پانی میں اسراف
کسی بھی شی کی حیات کے لئے ہوا ، پانی اور غذا بنیادی عناصر ہیں ان کے بغیر حیات کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہوا حیات کے لئے اہم عنصر ہے اور جتنی اس کی ضرورت ہے قدرت نے اس کو اتنی ہی افراط سے پیدا کیا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے لئے جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جس کو جہاں جتنی مقدار میں ضرورت پڑتی ہے قدرت نے اس کا کچھ ایسا انتظام کیا ہے کہ وہ ہر جگہ ، ہروقت بقدر ضرورت بلکہ وافر مقدار میں موجود ہے اس میں کسی انسان کا عمل دخل نہیں ہے ۔
دوسرے نمبر پر پانی نہ صرف حیوانات بلکہ نباتات ، جمادات یہاں تک دنیا میں موجود ایسی چیزیں بھی جن میں ظاہری حیات موجود نہیں ہے ان کے بقا کے لئے بھی پانی ضروری ہے۔پیڑ پودے پانی سے نشو نماپاکر ہمیں پھل ،پھول اور لکڑیا ں غلہ جات فراہم کرتے ہیں۔ اگر پانی نہ ہو تو زمین پر ہریالی کی ایک رمق باقی نہ رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت کواس طرح بیان فرمایا ہے:
وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ(١٨ ) فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ(١٩ ) سورہ مومنون
اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقینا ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔ پھر ہم نے تمھارے لیے اس کے ساتھ کھجوروں اور انگوروں کے کئی باغ پیدا کیے، تمھارے لیے ان میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور انھی سے تم کھاتے ہو۔
انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت اس کے روح کی طرح ہے ۔ جسم انسانی کے بقا کے لئے جس طرح روح کا ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کے نشوو نمااوربقا کے لئے پانی کا ہونا ضروری ہے ۔پانی کے ذخیرے کو قدرت نے زمین کے اندر ا یک خزانہ کی طرح جمع کردیا ہے جس کو انسان اپنی ضرورت کے مطابق جب چاہتاہے اور جہاں چاہتاہے نکال لیتا ہے۔ لیکن ہوا کی طرح پانی کاحصول آسان نہیں ۔ ہو اکے حصول کے لئے انسان یا کسی بھی حیوان کو کوئی تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں ، لیکن پانی کے حصول کے لئے جد وجہد کرنی پڑتی ہے اور بعض مقامات پر تو کافی جدوجہد کے بعد بھی پانی نہیں مل پاتا۔اس کے لئے انسان دوسرے علاقوں سے پانی لانے کے اسباب اختیار کرتاہے ۔
اتنی اہمی چیز جس کی ضرورت ہر شی کو ہے اس کو یوں ہی برباد کردیناکوئی عقلمندی نے نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے اسی لئے پانی کے اسراف سے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ ایک صحابی کو رسول اللہ ﷺ نے پانی میں اسراف کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺنے فرمایا:
، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَقَالَ:” مَا هَذَا السَّرَفُ”؟ فَقَالَ: أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ؟ قَالَ:” نَعَمْ وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ”.ـ(سنن ابن ماجہ۔حدیث نمبر: 425)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“ ۔
غور فرمائیے کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا ہے ۔ کہ اگر تم جاری نہر پر بھی ہو تو بھی پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرو ۔ یعنی جہاں پانی افراط کے ساتھ موجود ہے کسی کو پانی کی قلت محسوس نہیں ہوتی وہاں بھی پانی میں فضول خرچی نہیں کرنی چاہئے۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت ہے اور دوسری طرف ہماری حالت ہے ۔ کہ مسجدوں میں وضو کے لئے جو نل لگے ہوئے ہیں ان پر وضو کرتے ہوئے ہم کتنا پانی بلا ضرورت یونہی بہا دیتے ہیں۔پانی کا نل کھلا ہو اہے گپیں ہورہی ہیں اور پانی گر رہا ہے وضو بھی کرتے جاتے ہیں اور باتیں بھی کرتے جاتے ہیں لیکن ا س کے بارے میں خیال بھی نہیں گذرتا کہ ہم پانی ضائع کر رہے ہیں ۔
انسان کو جتنی سہولتیں ملتی جاتی ہیں اتنی ہی غفلت بڑھتی جاتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ بجلی نہیں تھی ، موٹر نہیں تھے ، لوگ کنویں سے پانی بھرتے تھے اس وقت چونکہ پانی نکالنے میں محنت لگتی تھی اس لئے آدمی ضرورت سے تھوڑا کم ہی پانی استعمال کرتاتھا ۔ لوگ برتنوں میں پانی بھر کر وضو یا غسل کیا کرتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ برتن کا پانی ختم ہوگیا تو پھر ڈول سے پانی کھینچنا ہوگالیکن جب سہولت ہوگئی ، گھروں اور مسجدوں میں موٹر لگ گئے ، ٹنکیاں اور نل لگ گئے تو اب پانی کے حصول کے لئے انسان کو محنت نہیں کرنی پڑتی لہذا وہ پانی کو بے دریغ خرچ کرتاہےاور اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وضو کے لئے اس نے جتنا پانی خرچ کیا ہے اس میں ایک آدمی غسل کرسکتاہے۔جبکہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایا ت اور آپ کا عمل ہمارے سامنے موجود ہے ۔رسول اللہ ﷺایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔
عَنْ سَفِينَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ ” يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ “(سنن الترمذی۔کتاب الطہارۃ عن رسول اللہ ﷺ حدیث نمبر56)
سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔
ایک صاع کا وزن تین کلو، ایک سو انچاس گرام، دوسو اسی ملی گرام ہوتاہے جبکہ مدصاع کاچوتھائی ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بہتر وضو کسی کا نہیں ہوسکتاہے اور آپ ﷺ کا عمل ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے لیکن ہمارا عمل ایسا ہے کہ ایک مد پانی تو کلی کرنے میں ہی ختم کردیتے ہیں چہ جائیکہ پورا وضو کیا جائے ۔ علماء نے اگر چہ اس حدیث کی تاویل کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ تحدید ضروری نہیں اگر کسی کو اس سے زیادہ پانی کی ضرورت ہو تو وہ استعمال کرسکتاہے لیکن اسراف ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ آج کل سمر سیبل موٹر عام ہوگیا ہے ۔موٹر آن کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے ٹنکی بھر جانےکے بعد اوبھر فلو ہوتا رہتا ہے اور سیکڑں بلکہ کبھی کبھی ہزاروں لیٹر پانی یونہی ضائع ہوجاتاہے ۔ گھروں کی صفائی ، گاڑیوں کی دھلائی وغیرہ میں ضرورت سے بہت زیادہ پانی صرف کیا جاتاہے ۔یہ سب اسراف کے اندر داخل ہے ۔اوراسراف بذات خود ایک قبیح عمل ہے جس کے بارے میں قرآن گویا ہے ۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا(سورہ اسراء 27)بے شک بے جا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔
دوسری طرف بعض ایسے علاقے ہیں جہاں پانی کی قلت ہے وہاں لوگ ندیوں ، نہروں اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں تھوڑی دیر کے لئے غور کریں کہ اگر ہم اس جگہ پر ہوتے تو کیا صورت حا ل ہوتی ۔اس لیے جہاں اس نعمت کی بہتات ہے وہ اللہ کا شکر اداکریں اور اسراف سے بچیں تاکہ قدرت کی پکڑ سے محفوظ رہیں۔
I just could not leave your website before suggesting that I extremely loved the standard information an individual supply for your visitors? Is gonna be back ceaselessly in order to check up on new posts.
fabuloso este conteúdo. Gostei muito. Aproveitem e vejam este site. informações, novidades e muito mais. Não deixem de acessar para saber mais. Obrigado a todos e até a próxima. 🙂