مسلمانوں کی پستی اور زبوں حالی

اسباب و تدارک

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

دنیا میں جتنی قومیں آباد ہیں وہ اگرچہ بڑے بڑے دعوےکرتی ہیں لیکن حقیقی طور پراگردیکھا جائے تو زندگی گزارنےکے لئےکسی بھی قوم کےپاس اتنا مکمل اورصالح نظریہ موجود نہیں ہے جو مسلمانوں کےپاس موجود ہے۔انسان کی پیدائش سے لےکراس کی موت تک جتنے بھی حالات پید ا ہوتے ہیں ان سب سےمتعلق واضح ہدایات اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔ اور صرف مسلمان ہی نہیں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کے حقوق بھی یہاں تک کہ انسان کے علاوہ جانوروں کے حقوق بھی اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں ۔ لیکن ان سب کے باوجود آج کے دور میں مسلمان جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا منشور موجود ہے ۔ دیگر اقوام سےہرمیدان میں پیچھےکیوں ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مذہبی قیود اور پابندیوں کی وجہ مسلمان پیچھے ہیں ۔ اس لئے کہ مذہبی امور میں بھی مسلمان بہت پیچھےہیں۔
ایک وقت تھا کہ قوم مسلم دنیا میں چاند ستاروں کی طرح چمک رہی تھی اور دنیا کی دیگر اقوام ان کی سرپرستی میں رہنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتی تھیں۔اب آئیے ذرا اپنی ماضی کی طرف دیکھیں اور معلوم کریں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں  کا سکہ چار دانگ عالم میں چل رہا تھا۔
(١ ) عقیدہ کی پختگی :رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں مسلمان عقیدہ کے اعتبار سے اتنا پختہ تھے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے خلاف کبھی ان کے دل ودماغ میں وسوسہ بھی نہیں آتا تھا۔ان کا عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کے ایمان میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتی تھیں۔انہوں نے اپنا سر تو کٹا دیا لیکن اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنا گوارہ نہ کیا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کےبارے میں فرمایا :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا ِلّلّٰهِ۔(البقرۃ : 165)
’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے غیروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’’اللہ سے محبت‘‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘
حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کا ایمان افروز واقعہ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے روم کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا جن میں عبداللہ بن حذافہ بھی تھے۔ رومیوں نے انہیں قید کرلیا او ر اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے اور اس سے کہاکہ یہ محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے ہے اس بادشاہ نے ان کے سامنے عیسائیت کی دعوت پیش کی او ر یہ لالچ بھی دیا کہ اگرتم عیسائی ہوگئے تومیں تمہیں اپنے ملک وسلطنت میں شریک کرلوں گا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہؓ نے جواب دیا کہ اگر تمہارے پاس جتنی دولت ہے وہ سب اور عرب والوں کے پاس جوکچھ ہے وہ سب بھی مجھے دے دو توبھی میں ایک لمحہ کے لئے ایمان سے نہیں پھرسکتا۔ یہ سن کر بادشاہ نے کہا پھر میں تمہیں قتل کرادوں گا آپؓ نے جواب دیا تمہاری مرضی جوچاہے کرو لیکن میں اپنے دین سے نہیں پھرسکتا۔ چنانچہ اس نے حکم دیا اورآپ کوپھانسی پرلٹکایا گیا پھر اس نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پیروں کانشانہ لو۔ تیراندازوں نے نشانہ لیناشروع کیا اوراس درمیان بھی وہ برابر ان کو عیسائیت کی دعوت دیتارہا لیکن حضرت عبد اللہ ابن حذافہؓ برابر انکارکرتے رہے ۔ پھربادشاہ نے ان کو پھانسی پرسے اتار نے کاحکم دیا اور ایک بڑے سے دیگ میں پانی گرم کرنے کاحکم دیا جب پانی کھولنے لگاتواس نے دومسلمان قیدیوں کوبلایااور انہیں اس میں ڈال کر ماردیا ۔ پھربادشاہ نے آپ ؓ سے کہا کہ تمہا را بھی یہی حال ہوگااگر تم نے عیسائیت اختیارنہ کی۔ آپؓ نے پھر انکا رکیا لہذ ا بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے بھی کھولتے پانی میں ڈال دیاجائے۔ جب وہ لوگ آپ کو لے کر دیگ کی طرف بڑھے تواچانک عبد اللہؓ رونے لگے لوگوں نے بادشاہ کوخبر دی کہ یہ تورورہاہے بادشاہ سمجھاشاید اس کے دل میں اپنے دین سے پھرجانے کاکوئی خیال آیاہے اس نے پھر عیسائیت کی دعوت پیش کی آپؓ نے پھرانکارکیا،اس نے کہا پھر تم روئے کیوں؟ تو آپؓ نے فرمایاکہ میں موت کے ڈر سے نہیں رورہاہوں بلکہ میں تو اس لئے رورہاہوں کہ آج تم مجھے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کرماردوگے کاش میرے پاس اتنی جانیں ہوتیں جتنے میرے بال ہیں تومیں ہر جان کو اسی طرح اللہ کے لئے قربان کردیتا ۔آپ کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت متاثرہوااوراس نے کہاکہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا مگر ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ تم میرے سرپربوسہ دو۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ نے کہا کہ میر ی بھی ایک شرط ہے اگر تم تمام مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دینے کاوعدہ کروتومیں تمہارے سر کابوسہ دینے کوتیا رہوں۔ چنانچہ بادشاہ تیار ہوگیااور آپ نے اس کے سر کابوسہ دیا اور تمام قیدیوں کولے کر حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔تمام ماجر اسنایا توحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہرمسلمان پرحق بنتاہے کہ ہرشخص عبد اللہ کے سرکوبوسہ دے اورمیں خود سب سے پہل کرتاہوں اورحضرت عمر ؓ اٹھے ا ور عبداللہ بن حذافہ کے سرکابوسہ دیا۔((بیہقی فی شعب الایمان )
یہ اور اس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ ایمان والوں نے اپنے ایمان کے سامنے دنیا کی ہر چیز کو تج دیا ۔ تکلیفیں اٹھائیں ، مصیبتیں برداشت کی لیکن اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا ۔اسی لیے من کان للہ کان اللہ لہ کے اصول کے تحت دنیا ان کی قدمبوسی کے لیے ہمیشہ تیار کھڑی تھی ۔
(2) جذبۂ اطاعت: قرون اولیٰ کے مسلمانو ں میں اطاعت کا جذب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ اس لیےکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہی فوزو فلاح کی اصل کنجی ہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :من یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما (احزاب ۔71) ” جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔اس بات پرانہیں کامل یقین تھا۔ اسی لئے جیسےہی ان کے کانوں سے رسول اللہ ﷺ کی آواز ٹکراتی وہ ہمہ تن گوش ہوجایا کرتے تھےاور دنیا کےسارے کاروبار چھوڑ کر اس حکم پر عمل کرنا شروع کردیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا بھلا اسی میں ہے کہ ہم اللہ اور رسول کی اطاعت ہر حال میں کریں۔اس کی بہت ساری مثالیں موجو د ہیں۔
صلح حدیبیہ ایک مشہور واقعہ ہے جس میں کفار مکہ کےساتھ دس سال کا امن معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدہ میں جو شرائط طے کیےگئےان میں سے کچھ شرائط پر صحابۂ کرام کو سخت اعتراض تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے معاملہ کو صاد کردیا اور اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا تو تمام مسلمانوں نے اس پر آمنا وصدقنا کا اعلا ن کردیا۔ اور پھر اس اطاعت کا ثمرہ یہ ظاہر ہوا کہ بیعت رضواں میں صحابۂ کرام کی تعداد صرف چودہ ہزار تھی لیکن اگلےسال حج کےلئے دس ہزار صحابہ مکہ حاضر ہوئے۔خیبرفتح ہوا اور بھی دیگر فتوحات ہوئےمسلمان امن وامان کےساتھ تمام عرب قبائل میں دعوت وتبلیغ کے لئے جانےلگے۔
(3) امیر کی اطاعت ہر حال میں
قرون اولیٰ میں ہر شخص کے اندر امیر کی اطاعت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،رسول اللہ ﷺ نے جس جماعت کا امیر جسے بنیا دیا صحابۂ کرام دل وجان سے اس کی اتباع کرتے تھے۔یہاں تک کہ بعض واقعات سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ صحابۂ کرام امیر کے حکم سے آگ میں کود جانے کو بھی تیار تھے ۔ایسا ایک واقعہ امام بخاری نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری صحابی کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہو گئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں! ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔(بخاری ۔ کتاب المغازی۔حدیث نمبر٤٣٤٠ )
یہ اوراس طرح کے بہت سارے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر کا حکم آجانے کے بعد لوگ لیت ولعل نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے ظاہری نقصانات کو چھوڑکر امیر کی اطاعت کو لازم پکڑتے تھے۔تاریخ کے طالب علموں سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ محمد بن قاسم، موسی بن نصیراور طارق بن زیاد نے محض خلیفۂ وقت کی اطاعت میں اپنی فوجوں کو چھوڑکر اسیری کی زندگی کو قبول کیا ورنہ ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت تھی کہ وہ بغاوت کرسکتے تھے اور کامیابی کے امکانات بھی تھے لیکن محض اس وجہ سے کہ کہیں امیر کی نافرمانی کا داغ ان کی نیکیوں کو برباد نہ کردے اپنے آپ کو پابہ زنجیر کرلیا۔
یہ چند نمایاں خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مسلمان اس دور میں متحد ، منظم اورکامیاب تھے ۔ دنیا کی دوسری قومیں انہیں دیکھ کر اپنے لئے راہ عمل طے کرتی تھیں۔اور ان کی غلامی میں رہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی تھیں۔اور اسلام اور مسلمانوں کاجھنڈادنیا میں بلند وبالا تھا۔
موجودہ صورتحال: اس تناظر میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کا معائنہ کریں تو یقین نہیں ہوتا کہ یہ وہی قوم ہے جس کی علو وسربلندی کو پوری دنیا جانتی تھے۔جو ہر علاقے میں مشکوک نہیں بلکہ علاقہ کی جان تھے۔ جس میدان میں بھی چلے جائیں چاہے وہ تجارت ہو، زراعت ہو، سیاست ہو، عدالت ہو،معیشت ومعاشرت ہو ہر معاملے میں وہ ممتاز حیثیت رکھتے تھے ۔ لیکن آج وہ ہر جگہ نہایت ذلت وپستی کی زندگی گذارنے پرمجبور ہیں ۔ کوئی ان کو اپنا پڑوسی بنانے کو تیار نہیں ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ آئیے ذرااس رب ذوالجلال کے ارشادات میں غور کریں جو ہر عزت وذلت ،ہربلندی وپستی کامالک ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران139) ”اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔“اللہ تعالیٰ نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ تمہیں گھبرانے کی یا غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔تم ہی سربلند رہوگے اور دنیا میں تمہارا ہی سکہ چلے گا لیکن آگے ایک شرط لگادی ہے ۔اوریہ ایک مسلم قاعدہ ہے کہ جب شرط نہ پائی جائے تو مشروط بھی نہیں پائی جاتی ۔اور وہ شرط ہے کہ ”اگر تم مومن ہو“ یعنی اگر ایمان تمہارے اندر موجو دہوگا تو سربلندی تمہارا قدم چومے گی ۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہی کہ مجموعی طور پر امت مسلمہ سربلندی کے بجائے ذلت و پستی کی طرف جارہی ہے اس کا مطلب ہے کہ شرط نہیں پائی جارہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قول جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ یقینا ہمارے اندر ہی کوئی کمی ہے۔جس کی وجہ سے ذلت پستی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔
ایمانی حالت کا جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں کا سواد اعظم ایمان اور اسلام کو اولیت نہیں دے رہا ہے ۔ قانونی اور خاندانی طور پر مسلمان شمار ضرور ہورہے ہی لیکن جب ابتلا اور آزمائش کا وقت آتاہے تو ایمان کا دامن چھوٹ جاتاہے ۔ رسول اللہ ﷺکی اطاعت کے بجائے مغربی تہذیب میں اپنے آپ کو ڈھالنا قابل فخر سمجھا جارہاہے ۔جہاں تک امیر کی اطاعت کا معاملہ ہے تو نہ تو مسلمانوں کے پاس ایسا کو ئی متفقہ امیر ہے اور نہیں عوام الناس کےاندر جذبۂ اطاعت موجود ہے۔
ایسے وقت میں مسلمانوں کے کرنے کاکام یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا ایمان مضبوط کریں۔دنیا کے تمام حرکات و سکون کامالک حقیقی اللہ کو ہی مانیں ۔ اسباب ضرور اختیار کریں لیکن مسبب الاسباب سے نظریں بالکل نہ ہٹائیں۔ دوسرے رسول اللہﷺ کی سیرت و سنت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے اپنے حلقے میں ایک امیر متعین کریں جس کی اطاعت کواپنے اوپر لازم کرلیں۔یہ وہ کلیدی امور ہیں جن سے قوم ذلت و پستی ست نکل کر بلندیوں کی طرف رواں دواں ہوسکتی ہے۔

3 thoughts on “مسلمانوں کی پستی اور زبوں حالی”
  1. Este site é realmente fascinate. Sempre que consigo acessar eu encontro coisas incríveis Você também pode acessar o nosso site e descobrir detalhes! Conteúdo exclusivo. Venha saber mais agora! 🙂

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *