مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اولاد کی شادی کا اسلامی نقطہ نظر: والدین اور بچوں کی ذمہ داریاں

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

 

اولاد کی شادی

شادی: سکونِ قلب و ذہن کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں کے ساتھ اس کے اندر فطری خواہشات بھی رکھی ہیں، جنہیں پورا کرنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ جب یہ خواہشات اعتدال میں رہتی ہیں تو باعثِ رحمت ہیں، لیکن جب حدود سے تجاوز کرتی ہیں تو زندگی میں بے ترتیبی اور روحانی نقصان پیدا ہوتا ہے۔جس طرح کھانا، پینا اور نیند جسمانی ضروریات ہیں، اسی طرح جنسی خواہش بھی ایک فطری ضرورت ہے۔ اگر یہ جائز طریقے سے پوری نہ ہو تو انسان کے ذہن و دل میں بے چینی، چڑچڑاپن، اور عدمِ توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔اسلام نے اس فطری جذبے کی تسکین کے لیے نکاح کو حلال اور بابرکت راستہ قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً”(سورہ روم: 2)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت و رحمت رکھی۔
بیوی کو اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنایا ہے۔ جس طرح دن بھر کی تھکن کے بعد شوہر گھر آ کر آرام پاتا ہے، یہ سکون اسی نعمتِ ازدواج کی برکت ہے۔
ایک جگہ اور ارشاد ہے:ُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (سورۃ الأعراف:۱۸۹)
” اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے “۔
ان آیات میں ایک چیز قدرِمشترک ہے یعنی بیویاں سکون کا سامان ہیں۔ انسان جب دن بھر کام کرکے تھکا ماند ہ گھر کو لوٹتا ہے اور جب اس کی بیوی خوشدلی سے اس کااستقبال کرتی ہے تو مرد کی ساری تھکان دور ہوجاتی ہے اور پھر گھر پر وہ آرام کرکے اگلے دن وہ پھر تازہ دم ہوتاہے اور نہایت چابکدستی سے اپنے دوسرے فرائض اد اکرتاہے۔ لیکن جس شخص کا یہ فطری جذبہ حلال طریقے سے پورا نہیں ہوتاوہ ہر وقت بے چین اور کھویاکھویا سا رہتاہے ۔

نکاح میں والدین کاکردار

جس طرح انسان کے لئے کھانا پینا ایک جسمانی ضرورت ہے اور اس کے پورا کرنا بہت ضروری ہے ۔ اسی طرح مردوںاور عورتوںکے لئے نکاح بھی ایک فطری ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر انسان کی زندگی سکون ، راحت، فرحت ، مسرت اور طمانیت سے خالی ہوتی ہے ۔ اس لئے ہر انسان نکاح کرکے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتاہے ۔ بچے چونکہ اس معاملے میں غیر تجربہ کار ہوتے ہیں اور انہیں اس معاملے میں اچھے برے کی تمیز کرنا مشکل ہوتاہے اس لئے والدین کے ذمے لازم ہے کہ جس طرح وہ اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت کرتے ہیں، انہیں تعلیم وتربیت دے کر ایک کامیاب انسا ن بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، اسی طر ح اولاد کی شادیوں کے لئے بہترین رشتہ تلاش کرکے وقت پر ان کی شادیاں کردیںتاکہ وہ بھی اپنی زندگی کو خوشگوار بناسکیں اور ان کی زندگی میں بھی راحت وسکون میسر ہو۔

وقت پر شادی کرنے کا حکم

 

اولاد کی شادی

شریعتِ مطہرہ نے والدین اور سرپرستوں کو ہدایت دی ہے کہ جب اولاد شادی کے قابل ہو جائے تو بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ”(صحیح بخاری: 5065)
اے نوجوانو! جو تم میں نکاح کی استطاعت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے، اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے، کیونکہ روزہ اس کی خواہش کو قابو میں رکھتا ہے۔
یہ حدیث واضح طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ جب انسان نکاح کی مالی و جسمانی استطاعت رکھتا ہو تو اسے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

مذکورہ بالا حدیث میں نکاح کےلئے جو لازمی شرط استطاعت بیان کی گئی ہے وہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کی اصطلاح میں استطاعت کامطلب ہوتاہے ۔جسمانی اعتبار سے تندرست ہونا یعنی قوت مردانہ کا پایا جانا اس کے بغیر نکاح کاتصور نہیں کیا جاسکتاہے ۔ دوسری چیز ہے نان و نفقہ کا انتظام ہونایعنی کسی بھی انسان کے پاس اتنا مال موجود ہے یا وہ روزانہ اتنا کمالیتاہے کہ ایک عدد بیوی کاخرچ اٹھاسکے اس کو نکاح کرلینا چاہئے۔

اور جن نوجوانوں کے پاس نکاح کی استطاعت نہیں ہے ، یعنی وہ بیوی کانان ونفقہ ادا نہیں کرسکتے لیکن مردانہ قوت موجود ہے جو انہیں پریشان کرتاہے ان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ وہ کثرت سے روزے رکھا کریں اس لئے کہ یہ ان کے لئے ایک ڈھال کی طرح ہے ۔کہ اس سے نفسانی وشہوانی جذبات میں کمی بھی آئے گی اور روزے کی برکت سے ان کے اندر تقویٰ و طہارت کی صفات بھی پید اہوں گی جن کے ذریعہ شیطانی حربوں کامقابلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔

موجودہ معاشرتی صورتِ حال

آج کا معاشرہ مادی دوڑ میں ایسا الجھا ہوا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی شادی کو ایک دنیاوی مقابلہ بنا بیٹھے ہیں۔کچھ لوگ شادی کو اس وقت تک مؤخر کرتے ہیں جب تک لڑکے کے پاس گھر، گاڑی، یا خاصا بینک بیلنس نہ ہو جائے۔ کچھ والدین اپنے بچوں سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ مکمل خودکفیل بن جائیں۔اسی طرح جہیز کی لعنت نے نکاح کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بعض والدین صریح طور پر مال و دولت طلب کرتے ہیں، اور بعض دینداری کے لبادے میں “بن مانگے مل جائے” کا انتظار کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نوجوانوں کی عمریں گزر جاتی ہیں، مگر شادیاں نہیں ہوتیں۔ایک عام بہانہ یہ بھی ہے کہ “پہلے بیٹیوں کی شادی ہو، پھر بیٹوں کی۔“ اس سوچ کے نتیجے میں اکثر لڑکے جوانی کے بہترین سال ضائع کر دیتے ہیں، جس کا انجام اکثر بے راہ روی اور فتنہ کی شکل میں نکلتا ہے۔

تاخیر کے بہانوں کا تجزیہ

زیادہ کمائے تو شادی کریں گے:دولت کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ رسول ﷺ نے فرمایا:”اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ دو ہوں، اور اس کا منہ قبر کی مٹی کے سوا کچھ نہیں بھر سکتا۔“(صحیح بخاری: 6439)

غور کریں کہ اس کمائی کی انتہا کیا ہے ؟اوردولت جمع کرنے کی حد کیاہے؟۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص پیداہوا ہے جس نے دنیا کی دولت جمع کرتے کرتے کسی موقع پر جاکر یہ کہہ دیا ہو کہ اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں؟ اب میرا موجودہ مال میرے لئے کافی ہے ۔ نہیں! بالکل نہیں بلکہ جیسے جیسے مال آتاہے انسان کی خواہشات میں مزید اضافہ ہوتاجاتاہے ۔ اس لئے کہ یہ بھوک کبھی مٹنے والی نہیں ہے یہ بھوک تو قبر میں جاکر ہی ختم ہوگی ۔اس لیے مال کی زیادتی اور اس کے زیادہ حصول کو نکاح میں تاخیر کی وجہ نہیں بنایا جاسکتااس لئے کہ اس مزید در مزید کی خواہش سے انسان کو کبھی بھی چھٹکارا نہیں ہے۔

پہلے خود کفیل ہو جائے:یہ بھی ممکن نہیں ہے۔دنیا میں کسی انسان کی ضروریات مکمل نہیں ہوتیں۔ اس لئے کہ یہ دنیا خواہشات کوپورا کرنے کی جگہ ہےہی نہیں ہے ۔ اس لئےکہ یہاں کی نعمتیں مکمل نہیں ہیں۔ اورجونعمتیں انسان کو آج میسر ہیں وہ ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی ا س کی کوئی گارنٹی نہیں ہے آج ہیں کل نہیں رہیں گی ۔ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔ انسان کی خواہشات تو جنت میں جانے کے بعد ہی پوری ہوںگی اس لئے خود کفیل بن جانے کی امید پر لڑکوں کی شادی میں تاخیر کرنا بھی مناسب نہیں ہے ۔

جہیز کا انتظار: یہ صریح گناہ اور حرام طریقہ ہے۔ شریعت میں اسے جہنم کا سامان جمع کرنا کہا گیا ہے۔
پہلے بیٹیوں کی شادی:یہ مسئلہ واقعی یہ ایک غور و فکر کرنے والا مسئلہ ہے ۔لیکن کیاوالدین کے ذمے صرف لڑکیوں کی ہی شادی ہے یا ان کے ذمے لڑکو ں کی شادی بھی ہے۔اورکیا لڑکیوں سےہی معاشرہ بگڑتاہے یالڑکوں سے بھی بگڑتاہے یقینا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی راہ راست سے ہٹ گیا اور فحاشی کی راہ پر چلاگیا تو صرف وہ اپنی عاقبت ہی خراب نہیں کرے گا بلکہ معاشرہ کے اندر ایک ایسی گند پھیلائے گا جس کے اثرات کئی خاندانوں پر پڑ سکتےہیں ۔اس لئے والدین کو جس طرح لڑکیوں کی شادیوں کی فکر ہوتی ہے اسی طرح لڑکوں کی شادی کی فکر بھی کرنی چاہئے۔جن کی عمر مناسب آجائے ان کی شادی کردینی چاہئے تاکہ ان کی زندگی میں بھی سکون پیدا ہوا اور معاشرے میں برائی پھیلنے کا وہ امکان بھی ختم ہوجائے۔اگر لڑکوں کی شادی میں تاخیر سے فتنہ پیدا ہوتا ہے تو والدین برابر کے ذمہ دار ہوں گے۔ اسلام دونوں جنسوں کو پاکدامنی کی یکساں تاکید کرتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری اور نکاح میں تاخیر کا وبال

یاد رکھئیے اگر لڑکا بلوغت کے بعد نکاح کی استطاعت رکھتاہے یعنی وہ اتناکمالیتاہے کہ اپنی بیوی کاخرچ برداشت کرسکے ۔یاخاندانی طور پر اس کو اتنی وسعت ہے کہ وہ اور اس کی بیوی خاندان پر بوجھ نہیں بنیں گے تو والدین کو ان کی شادی میں بالکل بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے ورنہ اگروہ کسی معصیت میں گرفتار ہوجاتاہے تو اکیلا وہی گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ وہ والدین اور سرپرست حضرات بھی اس گناہ کے وبال سے بچ نہیں پائیں گے۔اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بالکل واضح ہے :
مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنَّمَا إثمه على أَبِيه»(مشکوۃ المصابیح ۔کتاب النکاح ۔حدیث نمبر ٣١٣٨ )
”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیےا چھا نام رکھے، اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر وہ بالغ ہو جائے اور وہ (والد) اس کی شادی نہ کرے اور وہ کسی گناہ (زنا وغیرہ) کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔ “
ایک دوسری روایت خاص کر لڑکیوں کے بارے میں ہے :
فِي التَّوْرَاةِ مَكْتُوبٌ: مَنْ بَلَغَتِ ابْنَتُهُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً وَلَمْ يُزَوِّجْهَا فَأَصَابَتْ إِثْمًا فَإِثْمُ ذاَلِكَ عَلَيْهِ(مشکوۃ المصابیح ۔کتاب النکاح ۔حدیث نمبر ٣١٣٩ )
”تورات میں لکھا ہوا ہے، جس شخص کی بیٹی بارہ برس کی ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کرے اور وہ (لڑکی) کسی گناہ کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔ “

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ شادی میں بلاوجہ تاخیر نہ صرف سماجی نقصان ہے بلکہ اخروی وبال بھی۔
ان دونوں احادیث کے متن پر ذرا غور کریں اور وہ والدین اور سرپرست حضرات جو بلاوجہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں دیکھیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ان کامقام کیا ہے ۔اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ مشاہدہ ہے کہ بچے اگر کسی غلط روش پرچل پڑیں تو اس کا وبال صرف ان بچوں پر نہیں پڑتا بلکہ والدین کے ساتھ پورا خاندان اور کنبہ کی عزت جو برسہابرس کی محنت کے بعد قائم ہوتی ہے خاک میں مل جاتی ہے۔
اب ذرا ان لڑکوں کے موجودہ حالات کاجائزہ لیجئے جن کے بارے میں والدین کاگمان ہوتاہے کہ میرا لڑکا مہذب ہے ،کبھی کسی کو غلط نگا ہ سے نہیں دیکھتا، کبھی معصیت کا خیال نہیں کرتا۔اگر لڑکا جوان ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے خواہشات اسے برانگیختہ نہیں کرتے تو یہ سمجھ لیجئےکہ اس کی پیدائش میں کوئی کمی ہے۔ یا شاید اس کی مردانگی میں کوئی کوئی کھوٹ ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی بالغ ہوجائے اور جنس مخالف کی طرف اس کا میلان نہ ہو ۔ یہ تو ایک فطری جذبہ ہے جو ہر جنس مخالف کو اپنی طرف کھینچتاہے۔
ان لڑکوں کی حالت تو یہ ہوتی ہےکہ اسکول ،کالج اور یونیورسیٹیوں کے دروازے پر کھڑے ہوکر آنے جانے والی لڑکیوں کو تاڑتےرہتے ہیں۔ راہ چلتے ہوئےمحلوں میں کھڑکیوں اوردروازوں سے ان کی نظریں نہیں ہٹتیں ۔ یہی نہیں بلکہ راہ چلتی بوڑھی عورتیں بھی ان کی نظروں سے محفوظ نہیں ہوتیں ۔
ایسے حالات میں اپنے بچوں کی شادیوں میں بلاوجہ تاخیر کرنے والے والدین صرف اپنے بچوں کی خواہشات پر ضرب نہیں لگارہے ہیں بلکہ معاشرے میں پھیلنے والی برائی کو ہوادے رہے ہیں جس کے لئے یقینا وہ اللہ کےیہاں جواب دہ ہوں گے۔آج کل آئے دن اخبارات میں اور شوشل میڈیا پر جو خبریں آرہی ہیں کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں رچارہی ہیں۔اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیروں کے گھر آباد کررہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کی شادیاں وقت پر نہیں ہورہی ہیں اور کبھی نہ پورےہونے والے خواہشات کےپیچھےپڑ کر لڑکوں کی شادیوں میں بلاوجہ ٹال مٹو ل کیا جارہا ہے۔جان لیجئےکہ شادی کابھی ایک وقت ہوتاہے اور اس عمر میں شادی لڑکوں کے جسمانی وایمانی صحت میں معاون ہوتی ہےاور بے وقت شادی جسمانی و ایمانی صحت کےلئے مضر ہوتی ہے۔اس لئےاگر آپ ایک صالح معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتےہیں تو اپنےبچوں کی شادیاں وقت پر کرنے کی کوشش کریں۔

تاخیر کے نتائج اور معاشرتی بگاڑ
آج نوجوان نسل میں بے راہ روی، فحاشی، اور غیر مسلموں سے تعلقات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ شادیوں میں تاخیر ہے۔والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اولاد کی فطری ضرورتوں کو جائز طریقے سے پورا نہیں کرتے تو وہ غیر شرعی راستے اختیار کر سکتے ہیں، جس کا وبال صرف ان پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔
نتیجہ
اسلام میں نکاح کو محض ایک رسم نہیں بلکہ ایمانی، اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔اس لیے والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ اولاد کی شادیاں وقت پر اور سادگی سے کریں۔شادی میں تاخیر، خواہشات کے دباؤ اور فتنوں کے دروازے کھول دیتی ہے، جبکہ وقت پر نکاح پاکیزگی، سکون، اور ایمان کے استحکام کا ذریعہ ہے۔
یاد رکھیے: اگر آپ ایک صالح معاشرہ چاہتے ہیں تو اپنی اولاد کی شادیاں وقت پر کیجیے یہی قرآن و سنت کی تعلیم اور کامیاب زندگی کی بنیاد ہے۔

One thought on “اولاد کی شادی کا اسلامی نقطہ نظر: والدین اور بچوں کی ذمہ داریاں”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index