شب قدر اور اعتکاف

تحریر: مفتی محمدآصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ نےرمضان المبارک کوبہت ساری خصوصیات سے نوازاہے۔ اس مہینے میں جہاں اللہ کی رحمت عام ہوتی ہے، شیاطین قید کردیئےجاتےہیں ، نیکیوں کااجروثواب کئی گنا بڑھادیاجاتاہے۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں ایک ایسی رات بھی رکھی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ یہ وہ رات ہے جسے ہم شب قدر کےنام سے جانتےہیں۔ اس رات کی اہمیت و فضیلت بے شمار ہےمنجملہ میں قرآن کریم کانزول ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پاک کلام قرآن کریم نازل فرمایاجوساری دنیا کےلئے قیامت تک ہدایت کاسامان ہے۔اس رات کی اہمیت و فضیلت کےلئے بس اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے نزول کے لئے اس رات کاانتخاب فرمایا۔ویسےتو قرآن کریم رسول اللہ ﷺ پرتئیس سالوں تک اترتا رہا۔لیکن لوح محفوظ سے آسمان دنیاتک دفعۃواحدۃ ایک ہی بار قرآن کانزول ہوگیااور اس کے بعد وقتا فوقتا قرآن کریم رسول اللہﷺ پرنازل ہوتا رہا۔اللہ تعالیٰ نےخود قرآن کریم میں فرمایا ہے:
حم(۱) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ(۲) إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ(۳)(سورہ دخان)
”حم۔ اس بیان کرنے والی کتاب کی قسم! بے شک ہم نے اسے ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈرانے والے تھے۔ “
یہ برکت والی رات جس میں قرآن کانزول ہوا وہ رمضان کی مخصوص رات لیلۃ القدر ہے۔ اس لئےکہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بارے میں فرمایاہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہم نے قرآن کو ناز ل کیاہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (سورہ بقرہ ١٨٥ )یعنی رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتاہےکہ رمضان کےمہینےمیں ہی قرآن کانزول ہوا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ قدر میں اس رات کی بھی تعیین فرمادی جس میں قرآن کانزول ہوا تھا۔ یعنی لیلۃ القدر۔صاحب روح المعانی نے سورہ قدر کی تفسیر کےتحت ایک روایت درج کیاہے: أنزل القرآن جملة واحدة حتى وضع في بيت العزة في السماء الدنيا ونزل به جبريل عليه السلام على محمد صلى الله تعالى عليه وسلم بجواب كلام العباد وأعمالهم (روح المعانی جلد٣٠  ص١٨٩ )یعنی قرآن کریم ایک ہی بار نازل کیاگیاپھر اسے آسمان دنیامیں بیت العزت کےاندر رکھا گیااور پھروہاں سے جبریل علیہ السلام بندوں کےسوالات کےجواب میں اور ان کے اعمال کےسلسلےمیں وقتا فوقتا لےکر رسول اللہ ﷺ کےپاس نازل ہوتے رہے۔
بہر حال قرآن کریم کا ایک ہی رات میں نازل ہونا اور اس کالیلۃ القد ر میں نازل ہونا قرآن کے بیان سے ہی معلوم ہوتاہے ۔ اب اس کا دفعۃً واحدۃً نزول کیسے ہوا اس کی تفصیلات کا علم ہمارےپاس نہیں ہے ۔لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا اور قرآن کی دوسری آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نزول قرآن کا مہینہ رمضان ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ شب قدر رمضان کے مہینے کی ایک رات ہے ۔اس رات کی فضیلت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک مکمل سورت نازل فرمائی جسے ہم سورۂ قدر کےنام سے جانتے ہیں۔ذیل میں سورہ قدر اور اس کا ترجمہ قدرے تشریح کے ساتھ پیش کیا جاتاہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر(۱) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ(۲) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ(۳) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ(۴) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۵)
”بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا۔ اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ قدر کی رات کیا ہے؟ قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر ا مر کے متعلق اترتے ہیں ۔ وہ رات فجر طلوع ہونے تک سراسر سلامتی ہے۔“
پہلی آیت میں اس رات کو نزول قرآن کے لئے خاص کرکے اللہ تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت کو ثابت کردیا کہ یہ ایسی مقدس رات ہے جس میں ہم نے اپنا پاک کلام قرآن کریم نازل کیا ۔گویا اس رات کوکلام الہی سے خاص نسبت حاصل ہے۔اور اس کی اہمیت کو جتلانے کےلئے رسول اللہ ﷺ کے خطاب ہے کہ آپ ﷺ کو اس رات کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں کیامعلوم ۔ یہ رات تو ایسی فضیلت والی رات ہے کہ محض اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہترہے۔اگر ہم مہینہ تیس کامان لیں اور سال تین سوساٹھ کا توہزار مہینے تراسی سال سے کچھ بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کو اپنی زندگی میں کوئی ایک شب قدر بھی نصیب ہوجائے اور وہ اس میں اللہ کی عبادت کرے اور اس کی عبادت اللہ کےیہاں قبول ہوجائے توگویاتراسی سال سے کچھ زیادہ عرصہ کی مقبول عبادت کاثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔
آگے اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی خصوصیات بیان فرمایا ہے۔ان میں پہلی خصوصیت یہ ہےکہ اس رات فرشتے کثرت سے اترتے ہیں۔یہ بات تو معلوم ہے کہ آسمان سے زمین کی طرف فرشتے برابر اترتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ زمین والوں کےلئے جو بھی فیصلے فرماتےہیں فرشتے انہیں لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک مستقل جماعت ہے جنہیں ملائکۂ رحمت کہاجاتاہے اوروہ سال بھر اللہ کی رحمت لے کر اللہ کے بندوں تک پہنچتے ہیں ۔ لیکن اس رات میں خاص طور سے فرشتے اللہ تعالیٰ کاخصوصی امر اور خاص رحمت لے کر اترتے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ روح الامین حضرت جبریل علیہ السلام اس رات میں فرشتوں کی رہنمائی کرنے اور انسانوں کی بھلائی کےلئے اترتے ہیں۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ رات زمین والوں کےلئےسلامتی کی رات ہوتی ہے۔اور یہ سلسلہ فجر تک قائم رہتاہے۔
شب قدرکی فضیلت رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی بکثر آئی ہے ان میں سے چند روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”،(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠١٤ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
ایمان و احتساب کا مطلب یہ ہے کہ دل میں کسی طرح کا شرک کاشائبہ نہ ہو ، نیت خالص ہو اوراللہ تبارک وتعالیٰ سے ثواب کی امید کے ساتھ عبادت کیا جائے توامید ہے کہ اب تک جو گناہ کئے ہیں اس رات کی برکت سے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔
اب آئیے  احادیث کی روشنی دیکھتے ہیں کہ شب قدر کون سی رات ہے ؟علماءکاایک طبقہ اس کاقائل ہے کہ شب قدر پورے رمضان کے کسی ایک رات میں ہوسکتی ہے ۔ لیکن احادیث میں کثرت سے یہ وارد ہو اہے کہ وہ رات آخری عشرے میں ہوتی ہے لیکن وہ کون سی رات ہے یہ متعین نہیں ہے ۔ بلکہ وہ مختلف راتوں میں گھومتی رہتی ہے ۔ رسول ﷺ نے اسے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنےکی تلقین فرمائی ہے۔بلکہ ایک روایت میں کچھ صحابہ کی خواب کی بنیاد پر آپ ﷺ نے اسے آخری ہفتہ میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذیل کی حدیث سے یہی بات مترشح ہوتی ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْمَنَامِ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ”.(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠١٥ )
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
شروع شروع میں رسول اللہ ﷺ کا معمول تھاکہ آپ ﷺ درمیانی عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے لیکن ایک بار آپ ﷺ کو شب قدر آخری عشرے میں دکھا ئی گئی تو آپ ﷺ نے اس سال اخیر عشرے کا اعتکاف خود بھی فرمایا اور صحابہ کرام کو بھی آپ ﷺ نے اخیر عشرے میں اعتکاف کرنے کی تلقین کی ۔ اور پھر آپ ﷺ کایہی معمول ہو گیا کہ ہر سال اخیر عشرے میں ہی اعتکاف فرمایاکرتے تھے ۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ وَكَانَ لِي صَدِيقًا، فَقَالَ: اعْتَكَفْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجَ صَبِيحَةَ عِشْرِينَ فَخَطَبَنَا، وَقَالَ:” إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا أَوْ نُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ”، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنِّي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَرْجِعْ، فَرَجَعْنَا وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً، فَجَاءَتْ سَحَابَةٌ فَمَطَرَتْ، حَتَّى سَالَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ.(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠١٦ )
حضرت ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دلی گئی یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے (خواب میں) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا۔
اسی طرح کی ایک روایت قدرے فرق کے ساتھ امام نسائی نے بھی روایت کیاہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الَّذِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ , فَإِذَا كَانَ مِنْ حِينِ يَمْضِي عِشْرُونَ لَيْلَةً وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , يَرْجِعُ إِلَى مَسْكَنِهِ وَيَرْجِعُ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ، ثُمَّ إِنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا , فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَمَرَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ:” إِنِّي كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ , فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ , وَقَدْ رَأَيْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ فَأُنْسِيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي كُلِّ وَتْرٍ , وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ” قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مُطِرْنَا لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَقَدِ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَوَجْهُهُ مُبْتَلٌّ طِينًا وَمَاءً. (سنن نسائي،كتاب السهو،بَابُ : تَرْكِ مَسْحِ الْجَبْهَةِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ۔حدیث نمبر ١٣٥٧ )
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آ جاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آ جاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آ جاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا: ”میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں“، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔
ایک روایت حضرت عائشہ سے بھی مروی ہے جس میں آپ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ بتایاہےکہ آپ ﷺ شب قدر کوآخری عشرے میں تلاش کیا کرتے تھے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَيَقُولُ:” تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ”.(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠٢٠ )
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے اسے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ”.(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠١٧ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔
شب قدر رسول اللہ ﷺ کو متعینہ طور پر بتائی گئی تھی لیکن جب آپ ﷺ لوگوں کو بتانے کےلئےباہر نکلے تو کچھ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین آپ ﷺ کے ذہن سے محو کردی گئی لیکن آپ ﷺ اسے اخیر عشرہ کی پچیسویں ، ستائیسویں اور انتیسویں راتوں میں تلاش کرنے کاحکم دیا۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:” خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ، وَالسَّابِعَةِ، وَالْخَامِسَةِ”.(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر٢٠٢٣ )
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتا دوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش نو یا سات یا پانچ میں کیا کرو۔
مذکورہ تمام احادیث کی بنیاد پر یہ بات  طے شدہ ہے شب قدر آخری عشرہ میں ہی ہوتی ہے ان میں بھی طاق راتوں میں زیادہ امکان ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ آخری عشرے میں خاص طور سے عبادتوں کااھتمام کریں اگر پوری زندگی میں چندراتیں بھی نصیب ہوجائیں تو نہ جانے کئی صدیوں کی عبادت کے برابر ثواب ملے گے ۔آپ ﷺ کامعمول تھا کہ رمضان کے عام دنوں کی بہ نسبت اخیرعشرہ میں زیادہ مجاہدہ کیا کرتے تھے ۔ اس لئے ہم امتیوں کو بھی اخیر عشرہ میں زیادہ مجاہدہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ”.(سنن ابن ماجہ ،كتاب الصيام، بَابٌ في فَضْلِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ۔حدیث نمبر١٧٦٧ )
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
اسی وجہ سے آپ ﷺ کا معمول تھا کہ اخیر عشرہ میں آپ ﷺ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے تاکہ وہ رات لامحالہ حاصل ہوجائے۔لہذا پوری امت کے لئےاخیرعشرہ کااعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:” كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا، وَكَانَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ عُرِضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ”.(سنن ابن ماجہ ،كتاب الصيام، بَابُ: مَا جَاءَ فِي الاِعْتِكَافِ۔حدیث نمبر ۔١٧٦٩ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ۔
معتکف چونکہ ہرطرف سے کٹ کر اپنے آپ کو مسجد میں قید کرلیتاہے اس لئے اس کاسونا جاگنا سب کچھ عبادت میں شمار ہوتاہے ۔ اس لئے اعتکاف کرنے والوں کو چاہئے کہ جب وہ اپنا وقت فارغ کرکے مسجد میں آہی گئے تو کوشش کریں کے ان کا وقت ضائع نہ ہو ۔لوگوں سے زیادہ خلط ملط نہ ہو اس لئے مسجدکے کسی کونے میں گھیر کر رہناچاہئے تاکہ مسجدمیں آنے جانے والوں سے ملنے ملانے اور باتیں کرنے کے بجائے ان کاوقت اللہ کی عبادت میں گذرے ۔ رسول اللہ ﷺ خیمہ لگا کر اعتکاف کیاکرتے تھے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” اعْتَكَفَ فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا قِطْعَةُ حَصِيرٍ، قَالَ: فَأَخَذَ الْحَصِيرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ”.(سنن ابن ماجہ ،كتاب الصيام، بَابُ: مَا جَاءَ فِي الاِعْتِكَافِ۔حدیث نمبر ۔١٧٧٥ )
ابوسعیدی خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمہ میں اعتکاف کیا، اس کے دروازے پہ بورئیے کا ایک ٹکڑا لٹکا ہوا تھا، آپ نے اس بورئیے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ہٹا کر خیمہ کے ایک گوشے کی طرف کر دیا، پھر اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے باتیں کیں۔
آج کل ایک تو دینی امور کی رغبت دلوں سے نکل گئی جس کی وجہ سے لوگ اعتکاف جیسے مہتم بالشان عمل میں بہت کمزور ہیں دوسرے جولوگ اعتکاف میں بیٹھتے ہیں ان میں بھی بہت ساری بے اعتدالیاں ہوتی ہیں۔ اور کسی طرح سے لوگ دس دن مسجدمیں گذارلیناہی غنیمت سمجھتے ہیں ۔ جان لیجئے کہ مسجد میں آنےکے بعد دنیاوی معاملات سے بالکل قطع تعلق کرلیناچاہئے۔ جب اعتکاف کی نیت کرلیاتودس دن کےلئے اپنا وقت خالص اللہ کے لئے فارغ کر لیجئے ، اپنا زیادہ تروقت ذکر وتلاوت ، نماز اور تسبیح وتہلیل میں گذارنا چاہئے ۔لوگوں سے ملاقات بھی محض رسمی کرناچاہئےایسا نہ ہو کہ گھنٹوں گپ شپ کرکے اپنا وقت بربادکریں اور ساری محنت ضائع ہوجائے۔