تعلیمی بیداری وقت کی اہم ضرورت
محمد آصف اقبال قاسمیؔ
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ(ابن ماجہ ٢٢٤ )
دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ان سب کے مقابلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرف و تکریم سے نوازااور اسے مخلوقات میں سب سے اونچا مقام عطاکیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے خالق کائنات نے اس کے اندروہ صلاحیت ودیعت فرمائی ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں ہے ۔ وہ قیمتی دولت جو حضرت انسان کی شرف و تکریم کا سبب بنی وہ علم ہے یہی وہ زیورہے جس سے انسانیت کو سجایا سنوارا گیا۔ظاہر ہے یہ زیور صرف انسان کو عطاکیا گیااور وہی اس کے فضیلت کی بنیاد بھی ہے۔اگر اس کو منطقی انداز سے دیکھا جائے تو اس کا پہلا کلیہ اس طرح ہوگا کہ علم انسان اوردیگر مخلوقات میں وجہ امتیاز ہے اور دوسر اکلیہ ہوگاکہ جس کے پاس علم نہیں وہ انسان نہیں۔ان دونوں کلیات کو ملانے کے بعد یہ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بے علم شخص انسان نہیں۔اس لئے اس شرف انسانیت کو برقرار او رجاری رکھنے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے محسن انسانیت کو اس دنیامیں مبعوث فرمایا تو سب سے پہلا جو پیغام دیاگیا وہ علم، تعلیم اور پڑھنے پڑھانے سے متعلق ہے۔ اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ یعنی پڑھو اللہ کے نام سے جس نے پید ا کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم انسانیت کی بنیادی ضرورت اور صفت کمالی ہے ۔ حضرت آدم کو فرشتوں پرفوقیت کی بنیاد بھی علم ہی ہے ۔
آج کے اس سائنٹفک دور میں جب کہ علم کا دور دورہ ہے اور وہی شخص قابل التفات ا ور لائق توجہ ہوتا ہے جو علم کی دولت سے مالا مال ہے۔جس کے پاس علمی لیاقت ،قابلیت او رصلاحیت موجود ہے وہ معاشرے میں اونچا مقام، اعلیٰ رتبہ اورعزت و تکریم سے نوازا جاتاہے اور جو اس سے بے بہرہ ہو دنیا اس کو لائق توجہ اور قابل التفات نہیس سمجھتی ۔
پوری دنیا میں عموما ًاور ہمارے ہندوستان میں خصوصا مسلمان تعلیمی اعتبا ر سے نہایت پسماندہ ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے وجود کو منوانے میں فیل ہوتے جارہے ہیں مٹھی بھر تعلیم یافتہ افراد جو پوری ملت کی رہنمائی کابوجھ اٹھارہے ہیں جو ان کی قوت ،بساط اوردست امکان سے باہر ہے ۔اس ملک میں عزت و عظمت کا مقام حاصل کرنے کے لئے اہل علم کی جومعتبر تعداد چاہئے امت مسلمہ اس کے ایک چوتھائی حصہ کوبھی پورے کرنے سے قاصرہے۔تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دین اور دنیا دونوں طرح کے نقصانات سے اس امت کو سامناہے ۔
ہندوستان میں امت مسلمہ کاایک بڑا طبقہ ایسا ہے جوغربت ،جہالت اور تعلیم کی اہمیت سے نابلدہونے کی وجہ سے تعلیم سے کافی دور ہے ۔ ایسے بچوں کی ایک کثیر تعدادہے جو نہ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اورنہ کسی اسکول میں ۔ جب کہ ہندوستان میں مدارس کاایک جال بچھاہواہے اور ہر جگہ مدارس ومکاتیب موجود ہیں جو اگرچہ امت کی مجموعی ضرورت کے لئے ناکافی ہیں لیکن پھر بھی اپنی بساط بھر امت کے نونہالوں کے لئے مفت تعلیم بہم پہونچانے کے لئے کوشاں ہیں۔اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم کاانتظام ہے ۔ بلکہ آج کل تو اسکولوں میں کتابیں بھی سرکار کی طرف سے ملتی ہیں اور دوپہر کا کھانا بھی مفت ملتاہے ۔نیز بچوں کے ڈریس اور دیگر لوازمات کے لئے سرکار کی طرف سے کچھ رقم بھی ملتی ہے۔لیکن ان سب کے باوجود ہمارے معاشرے کے بچوں کی ایک معتد بہ تعداد تعلیم سے بہت دور ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ۔ غربت کے باعث ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے جگر گوشوں کو جن کی عمر ابھی پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے کچھ نہ کچھ معاشی کام میں لگادیتے ہیں ۔چاہے وہ جس طرح کاکام ہو۔بکریاں چرانا ،لکڑیاں جمع کرنا،ہوٹلوں میں کام کرنا،کوڑوں پر سے پلاسٹک کی بوتلیں یا دیگر اشیاء کو جمع کرنایاکوئی ہلکی پھلکی دستکاری سیکھ کر کام پر لگ جاناوغیرہ وغیرہ ۔ ہماری آبادی کابہت بڑا حصہ ہے جو ان طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جو غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارہے ہیں ۔یہ ہمارے سماج اور معاشرہ کے ایک عضو ہیں اور ظاہرہے ان کی اصلاح اورترقی کے بغیرمستقبل میں ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی اجتماعی قوت نہیں بن سکتی۔اجتماعی ترقی اور اجتماعی قوت کے لئے ملت کے ایک ایک فرد کو ساتھ لے کرچلنا ہوگا اور اس کے لئے ہمیں ملت کے ایک ایک گھر میں علم کاچراغ جلانا ہوگا۔ تب ہی جاکر مجموعی طور پر ملت کی ارتقائی منز ل آسان ہوسکتی ہے ورنہ یہ عضو معطل ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے گا۔اب ہمارے لئے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ یہ بچے کس طرح زیور تعلیم سے آراستہ ہوجائیں اور ان کے اولیا و سرپرست حضرات انہیں چھوٹی موٹی کمائی کو چھڑا کرکس طرح انہیں تعلیم دینے پر آمادہ وتیار ہوجائیں ۔چند تجاویزمیرے ذہن میں ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ مرحلہ ہمارے لئے آسان ہوجائے۔
پہلی تجویز: علماء، ائمہ مساجد اور خطباء ومقررین اپنی تقریروں اور اپنی مجالس میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پرزور دیں اور قوم کو یہ بتائیں موجودہ صورت حال میں ہماری زبوں حالی اور پریشانی کاواحد حل تعلیم ہے ۔ اس لئے کے تعلیم کے ذریعہ ہی قوموں کی سوچ وفکر میں بلندی پید اہوتی ہے ۔قوموں کے حالات بگاڑنے اور بنانے میں تعلیم کوبہت بڑا دخل ہے۔ایک دور تھا کہ دنیا کی تمام اقوام نے مسلمانوں کو ہر میدان میں اپنا رہبر تسلیم کیا اور دنیا کے ہر شعبہ میں مسلمانوں نے اپنی نمایا کارکردگی دکھائی۔وقت کے تقاضوں کو پوراکرنے کے لئے حسب موقع ایجادات کئے لیکن جب یہ روایت ختم ہوگئی اور قوم مسلم نے رہبری چھوڑکر شاگردی اختیار کرلی تو نتیجہ یہ ہوا کہ دیگر اقوام جو مسلمانوں کے کے دست نگر تھیں آج ثریا ان کا مقام ہے اور زمین و آسمان کی بلندیاں ان کے پیروں تلے ہیں۔
دوسری تجویز:امت کے وہ متمول حضرات جن کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہے وہ آگے آئیں اور ایسے بچوں کی کفالت کریں جو تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ،یا وہ بچے گھر میں ماں باپ کے کے معذور ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ایسے بچوں کی ان کے کنبے کے ساتھ کفالت کی ذمہ داری اٹھائیں اور ان کے لئے ایسے نظام الاوقات بنائیں کہ وہ گھر کی ضروریات کو پوری کرنے کے ساتھ علم بھی حاصل کرسکیں تاکہ ان کی معیار زندگی میں تبدیلی آئے اور وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں ۔
تیسری تجویز:ہمارے درمیان بہت سارے ایسے افراد موجود ہیں جو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوکر فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کے اندر صلاحیت ، قابلیت سب کچھ موجود ہے او رانہیں معاشی اور عائلی اعتبار سے فراغت بھی حاصل ہے۔ایسے افراد کو تیار کیا جائے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ایسے نادار بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرکے ان نونہالوں کوقومی دھارے میں کھڑے ہونے کے لائق بنائیں ۔ اس کا اجر ان شاء اللہ انہیں آخرت میں ملے گا اور دنیامیں بھی انہیں عزت عظمت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔
چوتھی تجویز: ہمارے درمیان بہت سارے ایسے ادارے موجود ہیں جو ملت کے دکھ درد کومحسوس کرتے ہیں اور اس ملت کی تعمیر و ترقی کے کوشاں ہیں، ان کے پاس جذبہ اور حوصلہ موجود ہے لیکن وسائل کی قلت اور ماحول کی ناسازگاری کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں پورے نہیں اترتے اوراپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے ہدف کوپورا نہیں کرسکتے ۔ ان کا تعاون اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے ہمارے دانشور طبقہ میں ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو ان اداروں کاجائزہ لے اور وہاں موجود تعلیمی وسائل کو بروئے کار لانے کی تدابیر اختیار کرنے میں ادارے کے لئے ممد ومعاون ہو۔اس کے لئے دونوں طرف اخلاص کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ایک تو ادارہ کے ذمہ داران اپنے ذہن و دل کو کشادہ رکھیں اور اس کواپنی ملکیت نہ سمجھ کر قومی ادارہ سمجھیں اور اس کے ذریعہ قوم کی فلاح وبہبود کے لئے جوبھی ممکن کاروائی ہو اس سے پیچھے نہ ہٹیں اور اگر کوئی لائق مشورہ ہو تو اس پر عمل کرنے کی اپنی بساط بھر کوشش کریں۔دوسری طرف جو جماعت تیا رکی جائے وہ ادارہ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کر کے محض قومی جذبہ کے ساتھ ان کاتعاون کریں دیگر افراد کو ادارہ کی طرف توجہ دلاکر قوم کی اصلاح کی فکر کریں اور ادارہ کے لئے سہار ا بنیں۔ اس کے علاوہ اس جماعت کایہ کام بھی ہونا چاہئے کہ وہ سرکاری ،نیم سرکاری اداروں میں جاکر وہاں کے منتظمین سے ملاقاتیں کریں اور انہیں اس بات کے لئے تیار کریں کہ وہ پسماندہ طبقات کے لئے خصوصی انتظامات کریں اور ضرورت ہو تو سرکاری طور پر دباؤ بنانے کی کوشش کریں کہ ان گرے پڑے لوگوں کے لئے سازگار ماحول تیار کیا جائے تاکہ وہ بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر قوم وملت تعمیر میں حصہ لے سکیں۔
پانچویں تجویز: ہمارے یہاں تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاتاہے ایک دینی تعلیم اور دوسرا دنیاوی تعلیم اور عموما دونوں ایک دوسرے کے قریب نہیں جاتے ۔دینی مدارس کاحال یہ ہے کہ وہاں سے فارغ شدہ طلبا ء جب میدان عمل میں آتے ہیں تو بہت سارے ایسے کام ہیں جن میں وہ دوسروں کے مدد محتاج ہوتے ہیں اور عصری یادنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ جب اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر آتے ہیں تو وہ دین سے نابلد ہوتے ہیں۔جب کہ ہر دوافراد کے لئے دونوں چیزیں لازمی ہیں۔ایک دین کاطالب علم دنیاوی ضروریات سے لا تعلق نہیں ہوسکتازندگی گزارنے کے اسباب اور ان کا علم اس کے لئے ضروری ہے۔اور عصری علوم کاحاصل کرنے والا دینی تعلیم سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے لئے دین کااتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ اپنے ذمہ عائد فرائض کو بخوبی اداکرسکے ورنہ اس کی زندگی ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہ ہوگی ۔ اس لئے جو بچے دینی تعلیم کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں ان کو بھی یہ لازم ہے کہ عصری علوم کاوہ حصہ ضرور حاصل کریں جو ان کو زمانہ کے ساتھ چلنے کے قابل بنائے اور عصری علوم کے حاصل کرنے والوں کے ذمہ یہ لازم ہے کہ وہ علوم ضرور حاصل کریں جو ان کی زندگی کودینی ،اسلامی اور رضاء الہی کے راستے پر گامزن کرے۔اس کے لئے ہمارے اداروں کے نصاب تعلیم اور ان کے طریقہ تعلیم کو صالح بنانے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کل نت نئے فتنے رونما ہو رہے ہیں اور دینی مزاج رکھنے والے ہمارے بچے جو عصری علوم کو حاصل کرنے میں محو ہیں دین کے نام پر بہت ساری ایسی چیزوں کو اپنی زندگی میں داخل کرلیتے ہیں جوانہیں اسلام سے قریب نہیں بلکہ اسلام سے خارج کردیتاہے ۔ جیسے آج کے دور میں فتنہ مرزائیت اور شکیلیت یہ ایسے فتنے ہیں جنہوں نے دین کا لبادہ اپنے اور پر ڈال رکھا ہے اور ہمارے ایسے نوجوان جو دینی تعلیم سے بے بہر ہ ہیں لیکن دینی مزاج کے حامل ہیں او رخیر کی تلاش میں رہتے ہیں ایسے نواجوان ان فتنوں کے شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی عاقبت برباد کرلیتے ہیں۔آج کل انٹرنیٹ کادور ہے جہاں ہر طرح کی چیزیں موجود ہیں اور ہر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل موجود ہے ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں جب کوئی سوال پید اہوتا ہے تو وہ اس کا جواب انٹرنیٹ پر تلاش کرنا آسان نسخہ سمجھتے ہیں باطل طاقتوں نے قرآن وحدیث کے معانی میں ترمیم کرکے ،تاریخی حقائق میں تبدیلی کرکے انٹرنیٹ پر رطب و یابس کو ایک ساتھ جمع کردیا ہے اور نوجوان نسل جن کے پاس صحیح دینی شعور نہیں ہے وہ بڑی آسانی سے اس کاشکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بنیادی طور پر ضروری ہے کہ بچوں کو عقائد اور اسلامیات کی تعلیم باصلاحیت اساتذہ کی نگرانی میں دی جائے تاکہ وہ کسی فتنہ کاشکار ہونے سے بچ سکیں۔ماضی قریب اور زمانہ حال میں نئی نسل کی ایک کثیر تعدافتنہ ٔ مرزائیت اور فتنہ شکیلیت کاشکار ہوکر اپنے دین وایمان سے رشتہ توڑ چکی ہے اور وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ ہم نے اپنی عاقبت کو سنوار لیا ہے جوامت کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
دوسرے درجے میں ہمارا متوسط طبقہ ہے جس کی رہنمائی بھی نہایت ضروری ہے کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اس طبقے کاکردار بہت اہم ہوتاہے ۔کیونکہ اس طبقہ میں ترقی کی فطری خواہش کے علاوہ جد و جہد کرنے کاحوصلہ بھی ہوتا ہے نیز ان کے پا س تھوڑے وسائل بھی ہوتے ہیں۔یہاں مسئلہ کفالت کانہیں ہے بلکہ معیاری تعلیمی اداروں کاہے جہاں وہ اپنے وسائل کے ساتھ پہنچ سکیں ۔تبدیلی کی لہر چونکہ یہیں سے اٹھتی ہے ۔اس لئے تمام تر اجتماعی وسائل کارخ اس کی طرف ہوناچاہئے۔ یہاں تعلیم کمیت کے اعتبار سے نہیں کیفیت کے اعتبار سے معیاری اوربہتر ہونی چاہئے ۔ اس طبقہ کا رجحان تعلیم کی طرف ہوتاہے اوراپنی بساط بھر وہ اس کے لئے کوشاں بھی رہتے ہیں لیکن ضرورت ہے کہ ان کی کوششوں کوصحیح رخ دیا جائے تاکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ ملک وقوم کے فلاح وکامیابی کاذریعہ بن سکیں۔ ان کے اندر دینی حمیت ، ملی جذبہ اور اسلامی بیداری پیداکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قدرتی وسائل کااستعمال کرکے ملت کی تعمیرو ترقی کاحصہ بن سکیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے): ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے‘‘۔ابوداؤد
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حکمت اور دانائی کی بات کو مومن کی گمشدہ پونچی بتایا ہے وہ اسے جہاں سے بھی ملے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسلام نے علم نافع پر زور دیا ہے ۔ علم کی دو ہی قسمیں کی گئی ہیں ‘‘علم نافع’’ اور ‘‘علم غیرنافع’’ جو علم انسانیت کے لیے مفید اور کارآمد ہو وہ ‘‘علم نافع’’ ہے اور جو علم انسانیت کے لئے نافع ہونے کے بجائے نقصان رساں ہو اور تعمیر کے بجائے تخریب کی طرف لے جاتا ہو وہ ‘‘علم غیر نافع’’ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم نافع کی دعا مانگی ہے اورعلم غیرنافع سے پناہ چاہی ہے۔
میڈیکل تعلیم ہو، انجینئرنگ کا فن ہو یا تکنیکی تعلیم کے دوسرے شعبے ہوں، یہ سب انسانی خدمت اور انسانیت کی فلاح وبہود کے ذرائع ہیں اور یقینا یہ علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں، ان کا حاصل کرنا قابل تعریف ہے نہ کہ لائق مذمت، اسی لیے امام شافعیؒ سے منقول ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں، ایک علم فقہ تاکہ آدمی زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھے، دوسرے فن طبابت تاکہ جسم انسانی کی بابت معلومات حاصل ہوسکے: ‘‘اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: عِلْمُ الْفِقہِ لِلْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الطِّبِّ لِلْاَبْدَانِ۔
اسلام نہ کسی علم کا مخالف ہے اور نہ کسی زبان کا، قرآن مجید نے کتنے ہی ایسے حقائق پر روشنی ڈالی ہے جن کا تعلق فلکیات، طبعیات، نباتات اور حیوانات کے علوم سے ہے، خود انسان کی اندرونی جسمانی کیفیات، اس کی مرحلہ وار پیدائش اور اس کی نفسیات کا بھی بار بار تذکرہ کیا گیا ہے، گزشتہ اقوام کے قصص وواقعات ذکر کیے گئے ہیں، ان کی آبادی اور ان پر ہونے والے عذاب خداوندی کے محل وقوع کی طرف اشارے کیے گئے ہیں اور پھر ان تمام چیزوں میں غور وفکر اور تدبر کی دعوت دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ تدبر ان علوم کی تحصیل کے بغیر کیوں کر ممکن ہوگا، اوران کو حاصل کیے بغیر کیسے ان میں تفکر کا حق ادا کیا جاسکتا ہے؟
لہذاان علوم کو حاصل کرنا جن سے کائنات کے اسرار ورموز کو جانا جاسکے، قرآن مجید کا عین مطلوب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں دوسری اقوام سے جو جدید تکنیک حاصل ہوسکتی تھی، اس میں کسی بخل سے کام نہیں لیا اور اس کو کبھی تقاضۂ دین کے منافی تصور نہیں فرمایا۔ مدینہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے اوراسلام سے پہلے کھجور کے نر اور مادہ درخت میں اختلاط کی ایک خاص صورت اختیار کرتے تھے، جس کو ‘‘تابیر’’ کہا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً اسے بے فائدہ اور فضول عمل تصور کرتے ہوئے اس سے منع فرمادیا؛ لیکن جب اس سال پیداوار کم ہوئی اور لوگوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ عیلہ وسلم نے اپنی رائے پر اصرار نہیں فرمایا اور آئندہ ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ’’ تم اپنے دنیا کے اْمور کے بارے میں زیادہ واقف ہو ‘‘
آج کے دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی جواہمیت ہے اس سے کوئی ہوش وخرد رکھنے والا انسان انکار نہیں کرسکتاہے اور قوموں کے عروج زوال میں اس کا ایک خاطر خواہ حصہ ہے اس لئے ہمارے نوجوان نسل کو اس میدان میں بھی آنے کی ضرورت ہے ۔قوم کو جہاں ایک اچھے عالم ، فقیہ، مفتی اور خطیب کی ضرورت ہے وہیں ایک اچھے وکیل ، سائنس داں ،ڈاکٹر ، انجینر اور دیگر علوم کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔
اس لئے دانشواران قوم اور ہمدردان ملت کواس طرف خاص طور سے توجہ وقت کاعین تقاضا ہے اس لئے کہ یہی وہ شاہ کلید ہے جس سے عزت وقوت کے دروازے پر لگاتالہ کھولا جاسکتاہے۔
محمد آصف اقبال قاسمی
امام مسجد زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور
رابطہ: 9031291896