نیک اعمال میں سبقت
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو پید اکیا اور اس کے سامنے خیر وشر دونوں چیزیں واضح کردیا ہے ۔ خیر کے ساتھ دنیا وآخرت کی کامیابی ہے اور شر کے ساتھ ناکامی ہے۔ ایک مومن کی اصل صفت یہ ہوتی ہےکہ وہ شرسے دور بھاگتاہےاور خیر کےقریب ہونا چاہتاہے۔اس لئے کہ ہم جنس اشیاء اپنے جنس کی طرف کھنچتی ہیں اورایمان سراسر خیرہے اس لئے خیر کے جتنے بھی امور ہیں وہ سب کےسب ایمان کی ہم جنس ہیں ۔ اس لئے اگر ایمان موجودہے تو اس کا تقاضا ہےکہ خیر بھی اس کے ساتھ آئے اگر خیر کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی اس کامطلب ہے کہ ایمان میں کچھ کمی ہے۔ایمان اور عمل صالح یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب رہنے والی چیزیں ہیں اس کے برخلاف ایمان کے ساتھ معصیت کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے بعض معاصی کاتذکرہ کرتے ہوئےفرمایاہےکہ کہ ایمان کی موجودگی میں یہ چیزیں نہیں پائی جاسکتیں ۔جیسے آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ.(صحیح بخاری،صحيح البخاري ،كِتَاب الْحُدُودِ، حدیث نمبر٦٧٨٢ )
(جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔“)
اس حدیث کی تفسیرایک دوسری حدیث سے ہوتی ہےجس کو امام بخاری نے ہی روایت کیا ہے:
عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ”، قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ؟ قَالَ: هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهَا، فَإِنْ تَابَ، عَادَ إِلَيْهِ هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.(صحيح البخاري۔كتاب المحاربين۔ بَابُ إِثْمِ الزُّنَاةِ:حدیث نمبر ٦٨٠٩ )
حضرت عکرمہ نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کر لیا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔
اس حدیث سے صاف بات واضح ہوجاتی ہے کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتاہے، چوری کرنے والا جب چوری کرتاہے، شراب پینےوالا جب شراب پیتاہے اورقاتل جب کسی مومن کو قتل کرتاہے تو ایمان اس کےاندر سے نکل جاتاہے۔ اس سے پتہ چلاکہ یہ معاصی ایمان کے مغائر ہیں یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ ہاں پھر جب وہ شخص حقیقی توبہ کرلیتا ہے تو ایمان پھر واپس آجاتا ہےاس لئےکہ توبہ امور خیر میں سے ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔
ایمان اور عمل صالح ایک دوسرے کےلئےلازم ملزوم ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نےجہاں جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے معااس کے بعد عمل صالح کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کو اس طرح سمجھئے کہ ایمان ایک تنا ہے اور عمل صالح اس کی شاخیں اور پھول پتیاں ہیں جواس درخت کی خوبصورتی اور افادیت کےلئےضروری ہوتی ہیں۔
ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی درخت پر پھل پھول آرہے ہیں اور جس درخت پر پھل پھول آتے ہیں اسے زندہ درخت سمجھا جاتاہےاور جس پر پھل پھول نہیں آتےاسے مردہ درخت سمجھاجاتاہے۔ اس عمل صالح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پاک حیات عطا فرماتے ہیں اور اسے اجر عظیم کا پھل عطاکرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔( سورۃ النحل ۔ آیت ٩٧ )
جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔
اس آیت کریمہ پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ عمل صالح پر اجر اسی وقت مرتب ہوتاہے جب کہ ایمان موجود ہو ۔ اس لئےمومنین کو چاہئے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی کرتے رہیں اور عمل صالح اختیارکرتے وقت اپنے ایمان کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت میں ہماری زبان سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوجائے جس کے ہمارا یمان خارج ہوجائے اورہمیں پتہ بھی نہ چلے ۔ یاکوئی ایسا عمل کر بیٹھیں جس سے ہمارا ایمان ضائع ہوجائے اور ہم اپنے آپ کو مومن سمجھتے رہیں۔
دنیا کو اللہ تعالیٰ نے ایک مزرعہ یعنی کھیتی بنایا ہےاو ر آخرت کے ثمرات اسی عارضی دنیاکے اعمال پر ظاہر ہوں گے ۔اس لئے جو لوگ اس دنیا میں نیک اعمال میں سبقت لے جاتے ہیں وہ آخرت میں بھی سبقت لےجائیں گے اور ان کے لئے بہترین ٹھکا نا ہوگا۔باری تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ(سورۃ النحل ۔آیت ٣٠ )
ان لوگوں کے لیے جنھوں نے بھلائی کی اس دنیا میں بڑی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو کہیں بہتر ہے اور یقیناً وہ ڈرنے والوں کا اچھا گھر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا عام دستور یہ ہے کہ جب بندہ کسی نیکی کا ارادہ کرتاہے تو اسے اسی وقت ایک نیکی کا ثواب عطا فرمادیتے ہیں اور اگر اس نے وہ نیک کام کرلیا تو اس ایک نیکی کاثواب دس گنا سے سات سو گنا بڑھاکر دیتے ہیں ۔لیکن اس کے برعکس اگر کوئی بندہ کسی گناہ کااراد ہ کرتاہےتو محض اس ارادہ کی وجہ سے اس کےلئےگناہ نہیں لکھاجاتاہاں جب وہ گناہ کرلیتاہے تو اس کےنامۂ اعمال میں صرف ایک گناہ لکھ لیاجاتاہے۔یہ اللہ تعالیٰ کافضل اور ا س کی نوازش ہے کہ نیک اعمال میں بے دریغ ثواب عطافرماتاہے لیکن گناہوں پر ستاری کامعاملہ فرماتاہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الرِّقَاقِ۔حدیث نمبر ٦٤٩١ )
اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لیے ایک برائی لکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتےہیں کے میرےبندے نیکیوں میں سبقت اختیارکریں اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا :
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (سورۃ المائدہ۔ آیت ٤٨ )
نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کولوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ صحابۂ کرام نیکیوں میں ایک دوسرے سے ہمیشہ آگے رہنے کی کوشش کر تے تھے ۔کبھی کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے ۔ حضرت عمر فاروقؓ کا واقعہ مشہور ہے جب وہ غزوہ ٔ تبوک کے موقع سے کافی متمول تھے ۔ انہوں نے دل میں سوچاکہ آج میں ابوبکرؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا لیکن حضرت ابوبکر ؓ بھی پیچھے رہ جانے والوں میں سے نہیں تھے ۔پورا واقعہ ایک روایت میں اس طرح بیان کیا گیاہے :
عَن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟” قُلْتُ: مِثْلَهُ، قَالَ: وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟” قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا۔(سنن ابي داود۔كِتَاب الزَّكَاةِ۔حدیث نمبر ١٦٧٨ )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟“، میں نے کہا: اسی قدر یعنی آدھا مال، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟“، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، تب میں نے کہا: میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔
یہ جذبہ صحابۂ کرام کی زندگی میں بار بار نظر آئے گا۔کسی بھی موقع سے وہ چوکتے نہیں تھےجہاں موقع ملا نیکیوں میں سبقت لے جانےکی کوشش کرتے تھے۔ایک موقع سے کچھ غریب مسلمان رسول اللہ ﷺ کےپاس آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم اس بات سے غمگین ہیں کہ مال والوں سے ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئےکہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں،جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں۔ لیکن وہ صدقہ خیرات کرتے ہیں، حج اورجہاد کرتے ہیں لیکن ہم نہیں کرسکتےاس لئےکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا کہ تم ہر نماز کےبعد سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر 33،33 بار پڑھ لیاکرو تم سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔
یہ فکر قرن اول کے مسلمانوں میں عام طوپر موجود تھی ۔ لیکن جیسے جیسے زمانۂ نبوی سے بُعد ہوتاگیا یہ جذبہ بھی ماند پڑتاگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے یہ جذبہ مفقود ہوگیا اب ہر شخص اپنی دنیا بنانے میں لگاہوا ہے اور چاہتاہے کہ دنیاوی معاملات میں وہ کسی سے پیچھے نہ رہے چاہے اس کادین نقصان میں کیوں نہ چلاجائے۔ حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہاں جوکچھ بھی وہ جمع کررہا ہے وہ سب یہیں رہ جائے گا اور ایک دن ان سب کو چھوڑ کر اسے چلے جانا ہے لیکن پھر بھی اپنی عاقبت خراب کررہا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اپنے ذہن و دماغ پر آخرت کی فکر سوار کریں اور دنیاکو بقدر ضرورت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ دنیا تو آئے گی نہیں اورآخرت خراب ہوجائے گی ۔