عشرۂ ذی الحجہ کی اہمیت و فضیلت
تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی ؔ
یہ بات تو بچہ بچہ کومعلوم ہے کہ سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ مہینہ شمسی ہو یا قمری ۔ان بارہ مہینوں میں چار مہینے اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت زیادہ محترم ہیں ۔ ان چار مہینو ں کو اشہر حرم کہا جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (سورہ توبہ آیت ٣٦ )
بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
ان چار مہینوں کی تعیین احادیث میں موجود ہے ۔ جن میں تین مہینے تولگاتار ہیں ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مہینہ رجب کاہے ۔ یہ چاروں مہینے اللہ تعالیٰ کےیہاں نہایت محترم ہیں ۔ ان مہینوں میں قتل وقتال بالکل منع ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا لیکن اس میں کچھ اپنی جہالت کی وجہ سے لوگ تبدیلیاں کردیا کرتے تھے ۔ جیسے عین جنگ کے درمیان اگر کوئی مہینہ حرمت والا آگیا تو وہ لوگ اس مہینہ کو آگے بڑھا دیاکرتے تھے اور جنگ بند نہیں کرتے تھے بلکہ یہ اعلان کردیا جاتا تھاکہ یہ حرمت والا مہینہ اس سال دوماہ کے بعد ہوگا اس طرح مہینوں کے تعین کو لوگوں نے گڈ مڈ کردیا تھا ۔ لیکن یہ مہینے سال بھر گھومتے گھومتے جس سال رسول اللہ ﷺ نے حج الوداع ادا کی اس سال اپنی جگہ پر آگئے تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان مہینوں کی تعیین کی اور لوگوں کو بتایا کہ ان مہینوں میں تبدیلی کسی کے اختیار میں نہیں ہے ۔ ایک حدیث میں وارد ہے :
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ: اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى، وَشَعْبَانَ، أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟” قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ:” أَلَيْسَ ذُو الْحِجَّةِ؟” قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:” فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟” قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ:” أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟” قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:” فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟” قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ:” أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟” قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:” فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ،وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَسَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، أَلَا فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ يُبَلَّغُهُ أَنْ يَكُونَ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ”
( صحیح بخاری ۔کتاب المغازی ، باب حجۃ الوداع ۔ حدیث نمبر ٤٤٠٦ )
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آ گیا ہے۔ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاولیٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور ان کے رسول کو بہتر علم ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید آپ مشہور نام کے سوا اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ پھر دریافت فرمایا اور یہ شہر کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا شاید اس کا کوئی اور نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکھیں گے، جو مشہور نام کے علاوہ ہو گا۔، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ مکہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں (یہ مکہ ہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اور یہ دن کون سا ہے؟ ہم بولے کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ بہتر علم ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا شاید اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم بولے کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن کا تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں اور تم بہت جلد اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ہاں، پس میرے بعد تم گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ ہاں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ جسے وہ پہنچائیں ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو یہاں بعض سننے والوں سے زیادہ اس (حدیث) کو یاد رکھ سکتا ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ بات واضح فرمادی کہ زمانۂ جاہلیت میں مہینوں کے اندر جوپھیر بدل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے مہینے اپنی اصل جگہ سے ہٹ گئےتھے اور ان میں التباس پید اہوگیا تھا وہ گھومتے گھومتے اپنی اصل جگہ پر آگئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے متعین ہیں اور ان میں چار محترم مہینے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے نام بھی بتادیئے ۔ اور پھر آپ ﷺ نے امت کو یہ نصیحت کی کہ جس طرح یہ مہینہ ، یہ شہر ، یہ دن محترم ہے اسی طرح تمہارے خون ، تمہاری جان اور تمہارے مال و اسباب ایک دوسرے کے لئے محترم ہیں ۔ تم آپس میں لڑکر ان کو ضائع نہ کرو۔اس وقت صحابۂ کرام کی ایک کثیر تعداد آپ ﷺ کے سامنے موجود تھی لیکن بہر حال سارے مسلمان موجود نہیں تھے اس لئے آپ ﷺ نے حاضرین کو ہدایت دی کہجن لوگوں نے میری بات سن لی ہے وہ ان لوگوں کو بھی یہ بات بتادیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں ۔ اس طرح آپ ﷺ نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے دیا کہ مسلمانوں کی عزت وآبرو، جان ومال ایک دوسرے کے لئے ویسے ہیں محترم ہیں جس طرح یہ چار مہینے اور اللہ کاشہر مکۃ المکرمہ و یوم النحر۔اس لیے مسلمانوں کو چاہئےکہ اپنے بھائیوں کی جان ومال کی ضیاع کی فکر کرنے کے بجائے ان کے حفاظت کی تدابیر کریں ۔
ان حرمت والے مہینوں کا احترام یہ ہے کہ ان میں عبادت کثرت سے کرنی چاہئے اس لئے کہ ان مہینوں کی حرمت کی وجہ سے عبادات کی فضیلت بڑھ جاتی ہے۔ان چار مہینوں میں سال کے مہینوں کی ترتیب کے اعتبار سے ذی الحجہ سال کاآخری مہینہ ہے ۔ دیگر مہینوں کی بہ نسبت اس کی فضیلت و عظمت کچھ زیادہ ہے ۔ وہ اس لئے کہ اس میں مہینے میں خاص طو ر دو عبادتیں ایسی ہوتی ہیں جو سال کے کسی مہینےمیں نہیں ہوتیں ۔ اور ان میں بھی اس مہینہ کے اول دس دن خاص فضیلت واہمیت کے حامل ہیں اس لئے کہ وہ دنوں عبادتیں انہی دس دنوں میں انجام پاتی ہیں۔ ان میں سے ایک حج جو نویں ذی الحجہ کوادا ہوتاہے اور دوسری قربانی جو دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو ہوتی ہے ۔ یہ دونوں عبادتیں ایسی ہیں کہ ان مخصوص ایام کے علاوہ اور کسی دن ادا کرنا چاہیں تو نہیں ہوسکتیں ۔ ہاں حج کے علاوہ عمرہ سال میں کسی دن بھی کیا جاسکتاہے اور قربانی کی دوسری صورتیں جیسے عقیقہ اور نذر یا صدقہ خیرات کی نیت سے ہوسکتی ہیں۔ اسی وجہ سے ماہ ذی الحجہ کی فضیلت دیگر مہینوں کی بہ نسبت بڑھ جاتی ہے۔
عشرۂ ذی الحجہ
سورہ فجر کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ کسی چیز کی قسم کھانا درحقیقت اس کی عظمت کا اظہار ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کسی چیز کوثابت کرنے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کی قسم کھاتے ہیں اس کامطلب ہے کہ وہ چیز اللہ کی نظر میں نہایت عظیم ہے۔ ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں ۔ جو ابتدا میں ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ ان دس دنوں میں ہیں مخصوص عبادات اد اکی جاتی ہیں۔ ان دس دنوں میں جوبھی عبادت کی جائے ان کے مقابلےمیں سال کے دوسرے دنوں کی عبادتوں سے افضل ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:” مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ، قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ، قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ”.(صحيح البخاري۔كِتَاب الْعِيدَيْنِ. بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔ حدیث نمبر٩٦٩ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ، مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ”.(مسند احمد حدیث نمبر ٥٤٤٦ )
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دونوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔“
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تہلیل یعنی لاالہ الااللہ ، تحمید یعنی سبحان اللہ، الحمد للہ اور تکبیر یعنی اللہ اکبر کا کثرت سے ورد کرنے کی تلقین فرمائی ہے اس لئے چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے اللہ کی بڑائی بیان کرتے رہنا چاہئے اور اپنی زبان کو سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر سے تر رکھنا چاہئے ۔ یہ نہایت ہی آسان ہے اور ہر شخص کے لئے ممکن بھی ہے ۔ آدمی ذراسی کوشش کرے تو ایک بہت بڑی فضیلت کو حاصل کرسکتاہے۔
رسول اللہ کی طرف سے کسی خاص عبادت پر زور نہیں دیا گیا ہے محض عبادات کی فضیلت آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اس لئے جو بھی بن پڑے اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔جیسے روزےرکھنا، صدقہ خیرات کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری کرنا،نفل نمازوں کااہتمام کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا،ذکر واذکار کرنا وغیرہ وغیرہ جو بھی توفیق ہو سکے وہ کرناچاہئے اور اپنے نامۂ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرنا چاہئے ۔کچھ خاص احکام بھی ہیں جو ذی الحجہ کا چاند نکلے کے بعد ہی ہمارے لئے دیئے گئے ہیں ۔ ان کا ذکر ذیل میں کیا جاتاہے ۔
بال اور ناخن کانہ کاٹنا
ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوتےہی سب سے پہلا حکم جو ہماری طرف متوجہ ہوتاہے وہ یہ کہ جو شخص قربانی کاارادہ رکھتا ہو وہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کے دن تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کاواضح ارشاد موجود ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا :إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا(صحیح مسلم ۔كِتَاب الْأَضَاحِيِّ۔حدیث نمبر ٥١١٧ )”جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔“اس لئے جو لوگ قربانی کاارادہ رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ اگر بالوں اور ناخنوں کوکاٹنے کی ضرورت ہے تو ذی الحجہ کا چاند نکلنے سے ایک دو دن پہلے ہی اپنے بال اور ناخن کاٹ لیں اور جب چاند ہوجائے تو جب تک وہ اپنی قربانی نہ کرلیں بالوں اور ناخنوں کونہ کاٹیں ۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہے :” إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ “.(صحیح مسلم ۔كِتَاب الْأَضَاحِيِّ۔حدیث نمبر ٥١١٩ )”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو (نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے۔“ان احادیث کی بناء پر قربانی کرنے والے کے لئے قربانی سے پہلے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹنا مستحب ہے ۔ اگر کسی نے ان دنوں میں اپنے بال اور ناخن کاٹ لیے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے بلکہ توبہ استغفار کرے ۔اس کی قربانی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگی ۔
عشرہ ذی الحجہ میں روزوں کی فضیلت
اوپر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں کی عبادت باقی ایام کی عبادت کی بہ نسبت بہت زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کے سوال پر جہاد سے بھی افضل بتایا ہے اس لئے ان دنوں میں جو بھی عبادت کی جائے وہ فضیلت کی حامل ہوگی ۔ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس کی فضیلت عام عبادات کی بہ نسبت ویسے ہی بڑھی ہوئی ہےلیکن ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزہ کی فضیلت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن کے روزہ کو ایک سال کے روزہ کے برابر قرار دیاہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر.”(بیہقی فی شعب الایمان ۔جزئ الخامس ص311 حدیث نمبر٣٤٨٠ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔
اللہ تعالیٰ اس امت کو خاص طور سے نوازنا چاہتے ہیں اس لئے مختلف مواقع پر عبادات کااجر کئی کئی گنا بڑھاکر عطا فرماتے ہیں ۔ جیسے لیلۃ القدر کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ رمضان میں ایک فرض کوستر فرض کے برابر شمار کرتے ہیں ۔ اسی طرح عشرہ ذی الحجہ کے روزے ایک سال کے روزوں کے برابر ثواب رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نوازش ہے اور ہمارے لئے موقع ہے اس لئے اس موقع کوغنیمت جان کر اپنے نامۂ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرنا چاہئے ۔
یوم عرفہ کاروزہ
یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ ایک خاص دن ہے اسی دن حج اداکیا جاتاہے جو سال میں کسی اور دن ادا نہیں کیا جاسکتاہے اس لئے اس دن کی فضیلت عام دنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس دن کی عبادت عشرہ ٔ ذی الحجہ کے بھی عام دنوں سے افضل ہے ۔ اس دن کاروزو رسول اللہ ﷺ نے خود بھی رکھا ہے اور اپنی امت کو بھی اس دن کے روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، (صحیح مسلم ۔کتاب الصیام ۔حدیث نمبر٢٧٤٦ )”اور عرفہ کے دن کا روزہ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔“
اس حدیث کی بناء پر محض ایک دن یوم عرفہ کاروزہ اگلےپچھلے دوسالوں کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا۔اس سے بہتر اور اس سے بڑا موقع اور کیا ملے گا ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ اس دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو بخشوانے کی کوشش کریں۔
ایام تشریق
نویں ذی الحجہ یعنی یوم عرفہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیر تشریق کہا جاتاہے ۔ نویں ذی الحجہ کا ایک مستقل نام یوم عرفہ ہے اس لئے ایام تشریق دسویں ، گیارہویں ، بارہویں اور تیرھویں تاریخ کو کہا جاتاہے اگر چہ تکبیرات یوم عرفہ کی فجر سے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔اس لئے گنتی کے اعتبار سے یوم عرفہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ کل پانچ دن بنتے ہیں جنہیں ایام تشریق کہاجاتاہے ۔اس طرح کل تئیس وقت کی نمازوں کے بعد تکبیر تشریق کہی جاتی ہے۔احادیث میں ان دنوں تکبیر تشریق کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ تکبیرات مردوں کو بلند آواز سے اور عورتوں کو آہستہ آواز سے پڑھنا واجب ہے ۔ ان کو چھوڑنے والاگنہ گار ہوگا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ۔سورہ بقرہ آیت ۲۰۳) ”اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو۔“یہ چندایام ایام ِ تشریق ہیں جن میں اللہ کاذکر کرناہے اور اس ذکر کا ایک طریقہ تکبیر تشریق کاپڑھنا بھی ہے ۔رسول اللہ ﷺ یوم عرفہ کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد یہ تکبیرات کہاکرتے تھے ایک روایت میں ہے ۔وَكَانَ يُكَبِّرُ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ صَلَاةَ الْغَدَاةِ ، وَيَقْطَعُهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ .(المستدرک للحاکم ۔كتاب صلاة العيدين حدیث نمبر١١٥٢ )” آپ ﷺ یوم عرفہ کی فجر سے تکبیرات شروع فرماتے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر پر ختم فرماتے تھے ۔
قربانی
ذی الحجہ کی دسویں ، گیارہوں اور بارہویں تاریخ ایام نحر کہلاتے ہیں اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے یہاں قربانی سے زیادہ کوئی بھی عمل پسندیدہ نہیں ہے ۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ , أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ , إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا , وَأَشْعَارِهَا , وَأَظْلَافِهَا , وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ , فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا “(سنن الترمذی ۔كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الأُضْحِيَةِ۔حدیث ١٤٩٣ )
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
اسی لئے پوری دنیا کے مسلمان ان دنوں میں اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانی پیش کرکےاس جذبے کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارےمال ، ہماری جان اور ہمارا سب کچھ اللہ کی رضا کے لئے وقف ہے اور جس وقت بھی اللہ کاحکم آئے گا ہم اپنا سب کچھ اس کی رضا کے لئے قربان کرنے کوتیار ہے ہیں۔ یہ قربانی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ابتداء سے ہی اس کاسلسلہ جاری ہے نوعیتیں اور صورتیں بدلتی رہی ہیں لیکن قربانی کی روح وہی ہے جو ابتداء میں تھی ۔کہ اللہ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینا۔اس قربانی پر اللہ تعالیٰ بے حساب اجرو ثواب مرتب فرماتے ہیں ۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے قربانی کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا :
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟، قَالَ:” سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ”، قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:” بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ”، قَالُوا: فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:” بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ”.(سنن ابن ماجہ ۔كِتَابُ الْأَضَاحِي۔ بَابُ: ثَوَابِ الأُضْحِيَّةِ۔حدیث نمبر٣١٢٧ )
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے“، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی“ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے“۔
ان تمام اعمال وعبادات کی بنیاد پر ذی الحجہ کامہینہ اور خاص طور سے عشرۂ ذی الحجہ خصوصی اہمیت وفضیلت کاحامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی فضیلت اور برکات و انوار سے محروم نہ فرمائے ۔ آمین