اپنی اولاد کی شادیاں وقت پرکیجئے

تحریر:مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بہت ساری صلاحیتیں دے کر پیدا کیاہے وہیں اس کے اندر بہت ساری خواہشات بھی رکھا ہے۔ جنہیں پورا کرنے کےلئے انسان ہردم کوشاں رہتاہے۔یہ خواہشات و جذبات ایک حد میں رہیں تو محمود ہیں ۔لیکن وہی خواہشات جب حد سے بڑھ جائیں تو انسانی زندگی میں بے اعتدالیاں پید اہونے لگتی ہیں اور شریعت بھی انہیں پسند نہیں کرتی۔جیسے کھانے پینے سونے کی خواہش ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جب یہ خواہش جگتی ہے تو انسان کا کسی اور کام میں دل نہیں لگتاجب تک کہ وہ کھاپی نہ لے یا سوکر اپنی نیند پوری نہ کرلے ۔یہ خواہشات صرف دل میں ابھر نے والے جذبات نہیں ہے بلکہ انسانی جسم کی ضروریات بھی ہیں ۔اگر کھانے کی خواہش ابھرے اور انسان کچھ کھائے نہیں تو بھوک کی وجہ سے وہ نڈھال ہوجائے گا اس کے اعضاء کمزور ہوجائے ، ا س کا قویٰ جواب دے جائے گا اور وہ کسی کام کے کرنےکے لائق نہیں رہے گا۔
ٹھیک اسی طرح انسان کے اندر ایک جنسی جذبہ بھی رکھا ہوا ہے۔ جس کی تسکین انسان کے لئے کھانے پینے کی طرح ہی ضروری ہے اگر اس کاوہ جذبہ تسکین نہیں پاتا تو اس کادل ودماغ صحیح طور پر کام نہیں کرتا، اس کے اندر چڑچڑا پن پیدا ہوجاتاہے، ہروقت کہیں کھویا کھویا سا رہتاہےاور کسی کام میں اس کادل نہیں لگتا ۔ جس طرح بھوک مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں طرح طرح کی نعمتیں پیدا کررکھی ہیں اسی طرح اس جنسی جذبے کی تسکین کےلئے اللہ تعالیٰ نے مرد کے لئے عورتیں اور عورتوں کے لئے مرد کو پید اکیا ہے ۔ ان دونوں کےملنے سے انسان کا وہ فطری جذبہ تسکین پاتاہے۔اور پھر انسان ذہنی و قلبی سکون پاکر اپنے دوسرے کام کوبحسن وخوبی انجام دیتاہے۔ لیکن جس طرح کھانےپینے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی چیزوں کا پابندکیاہے کہ حرام سے بچے اور حلال چیزیں ہی کھائے پیئے اسی طرح اس جنسی جذبے کی تسکین کےلئے انسان کوپابند بنایا گیاہے کہ وہ حلال راستہ اختیار کرے اور حرام راستے سے اجتناب کرے۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بہت ساری نعمتوں کاذکر قرآن پاک میں اپنی نشانی کے طور پرکیاہے وہیں عورت کے وجود کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت اور نشانی کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (۲۱) سورہ روم ۔
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمہی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔“
ایک جگہ اور ارشاد ہے:هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (سورۃ الأعراف:۱۸۹) ‏‏‏‏ ” اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے “۔
ان آیات میں ایک چیز قدرِمشترک ہے یعنی بیویاں سکون کا سامان ہیں۔ انسان جب دن بھر کام کرکے تھکا ماند ہ گھر کو لوٹتا ہے اور جب اس کی بیوی خوشدلی سے اس کااستقبال کرتی ہے تو مرد کی ساری تھکان دور ہوجاتی ہے اور پھر گھر پر وہ آرام کرکے اگلے دن وہ پھر تازہ دم ہوتاہے اور نہایت چابکدستی سے اپنے دوسرے فرائض اد اکرتاہے۔ لیکن جس شخص کا یہ فطری جذبہ حلال طریقے سے پورا نہیں ہوتاوہ ہر وقت بے چین اور کھویاکھویا سا رہتاہے ۔ اسی لئے شریعت مطہرہ نے اپنے ماننے والوں کو اس کاپابندبنایا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کی شادیاں کردی جائیں۔ بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔آپ ﷺ نے ایسے نوجوانوں کو مخاطب کیاہے جو نکاح کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں کہ وہ اپنی شادیاں کرلیاکریں ۔اس لئے کہ انسان کے ساتھ شیطان ہر وقت لگا رہتاہے نہ معلوم کب کون سی معصیت میں مبتلاکردے ۔ یہ نکاح شرمگاہوں کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے اور نگاہوں کی حفاظت کاسامان بھی ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ”.(صحیح بخاری ۔ کتاب النکاح،بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ۔حدیث نمبر۵۰۶۵)
” اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا۔“
اور جن نوجوانوں کے پاس نکاح کی استطاعت نہیں ہے ، یعنی وہ بیوی کانان ونفقہ ادا نہیں کرسکتے لیکن مردانہ قوت موجود ہے جو انہیں پریشان کرتاہے ان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ وہ کثرت سے روزے رکھا کریں اس لئے کہ یہ ان کے لئے ایک ڈھال کی طرح ہے ۔کہ اس سے نفسانی وشہوانی جذبات میں کمی بھی آئے گی اور روزے کی برکت سے ان کے اندر تقویٰ و طہارت کی صفات بھی پید اہوں گی جن کے ذریعہ شیطانی حربوں کامقابلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
موجودہ معاشرہ کی صورت حال
مذکورہ بالا حدیث میں نکاح کےلئے جو لازمی شرط استطاعت بیان کی گئی ہے وہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کی اصطلاح میں استطاعت کامطلب ہوتاہے ۔جسمانی اعتبار سے تندرست ہونا یعنی قوت مردانہ کا پایا جانا اس کے بغیر نکاح کاتصور نہیں کیا جاسکتاہے ۔ دوسری چیز ہے نان و نفقہ کا انتظام ہونایعنی کسی بھی انسان کے پاس اتنا مال موجود ہے یا وہ روزانہ اتنا کمالیتاہے کہ ایک عدد بیوی کاخرچ اٹھاسکے اس کو نکاح کرلینا چاہئے۔
اب ہمارے معاشرے کی صورت حال یہ ہے کہ بچوں کا مستقبل بنانے کی ایسی دوڑ لگی ہوئی ہےبچپن سے اس کوپڑھانے لکھانے کی کوشش کی جاتی ہےیا اس کو مختلف قسم کےعلوم وفنون سکھائے جاتےہیں ۔ او رپھر اس کے بعد روزگار کی تلاش کی جاتی ہے اب بعض لڑکے تو ایسے ہوتے ہیں جن کی ساری عمر تلاش روزگار میں گذر جاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جوبہت جلد کسی نہ کسی روزگار سے لگ جاتے ہیں اور پھر والدین ان کی شادیاں کردیتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے لڑکوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جن کے پاس بہتر روزگار ہے وہ اچھا کماتے ہیں لیکن پھر بھی والدین ان کی شادیاں وقت پر نہیں کرتے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔
ان میں سے ایک یہ ہےکہ ابھی بچےجو کچھ کمارہے ہیں والدین اس کو کافی نہیں سمجھتے وہ چاہتے ہیں کہ میرا لڑکا اور زیادہ کمائے ۔ اس کے پاس اپنا مکان ہوجائے ۔ اچھا خاصا بینک بیلنس ہوجائے ، اچھی قسم کی گاڑی ہوجائے پھر اس کی شادی نہایت دھوم دھام سے کریں گے ۔
دوسری وجہ یہ ہےکہ بہت سارے والدین اپنے بچوں سے ایسی امیدیں لگا کر رکھتےہیں جو کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔مثلا میرا لڑکا ایسا خود کفیل ہوجائے کہ ا س کو مزید کسی شئی کی حاجت نہ رہے ۔
تیسری وجہ یہ ہےکہ والدین نے جوکچھ اپنے بچوں پر خرچ کیاہے اس کو سودکے ساتھ لڑکی والوں سے وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ ان میں دوطرح کےلوگ ہوتے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جن کی دنیاداری بالکل کھلی ہوئی ہے۔اور وہ بلاواسطہ منہ کھول کر کہہ دیتے ہیں کہ جہیز کےنام پر ہمیں اتنے پیسے ، گاڑی ، زمین جائداداور برتن کپڑے چاہئے تب جاکر ہم رشتہ پکا کر سکتے ہیں۔ ان میں ایک دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی جواپنے اوپر دینداری اور شرافت کا لبادہ اوڑھ رکھتے ہیں۔وہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بس دیندار لڑکی چاہئے دولت اورجہیز سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے ۔ لیکن دل میں ان کے یہ بات چھپی رہتی ہے کہ کوئی ایسا رشتہ مل جائے جہاں بن مانگے ہی سب کچھ مل جائے ۔ ایسے لوگ ہر گھر میں رشتہ لے کر جاتے ہیں اور جب انہیں ان چیزوں کی پیشکش نظر نہیں آتی جو ان کےدل میں چھپی ہوئی ہے تو وہ لڑکی میں کسی طرح کا عیب نکال کر رشتہ نامنظور کردیتے ہیں۔
اور چوتھی وجہ گھر میں کنواری لڑکی کی موجودگی ہے والدین یہ چاہتے ہیں کہ پہلے لڑکیوں کی شادی کردی جائے اس کے بعد لڑکوں کی شادی کی جائے گی ۔ اب چاہے ان لڑکیوں کی شادی کرتے کرتے لڑکوں کی جوانی ختم ہوجائے ا س کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
اب ذرا ان تمام وجوہات کاجائزہ لیتے ہیں ۔ پہلی وجہ کہ لڑکا زیادہ سے زیادہ کمانے والا ہوجائے ۔ غور کریں کہ اس کمائی کی انتہا کیا ہے ؟اوردولت جمع کرنے کی حد کیاہے؟۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص پیداہوا ہے جس نے دنیا کی دولت جمع کرتے کرتے کسی موقع پر جاکر یہ کہہ دیا ہو کہ اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں؟ اب میرا موجودہ مال میرے لئے کافی ہے ۔ نہیں! بالکل نہیں بلکہ جیسے جیسے مال آتاہے انسان کی خواہشات میں مزید اضافہ ہوتاجاتاہے ۔ اس لئے کہ یہ بھوک کبھی مٹنے والی نہیں ہے یہ بھوک تو قبر میں جاکر ہی ختم ہوگی ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَادِيَانِ، وَلَنْ يَمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللّهُ عَلَى مَنْ تَابَ”.(صحیح بخاری ۔كِتَاب الرِّقَاقِ، بَابُ مَا يُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ الْمَالِ۔حدیث نمبر ٦٤٣٩ )”اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ دو ہو جائیں اور اس کا منہ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔“
اس لیے مال کی زیادتی اور اس کے زیادہ حصول کو نکاح میں تاخیر کی وجہ نہیں بنایا جاسکتااس لئے کہ اس مزید در مزید کی خواہش سے انسان کو کبھی بھی چھٹکارا نہیں ہے۔
دوسری وجہ کہ میرا بچہ ایسا خود کفیل ہوجائےکہ اسے مزید کسی شئی حاجت نہ رہے یہ بھی ممکن نہیں ہے اس لئے کہ یہ دنیا خواہشات کوپورا کرنے کی جگہ ہےہی نہیں ہے ۔ اس لئےکہ یہاں کی نعمتیں مکمل نہیں ہیں۔ اورجونعمتیں انسان کو آج میسر ہیں وہ ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی ا س کی کوئی گارنٹی نہیں ہے آج ہیں کل نہیں رہیں گی ۔ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔ انسان کی خواہشات تو جنت میں جانے کے بعد ہی پوری ہوںگی اس لئے خود کفیل بن جانے کی امید پر لڑکوں کی شادی میں تاخیر کرنا بھی مناسب نہیں ہے ۔
تیسری وجہ تو ظاہر ہے حرام مال کی خواہش ہے یہ تو بالکل ہی جائز نہیں ہے۔اس لئے کہ شریعت میں جہیز کی صورت میں لڑکی والوں کی طرف سے دولت بٹورنا اپنے لئے جہنم کے انگارے جمع کرناہے ۔لہذا یہ وجہ تو نکاح میں تاخیر کی وجہ بن ہی نہیں سکتی۔
چوتھی وجہ لڑکیوں کی شادی کامسئلہ ہے اور واقعی یہ ایک غور و فکر کرنے والا مسئلہ ہے ۔لیکن کیاوالدین کے ذمے صرف لڑکیوں کی ہی شادی ہے یا ان کے ذمے لڑکو ں کی شادی بھی ہے۔اورکیا لڑکیوں سےہی معاشرہ بگڑتاہے یالڑکوں سے بھی بگڑتاہے یقینا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی راہ راست سے ہٹ گیا اور فحاشی کی راہ پر چلاگیا تو صرف وہ اپنی عاقبت ہی خراب نہیں کرے گا بلکہ معاشرہ کے اندر ایک ایسی گند پھیلائے گا جس کے اثرات کئی خاندانوں پر پڑ سکتےہیں ۔اس لئے والدین کو جس طرح لڑکیوں کی شادیوں کی فکر ہوتی ہے اسی طرح لڑکوں کی شادی کی فکر بھی کرنی چاہئے۔جن کی عمر مناسب آجائے ان کی شادی کردینی چاہئے تاکہ ان کی زندگی میں بھی سکون پیدا ہوا اور معاشرے میں برائی پھیلنے کا امکان بھی ختم ہوجائے۔
یاد رکھئیے اگر لڑکا بلوغت کے بعد نکاح کی استطاعت رکھتاہے یعنی وہ اتناکمالیتاہے کہ اپنی بیوی کاخرچ برداشت کرسکے ۔یاخاندانی طور پر اس کو اتنی وسعت ہے کہ وہ اور اس کی بیوی خاندان پر بوجھ نہیں بنیں گے تو والدین کو ان کی شادی میں بالکل بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے ورنہ اگروہ کسی معصیت میں گرفتار ہوجاتاہے تو اکیلا وہی گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ وہ والدین اور سرپرست حضرات بھی اس گناہ کے وبال سے بچ نہیں پائیں گے۔اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بالکل واضح ہے :مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنَّمَا إثمه على أَبِيه»(مشکوۃ المصابیح ۔کتاب النکاح ۔حدیث نمبر ٣١٣٨ ) ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر وہ بالغ ہو جائے اور وہ (والد) اس کی شادی نہ کرے اور وہ کسی گناہ (زنا وغیرہ) کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔ “
ایک دوسری روایت خاص کر لڑکیوں کے بارے میں ہے :فِي التَّوْرَاةِ مَكْتُوبٌ: مَنْ بَلَغَتِ ابْنَتُهُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً وَلَمْ يُزَوِّجْهَا فَأَصَابَتْ إِثْمًا فَإِثْمُ ذاَلِكَ عَلَيْهِ(مشکوۃ المصابیح ۔کتاب النکاح ۔حدیث نمبر ٣١٣٩ ) ”تورات میں لکھا ہوا ہے، جس شخص کی بیٹی بارہ برس کی ہو جائے اور وہ اس کی شادی نہ کرے اور وہ (لڑکی) کسی گناہ کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔ “
ان دونوں احادیث کے متن پر ذرا غور کریں اور وہ والدین اور سرپرست حضرات جو بلاوجہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں دیکھیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ان کامقام کیا ہے ۔اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ مشاہدہ ہے کہ بچے اگر کسی غلط روش پرچل پڑیں تو اس کا وبال صرف ان بچوں پر نہیں پڑتا بلکہ والدین کے ساتھ پورا خاندان اور کنبہ کی عزت جو برسہابرس کی محنت کے بعد قائم ہوتی ہے خاک میں مل جاتی ہے۔
اب ذرا ان لڑکوں کے موجودہ حالات کاجائزہ لیجئے جن کے بارے میں والدین کاگمان ہوتاہے کہ میرا لڑکا مہذب ہے ،کبھی کسی کو غلط نگا ہ سے نہیں دیکھتا، کبھی معصیت کا خیال نہیں کرتا۔اگر لڑکا جوان ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے خواہشات اسے برانگیختہ نہیں کرتے تو یہ سمجھ لیجئےکہ اس کی پیدائش میں کوئی کمی ہے۔ یا شاید اس کی مردانگی میں کوئی کوئی کھوٹ ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آدمی بالغ ہوجائے اور جنس مخالف کی طرف اس کا میلان نہ ہو ۔ یہ تو ایک فطری جذبہ ہے جو ہر جنس مخالف کو اپنی طرف کھینچتاہے۔ ان لڑکوں کی حالت تو یہ ہوتی ہےکہ اسکول ،کالج اور یونیورسیٹیوں کے دروازے پر کھڑے ہوکر آنے جانے والی لڑکیوں کو تاڑتےرہتے ہیں۔ راہ چلتے ہوئےمحلوں میں کھڑکیوں اوردروازوں سے ان کی نظریں نہیں ہٹتیں ۔ یہی نہیں بلکہ راہ چلتی بوڑھی عورتیں بھی ان کی نظروں سے محفوظ نہیں ہوتیں ۔ایسے حالات میں اپنے بچوں کی شادیوں میں بلاوجہ تاخیر کرنے والے والدین صرف اپنے بچوں کی خواہشات پر ضرب نہیں لگارہے ہیں بلکہ معاشرے میں پھیلنے والی برائی کو ہوادے رہے ہیں جس کے لئے یقینا وہ اللہ کےیہاں جواب دہ ہوں گے۔
آج کل آئے دن اخبارات میں اور شوشل میڈیا پر جو خبریں آرہی ہیں کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں رچارہی ہیں۔اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیروں کے گھر آباد کررہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کی شادیاں وقت پر نہیں ہورہی ہیں اور کبھی نہ پورےہونے والے خواہشات کےپیچھےپڑ کر لڑکوں کی شادیوں میں بلاوجہ ٹال مٹو ل کیا جارہا ہے۔
جان لیجئےکہ شادی کابھی ایک وقت ہوتاہے اور اس عمر میں شادی لڑکوں کے جسمانی وایمانی صحت میں معاون ہوتی ہےاور بے وقت شادی جسمانی و ایمانی صحت کےلئے مضر ہوتی ہے۔اس لئےاگر آپ ایک صالح معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتےہیں تو اپنےبچوں کی شادیاں وقت پر کرنے کی کوشش کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *