہیں کرسکتے ہیں انہیں روزے رکھنے کی ہدایت دی ہے۔
حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی صاحب استطاعت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔(صحیح بخاری ۔ کتاب الصوم۔باب الصوم لمن خاف علی نفسہ عروبۃ)
روزہ ایک ڈھال ہے جو مومن کو شیطان کے وار سے بچاتاہے نیز یہ اللہ تعالیٰ کواتناپسندہے کہ اس کااجر اللہ تعالیٰ بدست خود عطافرمائیں گے اور روزہ داروں سے اللہ تعالیٰ کواتنی محبت ہے کہ بھوک اورمعدہ کے خالی رہنے کی وجہ سے منھ میں جوایک طرح کی بو پیداہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے یہاں مشک سے زیادہ ا س کامقام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔(صحیح بخاری۔کتاب الصوم، باب فی فضل الصوم)
 آج کل مختلف مقامات پرجیسے ایر پورٹ ، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کچھ اعزازی دروازے ہوتے ہیں جن سے خاص لوگ ہی اندر جاتے ہیں عام لوگوں کے جانے کے لئے دوسرے دروازے ہوتے ہیں۔ یہ محض ان بڑے لوگوں کی عزت افزائی کے لئے ہوتاہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ر وزہ داروں کے اعزاز میں جنت کاایک دروازہ خاص کردیاہے جس کانام باب الریّان ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوسکیں گے ۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم ،باب الریان للصائمین)
واضح رہے کہ روزہ صرف دن بھر بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ کاحق یہ ہے کہ تمام منہیات شرعیہ سے کلیۃً اجتناب برتا جائے ۔جھوٹ ،غیبت ،چغلی،گالی گلوج اور فحاشی وغیرہ سے مکمل اجتناب کے ساتھ ساتھ مامورات شرعیہ پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے تب ہی روزہ کے اصل فوائد حاصل ہوں گے ۔ورنہ صرف بھوکا رہنے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی وہ مذکورہ فضائل حاصل ہوں گے۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم۔باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ)
 رسول اللہ ؐ کاروزے سے خاص لگاؤ
نبی کریمﷺ کوروزے سے خاص لگاؤ تھا اور آپؐ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے  یہاں تک کہ آپ کئی کئی دن تک لگاتار روزے رکھاکرتے تھے  ۔لیکن آپؐ نے امت کے لئے صوم وصال یعنی لگاتار روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال رکھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی رکھا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے دشواری ہو گئی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صوم وصال رکھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو برابر کھلایا اور پلایا جاتا ہوں۔(صحیح بخاری۔ کتاب الصوم، باب الوصال ومن قال لیس فی اللیل صیام ) 
نبی کریم ﷺ کثرت سے روزے رکھتے تھے اور کبھی کبھی مہینہ کے اکثرایام روزے میں گزار دیتے تھے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رمضان کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پورے مہینے کا روزہ نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو دیکھنے والا کہہ اٹھتا کہ واللہ، اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور اسی طرح جب نفل روزہ چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہتا کہ واللہ! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے۔(صحیح بخاری۔کتاب الصوم،باب مایذکرمن صوم النبی ﷺ وافطارہ)
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے مسلمان عاشورۂ محرم کاروزہ رکھتے تھے۔ قریش بھی اس روزے کااہتمام کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ بھی رکھا کرتے تھے جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تویہ روزہ نفل رہ گیا لیکن فضیلت اب بھی باقی ہے اس لئے مسلمانوں کو اس روزہ کااہتمام کرنا چاہئے لیکن چونکہ عاشورہ کے دن یہود بھی روزہ رکھتے ہیں اور ہمیں یہودیوں کی مخالفت کرنے کاحکم ہے اس لئے دسویں محرم کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ پہلے یا بعدمیں ملالینامستحب ہے۔
 ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔(صحیح بخاری۔کتاب الصوم ،باب صیام یوم عاشورا) 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس کے متعلق جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو فرعون پر فتح نصیب کی تھی، چنانچہ تعظیم کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حقدار ہیں‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (سنن ابوداؤد۔ کتاب الصیام، باب فی صوم یوم عاشوراء) 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الصیام، باب ماروی ان عاشوراء الیوم التاسع)
اللہ تعالیٰ مختلف بہانوں سے امت محمدیہ علی صاحبا الصلوۃ والسلام کونوازتے رہتے ہیں انہی میں سے عاشورہ کاموقع بھی ہے اس دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں مختلف امتوں پر عاشورہ کے دن اپنے خاص انعامات نازل فرمایا ہے ۔ اس لئے اس کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ کی نعمتیں ہماری طرف متوجہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں نوازتارہے ۔ روزہ اللہ تعالیٰ کوخاص طور سے پسند ہے اس  لئے عاشورہ کے دن روزہ رہ کر ہم اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں ۔
ایک بات کا خاص طور سے خیال رکھنا ضروری ہے کہ عبادت چاہے جوبھی ہوصحیح معنوں میں عبادت اسی وقت شمار ہوگی جب کے وہ نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق ہو اس میں انسان کے ذاتی عمل دخل کاکوئی شائبہ نہ ہو ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے جس معاملہ میں جہاں تک اور جتنی ہدایت دی ہے اتنا ہی عمل کرنا چاہئے تاکہ وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *