علم فرائض

وراثت کی تقسیم

عصبات و ذوی الارحام کابیان

تحریر ؛ محمد آصف اقبال قاسمی

عصبہ : میت کے اس رشتہ دار کو کہتے ہیں جن کا حصہ قرآن و حدیث میں متعین نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تنہا ہونے کی صورت میں کل مال کے حق دار ہوتے ہیں اور ذوی الفروض کے ساتھ ہونے کی صورت میں  ذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچ جاتاہے وہ انہیں مل جاتاہے۔
عصبہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک نسبی اور دوسرے سببی
نسبی کا مطلب وہ عصبہ جن کا میت سے نسب کا تعلق ہو ۔چاہے اوپر کی طرف یا نیچے کی طرف۔یعنی چاہے وہ آبا و اجداد میں سے ہوں یا اولاد و امجاد میں سے ۔
سببی کا وجود آج نہیں ہے ۔پہلے زمانے میں جب غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی ۔ تو لوگ غلاموں کو خرید کر آزاد کیا کرتے تھے۔ تو کوئی ایسا شخص جو پہلے غلام تھا اور بعد میں آزاد ہو ا اور اس نے مال کمایا لیکن نسب کے اعتبار سے اس کا کوئی وارث نہیں ہے تو جس نے اس کو آزاد کیا ہے وہ اس کا عصبہ سببی بنے گا اور اس کا وارث ہوگا۔
عصبہ نسبی تین طرح کے ہوتے ہیں۔(١ ) عصبہ بنفسہ (٢ ) عصبہ بغیرہ (٣  )عصبہ مع غیرہ
(١ ) عصبہ بنفسہ وہ مذکر رشتہ دار ہے جس کا میت سے رشتہ جوڑ اجائے تو بیچ میں کوئی مؤنث نہ آئے۔یہ چار طرح کے عصبات ہوتے ہیں ۔
(١ ) میت کا جزء(٢ ) میت کا اصل (٣ ) میت کے باپ کا جز (٤ ) میت کے دادا کا جز
(١ ) میت کا جزء۔اس میں میت کے بیٹے ، پوتے ،پرپوتے ، سکر پوتے یا اس سے نیچے شامل ہیں۔
(١ )اگر بیٹا ، پوتا یا پرپوتا اکیلاہے تو وہ عصبہ بن جائے گا اور سارے مال کامالک ہوجائے گا۔
(٢ )اگر بیٹا ،پوتا ،پرپوتا کے علاوہ کوئی اور ذوی الفروض میں سے ہے جیسے بیوی ، شوہر یا باپ دادا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ مال بچ جائے گا وہ اس کو مل جائے گا۔
(٣ )اپنے برابر کے کسی مؤنث کے ساتھ ہے جیسے بیٹے کے ساتھ بیٹی ہے یا پوتے کے ساتھ پوتی ہے توللذکر مثل حظ الانثیین کے اصول کے مطابق ایک مذکر کو دومؤنث کاحصہ ملے گا۔
(٢ ) میت کااصل۔ اس میں میت کا باپ ، دادا ،پردادا،سکردادایا اس سے اوپر کےلوگ شامل ہیں۔
(١ ) بیٹے کی طرح اگر باپ، دادا ، پردادا اکیلا ہے اور دوسرا کوئی ذوی الفروض نہیں ہے تو باپ عصبہ بنے گا اور کل مال کامستحق ہوگا۔
(٢ ) اگر کوئی دوسرا ذوی الفروض موجود ہے تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی مال ان کا ہوجائے گا۔
(٣ ) باپ کے ساتھ ماں اور دادا کے ساتھ دادی موجود ہے تو ماں اور دادی کا حصہ نکالنے کے بعد جو مال بچے گا اس کا حقدار باپ یادادا ہوگا۔
(٣ ) میت کے باپ کا جزء۔ اس میں حقیقی بھائی ، علاتی بھائی ، حقیقی بھتیجا اور علاتی بھتیجا شامل ہیں۔
(١ ) حقیقی بھائی ، علاتی بھائی ، حقیقی بھتیجا اور علاتی بھتیجا بھی اگر اکیلا ہے تو کل مال کاحقدار ہے۔
(٢ ) اگر ان کےساتھ کوئی ان کے برابر کی مؤنث ہے جیسے بھائی کے ساتھ بہن اور بھتیجا کے ساتھ بھتیجی تو للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت ایک مذکر کو دومؤنث کا حصہ ملے گا۔
(٣ ) اگر ان کے ساتھ کوئی اور ذوی الفروض میں سے ہے تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچ رہے گا وہ انہیں مل جائے گا۔
(٤ ) میت کے داد اکا جز ء اس میں میت کے حقیقی چچا ، علاتی چچا ،حقیقی چچا زاد بھائی ، علاتی چچا زاد بھائی شامل ہیں۔
(١ )حقیقی چچا ، علاتی چچا ، حقیقی چچا زاد بھائی، علاتی چچا زاد بھائی اگر اکیلے ہوں اور کوئی ذوی الفروض نہ ہوتو کل مال کے حقدار ہوں گے ۔
(٢ ) اگر کوئی ایسا ذوی الفروض ہوجو عصبہ نہیں بن سکتا تو اس کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچ جائے گا وہ سب انہیں مل جائے گا۔
(٣ ) حقیقی چچا کے ساتھ اگر پھوپھی بھی ہو تو للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت ایک مذکر کو دومؤنث کا حصہ ملے گا۔
(٤ ) اگر چچا زاد بھائیوں کے ساتھ چچا زاد بہنیں بھی ہیں تو للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت ایک مذکر کو دومؤنث کا حصہ ملے گا۔
(٢ ) عصبہ بغیرہ۔ ان عورتوں کو کہا جاتاہے جو اپنے بھائیوں کی وجہ سے عصبہ بنتی ہیں  ۔ یہ کل چار عورتیں ہیں ۔بیٹی ، پوتی ، حقیقی بہن ، علاتی بہن۔
(١ ) بیٹی ، پوتی ، حقیقی بہن یا علاتی بہن کی ایک حیثیت ذوی الفروض کی ہے جس کا بیان پہلے ہوچکا ہے ۔جب ان کے ساتھ ان کے برابر کا کوئی مذکر بھی ہو تو وہ سب عصبہ بن جاتی ہیں ۔ اور اس وقت للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت ایک مذکر کو دو مونث کا حصہ ملے گا۔جیسے بیٹی کے ساتھ بیٹا ہو یا بہن کے ساتھ بھائی ہو۔
(٢ ) حقیقی بہن ، علاتی بہن اگر بیٹی اور پوتی کے ساتھ ہو اور ان کے ساتھ کوئی قریبی عصبہ نہ ہو تو بہن عصبہ بن جائے گی اور بیٹی یا پوتی کا حصہ نکالنے ے بعد جو مال بچ جائے گا وہ بہن کو مل جائے گا۔
(٣ ) علاتی بہن اگر دو حقیقی بہنوں کے ساتھ ہو یا ایسی ایک حقیقی بہن کے ساتھ ہو جو بیٹی یا پوتی کی وجہ سے عصبہ بن گئی ہے تو علاتی بہن محروم ہوگی۔
(٣ ) عصبہ مع غیرہ ۔ ان عورتوں کو کہا جاتاہے جو کسی فرع مؤنث کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہیں۔یہ صرف دو عورتیں ہیں۔حقیقی بہن، علاتی بہن ۔یہ بیٹی ، پوتی اور پر پوتی کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔
ذوی الارحام
علم فرائض کی اصطلاح میں ذوی الرحام ان رشتہ داروں کو کہا جاتاہے جونہ تواصحاب فرائض میں سے ہیں اورنہ ہی عصبات میں سے ہیں۔
ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں
(١ ) بیٹیوں یا پویتوں کی اولاد۔یعنی نواسے اور نواسیاں
(٢ ) نانا ، نانی
(٣ ) حقیقی بھائیوں کی بیٹیاں یا علاتی بھائیوں کی بیٹیاں اور اخیافی بھائیوں کے بیٹے بیٹیاں اور ہر قسم کی بہنوں کی اولاد۔
(٤ ) دادا دادی، نانا نانی کی اولاد جیسے باپ کا ماں شریک بھائی اور اس کی اولاد، پھوپھیاں اور ان کی اولاد، ماموں اور ان کی اولاد، خالائیں اور ان کی اولاد اور ماں باپ دونوں یاباپ کی طرف سے چچاؤں کی بیٹیاں یا ان کی اولاد۔
ذوی الارحام کے احکام
پہلی قسم کے ہوتے ہوئے دوسری قسم کے ذوی الارحام وارث نہ ہوں گے اور دوسری قسم کے ہوتے ہوئے تیسری قسم کے وارث نہ ہوں گے۔ تیسری قسم کے ہوتے ہوئے چوتھی قسم کے وارث نہ ہوں گے۔
ذوی الارحام اسی وقت وارث ہوں گے جب کہ اصحاب فرائض میں سے وہ لوگ موجود نہ ہوں جن پر مال دوبارہ رد کیا جا سکتا ہو اور عصبہ بھی نہ ہو۔
اس پر اجماع ہے کہ زوجین کی وجہ سے ذوی الارحام محجوب نہ ہوں گے یعنی زوجین کا حصہ لینے کے بعد ذوی الارحام پر تقسیم کیا جائے گا۔
پہلی قسم کے ذوی الارحام میں میراث کا زیادہ مستحق وہ ہے جو میت سے اقرب ہو جیسے نواسی، پر پوتی سے زیادہ مستحق ہے۔
اگر قربِ درجہ میں سب برابر ہیں تو ان میں سے جووارث کی اولاد ہے وہ زیادہ مستحق ہے خواہ وہ عصبہ کی اولاد ہو یا صاحب فرض کی ہو، جیسے پرپوتی نواسی کے بیٹے سے زیادہ مستحق ہے اور پوتی کا بیٹا نواسی کے بیٹے سے زیادہ مستحق ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *