وقف کی اہمیت و افادیت

 

مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 
اس کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ رب العزت کی ذات ہے اس لئے ہر چیز پر اسی کو مالکانہ حق حاصل ہے ۔انسانوں کے استعمال کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسان کے دسترس میں دے دیا ہے اور اس کو ہدایت بھی کردی ہے کہ ان چیزوں کو ہمارے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کروگے تو تم سے اس کے بارے میں کوئی بازپرس نہیں ہوگی بلکہ ہم اس پر تمہیں اجر عطا فرمائیں گے۔لہذا جولوگ اشیا ء کو خداوندی رہنمائی کے مطابق استعمال کرتے ہیں ان کے لئے دنیا میں تو وہ چیزیں مفید ہوتی ہی ہیں تعمیل حکم کی وجہ سے آخرت میں میں بھی سودمند ثابت ہوں گی ۔
لیکن ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی محدود ہے اور وہ اپنی حیات کے بقدر ہی اشیاء کو استعمال کرسکتاہے اس کے بعد وہ چیزیں جو اس کے زیر استعمال تھیں وہ دوسروں کی ہوجاتی ہیں ۔کائنات کا دستور یہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے ۔ لیکن اسلام نے ایک ایسا راستہ بھی بتایا ہے جس کے ذریعہ انسان دنیا میں اپنی حیات ے بقدر دنیاوی ساز وسامان سے استفادہ بھی کرسکتاہے اور اپنے مرنے کے بعد اس کو آخرت کے لئے ایسا ذخیرہ اور ذریعہ بھی بناسکتاہے جواس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ان میں سے ایک وقف کی صورت ہے ۔ جس میں زمین ،جائداد یا دیگر چیزیں اللہ کی مرضی کے لئے وقف کردی جائیں۔جب کوئی انسان اپنی جائداد للہ وقف کردیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جائداد کو استعمال کرنے کا حق اللہ تعالیٰ نے اسے دیا تھا اور عارضی طور پر اس کو اس جائداد کا مالک بنایاتھا اس نے اس ملکیت عارضی کو مالک حقیقی کی طرف واپس کردیا۔ اب اس زمین جائداد کامالک اس دنیامیں کوئی نہیں رہا بلکہ وہ شی اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ گئی ۔ اسی لئے وقف کی گئی زمین میں نہ تو وراثت جاری ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کو بیچا خریدا جاسکتاہے۔ہاں واقف کی شرائط کے مطابق اس کو استعمال کیا جاسکتاہے جس کا اجرو ثواب وقف کرنے والے کو اس وقت تک ملتارہے گے جب تک کہ وہ شئی قابل انتفاع ہے۔
اسلام کے اسی اصول کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی آخرت کے انتفاع کے لئے بڑی بڑی جائدادیں وقف کی ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہ اوقاف امت مسلمہ کی وراثت ہے اور اس کی حفاظت پوری امت کی ذمہ داری ہے۔واقف نے جن شرائط کے ساتھ وہ جائداد وقف کی ہے ان شرائط کی پاسداری متولیان کے ذمہ واجب ہے اور جس طرح وہ اپنے اعمال کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں جوابدہ ہیں اسی طرح وقف کی جائداد کے لئے بھی جواب دہ ہیں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی جس کو انہوں نے فقراء ومساکین کے لئے وقف کردیا اور اس میں چند شرائط بھی اپنی طرف سے رکھ دیا کہ ”اس زمین کو نہ تو بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہبہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی وراثت میں تقسیم کیا جاسکتاہے ،بلکہ اس سے فقرا ء  و رشتہ دار نفع اٹھاسکتے ہیں اور اس کے منافع کو غلاموں کے آزاد کرنے میں استعمال کیا جاسکتاہے اور اسی طرح اللہ کی راہ میں ، مہمانوں کی ضیافت اور مسافروں کی مدد میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ہاں متولی کو اتنی اجازت ہوگی کہ وہ بقدر ضرورت اس سے فائدہ اٹھائے اور اپنے دوستوں کو کھلائے لیکن ذخیرہ اندوزی کی اجازت بالکل نہیں ہوگی۔صحیح بخاری سے وہ حدیث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:” أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيه.(صحیح بخاری ۔2772)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایک زمین ملی ہے اور اس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے اور فقراء، رشتہ دار، غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے راستے میں، مہمانوں اور مسافروں کے لیے (وقف ہے) جو شخص بھی اس کا متولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو۔
یہ روایت وقف کے سلسلے میں اصول کا درجہ رکھتی ہے اور اسی اصول کی بناء پر موقوفہ شئی کو نہ تو بیچا جاسکتاہے اور نہ ہی ہبہ کیا جاسکتاہے اس لئے کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ شئی اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
جس طرح زندگی میں کسی کی ملکیت میں کسی بھی شخص کو دخل اندازی کا کوئی اختیار نہ تو اسلامی قانون میں ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی اور قانون میں تو جب کسی نے اپنی زندگی کے بعد کچھ شرائط کے ساتھ وہ زمین وقف کردیا تو کسی اور کو دخل اندازی کا کیسے اختیار ہوسکتاہے۔اسی بناء پر ہندوستانی دستور میں وقف ایکٹ بنایا گیاہے تاکہ موقوفہ جائداد کو واقف کے شرائط کے مطابق تحفظ حاصل ہوسکے ۔لیکن موجودہ حکمراں طبقہ اس وقف ایکٹ میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتاہے جس سے واقف کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتاہے اور اس وقف کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔اس مقصد کے تحت وقف ایکٹ ترمیمی بل پالیمان میں پیش کیا گیا جو اگر چہ پاس نہیں ہوسکا لیکن حکومت وقت نے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹایا ہے اور اس کو پاس کرانے کے دوسرے ذرائع کا استعمال کررہی ہے ۔
واقف چونکہ اب دنیا میں موجود نہیں رہا اس لئے پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ اس موقوفہ جائداد کی حفاظت کے لئے اپنی طاقت بھر کوشش کررے اور اس کے لئے جو لائحہ عمل مناسب ہو اس کو اختیار کرے۔ہر شخص اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ذمہ دار ہے اور اس کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ یہ پوری قوم کااثاثہ ہے اور اس کے فوائد مجموعی طور پر پوری قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ ان اوقاف کی زمینوں میں جو خرد برد ہورہی ہے اس کو درست کرکے اس کی حفاظت اور افادہ کو آسان بنائے نہ یہ کہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اوقاف کی اہمیت ہی ختم ہوجائے۔  

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *