بدلتے ذرائع ابلا غ اور ان  کا صحیح استعمال

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

یہ کائنات جب سے بنی ہے اور اس میں بنی نوع انسان آباد ہوا ہے تو اس نے اپنے بات کو دوسروں تک پہونچانے کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال کیا ہے ۔ ان میں سب سے اہم ذریعہ تقریر اور تحریر ہے ۔ ان ہی ذرائع سے انسان اپنی بات دوسروں تک پہونچاتاہوا آیاہےان ذرائع کے ارسال میں نوعیتیں بدلتی رہیں ہیں اور انسان نے اس کے لئے مختلف وسائل کااستعمال کیاہے ۔ انبیائے کرام نے بھی اپنی دعوت وتبلیغ کے لئے ان ذرائع کا استعمال کیاہے جو ان کے زمانےمیں رائج تھے ۔ جیسے تقریر۔ جتنے بھی انبیائے کرام تشریف لائے انہوں نے اپنی دعوت کے لئے تقریر اور وعظ ونصیحت کا سہارالیا۔ قرآن کریم میں مختلف انبیائے کرام کے تقریر کاانداز اور ان کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں۔نوح علیہ السلام نے اپنے قوم کو مخاطب کرکے فرمایا:قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ(۲) أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ(۳) يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴)(سورہ نوح)
”انہوں نے کہا اے میری قوم! بلاشبہ میں تمھیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ وہ تمھیں تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور ایک مقرر وقت تک تمھیں مہلت دے گا۔ یقینا اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے تو مؤخر نہیں کیا جاتا، کاش کہ تم جانتے ہوتے۔“
ھود علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے اس طرح تقریر کی :قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ(۶۵) قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ(۶۶)قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ(۶۷) أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ(۶۸) أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(۶۹)(سورہ اعراف)
” اس(ھود علیہ السلام ) نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم نہیں ڈرتے؟ اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جنھوں نے کفرکیا، کہا بے شک ہم یقینا تجھے بہت بڑی بے وقوفی میں (مبتلا) دیکھ رہے ہیں اور بے شک ہم یقینا تجھے جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ اس(ھود علیہ السلام ) نے کہا اے میری قوم! مجھ میں کوئی بے وقوفی نہیں اور لیکن میں سارے جہانوں کے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں۔ میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمھارے لیے ایک امانت دار، خیر خواہ ہوں۔ اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر عظیم الشان نصیحت آئی، تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمھیں نوحؑ کی قوم کے بعد جانشین بنایا اور تمھیں قد و قامت میں زیادہ پھیلاؤ دیا۔ سو اللہ کی نعمتیں یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“
صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے اس طرح تقریر کی :قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(۷۳) وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ(۷۴)(سورہ اعراف)
”اس(صالح علیہ السلام ) نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کسی برے طریقے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ اور یاد کرو جب اس نے تمھیں عاد کے بعد جانشین بنایا اور تمھیں زمین میں جگہ دی، تم اس کے میدانوں میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو مکانوں کی صورت میں تراشتے ہو۔ سو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔“
لوط علیہ السلام کے انداز بیان کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا:إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ(۱۶۱) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(۱۶۲) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ(۱۶۳)وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ(۱۶۴)(سورہ شعراء)
”جب ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔“
شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس طرح وعظ ونصیحت کی :قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ(۸۵) (سورہ اعراف)
” اس(شعیب علیہ السلام ) نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی۔ پس ماپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔“
اسی طرح دیگر انبیائے کرام نے اپنی قوم کو ڈرانے اور ان کو اللہ کے قریب لانے کے لئے تقریر اور وعظ کا سہارا لیا اور اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی ۔تقریر کے علاوہ تحریر بھی ذرائع ابلاغ کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جسے انبیائے کرام نےاپنی دعوت و تبلیغ کے لئے استعمال کیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا بلقیس کو تحریری طور پر ہی دعوت دیا تھا جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ(۲۰) لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ(۲۱)فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ(۲۲) إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ(۲۳) وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ)(۲۴) أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ(۲۵) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ(۲۶)قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ(۲۷) اذْهَبْ بِكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ(۲۸) قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ(۲۹) إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ(۳۰) أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ(۳۱)(سورہ نمل)
”اور اس(سلیمان علیہ السلام) نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا مجھے کیا ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا، یا وہ غائب ہونے والوں میں سے ہے۔ یقینا میں اسے ضرور سزا دوں گا، بہت سخت سزا، یا میں ضرور ہی اسے ذبح کر دوں گا، یا وہ ضرور ہی میرے پاس کوئی واضح دلیل لے کر آئے گا۔پس وہ(سلیمان علیہ السلام) کچھ دیر ٹھہرے، جو زیادہ نہ تھی، پھر اس (ھدھد)نے کہا میں نے اس بات کا احاطہ کیا ہے جس کا احاطہ آپ نے نہیں کیا اور میں آپ کے پاس سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ بے شک میں نے ایک عورت کو پایا کہ ان پر حکومت کر رہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال مزین کر دیے ہیں، پس انھیں اصل راستے سے روک دیا ہے، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔ تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو عرش عظیم کا رب ہے۔ (سلیمان علیہ السلام نے)کہا عنقریب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا، یا تو جھوٹوں سے تھا۔ میرا یہ خط لے جا، پس اسے ان کی طرف پھینک دے، پھر ان سے لوٹ آ، پس دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو! بے شک میری طرف ایک بہت عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔ بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے، جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ کہ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس آجاؤ۔ “
سلیمان علیہ السلام نے اپنی دعوت ملکہ سبا کے پاس تحریری شکل میں پیش کیا اور اس کے آپ ؑ نے ایک پرندے کو بطور وسیلہ اور ذریعہ کے استعمال کیا۔ جیسا کہ دوسرے انسان بھی پرندوں کو پیغام رسانی کاذریعہ بناتے تھے ۔جیسے کبوتر ،طوطا وغیرہ۔
دعوت و تبلیغ کے لئے انبیائے کرام نے ان دونوں ذرائع یعنی تقریر و تحریر کو استعمال کیا اور ایسے مواقع کو تلاش کیا جن سے زیادہ سے زیادہ لوگو ں کے سامنے اپنی دعوت کو پیش کرنے کا موقع ملے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انفرادی دعوت و تبلیغ کے علاوہ پور ی قوم کواپنی دعوت سے روشناس کرانے کے لئے جو طریقہ اختیار فرمایا اس کا بھی قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ کہ قوم کے میلے کے دن ان کے بت خانے میں چلے گئے اور ان کی مورتیوں کو توڑ پھوڑ ڈالا تاکہ قوم جب جمع ہوتو ان کے سامنے ان بتوں کی کمزور ی اور ان کے خدا نہ ہونے کا ثبوت پیش کیا جاسکے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب قوم نے اپنے معبودوں کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ ایسا کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موقع کو غنیمت جان کر ان کے سامنے ان کے معبودان باطلہ کی پول کھول دی ۔ جس کے نتیجہ میں انہیں لوگوں نے آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو آگ میں جلنے سے صاف بچالیا ۔
جس وقت رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی اس وقت اہل مکہ کے درمیان کسی بات کو پہونچانے کے لئے جن ذرائع کا استعمال ہوتاتھا آپ ﷺ نے ان ذرائع کا استعمال فرمایا ۔مثلا اس وقت بیک وقت تما م اہل مکہ کے سامنے کوئی بات پیش کرنے کایہ طریقہ تھا کہ کوہ صفا پر چڑھ کر ایک ایک قبیلہ کا نام پکارا جاتا اور اس پکار کو سن کر جب تمام لوگ جمع ہوجاتے تو ان کے سامنے اپنی بات پیش کردی جاتی تھی ۔ آپ ﷺ نے اس ذریعہ کا استعمال کیا اور پورے اہل مکہ کے سامنے اپنی دعوت پیش فرمائی ۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ، فَقَالُوا: مَنْ هَذَا؟ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ:” أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟” قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا، قَالَ:” فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ”، قَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا، ثُمَّ قَامَ، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سورة المسد آية 1، وَقَدْ تَبَّ (صحیح بخاری ۔کتاب تفسیر القرآن ۔باب۔حدیث نمبر٤٩٧١ )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (وأنذر عشيرتك الأقربين‏) ”آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی(تبت يدا أبي لهب وتب) الخ یعنی ”دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔“
اس طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے آپ ﷺ نے مکہ میں رہنے والے ایک ایک فرد تک دین کی دعوت پہنچا دیا ۔ اسی طرح مکہ میں چونکہ بیت اللہ ہے اور حالت کفر میں لوگ عقیدتا حج کرنے کے لئے آتے تھے اور عرب کے تمام قبائل مکہ کا سفر کرتے تھے اس موقع سے عرب کے شعراء اپنا اپنا کلام پیش کرتے ، یاعرب قبائل کی طرف سے مختلف قسم کے اعلانات ہوتے تھے جن کی گونج پورے عرب میں محسوس کی جاتی تھی ۔ یہ اس زمانے میں ابلاغ کا ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع سے بھی فائدہ اٹھا یا اور جب تک آپ مکہ میں تشریف فرما رہے حج کے موسم میں مختلف قبائل سے ملاقات کرتے اور انہیں دین اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ انہی دعوتی تقریروں کی وجہ سے پورے عرب میں دین اسلام کاچرچا شروع ہوا اور بہت سے نفوس قدسیہ مکہ آکر ایمان کاکلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئیں۔ ان میں حضرت ابوذر غفاری ؓ کا نام سر فہرست ہے۔حج کے موقع کی تبلیغ سے ہی اسلام کی روشنی مدینہ تک پہنچی اور مدینہ کے کچھ لوگ چپکے چپکے آکر اسلام میں داخل ہوئے اور دھیرے دھیرے ان کے وسیلہ سے اسلام مدینہ تک پہنچا اور پھر ہجرت کے بعد چہار دانگ عالم تک اسلام کی روشنی پھیلی۔
عرب کے لوگ زیادہ تر صحراؤں میں رہنے والے تھے اس لئے ان کو ایک جگہ جمع کرنا نہایت مشکل امر تھا لیکن کچھ ایسے مواقع تھے جن میں یہ صحرائی لوگ باضابطہ جمع ہوتے تھے ۔ ان میں ایک بازار تھا جو سال میں کسی خاص موقع سے لگاکرتاتھا جس طرح آج کل موسم کے اعتبار سے بہت سارے میلے لگتے ہیں اور اس میں دور دور سے لوگ سامان کی خرید وفروخت کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ ان جگہوں پر لوگوں کی دلچسپی کے لئے مختلف قسم کے کھیل کود بھی ہوا کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ محض تفریح کی غرض سے بھی شریک ہوتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں طائف کے قریب ایک میلہ لگتا تھا جسے عکاظ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس میں دور دور سےلوگ اپنا سامان بیچنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔ اسی طرح خریداری کےلئے بھی لوگ آتے تھے ۔ نیز اس میلہ میں طرح طرح کے کھیل کود بھی ہوا کرتے تھے جیسے تیر اندازی ، تلوار بازی ، گھڑ سواری اور کشتی وغیرہ ۔ان کے کھیلوں کی دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی اس میلہ میں شریک ہواکرتے تھے ۔ شعرائے کرام ان مواقع سے اپنا خاص کلام پیش کرتے تھے جن کی چرچا پورے عرب میں ہواکرتی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع سے بھی فائدہ اٹھایا اور مختلف قبائل کے افراد سے ملاقاتیں کرکے ان کو دین کی دعوت پہنچائی ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث مسند احمد بن حنبل میں موجود ہے :
عَنِ الْأَشْعَثِ بنِ سُلَيْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا فِي إِمْرَةِ ابنِ الزُّبيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا فِي سُوقِ عُكَاظٍ يَقُول:” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُوا”، وَرَجُلٌ يَتْبعُهُ يَقُولُ: إِنَّ هَذَا يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَنْ آلِهَتِكُمْ، فَإِذَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبو جَهْلٍ .(مسند احمد۔مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ حدیث نمبر٢٣١٥١ )
اشعث بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عکاظ کے میلے میں ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ لو کامیاب ہوجاؤ گے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی یہ کہتا جا رہا ہے کہ یہ شخص تمہیں تمہارے معبودوں سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے بعد میں پتہ چلا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل تھے۔
اسی طرح کا ایک بازار ذوالمجازبھی تھا جس میں رسول اللہ ﷺ باضابطہ شریک ہوا کرتے اور لوگوں کودین کی دعوت دیا کرتےتھے اور اتنی کثرت اور اہتمام سے دیا کرتے تھے کہ ابولہب جس کی اسلام دشمنی ظاہر ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پیچھے گھوما کرتا تھا تاکہ کوئی دین اسلام میں داخل نہ ہوجائے ۔ اس سلسلہ کی ایک روایت ملاحظہ ہو:
عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبَّادٍ الدِّيلِيِّ وَكَانَ جَاهِلِيًّا أَسْلَمَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَ عَيْنِي بِسُوقِ ذِي الْمَجَازِ يَقُولُ:” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُوا” , وَيَدْخُلُ فِي فِجَاجِهَا، وَالنَّاسُ مُتَقَصِّفُونَ عَلَيْهِ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَقُولُ شَيْئًا، وَهُوَ لَا يَسْكُتُ يَقُولُ:” أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُوا” وإِلَّا أَنَّ وَرَاءَهُ رَجُلًا أَحْوَلَ وَضِيءَ الْوَجْهِ ذَا غَدِيرَتَيْنِ يَقُولُ: إِنَّهُ صَابِئٌ كَاذِبٌ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ يَذْكُرُ النُّبُوَّةَ , قُلْتُ: مَنْ هَذَا الَّذِي يُكَذِّبُهُ؟ قَالُوا: عَمُّهُ أَبُو لَهَبٍ , قُلْتُ: إِنَّكَ كُنْتَ يَوْمَئِذٍ صَغِيرًا! قَالَ: لَا وَاللَّهِ إِنِّي يَوْمَئِذٍ لَأَعْقِلُ.(مسند احمد ۔مسنَد المَكِّیِّینَ۔حدیث نمبر ١٦٠٢٣ )
سیدنا ربیعہ جنہوں نے زمانہ جاہلیت بھی پایا تھا بعد میں مسلمانوں ہو گئے تھے سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی المجاز نامی بازار میں لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دیکھا کہ اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ لو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ وہ گلیوں میں داخل ہوتے جاتے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوتے جاتے تھے کوئی ان سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا اور وہ خاموش ہوئے بغیر اپنی بات دہرا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک بھینگا آدمی بھی تھا اس کی رنگت اجلی تھی اور اس کی دومینڈھیاں اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہ شخص بےدین اور جھوٹا العیاذ با اللہ میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے لوگوں نے بتایا کہ محمد بن عبداللہ ہیں جو نبوت کا دعوی کرتے ہیں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پیچھے والا آدمی کون ہے جوان کی تکذیب کر رہا ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب ہے راوی نے ان سے کہا کہ آپ تو اس زمانے میں بہت چھوٹے ہوں گے انہوں نے فرمایا: نہیں واللہ میں اس وقت سمجھدار تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ مکہ سےمدینہ کی طرف ہجر ت کرکے آئے تو شروع شروع میں مکہ والو ں نے سخت مخالفتیں کی جس کی وجہ سےکئی جنگیں ہوئیں لیکن سن چھ ہجر ی میں مسلمانوں اور اہل مکہ میں صلح ہوئی جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتاہے تو کچھ امن کا ماحول میسر ہو ااس موقع سے فائدہ اٹھاتےہوئےرسول اللہ ﷺ نے عرب وعجم کے بادشاہوں کو خطوط لکھے جس میں ان بادشاہوں کے سامنے دین کی دعوت پیش کیا ۔اس سلسلے میں آپ ﷺ نے شاہ حبش نجاشی کی طرف عمر و ابن امیہ ضمری ؓکو ،شاہ روم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبی ؓ کو ،شاہ مصر مقوقس کے پاس حضرت حاطب ؓابن بلتعہ کو،شاہ بحرین منذر ابن ساویٰ کے پاس حضرت علاء ؓحضرمی کو ،شاہ عمان کے پاس حضرت عمر وؓ ابن عاص کو ،شاہ یمامہ ہوزہ ابن علی کے پاس حضرت سلیط ابن عامری ؓ کو ، شاہ دمشق حارث ابن الثمرغسانی کے پاس حضرت شجاع ابن وھب ؓ کو ، شاہ یمن حرث ابن کلال حمیری کے پاس مہاجرؓ ابن ابی امیہ کو،اورشاہ فارس کسریٰ کے پاس حضرت عبد اللہ ؓابن حذافہ کوبھیجا ۔
ان خطوط کافائدہ یہ ہوا کہ عرب کے باہر کی دنیا میں اسلام کاچرچا ہونے لگا اور بہت سارے لوگ مدینہ آکر اسلام میں داخل ہوئے اور پھر جب حجۃ الوداع میں آپ نے یہ اعلان فرمادیا کہ أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ( سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔)تو صحابہ کرام میں سےجن کو جدھر کاراستہ ملا وہ نکل گئے اور دین اسلام کی ترویج اشاعت میں اپنی عمریں ختم کردیں۔
بعد کے ادوار میں علمائے عظام ، فقہاء ومحدثین نے جب دین اسلام کی اشاعت کابیڑا اٹھایا تو درس وتدریس ، وعظ و نصیحت اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ اور دعوت کاکام کیا ۔پھر جب طباعت کا دور آیا تو علمائے کرام نے کثرت سے کتابیں لکھی اور ہر زبان میں رسائل وجرائد کااجراء کیا جو آج بھی اسلامی علوم کاذخیرہ ہیں۔
موجود ہ دور میں جب کہ ابلاغ ونشریات کے ذرائع کافی وسیع ہوگئے ہیں دین کے متوالے اور اسلام کے شیدائی موجودہ وسائل کا استعمال کرکے دنیاکے گوشےگوشے میں اسلام کی روشنی پہنچانے کی کوشش کررہےہیں۔آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کا فی وسیع ہوگئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی عمومیت نے ابلاغ کے نت نئے طریقے ایجاد کردیا ہے ۔ شوشل میڈیا کے توسط سے آدمی اپنے گھر میں بیٹھا ہو ا اپنے دل کی بات منٹوں میں پوری دنیا میں پہنچا سکتاہے۔ آج کی محنت کش زندگی میں اب لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر موٹی موٹی کتابوں کا مطالعہ کرسکیں اس لئے اس موقع سے ہر شخص اپنی علمی طلب اور اس کی خواہش کو انٹرنیٹ کی مدد سے پورا کرتاہے جس کے لئے اس کو بہت زیادہ تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ لیکن انٹرنیٹ پر جومواد موجود ہے ۔ اس میں رطب ویابس ہر چیز ملی ہوئی ہے۔ اس میں کچھ تخریب کارلوگ بھی ہیں جو دین کےلبادہ میں اپنی تخریب کاریا ں بھی کررہے ہیں اور ہمارے بھولے بھالے نوجوان ان کی تخریب کاری کے شکار ہورہے ہیں۔
ایسے وقت میں ضروری ہے کہ شوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کاخیال رکھیں کہ کوئی غیر محقق بات ہمارے بچوں کے سامنے سے نہ گذر ے اس کےلئے ہم اپنے بچوں کو اس بات کا پابند بنانے کی کوشش کریں کہ جب ان کے سامنے کوئی نئی بات آئے تو اپنے بڑوں سے اس کی تحقیق کرلیاکریں۔ اسی طرح جن علمائے کرام کے پیغامات تحریری شکل میں یاتقریری شکل میں دستیاب ہوں انہیں فروغ دینے کوشش کی جائے تاکہ صحیح اور محقق بات لوگوں تک پہنچائی جاسکے اور ہما ری نسل نو گمراہی کے راستےسے بچ کر صراط مستقیم کی طرف گامزن ہوسکے۔

سوشل میڈیا کا استعمال اب بالکل عام ہو چکا ہے اور اس سے زیادہ تیز ذریعہ ابلاغ کوئی اور موجود نہیں ہے ۔اس ذریعہ کو ہم دین کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی افہام و تفہیم کے لیے ہے استعمال کر سکتے ہیں ۔

بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو آدمی بر سر عام نہیں بیان کر سکتا لیکن سوشل میڈیا کے توسط سے وہ اپنے دل کی بات کھل کر بیان کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل بڑے بڑے لیڈران ، قومی ومذہبی رہنماؤں کی تائید و تنقید میں لوگ اپنی اپنی پوسٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جب ہم کسی کی تنقید کر رہے ہیں تو اپنے تہذیبی اقدار کو پس پشت نہ ڈالیں بلکہ اپنی بات نہایت وقار اور سنجیدگی سے رکھیں۔اس لیے کہ تحریر ہو یا تقریر اللہ کے سامنے  ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا۔

آج کل بڑے بڑے علماء کے خلاف جن سے مصافحہ کرنے کے لیے لوگ لائن لگا کر، دھکا مکی کرکے کسی طرح ایک بار مصافحہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہی شخص جب اس عالم دین کی بات پر ناراض ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر اس کے خلاف نہایت بد تمیزی سے تنقید کرتا ہے۔ اور ایسی ایسی باتیں کرتا ہے جو اس عالم دین کے سامنے بالکل بھی نہیں بول سکتا اس لیے کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی لیکن سوشل میڈیا پر چونکہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا اس لیے وہاں وہ بے دریغ لکھتا چلا جاتا ہے۔یہ ہماری تہذیب وثقافت کے خلاف ہے۔ چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور ذریعہ ابلاغ اپنا آپا کھو کر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے ۔

5 thoughts on “بدلتے ذرائع ابلا غ اور ان کا صحیح استعمال”
  1. An fascinating dialogue is worth comment. I believe that you need to write extra on this topic, it won’t be a taboo topic however typically people are not enough to speak on such topics. To the next. Cheers

  2. fantástico este conteúdo. Gostei muito. Aproveitem e vejam este site. informações, novidades e muito mais. Não deixem de acessar para aprender mais. Obrigado a todos e até a próxima. 🙂

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *