توبۃ النصوح

 

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مکلفین کے تین گروہ پید افرمائے ایک نوری دوسری ناری اور تیسری خاکی ۔
نور ی مخلوق فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام سنبھالنے کے لئے پیدا فرمایا ۔ ان میں سے بعض روزی پہنچانےکا کام کرتے ہیں ۔ بعض حاملین عرش ہیں ۔ بعض دنیامیں اللہ کی رحمت و غضب لے کرآتے ہیں ۔ مشہور فرشتوں میں حضرت جبریل ، حضرت میکائیل ، حضرت عزرائیل اور حضرت اسرافیل علیھم السلام ہیں جن کے کام الگ الگ ہیں۔ان فرشتوں کی خاصیت یہ کہ ان کے اندر نافرمانی کاجذبہ رکھاہی نہیں گیا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جس فریضہ پر لگادیا ہے وہ اس کو بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ کبھی بھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
باقی دو مخلوقات جن میں ایک ناری اور دوسری خاکی ہیں ۔ان میں دونوں طرح کے جذبات رکھے گئے ہیں ۔ وہ اللہ کی اطاعت کرنے پر بھی قادر ہیں اور نافرمانی پر بھی۔ لیکن ان دونوں کو اطاعت الہی کے ثمرات اور نافرمانی کےعذاب سے واقف کرادیا گیاہے اور انہیں احکام الہی کا مکلف بنایا گیاہے ۔ناری مخلوق میں جنات ہیں جن میں اچھے برے ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں  ۔انہی میں ایک قبیلہ ابلیس کا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کی جس کی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہوگیااور قیامت تک کے لئےملعون قرار پایا ۔ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس عزم کااظہار کیا کہ جس خاکی مخلوق کی وجہ سے مجھے راندۂ درگاہ کیاگیا ہے میں اسے بھی صحیح راہ پر رہنے نہیں دوں گا بلکہ انہیں ہر راہ سے گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا اور کسی کو فرماں برداری کے لائق نہیں چھوڑوں گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عزم وارادہ کے جواب میں یہ فرمایا کہ چاہے تو جتنی کوششیں کرلے لیکن میرے جو نیک بندے ہوں گے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(۳۹) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ(۴۰) قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ(۴۱) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ(۴۲)سورہ حجر
” اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔ فرمایا یہ راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا ہے۔ بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں، مگر جو گمراہوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔
چند آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(۴۹) حجر”میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔“
یعنی اگرانسان بشری تقاضے سے شیطان کے جھانسے میں آکر کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ سے معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو یکسر معاف کردے گا گویا اللہ تعالیٰ نے شیاطانی بہکاوے کے مقابلے میں مومن کوایک ایسا ہتھیار دے دیا ہے جو شیطان کے تمام گمراہیوں اور بہکاوے ایک لمحے میں ختم کردے گااور وہ ہتھیار توبہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں جابجا توبہ کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے اور اس بات کا یقین دلایا ہے کہ میں تمہاری توبہ قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھا ہوں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ( سورۃ التحریم ۸)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ، تمھارا رب قریب ہے کہ تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہا ہو گا، وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقینا تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک توبہ کا خاص ہتھیار دےدیا ہے جواس کے بندے اپنی ضرورت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں اور اپنی خطاؤں کو معاف کرا سکتے ہیں۔
انسانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے معصوم بنایا ہے جن سے گناہ نہیں ہوسکتااور اگر بالفرض کچھ ہوا بھی تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس کے معافی کااعلان فرمادیا ہے ۔ جنہیں ہم انبیائے کرام کے نام سے جانتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ انبیا ء تمام کے تمام معصوم عن الخطا ء ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی معصومیت کااعلان کردیاہے ۔ان کے علاوہ کچھ خاص لوگ ایسے بھی ہیں جوانبیاء کی طرح معصوم عن الخطا ء تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کااعلان اس دنیا میں ہی کردیا ہے ۔ جیسے عشرۂ مبشرہ اور ان کے علاوہ کچھ مخصوص صحابۂ کرام جن کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی ۔لیکن یہ ان کے معصوم عن الخطاء ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مغفور ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت اپنے نبی ﷺ کی زبانی دے دی ہے ۔
عام انسانوں کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ کوئی بھی انسان خطا ؤں سےمحفوظ نہیں ہے بلکہ اَلاِنسانُ مُرَکَّبُ مِّنَ الخَطاءِ وَالنِّسیان کے تحت ہر انسان خطاکار ہے اور اس سے غلطیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خطا پر قائم نہیں رہتا بلکہ جب تک وہ اپنی خطا پر نادم نہیں ہوتا اور توبہ کرکے اس کو اپنے رب سے بخشوا نہیں لیتا اس کوسکون نہیں ملتاہے۔
نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ (ترمذی ٢٤٩٩ )”سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں“ خطاکار تو سارے ہی لوگ ہیں لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو اپنی خطا پر قائم نہیں رہتا بلکہ توبہ کرکے اپنی خطا معاف کرالیتاہے۔
دنیا وی قانون کے مطابق اگر کوئی مجرم کسی جرم میں پکڑا جاتاہے تو اسے فوری طور پر سزا ہوتی ہے یا کسی طرح سے اس کو عدالت سے یا صاحب حق کی طرف سے معافی مل جاتی ہے لیکن جرم کی کتاب میں اس کا نام مجرمین کی فہرست میں شامل ہوتاہے اور جب کبھی اس طرح کاکوئی واقعہ پیش آتاہے تو عدلیہ ایسے لوگوں کو پہلے پکڑتاہے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں دستور یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ گار اپنے گناہ سے توبہ کرلیتاہے اور اس معافی مل جاتی ہے تو گناہوں کے رجسٹر سے اس کانام یکسر مٹا دیا جاتاہے اور وہ ایسا ہوجاتاہے جیسا کہ اس نے کبھی وہ گناہ کیاہی نہ ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ”.(ابن ماجہ ٤٢٥٠ )”گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو“۔
اللہ تبارک وتعالیٰ تو تواب الرحیم ہیں گناہوں کو معاف کرتے ہیں ۔ بلکہ گناہ گاروں کے توبہ کرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں لیکن جس طرح ہرکام کرنے کے کچھ اصول وضوابط ہوا کرتے ہیں ایسے ہیں توبہ کے بھی کچھ اصول ہیں جن کو برتنے اور بروئے کارلانے کے بعد ہی وہ توبہ قابل قبول ہوتی ہے ۔
کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ توبہ اور سچی ندامت کے ساتھ معاف کردیتے ہیں اور کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق عباد اللہ یعنی اللہ کے بندوں سے ہوتاہے وہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ صاحب حق معاف نہ کردے ۔
مثال کے طور پر کفر اور شرک بہت بڑے گناہ ہیں لیکن اگر کوئی کافر ہوگیا تو اس کے توبہ کاطریقہ یہ ہے کہ اپنے کفر سے توبہ کرے اور ایمان کاکلمہ پڑھے اور اپنی اس حرکت پر نادم ہوکر آئندہ اس طرح کفر نہ کرنے کا مصمم عہد کرے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور اس کایہ سنگین گناہ معاف کردیا جائے گا۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :أَنَّ الإِسْلَامَ يَهْدِمُ، مَا كَانَ قَبْلَهُ (مسلم٣٢١ )” اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے“۔
اسی طرح اگر کسی نے کوئی فرض چھوڑ دیا جیسے نمازیں قضا ہوگئیں یا روزے چھوٹ گئے یازکوٰۃوقت پر ادا نہیں ہوئی تو اس کی معافی اور توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان نمازوں کو ادا کیا جائے ، روزوں کی قضا کی جائے اور زکوۃ کو ادا کیا جائے اور پھر اس کوتاہی کے لئے اللہ سے معافی مانگی جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمادیںگے ۔
اگر معاملہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو اس کے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صاحب حق کاحق اد اکیا جائے مثلا اگر کسی کاحق دبالیا ہے ۔ کسی کے یہاں چوری کی ہے یا کسی سے رشوت لے کر کوئی کام کیا ہے ۔ تو پہلے وہ مال واپس کرے جو اس نے کسی طرح سے لے لیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قابل قبول ہوگی ۔
یا مثلا ً کسی کی غیبت کی یا چغلی کی یا سی پر بہتان لگایا یا کسی کو مارا پیٹا تو اس کے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس شخص سےپہلے جاکر معافی تلافی اور پھر اس کے بعد اللہ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قابل قبول ہوگی۔
الغرض توبہ صرف استغفار پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ سچے دل سے صاحب حق سے معاف کرانااور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کانام توبہ ہے ۔
اس طرح تو بہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ایسےخوش ہوتے ہیں جس طرح کسی انسان کا کوئی اہم سامان گم ہوجائے اور عین ضرورت کے وقت وہ سامان اسے مل جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :إِنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْهُ بِضَالَّتِهِ , إِذَا وَجَدَهَا”(ابن ماجہ٤٢٤٧ )”بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو“۔اور اس توبہ کاانتظار اللہ تعالیٰ اس وقت تک کرتے ہیں جب تک انسان غرغرۂ موت میں مبتلا نہیں ہوجاتا پھر جب موت بالکل ہی قریب آجاتی ہے اور آخرت کے منازل سامنے نظر آنے لگتے ہیں اس وقت اگر کوئی شخص توبہ کرتاہے تو اس کی توبہ قابل قبول نہیں ہوتی اس لئے کہ اب دنیا سے رشتہ ختم ہوگیا اور توبہ کا دروازہ ا س کے لئے بند ہوگیا ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ”. (ابن ماجہ ٤٢٥٣ )”بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آ جائے“
اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے گناہوں کو ہروقت یاد کرکے اس کےمناسب حال توبہ کا اھتمام کرے تاکہ وہ آخرت کی رسوائی سے بچ سکے ۔

2 thoughts on “توبۃ النصوح”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *