کائنات کے لیے فکرمندی-وقت کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
اللہ رب العزت نے زمین وآسمان، چاند، سورج، ستارے، ہوا، پانی، حرارت وبرودت سب کا ایک اچھا نظام انسانوں کے حوالہ کیا، تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے، زندگی خوش گوار انداز میں گذارے اور اللہ کے ذریعہ دیے گیے اس نعمت کی قدر کرے اور شکرگذاری کے جذبہ سے سرشار ہوکر پکار اٹھے کہ مالک تو نے اس کائنات کے نظام کو یوں ہی نہیں بنایا، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے،جو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو سب عیبوں سے پاک ہے، سو ہمیں دوزخ کے عذاب سےبچا،سورۃص:27سورۃانبیاء:16، سورۃدخان:38،الاحقاف:3،سورۃ ق:38 اور سورۃ حجر:85 میں بھی یہی بات کہی گئی ہے،ظاہر ہے کائنات کے سربستہ رازوں پرغور وفکر کے بعد بندہ جس نتیجہ پر پہونچتا ہے وہ یہی ہے کہ کائنات کی کوئی بھی چیز اللہ نے بے کار نہیں بنائی ہے، اگر ہمارے اوپر کائنات کے راز نہیں کھلتے اور ہمیں اس کی افادیت کا ادراک نہیں ہوتاتو یہ ہماری عقل وفہم کا قصور ہے۔
ان آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کائنات ایک بامعنی اور درست چیز ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرے، اللہ کی تسبیح وتقدیس کرے اور جہنم سے بچانے کی دعا کرتا رہے، جو لوگ اس کائنات کو بے معنی سمجھتے ہیں وہ مومن نہیں ہوسکتے وہ تو کافر ہیں اور ان کے لیے جہنم میں مقام متعین ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ اللہ رب العزت نے اس کائنات کو ہمارے لیے پیدا کیاہے اورہمیں اپنی عبادت کے لیے بنایا: ”ان الدنیا خلقت لکم وانکم خلقتم للآخرۃ“ عبادت اور آخرت بنانے کی فکر ہمیں کس قدر ہے وہ تو جگ ظاہر ہے، ہم تو اس کائنات کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند نہیں ہیں، جس پر ہماری زندگی کا مدار ہے، ہم نے خشکی و تری پر اپنے ہاتھوں بگاڑ وفساد پیدا کردیا ہے اور اس کا عذاب ہم جھیل رہے ہیں، ماحولیات کے بگاڑ کی وجہ سے نہ صرف موسم میں تبدیلی آئی ہے، بلکہ ہوا ایسی خراب ہوگئی ہے کہ سانس لینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے، صاف پانی اور ہوا دستیاب نہیں ہے، آرو اور ماسک کے استعمال سے بھی ہماری یہ پریشانی دور نہیں ہورہی ہے اور ہم اپنے ہاتھوں ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے عذاب جھیل رہے ہیں۔
ہمیں اپنے ان اعمال؛بلکہ کرتوت کا جائزہ لینا چاہیے، جس کی وجہ سے ہمارے لئے صحت مند زندگی گذارنا دشوار ہی نہیں، دشوار ترین ہوتا جارہا ہے، یہ دشواری اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اب عالمی سطح پر 22/اپریل کو ہر سال یوم ارض منایا جارہا ہے، تاکہ زمین اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے لوگوں میں عام بیداری لائی جائے، واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب سے قبل زمین پر سارے قدرتی وسائل، پانی، ہوا جنگل، زمین اور فضا کا نظام معتدل، متوازن، انسان، حیوان، نباتات؛بلکہ جمادات تک کے لیے تھا، اور یہ سب قدرتی نظام کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے، پھر ہوا یہ کہ صنعتی انقلاب آیا، آیادیاں بڑھیں تو ضرورتیں بھی بڑھیں، ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہم نے قدرتی وسائل کا غلط استعمال شروع کیا، ایندھن کے غیرضروری استعمال نے فضا میں حرارت کی چادر تن دی، برف پگھلنے لگے، درخت اور پہاڑ کو کاٹ کاٹ کر مکان کے لئے زمین، دروازے، چوکھٹ اور پتھروں کا استعمال کیا جانے لگا، کثرت کی وجہ سے زمین کا نظام گڑبڑا گیا، زلزلہ آنے لگا، فضائی آلودگی بڑھی، صاف پانی اور ہوا کی قلت ہوگئی اور ہماری زندگی کی صحت وتوانائی نے ہم سے منہ پھیرلیا، اب ہر آدمی مرض نہیں امراض کا شکار ہے، اس کے اوپر اپنی صحت کے حوالہ سے یاسیت، قنوطیت اور مایوسی ونامرادی کا غلبہ ہے، جس کا اثر اس کے روزمرہ کے کاموں کے پر پڑتا ہے اور ہر آنے والے دن میں اسے گھٹن اور کرب کے نئے دور سے گذرنا پڑتا ہے۔
فضا کی شفافیت کو جس نے سب سے زیادہ متاثر اور آلودہ کیا ہے، وہ ہے پلاسٹک کا استعمال، ایک جائزہ کے مطابق عالمی سطح پر چھیالیس کروڑ ٹن پلاسٹک استعمال ہورہا ہے، دس کروڑ ٹن پلاسٹک سمندر میں پہونچ چکا ہے، دس لاکھ پلاسٹک پانی کی بوتل پوری دنیا میں ہر ایک منٹ میں خریدے جارہے ہیں، ایک سال میں پانچ لاکھ کروڑ پلاسٹک کا بیگ استعمال کیا جارہا ہے، اس کی ری سائکلنگ نہیں ہوتی ہے، یہ پلاسٹک، پانی، ہوا اور زمین کی قوت نمو تک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اسلام نے ہر کام میں اعتدال اور توازن کی بات کہی ہے، ماحولیات کو خراب کرنے میں انسانوں کے ذریعہ پانی کا غیرضروری استعمال بھی ہے، پہلے پانی، کنویں، تالاب اور دریاؤں میں جمع ہوجاتا تھااور ان کا مصرف سال بھر لیا جاتا تھا، لیکن اب کنویں اور تالاب ماضی کی داستان بن گیے ہیں، زمین میں انگنت وجوہات سے پانی جذب کرنے کی صلاحیت کمزور ہوگئی، اس لیے پانی کی قلت کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے، زمین میں نمی کی کمی ہمارے فصلوں پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے، خارجی طورپر سینچائی کے نظم کی وجہ سے پیداوار پر اخراجات بڑھ گئے ہیں، اشیاء خوردنی اور غذائی اجناس مہنگے ہوگیے، مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ کی نوبت آئی تو وہ پانی کے مسئلہ پر ہوگی،ہندو پاک کے درمیان تو یہ ابھی سے دکھنے لگا ہے۔
فصل اور پھلوں کے وزن بڑھانے سے لے کر، کپڑے، برتن دھونے، انسانی اعضاء کو جلد جوانی کی دہلیز تک پہونچا نے تک کے لیے قانونی اور غیرقانونی طورپر کیمیکل اور کھاد کا استعمال ہوتا ہے، ان کیمیکل کے ذریعہ پھلوں کو خوشنما، دیدہ زیب، خوبصورت دکھنے کے لیے بھی کیمیکل کا لیپ کیا جاتا ہے، چیزیں تو خوبصورت ہوجاتی ہیں، لیکن کھاد اور کیمیکل کے جو ذرات باہر رہ جاتے ہیں،وہ فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں اور جو غذائی اجناس اور پھلوں کے ذریعہ ہمارے جسم میں پہونچتے ہیں وہ ہماری صحت کو متاثر کرتے ہیں، یہی حال تیل اور مصالحہ جات کا ہے، بازار میں کیمیکل والے تیل اور مصالحہ جات کی کمی نہیں ہے، کیمیکل کے علاوہ مصالحہ جات میں گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹوں کو پس کر ملانے کی روایت بھی عام ہے، یہ کیمیکل نالے کے راستے دریاؤں کے پانی تک پہونچتے ہیں، جو پانی میں موجود مخلوق کو بھی موت کی نیند سلادیتے ہیں، ندی کے اس پانی کا استعمال دوسرے کاموں میں بھی کیا جاتا ہے جو زمین اور انسان دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
کائنات کے نظام کو درہم برہم کرنے اور ماحول کو آلودہ کرنے میں کچڑا کا بھی بڑا کردار ہے، اس کی ری سائکلنگ اور آبادی سے اٹھانے اور اس کو ختم کرنے کا موثر نظام موجود نہیں ہے، کچڑے کا ڈھیر جگہ جگہ لگا رہتا ہے، جو فضائی آلودگی کا بڑا سبب ہے، اس سے بدبو بھی پھیلتی ہے، مکھی، مچھر کی بہتات ہوتی ہے اور ان کی کثرت سے ہمیں نقصان پہونچتا ہے، کچڑے کا ایک بڑا حصہ پولتھین کا ہوتا ہے، جس کے نقصانات زہریلے جانوروں کے کاٹنے سے زیادہ ہوا کرتے ہیں۔
کوئلے کے جلانے، گاڑیوں کے دھنویں سے بھی فضا آلودہ ہوتی ہے، اس لیے اگر کائنات کو بچانا ہے تو کوئلہ کا استعمال کم اور گاڑیوں کے دھنویں سے بچانے کے لیے کوئی اُپائے سوچنا ہوگا،فضا کو آلودگی سے بچانے کے لئے سائیکل سب سے اچھی سواری ہے؛ لیکن اس تیز رفتار زمانے میں اس کا استعمال فیشن کے طورپر کیا جانے لگا ہے، ہمیں اس فضائی آلودگی کے نقصان کا اندازہ ہو یا نہ ہو لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس سے کائنات اور حیاتیاتی امور کو سخت نقصان پہونچ رہا ہے۔
کائنات کے موسم کو قابو میں رکھنے اور آکسیجن کی فراہمی میں درختوں اور جنگلوں کی بڑی اہمیت ہے، لیکن سینتالیس (47) لاکھ ہیکٹر جنگل اوسطاً ہرسال کٹ رہے ہیں، 2015-20 کے درمیان کا تجزیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک کروڑ ہیکٹر جنگل کاٹے جا چکے ہیں، شجرکاری کی مہم سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ضرور چلائی گئی، لیکن اس کی رفتار ہر سال پچاس لاکھ ہیکٹر تک ہی پہونچ پاتی ہے، دس ہزار سال پہلے چھ سو کروڑ حصے پر جنگل تھا، اب چار سو کروڑ ہیکٹرہی بچ پایا ہے، اگر ہم شجرکاری پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو درجہ حرارت دو (2) ڈگری سیلیس کم ہوسکتا ہے۔
ہمارے ہاتھوں جنگلات کی اس تباہی کی وجہ سے جانوروں اور چرند وپرند پر بھی بُرا اثر پڑا ہے، جانوروں اور چرند وپرند کا حیاتیاتی جائزہ لینے والے ادارہ IUCN نے اپنے ریڈبک میں جو اعداد وشمار پیش کیا ہے، اس کے مطابق ایک لاکھ بیالیس ہزار پانچ سو جانور، چرند وپرند کی نسلوں میں سے چالیس ہزار کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے، یہ معلوم نسلوں میں سے اٹھائیس فی صد ہے، اب تک ان کی نوسو نسلیں معدوم ہوچکی ہیں، جن میں ایک سو انسٹھ نسلوں کے پرندے اور مچھلیوں کی اسی (80) نسلیں ہیں۔
فضائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارا معاشی نقصان بھی ہورہا ہے، جائزہ سے پتہ چلتا ہے 1970-79 کے درمیان 183.9، 1980-89 کے درمیان 305.5، 1990-99 کے درمیان 906.4، 2000-09 کے درمیان 997.9، 2010-19 کے درمیان 1,476.9 ارب ڈالر کا معاشی نقصان دنیا کو اٹھانا پڑا ہے۔
ان حالات میں کائنات کے تحفظ کے لیے فکرمند ہونا ہر فرد کے لیے ضروری ہے ہرآدمی اگر عہد کرے کہ ہم اس کام کے لیے کوشش کریں گے، حکومتیں عالمی سطح پر تحفظ کائنات کے لیے بنائے گیے منصوبوں کو ایمانداری سے زمین پر اتاریں، تو ہم کائنات اور زمین پر منڈلاتے خطرات کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، ختم تو نہیں کر سکتے کم بھی کرسکیں تو بڑی بات ہوگی۔
Rattling superb visual appeal on this internet site, I’d rate it 10 10.