قومی خزانہ انتخابی ہتھیار نہیں
تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
جیسے جیسے بہار کا الیکشن قریب آرہاہے مختلف پارٹیوں کی طرف سے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے نت نئے طریقے آزمائے جارہےہیں۔ اس سے پہلے جو الیکشن ہواکرتاتھا اس میں حقوق، عدل وانصاف اور مساوات کی بات کی جاتی تھی۔ لیکن گذشتہ چند سالوں سے یہ رجحان فروغ پارہاہےکہ ساری پارٹیاں ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے طرح طرح کی خصوصی رعایات کا اعلان کرتی ہیں۔ پارٹی کی طرف سے جتنے اعلانات اور وعدے کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک دو برائے نام پورے کئے جاتے ہیں اور باقی کو اگلے الیکشن کے لئے چھوڑ دیا جاتاہے۔
ماہ رواں حکومت بہار کی طرف سے کئی طرح کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ اور چونکہ حکومت وقت کے ہاتھ میں ابھی سارا خزانہ ہے اس لئے ان میں سے بعض پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیاہے۔جیسے مہینےمیں دوبار فری راشن کاملنا گذشتہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔اسی طرح 125 یونٹ بجلی فری ہونا بھی امید ہےکہ ماہ اگست سے لاگو ہوجائے گا۔ عمررسیدہ لوگوں کےپینشن میں اضافہ اور اسی طرح کے بہت سارے اعلانات حکومت کی طرف سے کئے گئےہیں۔امید ہے کہ ان پر عمل درآمد بھی ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اعلانات صرف الیکشن کے موقع سے ہی کیوں ہورہےہیں ۔ کیا اس سے پہلے جب سرکار بنی تھی اس وقت ان چیزوں پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا۔جواب یہ ہےکہ بالکل کیا جاسکتاتھالیکن اس وقت عمل کرنے سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور عوام اس کو اپنا حق سمجھ کر وصول تو کرتی لیکن اس کابدل ووٹ کی صورت میں نہیں ملتا۔ اب جبکہ الیکشن قریب ہےتویہ رعایات براہ راست الیکشن میں پارٹی کو جیت دلانے کا سبب بنیں گی ۔
ہماری عوام بھی نہایت بھولی بھالی ہے ۔ پورا جسم زخم آلود ہونے کے باوجود اس کو جب زبان کے چٹخارے کی چیز مل جاتی ہے تو تو اپنا سارادرد بھلاکر اس چٹخارے میں اتنامحو ہوجاتی ہےکہ شکاری اپنا کام کرجاتاہے۔ اور پھر جب ہوش آتاہے تو پتہ چلتاہے کہ ہم تو جال میں پھنس چکے ۔اس کی مثال خارش زدہ جسم کی طرح ہے کہ پورا جسم اس کی جلن کو محسوس کرتاہے جب خارش ہوتی ہے تو اس کو کھجانے میں جولطف ملتاہے اس کا کوئی جواب نہیں لیکن جب کجھانے کے بعد جلن اٹھتی ہے تو وہ ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن اب کیا کیا جاسکتاہے اس دردرکو جھیلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح الیکشن کے موقع پر پارٹیا ں ایسے ایسے اعلانات کرتی ہیں جنہہیں سن کر بہت اچھالگتاہے لیکن الیکشن کے بعد پتہ چلتاہے کہ یہ تو دھوکہ تھا۔لیکن اب پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب کہ چڑیا کھیت چگ جاتی ہے۔برسر اقتدار پارٹیاں صرف وعدے نہیں کرتیں بلکہ الیکشن کے موقع سے ان پر عمل بھی کرجاتی ہیں لیکن انتخاب جیتنے کے بعد وہ سب چیزیں پس پشت چلی جاتی ہیں۔اور پانچ سال کے لئے عوام کف افسوس ملتی رہ جاتی ہے۔
سرکاری خزانہ قومی وملی سرمایہ ہے ۔اور اس کو قوم وملت کے افادہ کےلئے ہی خرچ کیا جاسکتاہے۔جو سرکار بن کر آتی ہے اس کا کام ہے کہ اپنی وسعت کے بقدر قومی خزانے سے عوا م کےلئے سہولیتیں مہیا کرے ۔طبی سہولتوں کی فراہمی ، تعلیمی میدان میں بہتری پیداکرنا ، آمد ورفت کی سہولتیں فراہم کرنا ، ضعیف و نادار لوگوں کوبھتہ دیناوغیرہ یہ سب ایسے کام ہیں جنہیں حکومتوں کو ہرحا ل میں کرنا چاہئے لیکن صورت حال یہ ہے کہ پورے پانچ سال سرکاریں عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیستی ہیں اور ان خون نچوڑ کر خزانہ کو بھرتی ہیں اور جب الیکشن کاموقع آتاہے تو اسی میں سے کچھ خرچ کرکے پھر دوبارہ اقتدار میں آجاتی ہیں۔
قومی خزانہ کا منھ صرف الیکشن کے موقع پرکھولنا اور اس کواپنے مفاد کےلئے استعمال کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ سرکاروں کو اس کاغلط استعمال نہیں کرنا چاہئےاور عوام بھی اس کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار نہ چھوڑیں جو قومی اثاثہ کواپنے مفاد کےلئے استعمال کرتے ہیں۔
جو پارٹیاں حزب اختلاف میں ہیں ان کی طرف سے بھی اسی طرح کے اعلانات کیے جارہےہیں جن سے عوام کو رجھا کر اپنی طرف مائل کیا جاسکے ۔ ان کےہاتھ چونکہ خزانہ سے دور ہیں اس لئے وہ ابھی اس پر عمل درآمد نہیں کرسکتے اس لئے وہ صرف وعدہ کررہے ہیں۔ لیکن ان کی نظر بھی قومی خزانہ پر ہی ہے جب خزانہ ان کےہاتھ میں آئے گاتو اس میں سے ممکن ہے کچھ عوام کے لئے خرچ کردیں اور باقی کواگلےالیکشن کے لئے محفوظ کرلیں۔
آج دنیا ترقی کی راہیں طے کررہی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں صورت حال یہ ہےکہ ہماری آبادی کا اکثر حصہ روزگار کی تلاش میں ملک کے مختلف حصوں میں مارا مارا پھرتاہے ۔ ملک کا کون سا ایسا حصہ ہے یا کون سا ایسا میدا ن ہے جہاں نیچے سے لے کر اوپر تک بہاری کام نہیں کررہے ہیں ۔ اگر ہمارے یہاں بھی کارخانے ہوتے، فیکٹریاں ہوتیں تو یہ لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہ کر اپنی روزی حاصل کرتے ۔اس کی بات کوئی نہیں کرتاہے۔ تعلیم کےلئے بچے دوسرے صوبہ جات میں جاکر ہاسٹلوں میں رہتےہیں یا کرایے کے مکانات میں رہ کر مہنگی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کی بات تو کوئی نہیں کرتا۔
یہاں جملہ معترضہ کے طور پر میں ایک بات اور آپ کے گوش گذار کردوں کہ جس طرح عصری تعلیم کے لئے بہار کے طلبہ دوسرے صوبہ جات کا سفر کرتے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے ۔ اسی طرح دینی تعلیم کے لئے بھی طلبہ دوسرے صوبہ جات کےسفر کےلئے مجبور ہیں جبکہ ہمارے بہار میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ لیکن اعلیٰ اور معیاری تعلیم صرف چند مدارس میں ہی دی جاتی ہے جس کی وجہ تشنگان علوم نبوت بھی دوسرے صوبہ جات میں جاکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں مدارس کا زمام ہے۔ جو مدرسے کھولتےتو ہیں اورپورےملک سے مالیات کی حصولیابی بھی کرتےہیں لیکن تعلیم پر زور نہیں دیتے ، مدرسوں کی عمارتیں تو تعمیر کرتےہیں لیکن تعلیمی معیار کوبلند کرنے کی فکر نہیں کرتے ۔
غریب آدمی اپنی غریبی کی سطح سے روز بروز نیچے جارہا ہے اور امرا روز افزوں ترقی پر ہیں لیکن اس کی بات کوئی نہیں کرتا۔کتنی فیکٹریاں بند پڑی ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھاان کو چالو کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ سڑکوں پر گڈھے ایسے موجود ہیں جوبرسات کے موسم میں جان لیوا ثابت ہوتےہیں۔ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔بجلی کب غائب ہوجائے اور کتنی دیر غائب رہے اس کا خوف انسان کوہمیشہ رہتاہے اس میدان میں کام کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا۔آخر کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یہ سرکاریں تو اسی لئے بنائی جاتی ہیں کہ وہ عوامی مفاد میں کام کریں ۔ لیکن یہ سب وہی کام کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح انہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد گار ثابت ہو۔
مثل مشہور ہے کہ ” تو ڈال ڈال تو میں پات پات“ بہار کی عوام کو بھی یہی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ کہ وہ ایسے پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدارسونپیں جوان کے مستقل مسائل کاحل نکالنے کی کوشش کرے نہ کہ محض رجھانے والا عمل کرے۔آج کوئی فری راشن ، فری بجلی یا اور کسی چیز کی بات کرتاہے تویہ وقتی چیزیں ہیں ۔ان چیزوں کوالیکشن کا موضوع نہیں بنانا چاہئے بلکہ ایسے وعدے کرنے چاہئے جن روزگار کے مواقع بڑھیں ۔ بجلی ،پانی کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے مناسب لائحہ ٔ عمل پیش کیا جائے ، عدل وانصاف اور سماجی رواداری کی بات کی جائے ، مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔جو لوگ اس طرح کے وعدے کریں ہمیں ان کاساتھ دینا چاہئے ۔
یاد رکھیں فرقی پرستی کوہوا دے کر جو سرکار بنے گی وہ کبھی بھی ملک و قوم کے مفاد میں کام نہیں کرے گی ۔ اس لئے ووٹ دیتے وقت بہت سوچ سمجھ کر اپنی رائے کا استعمال کریں۔