رمضان میں سخاوت عام کیجئے
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
رمضان المبارک کامہینہ نیکیوں کا سدا بہار مہینہ ہے ۔ اس مہینہ میں نیکیوں کا اجرو ثواب عام مہینوں کی بنسبت زیادہ ہوجاتاہے۔ فرائض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتاہے اور نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہوجاتاہے ۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات شاہد ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا :مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ،(صحیح ابن خزیمہ ۔(جماع أبواب فضائل شهر رمضان وصيامه، باب فضائل شهر رمضان إن صحَّ الخبر۔حدیث نمبر١٨٨٧ )”جو شخص اس میں کوئی نیک کام کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے تو گویا اُس نے دیگر مہینوں میں ادا کیے گئے فرض جیسا کام ہے۔ اور جس شخص نے اس میں فرض ادا کیا تو گویا وہ اس شخص جیسا ثواب حاصل کرے گا جس نے ستّر فرائض دیگر مہینوں میں ادا کیے ہوں۔ “
اس ماہ مبارک میں جہاں تمام مسلمان روزے رکھتے ہیں، تراویح پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ وہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے اموال میں سے زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور اپنے نامۂ اعمال میں خیر کااضافہ کریں ۔ سال میں ایک مرتبہ صاحب نصاب لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے وہ تو ہرحال میں ادا کرنا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ صدقۂ فطر بھی رمضان کے مہینے میں اد اکیا جاتاہے ۔ لیکن اس سے علاوہ نفلی صدقات و خیرات میں بھی اضافہ کرنا چاہئے ۔ جس طرح عام دنوں کے مقابلے رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کی عبادت میں اضافہ ہوجاتاہے اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔
رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی سخاوت
رسول اللہ ﷺ کا معمول اس مہینے میں جہاں کثرت تلاوت اور کثرت نماز تھاآپ کے ایک خاص معمول یہ بھی تھا کہ اس مہینے میں آپ ﷺ کی داد ودہش میں بے تحاشہ اضافہ ہوجایا کرتاتھا جس کو صحابۂ کرام نے چلتی ہوئے ہوا سے تشبیہ دیاہے یعنی جس طرح ہوا چلتی ہے تو اس سے ہر ذی روح بلکہ ہر شئی کو فائدہ پہنچتاہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی سخاوت سے تمام لوگ فائدہ اٹھاتے تھے۔
رمضان المبارک کامہینہ قرآن کے نزول کا مہینہ ہے اس لئے اس مہینہ میں حضرت جبریل علیہ السلام بطور خاص رسول اللہ کے پاس آتے تھے اور آپ ﷺ سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے ۔ صحابۂ کرام کا بیان ہے کہ جن دنوں میں حضور پاک ﷺ کی ملاقات حضرت جبریل علیہ السلام سے ہوا کرتی تھی آپ ﷺکی سخاوت میں اضافہ ہوجایاکرتاتھا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث منقول ہے :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ”.(صحیح بخاری كِتَاب الصَّوْمِ۔ بَابُ أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ۔حدیث نمبر ١٩٠٢ )
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔“
عام حالات میں بھی سخاوت کےمیدان میں رسول اللہ ﷺ سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا ۔ لیکن رمضان المبارک کےمہینے میں آپ ﷺ کی سخاوت میں مزید اضافہ ہوجایا کرتا تھا۔اس لئے مسلمانوں کو اس مہینے میں رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ جس طرح ہر مسلمان رمضان کے مہینے میں اپنے کھانے پینے کااچھا انتظام کرتاہے اور عام دنوں کے مقابلے میں رمضان کے مہینےمیںاس کے کھانے کا معیار بلند ہوجاتاہے اسی طرح کوشش کرنا چاہئےکہ ہمارے آس پاس جو غریب نادار لوگ رہتے ہیں ،جن کے پاس خرچ کرنےکے لئے اتنی فراوانی نہیں ہے انہیں بھی اس لائق بنادیاجائے کہ ان کی ضرورتیں بھی آسانی سے پوری ہوسکیں۔
صدقہ فطرہ بروقت اداکریں
اس کے علاوہ رمضان کے اختتام پر عید کا دن آتاہے جس تمام مسلمان خوشیاں مناتےہیں اور اپنی بساط بھر نئے کپڑے کا انتظام کرتے ہیں۔ جن کے پاس وسعت ہے وہ اپنے لئے کئی کئی جوڑے بنواتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اگر اپنے لئے دوچار جوڑے بنوارہے ہیں تو ایک دو جوڑے ان مفلس لوگوں کے لئے بھی بنوائیں جن کے پاس وسعت نہیں ہے ، وہ تنگ دامانی کے شکار ہیں ۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر ضرورت مند دست سوال بلند کرے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ ایسے بہت سارے سفید پوش لوگ ہمارے معاشرے میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں ۔ دیکھنے میں خوش باش او رخوش حال نظر آتے ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہوتے جن سے وہ اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے نئے جوڑے تیار کرسکیں لیکن وہ اپنی بے بسی اور مفلسی کااعلان نہیں کرتے ۔ مسلمان صاحب وسعت لوگوں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں اور ان کی ضروریات اس طرح پوری کریں کہ ان کے عزت نفس پر داغ نہ آئے۔
صدقۂ فطر جومسلمانوں پر واجب کیا گیاہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ جولوگ معاشرے میں معاشی اعتبار سےکمزور ہیں ۔ ناداری ان کی دہلیز کو نہیں چھوڑتی وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوجائیں۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ہرصاحب استطاعت مسلمان ، مرد عورت، بچے بوڑھے پر صدقہ فطر واجب کیاہے اور اسے عید گاہ جانے سے پہلے اداکرنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ تاکہ اس فطرہ کی رقم سے ضروتمندوں کی ضرورتیں پوری ہوسکیں ۔حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
,” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ”. (صحيح البخاري۔كِتَاب الزَّكَاة، بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الْعِيدِ۔حدیث نمبر: ١٥٠٩ )
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔”
صحابۂ کرام کا تعامل بھی اسی پرتھاکہ وہ لوگ عید گاہ جانے سے پہلے فطرہ اداکردیا کرتے تھے ۔ اس میں دو باتیں ہیں ایک تویہ کہ صدقہ فطرکا خصوصی اجر ملتاہے اور دوسری یہ کہ ضرورتمندوں کی ضروتیں بروقت پوری ہوتی ہیں۔ ورنہ عید کے بعد بھی اگر صدقہ فطر اداکی جائے تو ادائیگی ہوجائے گی لیکن عیدکے دن جو مساکین کی ضروریات ہیں وہ پوری نہ ہوسکیں گی اور وہ ہماری خوشیوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے ۔اس کے علاوہ صدقۂ فطر ان کوتاہیوں اورکمیوں کاازالہ اور کفارہ بھی بنتاہے جو روزوں کے درمیان ہو جاتی ہیں۔ اس لئے عید سے پہلے اس کو اداکرنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے روزے بھی قابل قبول ہوجائیں اور ان کا صدقہ بھی مقبول ہے۔ ایک روایت سے پتہ چلتاہے کہ عید سے پہلے جو صدقہ فطر اداکردی جائے وہی اصل میں صدقہ فطر کے طورپر مقبول ہے جوبعد میں دیا جائے وہ عام صدقہ ہے ۔حضرت عبدا اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ”.(سنن ابي داود،كِتَاب الزَّكَاةِ، باب زَكَاةِ الْفِطْرِ،حدیث نمبر: ١٦٠٩ )
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔“
صدقہ فطر کی مقدار
صدقہ فطر کی مقدار کے بارے میں جوروایات آئی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہےکہ کجھور، انگور، جو اور پنیر وغیرہ کے ذریعہ ایک صاع صدقۂ فطر ادا کیاجائے ۔اورگیہوں کی شکل میں اگر صدقۂ فطر اداکرتے ہیں تو نصف صاع اداکرنا چاہئے۔ صاع ایک پیمانہ ہے جو عرب میں رائج تھا اور اسی سے تمام چیزوں کاوزن ہوا کرتاتھا ۔ آج کےزمانہ میں اس کا چلن نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ کیلوگرام نے لے لیا ہے اب تمام موزونی چیزیں کیلوگرام کے حساب سے ہی تولی جاتی ہیں۔ دارالافتا دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے میں صاع کا وزن تین کیلو دو سوچھیاسٹھ گرام بتایاگیا ہے اورنصف صاع کاوزن ایک کیلو چھ سوتینتیس گرام بتایا گیاہے ۔ (فتویٰ نمبر١٦١٤٤٦ ) کچھ دوسرے لوگوں کی تحقیقات میں کچھ گرام کی کمی بیشی بھی بتائی گئی ہے۔ بہرحال مذکورہ بالااوزان کےمطابق صدقہ فطر اداکرنےکی کوشش کرنی چاہئے ۔
صدقۂ فطر کا ایک بڑ امقصد غرباء مساکین کی ضروریات پوری کرنا ہے اس لئے جو حضرات استطاعت رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ ایسے ذرائع سے صدقۂ فطر اداکریں جن میں حاجت مندوں کوزیادہ فائدہ ہو۔کھجور ، انگور ،کشمش،پنیر اور جوکے ذریعہ صدقۂ فطر اداکرنا بہ نسبت گیہوں کے غریبوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے اس لئے جولوگ ان اجناس کے ذریعہ صدقۂ فطر اداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں انہی ذرائع سے اداکرنا چاہئے۔ صحابۂ کرام کا تعامل بھی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ وہ لوگ کھجوروں اورانگووروں کے ذریعہ صدقۂ فطر ایک صاع اداکیا کرتے تھے ۔ ذیل کی روایت دیکھئے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ”، قَالَ عَبْدُ اللَّه:” فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ”.(ابن ماجہ ۔کتاب الزکوۃ۔باب صدقۃ الفطر ۔حدیث نمبر١٨٢٥ )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کر لیا ۔
اس حدیث سے یہ پتہ چلتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور اور جو کے ذریعہ ایک ایک صاع فطرہ ادا کرنے کاحکم دیا تھابعد میں چل کر گیہوں کے دومد کو ایک صاع کھجور یا جو کے برابر کرلیا جو آج ہمارے دیار میں رائج ہے یعنی نصف صاع گیہوں فی کس جو پونے دو کیلو کے آس پاس ہوتاہے۔ذیل کی حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ، أَنْ قَالَ:” لَا أُرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ إِلَّا تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ هَذَا” فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا مَا عِشْتُ.(ابن ماجہ ۔کتاب الزکوۃ۔باب صدقۃ الفطر ۔حدیث نمبر١٨٢٩ )
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو ہم صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نکالا کرتا تھا ۔
ان احادیث کی بنیاد پر علماء کرام نے نصف صاع گیہوں پر فتویٰ دینا شروع کردیا اور لوگوں نے اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا یہاں تک کہ اب لوگوں کے ذہن سے کھجور، جو ، پنیراور کشمش کےذریعہ صدقۂ فطر نکالنا بالکل محو ہوگیا اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فطرہ گیہو ں کے حساب سے ہی نکالا جاتاہے۔حالانکہ صحابۂ کرام کے تعامل سے پتہ چلتاہے کہ وہ لوگ گیہوں کے علاوہ دیگر اجناس کے ذریعہ بھی فطرہ ادا کیا کرتے تھے ۔ اس لئے جولوگ صاحب استطاعت ہیں انہیں گیہوں کے علاوہ دیگر اجناس کے ذریعہ بھی فطرہ اداکرنا چاہئے۔امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کی جانب سے پھلواری شریف پٹنہ کے بازاری قیمت کے اعتبار سے مختلف اجناس کے ذریعہ 2025 میں یہ اعلان ہوا ہے۔گیہوں 60 روپیہ فی کس، کھجور1700روپیہ فی کس،کشمش1016روپیہ فی کس،پنیر1083روپیہ فی کس اور جو153روپیہ فی کس ۔ لہذا اہل ثروت حضرات ان ذرائع سے فطرہ اداکریں۔
یاد رکھیں کہ دنیاوی مال و دولت چاہے آپ جتنا جمع کرلیں کام آنے والی چیز وہی ہے جو آپ نے اللہ کے خزانے میں جمع کردیا ۔ یہاں کامال یہیں رہ جائے گاتھوڑ ابہت جو ہم نے صدقہ خیرات کےذریعہ اللہ کے یہاں جمع کردیا اسی کو اللہ تعالیٰ کئی گنا زیادہ بڑھا کر ہمیں عطا فرمائیں گے ۔