عید خوشی ومسرت کے ساتھ اجتماعیت کی مثال
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اس دنیا کےاندر جتنی بھی قومیں آباد ہیں ان میں کسی نہ کسی صورت میں کوئی نہ کوئی دن متعین ہے جن میں وہ اپنی خوشی ومسرت کااظہار کرتےہیں۔ اپنے دکھوں اور مصیبتوں کوبھلا کر اپنے دوست احباب سے ملتے ہیں انہیں مبارک بادیاں دیتےہیں۔ یہ دستور ابتدائے آفرینش سے چلاآرہا ہے۔ہر قوم کی عید منانے کا کوئی نہ کوئی سبب ہےجس کی وجہ سے وہ عید مناتے ہیں۔ آج دنیا میں بہت ساری قوموں کے نشانات مٹ گئے لیکن جب وہ اس دنیا میں آباد تھے تو وہ اپنی عید مناتے تھے اور ان کی خوشی کا کوئی نہ کوئی دن متعین تھا۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ جس دن قبول ہوئی وہ ان کی خوشی کادن تھا اور ان کی امت اس دن کو بطور عید کے مناتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس دن نار نمرود سے نجات ملی اور اللہ تعالیٰ اس آگ کو اپنے خلیل ؑ کے لئے گل گلزار بنادیا یہ دن ان کےلئے خوشی ومسرت کادن تھا جس کی یاد میں ان کی قوم اس دن کو عید کے طور پر مناتی تھی ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزادی ملی تو وہ دن ان کے لئے خوشی ومسرت کاسامان بن گیا اور ان کی قوم اس دن کو بطور عیدمناتی ہے ۔ حضرت یونس علیہ السلام جس دن مچھلی کے پیٹ سے صحیح سالم برآمد ہو ئے اس دن کو ان کی قوم بطور عید مناتی تھی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یوم ولادت کوعیسائی دنیا بطور عید مناتی ہے۔ایرانی قوم اپنے بادشاہ فریدوں کی ایک فتح کی یاد میں عید مہرجان مناتی تھی۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہندو قوم مختلف قسم کی دیوی دیتاؤں کی پوجا کرتی ہے اس لئے آئے دن ان کے یہاں تہوار ہوا کرتے ہیں ان کے ان تمام تہواروں کے کچھ نہ کچھ وجوہات اور اسباب ہیں۔
عید کے دن مسلمان اللہ کے مہمان
مسلمان اس دنیامیں اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے آخری دین کے پیروکار ہیں یہ امت بھی آخری ہے اور اس امت کے نبی بھی آخری ہیں اور اس امت کی طرف نازل کی گئی کتاب بھی آخری ہے۔ مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے سال میں دوعید عطا فرمایا ہے جس میں وہ اپنی خوشیوں کا اظہا رکرتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اداکرتے ہیں ۔ان میں ایک عید تو رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزہ رکھنے کے بعد منائی جاتی ہے جسے عید الفطر کے نا م سے جانا جاتاہے ۔رمضان المبارک میں مسلمان پورے ایک مہینہ بھوکے پیاسے رہ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میںروزہ رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے روزوں کے اختتام پر ایک دن انہیں بطور تحفہ اور عطیہ کے عید کے طورپر متعین کیا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی میزبانی کا لطف اٹھانے کا دن ہے ۔ اس دن سارے مسلمان اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتےہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ضیافت کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ نے روزے رکھنے سے منع فرمادیا ہے ۔ اس لئے کہ جب کوئی کسی کا مہمان ہوتاہے تومیزبان اس کی ضیافت کرتا ہے اور مہمان اس ضیافت سے اپنا ہاتھ کھینچ لئے ، کچھ کھائے پیئے نہیں تو میزبان کوتکلیف ہوتی ہے ۔ اس لئے عید کے دن روزہ رکھنا مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا گیا ۔
مسلمانوں کی عید
رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے چونکہ پورا عرب کفر وشرک میں مبتلا تھا ان کی اپنی کوئی تہذیب نہیں تھی بلکہ اس وقت مختلف علاقوں پر مختلف تہذیبوں کااثر پایا جاتاتھا ۔کچھ اثرات بنی اسرائیل کی طرف سے آئے تھے جس کی وجہ سے عرب قوم بنی اسرائیل کی طرح یوم عاشورہ کو بطور عید مناتی تھی ۔ رومی اور ایرانی تہذیبوں کے اثرات سے بھی مختلف مواقع سے عید منائی جاتی تھی۔ چونکہ عرب قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہے اس لئے کچھ ابراہیمی اثرات بھی تھے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح راہ عمل نہیں تھا اس لئے یہ عیدیں کسی خاص مقصد سے مذہبی انداز میں ادا نہیں کی جاتی تھی ۔ کہیں کھیل کود ہوتے تھے، کہیں شعر وشاعری کی محفلیں جمتی تھیں اور کہیں کسی خاص بت کی پوجاہوا کرتی تھی ، میلے ٹھیلے لگتے اور لوگ مادر پدر آزاد ہوکر جشن منایا کرتے تھے، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہوتاتھا ۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی اور آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمایاتو مسلمانوں کوبتایا کہ یہ جوتم زمانۂ جاہلیت سے عیدیں مناتے آرہے ہو اللہ تعالیٰ نے اسے بدل دیا ہے اور ان کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں دو عیدیں مرحمت فرمائی ہیں۔ ان میں ایک عید الفطر ہے اور دوسری عید الاضحی ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا , فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ , قَالَ:” كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا , وَقَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى”.(سنن نسائی کتاب صلاۃ العیدین ۔ باب ۔ حدیث نمبر١٥٥٧ )
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن ایسے ہوتے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے دو دن تھے جن میں تم کھیل کود کیا کرتے تھے (اب) اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلہ ان سے بہتر دو دن دے دیئے ہیں: ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن“۔
عید الفطر تو رمضان کےروزوں کی خوشی میں منائی جاتی ہے اور عید الاضحی حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے ۔ ان دنوں میں مسلمانوں کے لئے سب سے پہلا عمل عید کی نماز اداکرکےکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عبودیت کااظہارکرنا اور اس کا شکر اداکرناہے ۔ مسلمانوں پر روزانہ پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور انہیں اپنےمحلے کی مسجد میں مسلمان ادا کرتے ہیں اور ہفتہ میں ایک بار جمعہ کی نماز جامع مسجد میں اداکرتے ہیں لیکن عید کی نماز عید گاہ میں اداکرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ جو مختلف علاقوں میں رہتے بستےہیں جمعہ کے دن ہفتہ میں ایک بار جمع ہوکر اپنے اتحاد اور اپنی اجتماعیت کامظاہر ہ کریں اور عید کے دن مختلف علاقوں کے مسلمان عید گاہ میں جمع ہوکر اپنی ملی اجتماعیت کی مثال پیش کریں۔
عید گاہ میں نماز پڑھنے کے فوائد
عید گاہ کے اندر نماز ادا کرنے کے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں اجتماعیت کا شعور پیدا ہوتا اور مسلمان جو مختلف علاقوں میں رہتے ہیں کم از کم سال میں ایک بار مل کر اپنے آپسی محبت اور بھائی چارے کو قائم کریں ۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دیں اور ان کے حالات سے واقف ہوں ۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی جمعیت اور ان کے اتحاد و اتفاق دیکھ کر دوسری اقوام پر رعب قائم ہوسکے ۔ جو فتنہ پرور عناصر ہیں انہیں یہ احساس ہو کہ مسلمانو ں کے اندر ملی اجتماعیت اور اتحاد قائم ہے۔ اس اجتماعیت کے مظاہر ہ ہی کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمان مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی عید گاہ کی طرف نکلنے کا حکم دیا تھا اور اس وقت عورتیں عید گاہ کی طرف نکلتی بھی تھیں اور رسول ﷺ ان سے خطاب بھی فرمایا کرتے تھے ۔ ایک حدیث میں مذکور ہے :
عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَّا قَالَتْ: بِأَبِي , فَقُلْتُ: أَسَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ كَذَا وَكَذَا؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ , بِأَبِي، قال:” لِيَخْرُجِ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ وَيَشْهَدْنَ الْعِيدَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ , وَلْيَعْتَزِلِ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى”.(سنن نسائی کتاب صلاۃ العیدین ۔ باب خُرُوجِ الْعَوَاتِقِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فِي الْعِيدَيْنِ۔ حدیث نمبر١٥٥٩ )
حضرت حفصہ کہتی ہیں کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتی تھیں: ”میرے باپ آپ پر فدا ہوں“ تو میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا ذکر کرتے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، میرے باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے فرمایا: ”چاہیئے کہ دوشیزائیں، پردہ والیاں، اور جو حیض سے ہوں (عید گاہ کو) نکلیں اور سب عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں، البتہ جو حائضہ ہوں وہ صلاۃ گاہ سے الگ رہیں“۔
نمازعید کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
مدینہ کی طرف جب مسلمان ہجرت کرکے گئے تو افرادی اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور دوسری اقوا م انہیں کمزور سمجھ کر طرح طرح کی ریشہ دوانیاں کیاکرتی تھیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی افرادی قوت اور ان کی اجتماعیت کا مظاہرہ کرنے کے لئے یہ حکم دیا تھاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ پردہ نشیں خواتین بھی عید کےلئے عیدگاہ کی طرف نکلیں یہاں تک کہ حائضہ اور نفسا جن پر نماز اس حالت میں نہیں ہے انہیں بھی عید گاہ کی طرف نکلنے کا حکم دیا کہ وہ عید گاہ جائیں لیکن نماز میں شریک نہ ہوں۔اس افرادی قوت کے مظاہر کے لئے ہی آپ ﷺ عید کے دن ایک راستے سے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے تاکہ ہر راستہ پر موجود اقوام مسلمانوں کے افرادی قوت اور ان کی اجتماعیت اور اتحاد کو اپنی نظروں سے دیکھ لیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ”.(سنن ابن ماجہ ،كتاب إقامة الصلاة والسنة،بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْخُرُوجِ يَوْمَ الْعِيدِ مِنْ طَرِيقٍ وَالرُّجُوعِ مِنْ غَيْرِهِ۔حدیث نمبر ١٣٠١ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔
مسجدوں میں عید کی نماز
آج کل حالات ایسے ہیں کہ لوگ گاؤں اور دیہاتوںسے شہروں کی طرف کثر ت سے آکر آباد ہونا شروع ہوگئے اور گاؤں بالکل ویران ہونے لگے ۔ شہروں کی آبادیاں نہایت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور گاؤں کی آبادی گھٹتی جارہی ہے ۔ جن شہروں میں پہلے سے عیدگاہیں موجود ہیں ان میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے اندر سمیٹ سکے ۔ اور نہ مسلمان نئی عیدگاہوں کے لئے زمینیں وقف کرتے ہیں۔ اس لئے اب عید گاہوں کےساتھ ساتھ مسجدوں میں بھی عید کی نمازیں ہونے لگیں ۔ ظاہر ہے یہ ایک مجبوری ہے جس کی وجہ سے عیدگاہ کی بجائے مسجدوں میں عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔لیکن جہاں متبادل موجود ہیں وہاں مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان میں ہوں اور بڑی جماعت کے ساتھ ہو۔شہروں کے اندر مختلف قسم کے میدان ہوتے ہیں جو خاص خاص مواقع سے استعمال کیئے جاتےہیں۔ کبھی کھیل کود کے لئے ، کبھی جلسے جلوس کےلئے ، کبھی شادی بیاہ کےلئے اور کبھی میلوں ٹھیلوں کے لئے ۔ ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ عید کی نماز کے لئے ان جگہوں کااستعمال کیا جائے ۔ اگر وہ جگہ سرکاری ہے تو سرکار سے اجازت لے کراور کوئی پرائیویٹ جگہ ہے تو اس کےمالکان سے اجازت لے کر اور اگر کرایہ کی جگہ ہے تو کرایہ دے کر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان جگہوں میں عید کی نماز اداکی جائے تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت بحال ہو اور ان کی قوت وشوکت کامظاہر ہ بھی ہو۔
اس کے علاوہ اگر مسجدوں میں نماز اد اکی جاتی ہے اس میں بھی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دوچار محلوں کوملاکر کسی ایک بڑی مسجد میں عید کی نماز اداکی جائے ۔ایسا بالکل بھی مناسب ہے کہ ہر مسجد میں عید کی نماز جاری کردی جائے اور جہاں جہاں مسجد ہے وہاں وہاں عید کی نما زبھی ہو ۔اس لئے کہ اس سے ایک تو مسلمانوں کاشیرازہ بکھر جائے گا اور دوسرے عید اور پنج وقتہ نمازوں میں کوئی امتیاز نہیں رہ پائے گا۔ہاں اس بات کا خیال رکھنا بہر حال ضروری ہے کہ ہماری نماز کی وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ یعنی مسجد کے بجائے روڈ پر کھڑے ہوکر نماز اداکریں اور پورا ٹریفک جام ہوجائے اور اس کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف پہنچے یہ طریقہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ اگر کہیں کسی مسجد میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ہے اور مسجداتنی وسیع نہیں ہے تو ایک سے زاید مرتبہ بھی جماعت ہوسکتی ہے لیکن راستہ بند کرکے نماز ادا کرناکسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ دیگر اقوام کے ماننے والے اگر چہ اپنے تہوار سڑکوں کو جام کرکے راستوں کوں بندکرکے مناتے ہیں لیکن ہمارا دین ہمیں یہ تعلیم دیتاہے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی کوکوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ مان لیں کہ اگر سڑک پر نماز ہورہی ہو اور اسی درمیان کسی مریض کی حالت بگڑ جائے اور ہماری نماز کی وجہ سے اس کا ایبولینس پھنس جائے اور وہ ہاسپیٹل وقت پرنہ پہنچ سکے ، یا کسی کی ٹرین، فلائٹ یاانٹرویو ہماری نما ز کی وجہ سے چھوٹ جائے تو اس کا وبال ان نمازیوں پر آئے گا جن کی وجہ سے یہ حادثات رونما ہوئے ۔ اس لئے نمازیں عیدگاہوں میں ،مسجد وں میں یا دیگر میدانوں میں ہی اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔ جس میں محلے میں ایک سے زاید مسجدیں ہیں وہاں کوشش یہ کرنی چاہئے کہ کسی ایک مسجد میں ہی عید کی نماز اداکی جائے تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے اور کم از کم سال میں دوبار مسلمان ایک ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کریں ۔
I precisely needed to say thanks once more. I do not know the things that I could possibly have sorted out in the absence of the actual tricks revealed by you concerning my industry. Entirely was a real fearsome issue for me, however , seeing this specialised strategy you solved that took me to cry for joy. I’m thankful for your work and in addition hope that you really know what a great job you are always providing training the rest through your blog. I know that you’ve never met all of us.
you’re really a good webmaster. The site loading speed is incredible. It seems that you’re doing any unique trick. In addition, The contents are masterpiece. you have done a magnificent job on this topic!
Keep working ,great job!