عقیدۂ ختم نبوت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا(۴۰)احزاب
’’ محمد(ﷺ) تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بالکل واضح الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔اور اس کی تشریح و تفسیر رسول اللہ ﷺ نے کردی ہے کہ لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔جمہور صحابہ وتابعین اور اس کے بعد سے آج تک امت کا موقف اور عقیدہ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ ہاں رسول اللہ کی تصریحات کے بعد یہ پتہ چلتاہے کہ جھوٹے نبی ہوں گے ۔ احادیث کی ایک کثیر تعداد ہے جن سے آپ ﷺ کا خاتم نبوت ہونا ثابت ہوتا ہے اس کو آج ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چند احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَثَلِی فِی النَّبِیِّینَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَحْسَنَہَا وَأَکْمَلَہَا وَأَجْمَلَہَا وَتَرَکَ مِنْہَا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِالْبِنَائِ وَیَعْجَبُونَ مِنْہُ, وَیَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ، وَأَنَا فِی النَّبِیِّینَ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ ”.(سنن ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ باب فی فضل النبی ﷺ حدیث نمبر٣٦١٣ )
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہو جاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے‘‘۔
اس خالی اینٹ کی جگہ کی مزید وضاحت بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبین ہوں :
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” إِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُونَ لَہُ وَیَقُولُونَ ہَلَّا وُضِعَتْ ہَذِہِ اللَّبِنَۃُ، قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّینَ”.(صحیح بخاری۔کتاب المناقب باب خاتم النبیین حدیث نمبر٣٥٣٥ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
ان دونوں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصر نبوت کو مکمل کردیا اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ۔
عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ ”(سنن ترمذی ۔کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات حدیث نمبر2272)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہو گا۔
عَنْ ثَوْبَانَؓ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِینَ، وَحَتَّی یَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، وَإِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کَذَّابُونَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب لاتقوم الساعۃ حتی یخرج الکذابون ، حدیث نمبر٢٢١٩ )
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا‘‘۔
اتنی صریح روایت کے بعد بھی اگر کوئی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ صراصر کذاب کے سوا اور کیا ہوسکتاہے؟لیکن ان سب کے باوجودرسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ سے لے کر اب تک بہت سارے کذاب پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے کذب وافترا کے ذریعہ خلق خدا کو گمراہ کرنے کی کوششیں کیں ۔ بعض نے تو رسول اللہ ﷺ کی حیات میں ہی نبوت میںحصہ داری کا دعویٰ کردیا ۔ لیکن سب کے سب ذلیل وخوار ہوئے۔
مدعیان نبوت
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بہت سارے فتنوں نے جنم لیا ، کچھ مسلمان ان فتنوں کی زد میں آکر متاثر بھی ہوئے اور زکوۃ دینے سے منع کردیا ، کچھ مرتد ہوگئے ۔ان میںایک بڑا فتنہ نبوت کے جھوٹے مدعیوں کا بھی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نومسلم اپنا دین وایمان کھوبیٹھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان فتنوں سے متعلق امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھااور بتادیا تھا کہ میرے بعد مدعیان نبوت پیدا ہوں گے اور وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوں گے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُونَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَۃٌ عَظِیمَۃٌ دَعْوَاہُمَا وَاحِدَۃٌ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی یُبْعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِیبًا مِنْ ثَلَاثِینَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ”(صحیح بخاری ۔کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔حدیث نمبر ٣٦٠٩ )
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔‘‘
اس حدیث میں جس جنگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حضرت علی ؓ ومعاویہ ؓ کے درمیان جنگ کی صورت میں پیش آچکی ہے ۔جیسا کہ شارحین حدیث نے بیان کیا ہے ۔حدیث کا دوسر اجزء جس میں جھوٹے مدعیان نبوت کا تذکرہ ہے ذیل میں اس کا جائزہ مختصرا پیش کیا جائے گا۔مدعیان نبوت سے متعلق ایک اور حدیث میں رسول اللہ کا ارشا د اس طرح ہے :
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:” إِنَّ اللَّہَ زَوَی لِی الْأَرْضَ، أَوْ قَالَ: إِنَّ رَبِّی زَوَی لِی الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَإِنَّ مُلْکَ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مَا زُوِیَ لِی مِنْہَا وَأُعْطِیتُ الْکَنْزَیْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ، وَإِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی لِأُمَّتِی أَنْ لَا یُہْلِکَہَا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ وَلَا یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَہُمْ؟ وَإِنَّ رَبِّی قَالَ لِی: یَا مُحَمَّدُ إِنِّی إِذَا قَضَیْتُ قَضَائً فَإِنَّہُ لَا یُرَدُّ وَلَا أُہْلِکُہُمْ بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَہُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَیْہِمْ مِنْ بَیْنِ أَقْطَارِہَا، أَوْ قَالَ: بِأَقْطَارِہَا حَتَّی یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا، وَحَتَّی یَکُونَ بَعْضُہُمْ یَسْبِی بَعْضًا، وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِی الْأَئِمَّۃَ الْمُضِلِّینَ وَإِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِی أُمَّتِی لَمْ یُرْفَعْ عَنْہَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِینَ وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی الْأَوْثَانَ وَإِنَّہُ سَیَکُونُ فِی أُمَّتِی کَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ کُلُّہُمْ یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ۔ (سنن ابو داؤد۔کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا۔حدیث نمبر٤٢٥٢ )
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی‘‘ یا فرمایا: ’’میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا‘‘
مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ان کذابین کے بارے میں بھی پیشین گوئی فرمادی تھی جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے بعض آپ کی حیات مبارکہ میں ظاہر ہوئے، بعض رحلت نبوی کے بہت قریب ظاہر ہوئے اور بعض تھوڑے بعد میں ظاہر ہوئے یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور قیامت تک ایسے کذابین آتے رہیں گے اور طاغوتیت کی دعوت دیتے رہیں گے لیکن ایمان والے ان کا مقابلہ کریںگے اور وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ورسوا ہوں گے۔نثار احمد خاں فتحی نے مسیلمہ کذاب سے غلام احمد قادیانی تک بائیس جھوٹے نبیوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں:
مسیلمہ کذاب،اسود عنسی ، طلیحہ اسدی، سجاح بن حارث ، حارث دمشقی ، مغیرہ بن سعید ، بیان بن سمعان ، صالح بن طیرف، اسحاق اخرس ، استاد سیس خراسانی ، علی بن محمد خارجی ، مختار بن ابو عبید ثقفی ، حمدان بن اشعث قرمطی، علی بن فضل یمنی، حامیم بن من للہ ، عبد العزیز باسندی ، ابوطیب احمد بن حسین، ابوالقاسم احمد بن قسی ، عبد الحق مرسی ، بایزید روشن جالندھری ، میر محمد حسین مشہدی ، مرزا قادیانی ، محمد یوسف علی ۔یہ تمام کے تمام اپنے دور کے مدعیان نبوت تھے ۔ اللہ نے سب کو ذلیل خوار کیا آج ان کانام و نشان باقی نہیں ہے ۔ان میں کچھ کے متبعین بھی ہوئے لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ان کے نشان بھی مٹ گئے ۔ دور حاضر میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے موجود ہیں اور انہوں نے اچھی خاصی جمعیت بنالی ہے ۔
اس طرح رسول اللہ نے جوپیشین گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے یہ جھوٹے مدعیان نبوت آتے رہے اور آج تک چھوٹے بڑے کذابوں کا سلسلہ جاری ہے کوئی جلدی ختم ہوگا کوئی کچھ دیر رہا کسی کے ماننے والے پیدا ہوئے کوئی ویسے ہی راندۂ درگاہ ہوا انہیں میں ایک بڑا کذا ب مرزا غلام احمد قادیانی ہندوستان میں پیدا ہواجو خود تو واصل جہنم ہوگیا لیکن اس کے ماننے والے آج بھی اس کی جھوٹی نبوت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی
مرزا کا نام غلام احمد والد کا نام غلام مرتضی آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداس پور پنجاب ہے، اس کی پیدائش ۱۸۳۹ یا۱۸۴۰ میں ہوئی۔ قرآن پاک فارسی اور عربی کی کتب مختلف اساتذہ سے پڑھیں، فن طبابت اپنے والد سے سیکھا۔
۲۵/۲۶/ سال کی عمر میں مرزا سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں ملازم تھے۔ یہاں کی ملازمت کے دوران مرزا نے یورپین مشنریوں اور انگریز افسران سے تعلقات بڑھانے شروع کیے اور مذہبی بحث کی آڑ میں عیسائی پادریوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انھیں حمایت و تعاون کا یقین دلایا۔ مرزا نے کچھ ہی دنوں بعد ملازمت ترک کرکے تصنیف و تالیف شروع کردیا، مرزا نے ۱۸۸۰ میں اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۱۸۸۲ میں مجدد ہونے کا۱۸۱۹ میں مسیح موعود ہونے کا۱۸۹۸ میں مہدی ہونے کا۱۸۹۹ میں ظلی بروزی نبی ہونے کا۱۹۰۱ میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ ماضی قریب میں ہی گذرا ہے اور اس کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد برصغیر میں رہتی ہے اس لئے اس کے حالات وخیالات ذرا تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت انگریزوں کی طرف سے ملی ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب انگریز ہندوستان میں آئے تو جس قوم نے سب سے زیادہ سخت ٹکر انہیں دیا وہ مسلم قوم ہے ۔ اس لئے انگریزوں نے ہر طرح سے کوششیں کیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ٹھنڈا کردیا جائے اور انہیں اپنے دین سے منحرف کردیا جائے۔ ا س کے لئے انہوں نے نے نرم گرم ہر طرح کے ہتھیار استعمال کئے ۔ مسلم عوام وعلماء کا قتل عام بھی کیا ، قرآن کے نسخوں کو نذر آتش بھی کیا،رسول اللہ ﷺ او راہل بیت کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی کیں، مسلمانوں کے درمیان زرخرید ایمان فروش بھی پیدا کیے۔ لیکن انگریزی حکومت کے خلاف تحریک میں بجائے نرمی کے اور شدت پیدا ہوتی گئی ۔چنانچہ انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے حالات کاجائزہ لینے کے لئے ایک وفدہندوستان بھیجا کہ وہ جاکر پتہ لگائیں کہ مسلمانوں کو کس طرح کمزور کیا جاسکتاہے۔سورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ لکھا ہے:
’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میںبرطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے۱۸۶۹ءکے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کر کے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نےThe Arrival of British Empire in India(ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا:
’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹApostolic Prophet(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘(تلخیصات)
مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۱۸۶۴ء تا۱۸۶۸ء ) ملازم تھا۔ آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندرون خانہ بات چیت کرتے۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘ (تحریک ختم نبوت، ص ۲۲، ۳۲ مؤلفہ آغاشورش کاشمیری)
مرزا غلام احمد قادیانی نے کئی طرح کے دعوے کئے ۔ سب سے پہلے اس نے 1882 میں مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعویٰ کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان کیا ہے:
’’یا احمد بارک اللہ فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔ لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ فتبارک من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔‘‘(روحانی خزائن ج ۱ ص ۲۶۵)
’’ اے احمد اللہ نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چلایا، تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔ کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد ﷺکی طرف سے ہیں، اللہ کی برکتیں اور سلامتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بولا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی کتربیونت کرکے کچھ جملے بنائے گئے ہیں اور انہی جملوں کو منجاب اللہ الہام کا نام دیا گیا ہے۔
جس طرح پچھلے تمام کذابوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کیا بلکہ آ پ ﷺ کی نبوت کو ڈھال بناکر اپنی نبوت کی حفاظت کاسامان پیدا کیا اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی رسول اللہ ﷺ کی تعریفیں کیں ان کی امتی ہونے کا بھی دعویٰ کیا آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے اثبات میں دلائل وبراہین بھی پیش کئے لیکن آپ ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کیا بلکہ نبوت کے سلسلہ کو جاری وساری رکھا تاکہ اس کی نبوت کے لئے راستہ ہموار ہوسکے ۔ذیل کی عبارت دیکھئے:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘(روحانی خزائن ۔ج ۵ ص۱۶۰۔۱۶۱)
رسول اللہ ﷺ کی ان صفات کے بیان کرنے کا مقصد رسول اللہ ﷺکی نبوت و ورسالت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ بھولے بھالے عوام کو اپنی جال میں پھنسانا ہے کہ میرا دعویٰ کوئی الگ نہیں بلکہ میں بھی اس نبی کو مانتاہوں جسے سب لوگ مانتے ہیں ۔ جس طرح مسیلمہ کذاب نے آپ ﷺ کی نبوت کو مانا لیکن اپنے آپ کو آپ ﷺ کی نبوت میں شریک وسہیم سمجھا ۔اور جس طرح مختار نے قاتلین حسین سے بدلہ لے کر مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی توحید ورسالت کے دلائل و براہین کے ذریعہ عام عوام کو بہلا پھسلاکر اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کی ۔ اس دعویٰ کی حقیقت سمجھنے کے لئے ان عبارات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن میں اس نے مسلمانوں کے عام عقیدے اور جمہور کی تشریحات کے خلاف اسلامی اصطلاحات کی تشریحات کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیاء و صدق و صفاء و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و اعلیٰ و ارفع و اجلیٰ و اصفیٰ تھے اس لئے خدا جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ اور دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہو کر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف کشادہ اور وسیع تر آئینہ ہو‘‘(روحانی خزائن ۔ج ۲ ص ۷۱)
اس تشریح سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی جوتشریح جمہور علماء نے کی ہے، جو فروعی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا‘‘مرزا نے اس کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ یہیں سے وہ ایمان سے خارج ہوجاتاہے۔اس تشریح سے مرزا نے رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے انحراف کیا ہے جوسراسر کفر ہے آگے جو اس نے دعوے کیے ہیں اس سے اس کی بد نیتی صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محض قوم کو گمراہ کرنے کی نیت سے اس نے قرآن و حدیث کی معانی کو الگ جامہ پہناکر اپنی جھوٹی نبوت کے لئے دلائل فراہم کیئے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ آپؑ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانوں پر اٹھالیا ہے اور قرب قیامت وہ دجال کے مقابلہ کے لئے زمین پرنازل ہوں گے اور پھر طبعی موت مریں گے ۔لیکن مرزا قادیانی نے قرآنی آیات اور احادیث نیز مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدے کو سرے سے خارج کردیا ۔ اور اس کی بنیاد اپنا جھوٹا الہام قرار دیا جسے اس نے گھڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ ذیل کی عبارت دیکھیں :
’’……چونکہ خدائے تعالی بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چلا دے۔اس لئے اس نے مجھے بھیجا اور میرے اوپر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے ۔کان وعداللہ مفعولا انت معی وانت علی الحق المبین انت مصیب ومعین للحق۔‘‘(روحانی خزائن ۔ ج ۳ ص ۴۰۲)
ایک ہی جھٹکے میں اس نے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ کو توڑ بھی دیا اور خود کو مسیح موعود بھی ثابت کردیا ۔ مرزا نے الفاظ کے گھماؤ پھراؤ کے ذریعہ عوام کے عقائد کو تباہ و برباد کرکے ایمان و عمل سے عاری کردیا۔مرز ا نے اپنے مسیح موعود ہونے کی عجیب و غریب تاویل کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:
’’چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد المأتین ہے۔ ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تومجھے کشفی طورپر اس مندرجہ ذیل کے نام کے اعداد کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو (۱۳۰۰) ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں۔‘‘ (روحانی خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰)
مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف مسیح موعود ہونے کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدت مندوں اور انگریزی خداؤں سے حوصلہ پاکر ۱۹۰۱ ءمیں نبی ہونے کا دعوی کردیا ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے اس قدر متضاد ہیں صاف پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں یہ ہے کیا؟مامور من اللہ ہے ، مہدی ہے ، مسیح موعود ہے ، ظلی نبی ہے ، بروزی نبی ہے، معبود ہے یا خدا ہے۔ یہ سارے دعاوی اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ ایک خبطی شخص ہے کہ جب جو جی میں آ گیا وہی دعویٰ کر بیٹھا۔علمائے کرام نے اس پرمستقل بحثیں کی ہیں اور قادیانی کے دلائل کا جواب مفصل طور پردیا ہے ۔
کمال ڈھٹائی سے مرزا نے خاتم النبین کے معنی اور اس کی تشریح میں تحریف سے کام لیا ہے اور نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔اب تک جتنے کذابین پیدا ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ پیروکار مرزاغلام احمد قادیانی کے ہی پید اہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ باضابطہ طور پر ان کی دعوت وتبلیغ بھی ہورہی ہے۔ نوجوان نسلوں کو جال میں پھنساکر انہیں دین وایمان سے منحرف کیا جارہا ہے۔سیم و زر ، عیش ونشاط کا شیش محل دکھاکر کمزور مسلم نوجوانو ں کواسلام سے قادیانیت کی طرف لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اس کا سختی سے مقابلہ کرے اور اپنے نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ان کے دل ودماغ میں اسلامی عقیدہ کو اتنا راسخ کردے کہ کذب وافترا کے ان ابلیسوں کے داؤ ان نوجوانوں پرکارگر نہ ہوسکیں۔
فتنۂ گوہر شاہی
کذابین کی فہرست میں جس طرح مدعیان نبوت ہیں اسی طرح مدعیان مہدی علیہ الرضوان کی بھی لمبی فہرست ہے چونکہ قیامت سے قریب امت محمدیہ کی رہنمائی کے لئے دو عظیم شخصیات کی آمد کی پیشین گوئیاں موجودہیں ان میں ایک حضرت مہدی علیہ الرضوان ہیں اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ان دونوں شخصیات کے نام پر بھی بہت سارے مدعیان پیداہوئے کسی نے مہدی ہونے کادعویٰ کیا تو کسی نے عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور اب تک جتنے دعویدار پیدا ہوئے ان سب کا کذب امت پر ظاہر ہوچکا ہے۔ماضی قریب میں ایک فتنہ گوہر شاہی پیدا ہوا یہ قادیانیت کی ہی ایک شاخ ہے آج کل برصغیر اور بطور خاص پاکستان میں پھل پھول رہا ہے اور ایک مستقل فرقہ کی صورت اختیار کرگیا ہے یہ ایک گمراہ فرقہ ہے لیکن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گمراہی پھیلا رہا ہے ۔ اس فرقہ کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے جس کے ماننے والے اس کے مہدی ہونے کے قائل ہیں۔
نام ریاض احمد ہے اور گوہر شاہی ان کے دادا کی طرف نسبت ہے ان کے اجداد میں پانچویں پشت میں گوہر علی شاہ گذرے ہیں جو سری نگر کے رہنے والے تھے، وہاں ان سے ایک قتل سرزد ہوا ، پکڑے جانے کے ڈر سے راولپنڈی آگئے اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر رہے ، جب انگریزی پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگا یا ، جہاں کافی لوگ ان کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا ، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر۱۹۴۱ءمیں پیدا ہوا۔
گاؤں میں مڈل کلاس پاس کے نے کے بعد ویلڈنگ اور اور موٹر میکنک کا کام شروع کیا لیکن اس میں کوئی فائدہ نہیں ہو ا تو اس نے سوچا کہ دادا کی طرح وہ بھی پیری مریدی شروع کرے لیکن اس میدان میں وہ بالکل تہی دست وتہی داماں تھا اس لئے کسی مرشد کی تلاش میں سالوں سرگرداں رہا بالآخر ایک گدھے نے اس کی رہنمائی کی اور اسے روحانی سفر کا راستہ بتایا ۔ریاض احمد نے اپنے سفر کی روداداپنی کتاب ’’روحانی سفر ‘‘ میں افسانوی انداز میں لکھا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ فقر کی تلاش میں اس نے مزاروں اور جنگلوں کی خاک چھانی لیکن اس کا گوہر مراد کہیں بھی پورا ہوتا نظر نہ آیا۔ اس سفر میں ایک چیز خاص طور سے نظر آتی ہے کہ انسانوں نے تو اسے دھتکار دیا لیکن جانوروں کی شکل میں اسے پوری رہنمائی ملتی رہی ۔ کبھی گدے کی شکل میں ، کبھی کتے کی شکل میں اور کبھی بکرے یہاں تک کے چیونٹیاں اور حشرات الارض نے بھی اس کی رہنمائی کی ہے۔’’روحانی سفر‘‘ کو ادبی لحاظ سے ایک بہترین افسانہ قرار دیا جاسکتاہے۔
ریاض احمد نے مختلف قسم کے دعوے کئے اپنے مہدی ہونے کے ثبوت میں اس نے حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی بات بھی کہی ہے ۔ اس ملاقات کی روداد اس طرح بیان کی گئی ہے:
’’(EImontl Lodge )میں حضرت سیدناگوہر شاہی سے حضرت عیسی علیہ السلام نے ظاہری ملاقات فرمائی۔ یہ ملاقات آج۲۸، جولائی ۱۹۹۷ء تک ایک راز رہی، لیکن اب جب کہ مرشد پاک نے اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب جانا تو کرم فرماتے ہوئے کچھ تفصیلات ارشاد فرمائیں … آپ فرماتے ہیں۔…. نیو میکسیکو کے ہوٹل میں پہلی رات قیام کے دوران رات کے آخری پہر میں نے ایک شخص کو اپنے کمرے میں موجود پایا، ملکی روشنی تھی میں سمجھا ہمارا کوئی ساتھی ہے۔پوچھا کیوں آئے ہو ؟ جواب دیا : آپ سے ملاقات کے لئے ، میں نے لائٹ آن کی تو یہ کوئی اور چہرہ تھا (ایک خوبصورت نوجوان ) جسے دیکھ کر میرے سارے لطائف ذکر الہی سے جوش میں آگئے اور مجھے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی ، جیسی فرحت میں نے حضور پاک ﷺ کی محفلوں میں کئی بار محسوس کی تھی۔لگتا تھا انہیں ہر زبان پر عبور حاصل ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں عیسی ابن مریم ہوں ابھی امریکہ میں ہی رہ رہا ہوں۔ پوچھا رہائش کہاں ہے ؟ جواب دیا کہ نہ پہلے میرا کوئی ٹھکانہ تھانہ اب کوئی ٹھکانہ ہے۔ پھر مزید جو کچھ گفتگو ہوئی وہ ہم ( گوہر شاہی) ابھی بتانا مناسب نہیں رکھتے۔ حضرت گوہر شاہی فرماتے ہیں کہ پھر کچھ دنوں کے بعد جب میں ایری زوناٹوسن میں ایک روحانی سینٹر (Tucson 3335 Est Grant Rd.A2)گیا وہاں کتابوں کے ایک اسٹال پر میزبان خاتون مس میری (Miss.Marry) کے ہاتھ میں اسی نوجوان (حضرت عیسیٰ ) کی تصویر دیکھی۔ میں پہچان گیا اور اس خاتون سے پوچھا یہ تصویر کس کی ہے کہنے گئی عیسی بن مریم کی ہے۔ پو چھا کیسے ملی تو بتایا کہ اس کی جان پہچان کے کچھ لوگ کسی مقدس روحانی مقام پر عبادت و زیارت کے لئے گئے تھے اور اس مقام کی تصاویر کھینچ کرجب پرنٹ کروائی گئیں تو کچھ تصاویر میں یہ چہرہ بھی آ گیا جب کہ وہاں نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی تصویر اتاری۔ وہ تصویر اس خاتون سے حاصل کر نے کے بعد چاند پر موجود ایک شبیہ سے اس تصویر کو جب ملا کر دیکھا تو ہو بہو وہی تصویر نظر آئی۔ اب یہاں لندن آکر گارڈین اخبار والوں کو اشتہار کے لئے جیب سے تصویر دی تو انہوں نے بھی اپنے کمپیوٹر کے ذریعے چاند والی تصویر سے ملا کر اس تصویر کی تصدیق کی۔ اب ان حوالوں کی روشنی میں اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ تصویر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہی ہے۔ جو اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔‘‘( اشتہار شائع کردہ سر فروش پبلشر، بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص۹۶۔۹۷)
گوہر شاہی کی دلی خواہش تو تھی کہ وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرے اور نجی مجلسوں میں وہ اس کا اظہار بھی کیا کرتاتھا لیکن پاکستانی قانون میں جھوٹے مہدی کے دعویداروں کے لئے سزائے موت ہے اس ڈرسے کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں اعلانیہ دعویٰ نہیں کرتاتھا لیکن اس کے مریدوں نے اس کو مہدی مان لیا اور اس کا اعلان بھی کردیا ۔اس سلسلے میں خود اس کا بیان ملاحظہ کریں:
’’آپ نے فرمایا اگر کسی میں امام مہدی کی نو نشانیاں پائی جاتی ہیں اور ایک نہیں پائی جاتی تو آپ ان نو نشانیوں کو رد نہیں کر سکتے ….. اسی طرح امام مہدی اعلان کرے یا نہ کرے ، ر ہے گا توامام مہدی ، کیونکہ پاکستان کے۱۹۸۴ء کے قانون میں لکھا ہے کہ : جو شخص امام مہدی ہونے کا دعوی کرے اس کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے۔ اسی لئے امام مہدی مصلحتاًخاموش ہیں کہ خواہ مخواہ پابند سلاسل ہونے سے فائد ہ ؟…‘‘
(حق کی آواز ص :۳۴۔۳۳۔ تاریخ ملفوظ۱۶ تا۳۰ جون۱۹۹۹ء۔بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص ۸۵)
ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’لوگ اگر ہمیں امام مہدی کہتے ہیں تو اصل میں جس کو جتنا فیض ملتا ہے وہ ہمیں اتنا ہی سمجھتا ہے۔ کچھ لوگ تو ہمیں اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔ ہم انہیں اس لئے کچھ نہیں کہتے کہ ان کا عقید ہ جتنا ہماری طرف زیادہ ہو گا ، ان کے لئے بہتر ہے۔‘‘(سوال نامہ گوہر۱۹۹۷ء۔ ص :۸بحوالہ دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہر شاہی تالیف مولانا سعید احمد جلال پوری۔ص ۸۴)
امام مہدی کے ثبوت کے دلائل آئندہ صفحات میں پیش کئے جائیں یہاں صرف اس فتنہ کا تعارف مقصود ہے جس نے امت میں بگاڑ پیداکررکھا ہے اور عام لوگ جنہیں دین کا صحیح علم نہیں ہوتا وہ لوگ ایسے جعلی پیروں کے چکر میں پھنس کر اپنا دین و ایمان کھوبیٹھتے ہیں علمائے کرام علمی طور پر اس کا بطلان کرتے ہیں لیکن ضلالت وگمراہی کا یہ سیلاب رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے امت کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے چار مسائل نئے پیدا ہوجاتے پھربھی دین وایمان کی حفاظت جہاں تک ہوسکے ہمیں کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن مہدی وعیسیٰ مسیح علیھما السلام کا امت انتطار کررہی ہے اور یہ دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اس لئے آئے دن کوئی مہدی او رکوئی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ مولانا شاہ عالم گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند نے’’ روزنامہ امت کراچی ‘‘ ۴ ؍ اپریل ۲۰۱۳ءکے حوالے لکھا ہے :
’’ایران کے مختلف جیلوں میں تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے افراد قید ہیں جنہوں نے پچھلے چھ سالوں میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ جیلوں سے باہر ان ساڑھے تین ہزار کذابوں کے لاکھوں حواری موجودہیں جب کہ گذشتہ تیرہ دنوں کے اندر
ایرانی سیکورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں بیس ایسے جھوٹے دعوے داروں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جنہوں نے ’’مہدی المنتظر‘‘‘ ہونے کا دعیٰ کیاہے۔ اخیرمیں اخبار نے اس کا بھی انکشاف کیا کہ تحقیق سے معلوم ہو اکہ یہ سب کے سب یہودی ہیں‘‘
(شکیل بن حنیف تعارف وتجزیہ ص ۱۳)
فتنۂ شکیلیت
ابھی موجودہ زمانہ میں ایک شخص شکیل بن حنیف نے مہدی ہونے کا دعویٰ کررکھا ہے اور وہ ابھی باحیات ہے ہندوستان میں اس کی خفیہ تبلیغ چل رہی ہے اور اس کو شدت پسند ہندو تحریک آر ایس ایس کی سرپرستی بھی حاصل ہے ۔ خود تو وہ چھپا ہوا رہتاہے لیکن اس کے چیلے جگہ جگہ فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔علماء کرام پر اس کا کذب افتراء واضح ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اہل علم کے سامنے اس کی کذب بیانی زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی اس لئے وہ اپنے مریدوں کو سختی سے منع کرتاہے کہ علماء سے بات نہ کریں ۔ علماء سے بچ کر اپنی مشن کوآگے بڑھانے میں مصروف عمل ہے۔
شکیل ابن حنیف ضلع دربھنگہ ،بہار کے ایک گاؤں رتن پورہ کا رہنے والا ہے ۔ملازمت کی تلاش میں دہلی گیا اوروہاں پر وہ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن ذہنی بگاڑ اور عہدہ کی ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے جماعت کے ساتھیوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا ، اس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا، مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلاتا رہا، دہلی کے اس زمانۂ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آتے تھے، ،اس کے دعووں کی وجہ سے حالات اس کے خلاف اتنے کشیدہ ہوگئے کے اس نے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ’’حواری‘‘ رہتے ہیں۔
یہ سارے فتنے جو آج پیدا ہورہے ہیں چاہے وہ قادیانیت ہو ، گوہر شاہی ہو یا شکیلیت ہو ان کے مقابلہ کے لئے ہمیں بہترین حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔الگ الگ ان لوگوں سے بحث و مباحثہ کے بجائے اپنی نوجوان نسلوں کو دینی طور پر بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے تو عقائد کی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت جن کے بچے عصری تعلیم گاہوں میں جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے دین وایمان کی فکر لازمی ہے اور ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ ان کے دل ودماغ میں ایمان کے اثرات اتنے گہر ے اور مضبوط ہوجائیں کہ وہ ان فتنوں کا شکا ر نہ ہوسکیں اور وقت آنے پر وہ خود اپنے دین وایمان کے حفاظت کے لائق ہوسکیں۔اس مسئلہ کے حل کے لئے ملکی ، صوبائی ، ضلعی اور پنچایتی سطح پر علماء اور عوام کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مضمون زیادہ طویل ہونے کی وجہ سے لوگ اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اس لئے یہیں پر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں ان شاء اللہ آئندہ شکیل بن حنیف اور اس کی ریشہ دوانیوں پر ایک سیر حاصل بحث کی جائے گی ۔
Heya i’m for the first time here. I came across this board and I find It truly useful & it helped me out much. I hope to give something back and help others like you aided me.