اصطلاحات حدیث

تدوین و ترتیب : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
دنیا میں علم کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان میں سب سے معتبر ذریعہ اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے اور اسی کی تفسیر احادیث رسول ﷺ ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ حدیث کے الفاظ صرف علماء کی زبان پر جاری ہوتے تھے یا ان کی جواحادیث سے گہرا شغف رکھتے تھے ۔لیکن اس زمانے میں علم اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی بھی فن یا علم کو کسی خاص طبقہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ آج ہر آدمی کسی بھی موضوع پر تبصرہ کرتاہوا نظر آتاہے ۔ایک ایسا آدمی جس نے کبھی بھی کسی مدرسہ کی چوکھٹ پر قدم نہیں رکھا ،کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا وہ بھی قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تشریح کررہا ہے۔اس کی وجہ ذرائع ابلاغ کی وسعت اور انٹرنیٹ کا عام ہونا ہے ۔ پہلے احادیث کا ذخیرہ کتابوں کی صورت میں محفوظ تھا جس کو پڑھنے کے لئے باضابطہ وقت کو فارغ کرنا پڑتاتھا کسی استاد یا ماہر فن کے سامنے بیٹھ کر علم حاصل کیا جاتا تھا لیکن آج انٹر نیٹ کی سہولت اور ہرآدمی کے ہاتھ میں انڈرائڈ فون نے اس کو بہت آسان کردیا ہے ۔ اب آدمی اپنے گھر میں بیٹھا بیٹھا دنیا بھر کی معلومات اپنے موبائل فون کے ذریعہ حاصل کرسکتاہے۔بڑے بڑے جید علماء و دانشوران کی تصانیف ، ان کی تقاریریہاں تک کے درسی بیانات بھی دستیاب ہیں۔جن کے ذریعہ انسان بہت کچھ اگر سیکھنا چاہے تو سیکھ سکتاہے ۔ لیکن اس کے لئے صحیح فہم اور صحیح ذریعہ ہونا شرط ہے جب تک یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی صحیح علم حاصل نہیں ہوسکتا۔احادیث کی اپنی کچھ خاص اصطلاحات ہیں جن کو جانے بغیر ہم صحیح طور پر حدیث کو سمجھ نہیں سکتے ۔ اس لئے ان اصطلاحات کو مستند علماء کی تصانیف سے اخذ کرکے بیان کرنے کی کوشش کرتاہوں تاکہ احادیث رسول کو سمجھنے اور ان سے استدلال کرنے میں آسانی ہو۔
سب سے پہلے ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حدیث کسے کہتے ہیں۔
حدیث کے لغوی معنی : حدیث کے لغوی معنی نئی چیز،بات یا نقل کی جانے والی بات کے آتے ہیں، عمومی طور پر ہر کہی جانے والی بات کو لغت کے اعتبار سے حدیث کہاجاتاہے۔ جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا (تحریم آیت 3) ”اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی“یہاں حدیث اپنے اسی عام معنی میں استعمال ہوا ہے۔
حدیث کی اصطلاحی تعریف:محدثین کی اصطلاح میں نبی کریم ﷺ کے قول،فعل سیرت، احوال اور تقریر کو حدیث کہا جاتاہے۔
قول سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ ارشادات مبارکہ ہیں جو آپﷺ کی زبان اقدس سے جاری ہوئے۔
فعل سے مراد وہ کام ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے کیے ہیں۔
سیرت سے مراد وہ خصائص اور عادات ہیں جو آپ ﷺ کی طرف منسوب ہیں ۔اسی طرح آپ ﷺ کی شکل وصورت کی تفاصیل بیان کرنا بھی سیرت میں داخل ہے۔
احوال سے مراد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کےحالات وواقعات بیان کرنا ہے۔
تقریر سے مراد وہ عمل یا قول ہے جو کسی صحابی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا ہو یا کہاہواور آ پ ﷺ نے اس پر سکوت فرمایا ہو۔یعنی آپ نے نہ تو اس کی توثیق فرمائی اور نہ ہی اس کی تردید فرمائی۔
ان میں سے ہر ایک کو حدیث کہا جاتاہے۔
لفظی اعتبار سے حدیث دوچیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ (١ ) سند(٢ ) متن
سند: حدیث کو روایت یا نقل کرنے کا جو سلسلہ ہے جو صاحب کتاب سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک ہوتاہے اس کو سند کہتے ہیں۔
متن: اس عبارت کو جورسول اللہ کی طرف منسوب ہے اس کو متن کہتے ہیں۔جیسے حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ”.
اس حدیث میں حدثنا سے سمعت علیا تک کا جملہ سند ہے اور” لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ”.متن ہے۔
سند کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔(١ ) مرفوع (٢ ) موقوف (٣ ) مقطوع
مرفوع: جس حدیث کی روایت کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچ جائے اسے مرفوع کہا جاتاہے ۔ جیسے یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،یا یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کام اس طرح کیا، یا یہ کہا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قول وفعل پر تقریر فرمائی ۔یا یہ کہ یہ حدیث مرفوعا ثابت ہے ۔ یا فلاں صحابی نے اس حدیث کو رفع کیا ۔ ان تمام صورتوں میں وہ حدیث مرفوع کہلائے گی ۔
موقوف: جس حدیث کی روایت کا سلسلہ کسی صحابی تک پہنچ کر رک جائے اسے موقوف کہا جاتاہے ۔ جیسے یہ کہا جائے کہ حضرت ابوہریرہ ؓنے فرمایا:یا یوں کہہ دیا جائے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے اس حدیث کوموقوف کیا ہے۔
مقطوع: جس روایت کی سند کسی تابعی تک پہنچ کر رک جائے اسے مقطوع کہا جاتا ہے ۔ جیسے کوئی تابعی اپنے اوپر کسی صحابی کاذکر نہ کرے اور سیدھے متن بیان کردے۔
بعض حضرات کے نزدیک موقوف اور مقطوع کو اثر کہا جاتاہے۔اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال اور تقریر کو حدیث کہا جائے گا اور صحابی و تابعی کے اقوال وافعال اور تقریر کو اثر کہا جائے گا۔
روایت کے اعتبار سے حدیث کی پانچ قسمیں ہیں۔(١ ) متصل (٢ ) منقطع (٣ ) معضل (٤ ) معلق (٥ ) مرسل
متصل : اس حدیث کو کہاجاتاہے جس میں صاحب کتاب سے لے کر  رسول اللہ ﷺ تک کوئی بھی راوی متروک نہ ہویعنی بیچ میں کسی راوی کا نام حذف نہ کیا گیا ہو۔
منقطع : اس حدیث کو کہا جاتاہے جس کی سند میں سے ایک یا ایک سے زیادہ راوی متعدد مقامات سے ساقط ہوگئے ہوں۔
معضل: اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں دویا دو سے زائد راوی ایک ہی مقام سے ساقط ہوگئے ہوں ۔اب اس میں مصنف کا عمل دخل ہویا نہ ہو دونوں صورتوں میں وہ حدیث معضل ہی ہوگی۔
معلق: وہ حدیث ہے جس کے سند کی ابتدا میں ایک یا ایک سے زائد راوی بتصرف مصنف ساقط ہوں۔
مرسل: اس حدیث کوکہتے ہیں جس کے اخیر سند سے تابعی کے بعد کوئی راوی ساقط ہو جیسے کوئی تابعی حدیث روایت کرتے ہوئے صحابی کا ذکر نہ کرےاور سیدھے قال رسول اللہ ﷺ کہے۔
درجہ کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (١ ) صحیح (٢ ) حسن (٣ ) ضعیف
صحیح:وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی مصنف کتاب سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک صاحب عدالت اور صاحب ضبط ہو ں۔نیز جس وقت انہوں نے روایت کیا اس وقت وہ مسلمان ، عاقل اور بالغ ہوں۔
صاحب عدالت سے مراد یہ ہے کہ وہ متقی پرہیز گار ہو ، جھوٹ نہ بولتا ہو ، کسی گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ اور اگر کبھی بشری تقاضے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً توبہ کرلے ، صغیرہ گناہوں سے بھی حتی الامکان بچنے والاہو، فسق وفجورسے پرہیز کرنے والا ہو ، کوئی ایسا کام کرنے والا نہ ہو جو اسلامی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتاہے۔
صاحب ضبط کامطلب ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار ہو ، ا س کا حافظہ قوی ہو جو بات سنے اس کو بعینہٖ یاد رکھنے والا ہواور حدیث کی روایت کرتے وقت کسی بھول چوک یا شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
پھر اس صحیح روایت کی بھی دوقسمیں ہیں۔(١ ) صحیح لذاتہٖ (٢ ) صحیح لغیرہٖ
صحیح لذاتہٖ:اگر مصنف کتاب سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک تمام کے تمام راوی عدل وضبط کے اعتبار سے مکمل ہیں تو اس حدیث کو صحیح لذاتہٖ کہیں گے ۔
صحیح لغیرہٖ: اگر مصنف کتاب سے لے کر رسول اللہ تک تمام راویوں میں سے کسی میں عدل وضبط کے اعتبار سے تھوڑی بہت کمی ہے لیکن وہی روایت دوسری بہت ساری سندوں سے بھی آئی ہو اور کثرت طرق سے اس کمی کو دور کیا جاسکتاہو تو اس روایت کو صحیح لغیرہٖ کہیں گے۔
حسن: وہ حدیث ہے جس کی سند میں مصنف کتاب سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک کسی ایک راوی میں عدل وضبط کے اعتبار سے تھوڑی کمی ہو اور یہ کمی دوسرے طرق سے پوری بھی نہ ہوتی ہو تو اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔
ضعیف: حدیث صحیح اور حسن کے لئے جو شرائط ہیں ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ شرائط کسی راوی میں مفقود ہو۔ جیسے راوی صاحب عدالت نہیں یا صاحب ضبط نہیں ہے تو وہ حدیث ضعیف کہلائے گی ۔
عمومی طور پر جوحدیث ہم تک پہنچتی ہے وہ چار قسم کی ہوتی ہیں ۔(١ ) متواتر(٢ ) مشہور(٣ ) عزیز(٤ ) غریب
متواتر : ایسی حدیث جس کو مختلف اسناد سے ہر زمانے میں اتنے راویوں نے روایت کیا ہے جن کا جھوٹ پر اتفاق ہونا عقلی طور پر محال ہواس حدیث کو متواتر کہتے ہیں۔
مشہور :وہ حدیث جو تواتر کی حد تک نہ پہنچے مگر اس کے روایت کرنے والے ہر طبقہ میں کم سے کم تین یا اس سے زیادہ ہو ں ایسی حدیث کو مشہور کہتے ہیں۔
عزیز: ایسی حدیث جس کے روایت کرنےہر طبقہ میں کم سے کم دو ضرورہوں ۔ ا س حدیث کو عزیز کہتے ہیں۔
غریب : ایسی حدیث جس کی سند میں کسی ایک جگہ صرف ایک ہی راوی ہو اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا راوی شریک نہ ہو۔ اس حدیث کو غریب کہتے ہیں۔
باعتبار اختلاف کے حدیث کی چار قسمیں ہیں۔(١ ) شاذ (٢ ) محفوظ (٣ ) منکر(٤ ) معروف
شاذ: وہ حدیث جس کا راوی تو ثقہ ہولیکن وہ کسی ایسے راوی کے خلاف روایت کرے جو عدل اور ضبط میں اس سے زیادہ ہو ایسی حدیث کو شاذ کہتے ہیں۔
محفوظ : ایسی حدیث جس کا راوی اوثق ہو مگر وہ ایسے راوی کی حدیث کے خلاف ہو جو ضبط وغیرہ وجوہ ترجیح میں اس سے کم تر ہو ۔ایسی حدیث کو محفوظ کہتے ہیں۔
منکر : ایسی حدیث جس کا راوی ضعیف ہو اور ایسے راوی کی حدیث کے جو اس سے زیادہ قوی ہو۔ایسی حدیث کو منکر کہتے ہیں۔
معروف: ایسی حدیث جس کا راوی قوی اور ایسے راوی کے خلاف ہو جو ضعیف ہے ایسی حدیث کو معروف کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ حدیث کے اصطلاحات کا نہایت ہی مختصر اور اجمالی تعارف ہے فن حدیث کے ماہرین نے بہت ساری قسمیں بیان کی ہیں جو مطولات میں موجود ہیں ۔ ابتدائی طور پر اتنی چیزوں کا جان لینا حدیث کے فہم میں کافی ممد ومعاون ہوسکتاہے ۔ اس مضمون کو لکھنے میں مشکوۃ المصابیح کی شرح مظاہر حق سے استفادہ کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *