علم فرائض
وراثت کی تقسیم
ذوی الفروض کی حالتوں کابیان
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 
پہلی قسط
فرائض فریضہ کی جمع ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وراثت کے احکام کو فریضہ اور مفروضا سے تعبیر کیا ہے اس لئے اس علم کا جس سے وراثت کے بارے میں معلومات حاصل ہوں اس کا نام ہی علم فرائض پڑگیا ۔فریضہ فرض سے مشتق ہے اور عربی میں فرض ایک وسیع المعنی لفظ ہے قرآن و احادیث میں اس لفظ کو مختلف معنوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے نازل کرنا ، واجب کرنا ، مقررکرنا ، متعین کرنا ، بیان کرنا ، ، حلال کرنا ۔وغیرہ۔سورہ نسا آیت 11 اور 12 میں اللہ تعالیٰ نے تفصیلی طور پر وارثین کے حصص کو متعین کیا ہے ۔ارشاد ہے: 
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11) وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ(12)
للہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں،بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اور تمھارے لیے اس کا نصف ہے جو تمھاری بیویاں چھوڑ جائیں، اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمھارے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے، جو انھوں نے چھوڑا، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں، یا قرض (کے بعد)۔ اور ان کے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے جو تم چھوڑ جائو، اگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمھاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے اس میں سے آٹھواں حصہ ہے جو تم نے چھوڑا، اس وصیت کے بعد جو تم کر جائو، یا قرض (کے بعد)۔ اور اگر کوئی مرد، جس کا ورثہ لیا جا رہا ہے، ایسا ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اولاد، یا ایسی عورت ہے اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں حصے دار ہیں، اس وصیت کے بعد جو کی جائے، یا قرض (کے بعد)، اس طرح کہ کسی کا نقصان نہ کیا گیا ہو۔ اللہ کی طرف سے تاکیدی حکم ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، نہایت بردبار ہے۔
اس آیت کریمہ میں ہر وارث کاحصہ اس کی حالت کے اعتبار سے بیان کردیا گیاہے ۔ ذیل میں ہر ایک کی تفصیل درج کی جاتی ہے ۔
ذوی الفروض
قرآن کریم و احادیث میں بارہ ایسے وارثین کا بیان ہے جن کا حصہ متعینہ طور پر بیان کردیا گیاہے ان کو ذوی الفروض کہا جاتاہے ۔ ا ن میں سے دو سببی ہیں ۔ ایک شوہر دوسری بیوی۔اور دس نسبی ہیں جن میں تین مذکر اور سات مؤنث ہیں۔مذکرذوی الفروض باپ، دادااور اخیافی بھائی ہیں۔مؤنث ذوی الفروض میں بیٹی ، پوتی ، حقیقی بہن ، علاتی بہن، اخیافی بہن، ماں اور دادی شامل ہیں۔اب ہر ایک کا متعینہ حصہ ان کی حالات کے اعتبار سے ذیل میں بیان کیاجاتاہے ۔
١  شوہرکا حق
شوہر کو بیوی کے مال میں سے دوطرح کا حصہ ملتاہے ۔
(١ ) اگر بیوی کی کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو کل مال کا آدھا حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر بیوی کی کوئی اولاد ہے چاہے وہ اسی شوہر ہو یا پہلے شوہر سے تو شوہر کو ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ مذکورہ بالاآیت میں شوہر کی دونوں حالتوں کا بیان اس طرح ہے :
 وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۔
( اور تمھارے لیے اس کا نصف ہے جو تمھاری بیویاں چھوڑ جائیں، اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمھارے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے، جو انھوں نے چھوڑا، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں، یا قرض (کے بعد)۔ 
٢  بیوی کا حق
 بیوی کی بھی دوحالتیں ہیں۔
(١ ) اگر شوہر کی کوئی اولاد نہیں ہے تو بیوی کو ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر شوہر کی کوئی اولاد موجود ہے چاہے وہ اسی بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔
اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو وہ اسی چوتھائی یا آٹھویں حصہ میں برابر کی حصہ دار ہوں گی۔مذکورہ بالا آیت میں بیوی کی ان دونوں حالتوں کا بیان اس طرح ہے :
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ
(اور ان کے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے جو تم چھوڑ جائو، اگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمھاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے اس میں سے آٹھواں حصہ ہے جو تم نے چھوڑا، اس وصیت کے بعد جو تم کر جائو، یا قرض (کے بعد)۔ 
٣  باپ کا حق
 باپ کی تین حالتیں ہیں اور ہر حالت میں اس کا الگ الگ حصہ متعین ہے۔
(١ ) اگر میت کی اولاد مذکر موجود ہے ۔یعنی بیٹا ، پوتا، پرپوتا وغیرہ موجود ہیں تو میت کے باپ کو مال کاچھٹا حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر میت کی اولاد مؤنث موجود ہیں اور ان کے ساتھ کوئی مذکر نہیں ہے تو باپ کو مال کا چھٹا حصہ بھی ملے گا اور عصبہ بھی بنے گا۔ یعنی کل مال کا چھٹا حصہ تو ذوی الفروض ہونے کی حیثیت سے باپ کو مل جائے گا اور پھر تمام وارثین کو حصہ دینے کے بعد جو مال بچ جائے گا وہ بھی باپ کو ہی مل جائے گا۔
(٣ ) اگر میت کی کوئی اولاد نہیں نہ مذکر نہ مونث تو باپ عصبہ بن جائے گا۔ یعنی کوئی اور وارث ہے تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی مال باپ کا ہوگا اور اگر کوئی دوسرا وارث نہیں ہے تو کل مال باپ کا ہوجائے گا۔ مندرجہ بالا آیت میں ماں باپ دونوں کاحصہ ایک ساتھ بیان کردیا گیاہے۔
وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ 
(اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے،)
٤  ماں کا حق
ماں کی تین حالتیں ہیں ۔
(١ ) اگر میت کی اولاد بیٹا ،بیٹی یا پوتا، پوتی یا دوبھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر میت کی اولاد میں سے یا دو یا دوسے زیادہ بھائی بہن موجود نہ ہوں لیکن میا ں بیوی میں سے کوئی ایک موجود ہو اور ماں باپ دونوں موجود ہوں تو میاں بیوی میں سے جوبھی موجود ہے اس کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچ رہے گا اس کا تیسرا حصہ ماں کا ملے گا۔جیسے شوہر کا انتقال ہوگیا اور بیوی کے ساتھ والدین بھی موجود ہیں تو بیوی کو چوتھائی حصہ دینے کے بعد جو مال بچ جائے گا اس میں سے ایک تہائی ماں کو اور باقی مال باپ کو مل جائے گا۔ اسی طرح اگر بیوی کاانتقال ہوجائے اور شوہرکے ساتھ والدین موجود ہیں تو شوہر کو نصف دینے کے بعد جو مال بچ جائے گا اس میں سے ایک تہائی ماں کو اور باقی مال باپ کومل جائے گا۔
 یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہےلیکن ائمہ اربعہ اسی کے قائل ہیں ۔أنها تأخذ ثلث الباقي في المسألتين; لأن الباقي كأنه جميع الميراث بالنسبة إليهما . وقد جعل الله لها نصف ما جعل للأب فتأخذ ثلث الباقي ويأخذ ثلثيه وهو قول عمر وعثمان ، وأصح الروايتين عن علي . وبه يقول ابن مسعود وزيد بن ثابت ، وهو قول الفقهاء السبعة ، والأئمة الأربعة ، وجمهور العلماء – رحمهم الله  (تفسیر ابن کثیر)( جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لیے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور دو تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ عنہما اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہی فیصلہ ہے، سیدنا ابن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے۔)
(٣ ) اگر میت کی کوئی اولاد نہیں اور بھائی بہنوں میں سے دو یا دو سے زیادہ نہیں تو ماں کو کل مال کا ایک تہائی حصہ ملے گا۔
٥  دادا کا حق
دادا کی چار حالتیں ہیں ۔ 
(١ )  میت کی اولاد مذکر موجود ہو مثلاً بیٹا یا پوتا تو دادا کو چھٹا حصہ ملے گا۔
(٢ ) میت کی صرف اولاد مؤنث موجود ہو جیسے بیٹی یا پوتی تو دادا کو چھٹا حصہ بھی ملے گا اور وہ عصبہ بھی بنے گا۔
(٣ ) میت کی کوئی اولاد نہ ہو نہ مذکر اور نہ مؤنث تو دادا عصبہ بنے گا۔
(٤ ) میت کے باپ کی موجودگی میں دادا محجوب ہوگا۔
تین حالتوں میں دادا باپ کے مثل ہوتاہے۔وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ  يَا بَنِي آدَمَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ، وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ فِي زَمَانِهِ وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ۔(صحیح بخاری ۔کتاب الفرائض۔حدیث نمبر6737)
(بوبکر، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ دادا باپ کی طرح ہے؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی ”يا بني آدم“ ”اے آدم کے بیٹو!“ واتبعت ملة آبائي إبراهيم وإسحاق ويعقوب ”اور میں نے اتباع کی ہے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی“ اور اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آپ کے زمانہ میں اختلاف کیا ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد اس زمانہ میں بہت تھی ) 
٦  اخیافی بھائی بہن کا حق
اخیافی بھائی ماں شریک بھائی کو کہتے ہیں۔اخیافی بھائی بہنوں کی تین حالتیں ہیں۔
(١ ) اگر اخیافی بھائی بہنوں میں سے کوئی ایک ہی ہو تو اس کوچھٹا حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر اخیافی بھائی بہن دو یا دوسے زیادہ ہوں تو انہیں تیسرا حصہ ملے گا اور وہ تمام بھائی بہن اسی تیسرے حصے میں برابر کے شریک ہوں گے ۔
(٣ ) اگر میت کی کوئی حقیقی اولاد چاہے مذکر ہو یا مؤنث یعنی بیٹا ، بیٹی پوتا ، پوتی یا باپ دادا میں سے کوئی ایک ہو تو اخیافی بھائی بہن محروم ہوں گے۔ 
آیت مذکورہ میں ان کا حصہ اس طرح بیان ہوا ہے :وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ
( اور اگر کوئی مرد، جس کا ورثہ لیا جا رہا ہے، ایسا ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اولاد، یا ایسی عورت ہے اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں حصے دار ہیں)
کلالہ اس کو کہتے ہیں جس نے مرنے کے بعد نہ کوئی اولاد چھوڑا اور نہ اس کے والد موجود ہوں تو ایسی صورتوں میں اگر اس کی ماں شریک بھائی ہوں تو انہیں حصہ ملے گا لیکن اگر کوئی اولاد یا باپ دادا موجود ہو ں تو ظاہر ہے کہ وہ کلالہ نہیں رہا اس لئے اخیافی بھائی بہنوں کا حصہ نہیں رہا اور وہ محروم ہوں گے ۔ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہے :
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَسْتَفْتُونَكَ فِي الْكَلَالَةِ، فَمَا الْكَلَالَةُ؟ قَالَ:” تُجْزِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ”، فَقُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاق: هُوَ مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَلَدًا وَلَا وَالِدًا، قَالَ: كَذَلِكَ ظَنُّوا أَنَّهُ كَذَلِكَ.(ابوداؤد۔ کتاب الفرائض ۔حدیث نمبر٢٨٨٩ )
( ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! يستفتونك في الكلالة میں کلالہ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: آیت ”صيف“ تمہارے لیے کافی ہے۔ ابوبکر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے کہا: کلالہ وہی ہے نا جو نہ اولاد چھوڑے نہ والد؟ انہوں نے کہا: ہاں، لوگوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔)
کلالہ والی آیت گرمی کے موسم میں نازل ہوئی اس لئے اسے آیۃ الصیف کہا جاتاہے۔
٧  بیٹی کا حق
 بیٹی کی تین حالتیں ہیں۔
(١ ) بیٹی اگر اکیلی ہو تو اسے کل مال کا آدھا حصہ ملے گا۔
(٢ ) اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انہیں کل مال کا دوتہائی حصہ ملے گا۔
(٣ ) اگر بیٹی کے ساتھ بیٹے بھی موجود ہوں تو وہ سب عصبہ ہوں گے اور ایک مذکر کو دو مؤنث کا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا آیت میں ان کی تینوں حالتوں کابیان اس طرح ہے:يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ۔
٨  پوتی کا حق
پوتی کی چھ حالتیں ہیں۔
(١ ) پوتی ایک ہو تو نصف کی حقدار ہے ۔
(٢ ) پوتی ایک سے زیادہ ہو تو دو تہائی کی حقدار ہے۔
(٣ ) پوتی پوتے کے ساتھ ہے تو عصبہ مع الغیر بنے گی اور مؤنث کو مذکر کے نصف ملے گا۔
(٤ ) پوتی کے ساتھ ایک بیٹی بھی موجود ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا۔
 (٥ ) پوتی میت کے بیٹے کے ساتھ ہوتو محروم ہوگی ۔
 (٦ ) پوتی دو یادو سے زیادہ بیٹیوں کے ساتھ ہو تو بھی محروم ہوگی ۔
ابتدائی تین حالتیں تو قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت کے تحت بیان ہوئی ہیں۔يُوصِيكُمُ اللَّهُ  الخ
چوتھی حالت کا بیان حدیث میں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے بیٹی کے ساتھ پوتھی کو چھٹا حصہ دیا ہے ۔
سُئِلَ أَبُو مُوسَى، عَنْ بِنْتٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، وَأُخْتٍ، فَقَالَ: لِلْبِنْتِ النِّصْفُ، وَلِلْأُخْتِ النَّصْفُ”، وَأَتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَا بِعْنِي، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ” أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِلْابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ”. فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى، فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُمْ.
 ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہو چکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہو جائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔
پانچویں حالت میں جب میت کا بیٹا موجود ہے تو ظاہر ہے وہ عصبہ بن کر پورا مال لے لے گا اس لئے پوتی محروم ہوجائے گی ۔
چھٹی حالت میں اس لئے محروم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کا حصہ دوثلث سے زیادہ نہیں بتایا ہے یعنی دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو دوتہائی مال ان سب میں تقسیم کیا جائے گااور پوتیاں بھی بیٹیوں کے زمرہ میں ہی آتی ہیں لیکن پوتیوں کے مقابلے میں بیٹیاں میت سے زیادہ قریب ہیں اس لئے پہلے بیٹیا ں حقدار ہیں اور ان کا حصہ دینے کے چونکہ متعینہ حصہ میں سےکچھ بچتا نہیں ہے اس لئے پوتیاں محروم ہوجائیں گی۔
٩   عینی بہن کا حق
 عینی بہن یعنی حقیقی بہن کی پانچ حالتیں ہیں۔
(١ ) بہن ایک ہو تو نصف ملے گا۔
(٢ ) بہن دویا دوسے زیادہ ہوں تو دوتہائی ملے گا۔
(٣ ) حقیقی بہن حقیقی بھائی کے ساتھ عصبہ مع الغیر بنے گی ۔ یعنی ایک مذکر کودومؤنث کا حصہ ملے گا۔
(٤ ) بیٹی یا پوتی کی موجودگی میں حقیقی بہن عصبہ مع الغیر ہوگی ۔یعنی پوتی کا حق دینے کے بعد جو مال بچ جائے گے وہ بہن کو مل جائے گا۔
(٥ ) میت کا بیٹا ،پوتا،یا باپ دادا موجود ہوں تو حقیقی بہن محروم ہوگی۔
ابتدائی تین حالتوں کا براہ راست بیان قرآن کریم میں موجود ہے:
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ)سورہ نساء١٧٦ )
 وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں، کہہ دے اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی آدمی مر جائے، جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کا نصف ہے جو اس نے چھوڑا اور وہ (خود) اس (بہن) کا وارث ہوگا، اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر وہ دو (بہنیں) ہوں تو ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہوگا جو اس نے چھوڑا اور اگر وہ کئی بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوگا۔ اللہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہو جائو اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
چوتھی حالت کا بیان ایک حدیث میں ہے جس میںبیٹی اور پوتی کے ساتھ بہن کو عصبہ بنایا گیا ہے۔
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:” لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: للْابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ”.(صحیح بخاری۔کتاب الفرائض۔ حدیث نمبر٦٧٤٢ )
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، لڑکی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور جو باقی بچے بہن کا حصہ ہے۔
پانچویں حالت میں جب کہ صلب میں اوپر یانیچے عصبات موجود ہیں تو الاقرب فالاقرب کے تحت بہن محروم ہوجائے گی۔
١٠  علاتی بہن کا حق
علاتی بہن کا مطلب ہے باپ شریک بہن۔ علاتی بہن کی سات حالتیں ہیں۔
(١ ) علاتی بہن ایک ہوتو نصف ملے گا۔
(٢ ) علاتی بہن دویا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی ملے گا۔
(٣ ) علاتی بہن ایک حقیقی بہن کے ساتھ ہوتو چھٹا حصہ ملے گا۔
(٤ ) علاتی بہن علاتی بھائی کےساتھ ہوتو عصبہ بالغیر بنے گی اور ایک مذکر کودومؤنث کا حصہ ملے گا۔
(٥ ) علاتی بہن میت کی بیٹی یا پوتی کے ساتھ عصبہ مع الغیر بنے گی ۔
(٦ ) علاتی بہن کے ساتھ میت کابیٹا ، پوتا، باپ، دادا، یا حقیقی بھائی موجود ہوتو علاتی بہن محروم ہوگی ۔
(٧ )  علاتی بہن دو یازیادہ حقیقی بہنوں کے ساتھ ہویاایک ایسی حقیقی بہن کے ساتھ ہو جو بیٹی یا پوتی کے ساتھ مل کر عصبہ بن گئی ہے تو ان دونوں صورتوں میں علاتی بہن محروم ہوگی۔
پہلی پانچ حالتیں تو واضح ہیں جس طرح حقیقی بہن کا حصہ ہے اسی طرح علاتی بہن کابھی ہے۔چھٹی صورت میں جب میت  کے صلب سے عصبات موجود ہیں تو الاقرب فالاقرب کے تحت محروم ہوگی ۔ساتویں صورت میں بھی جب حقیقی بہنیں عصبہ بن جائیں گی تو علاتی بہن کےلئے کچھ نہیں بچے گا اس لئے اس صورت میں بھی علاتی بہن محروم ہوجائےگی۔
١١  اخیافی بہن کا حق
 اخیافی بہن کاحال اوپرنمبر 6 میں بیان ہو چکا ہے۔
12 دادی اور نانی کا حق
۔دادی اور نانی کے لئے عربی میں ایک ہی لفظ جدہ آتاہے ۔اصطلاح فرائض میں جدہ کی دو قسمیں ہیں 
ایک جدۂ صحیحہ اور دوسری جدۂ فاسدہ۔ جدۂ صحیحہ اس دادی یانانی کو کہاجاتاہے جس کی نسبت اگر میت کی طرف کی جائے تو کوئی دادا بیچ میں نہ آئے ۔جیسے ام الاب یعنی باپ کی ماں یعنی دادی یا ام الام ماں کی ماں یعنی نانی۔
جدۂ فاسدہ اس دادی یا نانی کوکہا جاتاہے جس کامیت سے رشتہ جوڑنے بیچ میں کوئی دادا آجائے جیسے ام اب الام ماں کے باپ کی ماں یعنی نانا کی ماں یا ام اب ام الاب یعنی دادی کی دادی
جدۂ صحیح کی دو حالتیں ہیں۔
(١ ) دادی کو چھٹا حصہ ملے گا  ایک ہو یا ایک سے زیادہ جب کہ وہ جدۂ صحیحہ ہوں اور ایک ہی درجہ کی ہوں۔
(٢ ) (الف) میت کی ماں کی وجہ سے تمام ترجدات محروم ہوجائیں گی۔(ب) میت کے باپ کی وجہ سے باپ کی طرف کی تمام جدات محروم ہوجائیں گی۔(ج) میت کے دادا کی وجہ سے صرف ابویات محروم ہوںگی مگر اسی دادا کی اہلیہ دادا سے محروم نہ ہوگی ۔(د) کسی بھی قریب والی جدہ سے دور والی جدہ محروم ہوجائے گی چاہے وہ خود بھی محروم ہو۔
یہ صرف ذوی الفروض کے حصے بیان کیئے گئے باقی ورثہ کے حالات اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *