انسانی تاریخ کا سب سے لمبا اور تیز سفر
سفرمعراج
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
رجب المرجب کی ستائیسویں شب انسانی تاریخ کی وہ رات ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسا سفر کیا جو انسانی تاریخ میں سب سے انوکھا سفر ہے ۔ اس رات میں آپ ﷺ نے جو سفر کیا وہ انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر بھی اور اس اس سفر میں آپ ﷺ نے جس سواری کا استعمال کیا وہ تاریخ انسانی کی سب سے تیز رفتار سواری بھی ہے۔
واقعہ معراج کی تاریخ
معراج کاواقعہ کس تاریخ کوپیش آیا اس بارے میں مؤرخین واصحاب سیر میں شدید اختلاف پایا جاتاہے ۔ حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی ؒ نے سورہ اسرا ء کی پہلی آیت کی تفسیر کے تحت قرطبی کے حوالے سے لکھاہے :
”امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے چھے ماہ قبل پیش آیا اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ کی وفات نمازوں کی فرضیت نازل ہونے سے قبل ہو چکی تھی۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کی وفات کا واقعہ بعثت نبوی کے سات سال بعد ہوا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت نبوی سے پانچ سال بعد میں ہوا۔ ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے۔ حربی فرماتے ہیں کہ واقعہ اسراد معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے۔ اور ابن قائم ذہبی کہتے ہیں بعثت سے اٹھارہ ماہ کے بعد کا واقعہ ہے۔ حضرات محدثین نے روایات مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن بات نہیں لکھی۔ مشہور عام طور پر یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب میں معراج کاواقعہ پیش آیا۔“
واقعہ معراج روحانی یاجسمانی
جمہور محققین کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا معراج جسمانی تھا ۔یہی اہل سنت والجماعت کا موقف ہے ۔بعض حضرات معراج رسول کو جسمانی کے بجائے روحانی مانتے ہیں۔معراج کے سلسلے میں جواحادیث وارد ہوئی ہیں ان میں کچھ الفاظ کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ شبہہ ہو گیاکہ یہ معراج جسمانی نہیں بلکہ روحانی خواب کی حالت میں ہوا تھا ۔ جیسا کہ امام بخاری نے معراج کی جوروایت نقل کی ہے اس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں۔قَالَ: فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ، قَالَ: وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ”.( انہوں نے کہا(موسیٰ علیہ السلام ) کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے)اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ معراج کا واقعہ خواب میں واقع ہوا۔لیکن جمہور علماء نے ان الفاظ کی تاویل یہ کی ہے کہ جاگ اٹھنے سے مراد یہ ہے کہ معراج کی وہ حالت جاتی رہی اور آپﷺ اپنی اصلی حالت میں آگئے ۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ معارف القراآ سورہ اسرا میں تحریر فرماتےہیں:
”قرآنِ مجید کے ارشادات اور احادیثِ متواترہ سے جن کا ذکر آگے آتا ہے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں تھا، بلکہ جسمانی تھا، جیسے عام انسان سفر کرتے ہیں قرآنِ کریم کے پہلے ہی لفظ سُبْحٰنَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے؛ کیوں کہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لیے استعمال ہوتا ہے، اگر معراج صرف روحانی بطورِ خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے! خواب تو ہر مسلمان، بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا، فلاں فلاں کام کیے۔دوسرا اشارہ لفظ “عَبْد” سے اسی طرف ہے؛ کیوں کہ عَبْد صرف روح نہیں، بلکہ جسم و روح کے مجموعہ کا نام ہے۔“
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو معراج جسمانی ہوا ۔ہاں یہ الگ با ت ہے کہ بعض مواقع پر آپ ﷺ کو خواب میں منامی معراج بھی ہوا ہے ۔ جس میں آپ ﷺ کو مختلف مقامات کا سیر کرایا گیا ۔ تو ہوسکتاہے کہ جن روایات سے آپﷺ کی روحانی معراج کاپتہ چلتاہے ان کا تعلق انہی سے ہو۔
واقعہ معراج
معراج کا واقعہ امام بخاری کی روایت کے مطابق اس طرح ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے وہ واقعہ بیان کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے معراج کے لیے لے جایا گیا کہ وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس فرشتے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں تیسرے نے کہا کہ ان میں جو سب سے بہتر ہیں انہیں لے لو۔ اس رات کو بس اتنا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے جب کہ آپ کا دل دیکھ رہا تھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں۔ لیکن دل نہیں سو رہا تھا۔ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن ان کے دل نہیں سوتے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے بات نہیں کی۔ بلکہ آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا کام سنبھالا اور آپ کے گلے سے دل کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو پاک کر کے زمزم کے پانی سے اسے اپنے ہاتھ سے دھویا یہاں تک کہ آپ کا پیٹ صاف ہو گیا۔ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کر دیا۔
پھر آپ کو لے کر آسمان دنیا پر چڑھے اور اس کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر دستک دی۔ آسمان والوں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل انہوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں۔ آسمان والوں نے کہا خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ آسمان والے اس سے خوش ہوئے۔ ان میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ انہیں بتا نہ دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یہ آپ کے بزرگ ترین دادا آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجئے۔ آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ کہا کہ خوب اچھے آئے اور اپنے ہی لوگوں میں آئے ہو۔ مبارک ہو اپنے بیٹے کو، آپ کیا ہی اچھے بیٹے ہیں۔ آپ نے آسمان دنیا میں دو نہریں دیکھیں جو بہہ رہی تھیں۔ پوچھا اے جبرائیل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے۔ پھر آپ آسمان پر اور چلے تو دیکھا کہ ایک دوسری نہر ہے جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ مشک ہے۔ پوچھا: جبرائیل! یہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔
پھر آپ دوسرے آسمان پر چڑھے۔ فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے آسمان پر کیا تھا۔ کون ہیں؟ کہا: جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ فرشتے بولے انہیں مرحبا اور بشارت ہو۔
پھر آپ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کیا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر پانچویں آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا پھر چھٹے آسمان پر آپ کو لے کر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ پھر آپ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور یہاں بھی وہی سوال کیا۔ ہر آسمان پر انبیاء ہیں جن کے نام آپ نے لیے۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ادریس علیہ السلام دوسرے آسمان پر، ہارون علیہ السلام چوتھے آسمان پر، اور دوسرے نبی پانچویں آسمان پر۔ جن کے نام مجھے یاد نہیں اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر۔
اور موسیٰ علیہ السلام ساتویں آسمان پر۔ یہ انہیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی وجہ سے فضیلت ملی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میرے رب! میرا خیال نہیں تھا کہ کسی کو مجھ سے بڑھایا جائے گا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی۔
پھر آپ اترے اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور پوچھا: اے محمد! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے؟ فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے دن اور رات میں پچاس نمازوں کا عہد لیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ واپس جائیے اور اپنی اور اپنی امت کی طرف سے کمی کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے بھی اشارہ کیا کہ ہاں اگر چاہیں تو بہتر ہے۔ چنانچہ آپ پھر انہیں لے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے مقام پر کھڑے ہو کر عرض کیا: اے رب! ہم سے کمی کر دے کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دس نمازوں کی کمی کر دی۔
پھر آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو روکا۔ موسیٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح برابر اللہ رب العزت کے پاس واپس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانچ نمازیں ہو گئیں۔ پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا اور کہا: اے محمد! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی امت تو جسم، دل، بدن، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا۔ ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا: اے میرے رب! میری امت جسم، دل، نگاہ اور بند ہر حیثیت سے کمزور ہے، پس ہم سے اور کمی کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں۔
چنانچہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا: کیا ہوا؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کہا: اے موسیٰ، واللہ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے کیونکہ باربار آ جا چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کا نام لے کر اتر جاؤ۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسجد الحرام میں تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ہی میں تھے کہ جاگ اٹھے، جاگ اٹھنے سے یہ مراد ہے کہ وہ حالت معراج کی جاتی رہی اور آپ اپنی حالت میں آ گئے۔(صحيح البخاري۔كِتَاب التَّوْحِيدِ حدیث نمبر 7517)
اس روایت میں راوی نے مسجد حرام سے سیدھا آسمانی سفر کا ذکر کردیا ہے حالانکہ قرآنی ترتیب سے یہ پتہ چلتاہے کہ مسجد حرام سے آپ ﷺ کو مسجد اقصیٰ لےجایا گیااور پھر وہاں سے آپ ﷺ کو آسمانوں کی طرف اٹھایا گیا ۔
معراج اور اسرا میں فرق
رسول اللہ ﷺ کا وہ سفر جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ہوا اسے اسرا کہا جاتاہے ہیں اور وہاں سے آسمانوں کا سفر معراج کہا جاتاہے ۔اسرا کا بیان قرآن کریم سورہ اسرا کی ابتدائی آیتوں میں موجود ہے اور معراج کا ذکر سورہ نجم میں اور تفصیلات رسول اللہ ﷺ کی زبانی احادیث میں موجود ہیں ۔
سفر معراج میں رسول اللہ ﷺ کی سواری
معراج کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مخصوص سواری بھیجا تھاجو خچر کے مانند کوئی سواری تھی جس کے کان کھڑے تھے حضرت انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ:
” جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا: تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہو گیا۔“( سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔حدیث نمبر٣١٣١ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت ہے جس کو امام نسائی نے نقل کیا ہے جس میںرسول اللہ ﷺ کی سواری براق کی تیز رفتاری اور مختلف مقامات پر رک کر آپﷺ کی نماز پڑھنے کا ذکر ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیںکہ:
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی۔“ (سنن نسائی ۔کتاب الصلاۃ حدیث نمبر٤٥١ )
گویا یہ سفر تاریخ انسانیت کاسب سے لمبا سفر ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت پر آپ ﷺ کی افضلیت کااعلان بھی تھا ۔ اس لئے کہ نبیوں کا امام تمام انسانیت کا امام ہے ۔
صلی اللہ علی النبی الامی وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین