تباہی کے اسباب ہمارے اعمال
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
یہ دنیا خیر وشر کی آماج گاہ ہے یہاں اچھے اعمال کرنےوالے لوگ بھی بستے ہیں اور برے اعمال کرنے والے لوگ بھی بستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسانوں کے لئے بنایا ہے اس لئے دنیا کے گوشے گوشے میں انسانی آبادی موجود ہے ۔ ان میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو اپنے خالق ومالک کو نہیں پہچانتے بلکہ اس کی جگہ پر کچھ ایسی چیزوں کو اپنا خالق ومالک تصور کرتے ہیں جن کا وجود خود انسانوں کا محتاج ہے۔ اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ اس دنیاکے نظام کو چلارہے ہیں ۔ سورج ،چاند ، ستارے سب اپنی جگہ پر اپنا کام کررہے ہیں ۔ اس لئے کہ جس طرح انسانوں کی عمریں اللہ تعالیٰ کے یہاں متعین ہیں اسی طرح اس دنیا کی بھی ایک عمر ہے جسے گذارنے کے بعد اس دنیاکو بھی موت آجائے گی اور پھر یہ سارانظام درہم برہم ہوجائے گا۔اس کے بعد ایک نیانظام جاری ہوگا جس کا پورانقشہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بنارکھا ہے۔ اور ان میں سے کچھ چیزیں اپنے انبیاء کے ذریعے انسانوں کوبتابھی دیاہے ۔اس نظام میں اپنے لئے اچھامقام حاصل کرنے کے لئے انسان اس دنیا میں رہ کر اپنے خالق سے رشتہ مضبوط کرتاہے تاکہ مرنے کے بعد جب دوبارہ اٹھایا جائے تو آرام وسکون والی زندگی میسر ہو۔
خیر وشر کے اعمال کی جزاو سزا کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقام متعین فرمادیا ہے جسے ہم جنت اور جہنم کے نام سے جانتے ہیں ۔ اصل جزا یا مکمل سزا تو انہیں دونوں مقامات پر ملے گی ۔ لیکن کچھ اعمال ایسے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیامیں بھی کسی کسی کو ہلکی پھلکی سزائیں دے دیتے ہیں ، یا اس کے نیک اعمال کے انعامات کی کچھ جھلک اس دنیا میں بھی دکھادیتے ہیں ۔دنیا کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔
انسان پر جوحالات آتے ہیں ، جومصیبتیں یاپریشانیاں آتی ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے اور یہ بتلایا جاتاہے کہ تمہاری ساری تدبیروں کوکامیاب کرنا اللہ کےہاتھ میں ہےاس لئے اس کی رسی کومضبوطی سے پکڑلو ،یا کبھی کبھی آزمائش ہوتی ہےکہ ایا یہ بندہ حقیقی معنوں میں اللہ کاتابعدار ہےیا صرف اوپر اوپر سے تابعداری کاڈھونگ رچا رہاہے۔
انسانی اعمال کی وجہ سے دنیا میں طرح طرح کے فتنے پید اہوتے ہیں اور طرح طرح کی پریشانیاں ظاہر ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماریوں اور وبا کی صورت میں ، کبھی زلزلوں اور آندھی طوفان کی صورت میں ، کبھی بارش اور سیلاب کی صورت میں اور کبھی ظالم حکمراں کے تسلط کی صورت میں ۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہےکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے خالق ومالک کا سچاتابعدار بن جائے۔خود خالق کائنات کااعلان ہے:
’’ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘۔(الروم:۴۱)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے، تاکہ وہ باز آجائیں‘‘۔
یہ جو خشکی اور تری کا فساد ہےانسانوں کے اعمال کی پوری سزا نہیں ہے یہ تو اللہ کے قدرت کی ہلکی سی نمائش ہے تاکہ انسان اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔جومصیبتیں اور پریشانیاں آتی ہیں وہ ان کے تمام اعمال کاوبال نہیں بلکہ چند اعمال کی تھوڑی سی سزا ہوتی ہےتاکہ وہ سنبھل جائے اور اپنی حالت سدھار لے ۔ ورنہ جتنی نافرمانیاں اور جتنی معصیتیں انسانوں سے ہوتی ہیں اگر ان سب کاحساب اللہ تعالیٰ اس دنیا میں کرنےلگیں اور ان سب کی سزائیں اسی دنیا میں دینے لگیں تو اس کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ۔(سورہ شوریٰ۔ آیت ٣٠ )
”اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے۔ “
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا(سورہ فاطر۔آیت٤٥ )
”ور اگر اللہ لوگوں کو اس کی وجہ سے پکڑے جو انھوں نے کمایا تو اس(زمین) کی پشت پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے اور لیکن وہ انھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دیتا ہے، پھر جب ان کا مقرر وقت آجائے تو بے شک اللہ اپنے بندوں کو ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔“
ان آیات کے تناظر میں آج ہم اپنا جائزہ لیں توہمیں پتہ چل جائے گا کہ پوری دنیا میں جوعذاب کی صورت پیدا ہوئی ہے ہر جگہ مسلمان پریشان حال ہیں ،ظالم حکمرانوں کا تسلط ہے ، کاروبارپر نت نئے حملےہورہےہیں ان سب کی وجہ ہمارے اعمال ہیں ۔ جن کی وجہ سے مصائب سے چھٹکارا نہیں ملتا۔
مسجدوں کی آبادی کی فکر کرنے کے بجائے ان کی زیبائش اور نمائش پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ محلوں کی آبادی کے تناسب سے ایک فیصد نمازی بھی مسجد میں نظر نہیں آتے جس کا نتیجہ یہ ہورہاہےکہ ہماری مسجدیں منہدم کی جارہی ہیں اور ہم چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں۔ہم نے اسلامی شعار کے بجائے مغربی تہذیب کو فوقیت دیتا شروع کردیاتو ہماری تہذیب کو دنیاکی بدترین تہذیب ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ہم نے اپنے گھروں میں پردے کو چھوڑا تو بے حیائی وبے شرمی کاطوفان کھڑا ہوگیا۔ رشوت اورکالابازاری کوہم نے جگہ دی تو دنیاکے کاروبار اور ملازمتوں سے ہمیں دور کردیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے نام پر وقف شدہ جائدادوں کا غلط استعمال ہونے لگا تو اب پورا کا پورا وقف بورڈ خطرے میں پڑگیا۔اس کےعلاوہ ہر میدان میں جوناکامیاں سامنے آرہی ہیں اگر غور کیاجائے تو ان سب کے وجوہات ہمیں سمجھ میں آجائیں گی۔
ان تمام ناکامیوں کو کامیابی میں بدلنے کےلئے جوبھی اسباب وذرائع اختیار کیے جارہےہیں ان میں سب سے اولین درجہ اس کو حاصل ہے کہ ہم پہلے اپنا جائزہ لیں اور جہاں جہاں حقوق کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے، حق تلفیاں ہورہی ہیں ان میں سدھار پیداکرنے کی کوشش کی جائے ۔ اللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑا جائے اور اسی سے مدد کی درخواست کی جائے ۔ اس لئےکہ ہمارا ایمان ہے کہ اسباب کوپیدا کرنے والی ذات بھی اللہ کی ہے اورانہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ذات بھی وہی ذات وحدہ لاشریک لہ ہے۔اتنی واضح ھدایات ہونے کے باوجود بھی مسلمان معاملات کے حل کےلئے اپنے اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایسی جگہوں پر اپنی طاقت صرف کررہے ہیں جہاں ان کے مرض کا کوئی علاج ہی نہیں ۔
فاعتبروا یااولی الابصار
Hi there, I found your website via Google while searching for a related topic, your web site came up, it looks great. I’ve bookmarked it in my google bookmarks.
Hello there, You’ve done a great job. I will definitely digg it and personally suggest to my friends. I am confident they will be benefited from this website.