ظلم ۔ ایک ناپسندیدہ عمل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ظلم عربی کا لفظ ہے اور اردو میں کثرت سے استعمال ہے، لغت میں ظلم کسی بات میں کمی یا زیادتی جو انصاف کے خلاف ہو، نا انصافی، قانونی زیادتی ، استحصال بالجبر کسی کی کوئی چیز زبردستی لے لینا، ستم ، جور و تعدی ، جفاء، غیر ضروری سختی کے معنی میں استعمال ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف صاف بیان کر دیا ہے کہ اللہ رب العزت ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور ہرگز یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ رب العزت بے خبر ہیں ظالموں کے ان اعمال سے جو وہ کرتے ہیں، اللہ رب العزت نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے، اس دن کے لئے جس دن ظالموں کی آنکھیں پتھرا جائیں گی (ابراہیم (42) تو ظالموں کی طرف مت جھکو (ہود: 113) بایں طور کہ ان کی طرف نرمی اور محبت کے ساتھ التفات ، کرنے لگو، نہ ان کی اطاعت کرو، نہ ان سے محبت کرو اور نہ ہی ان کے ظلم پر راضی رہو، کیوں کہ بقول شاعر
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے ( مظفر وارثی )
جو لوگ ظلم کرتے ہیں، جلد ہی ان کو معلوم ہو جائے گا کہ انہیں کسی جگہ لوٹ کر جانا ہے (الشعراء: 227) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں کا ہر آدمی نگراں ہے اور اس سے اس کی زیر نگرانی رہنے والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ، ان میں ایک یقیناً یہ ہوگا کہ تم نے ان کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں ، ان پر ظلم و ستم کی گرم بازاری تو نہیں کی اور اسے اس کے بقدر عذاب و ثواب ملے گا اور اس کے اوپر جو کم از کم عذاب ہو گا وہ یہ کہ اس کے اوپر تاریکیاں مسلط کر دی جائیں گی اور وہ ایمان والوں کی طرح اس نور سے محروم ہو جائے گا، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مؤمنوں کا نور اس دن ان کے آگے اور دائیں طرف دوڑتا ہوگا ( الحدید (12) ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ جو حاکم لوگوں کے درمیان انصاف نہیں کرتا ، غلط فیصلے کرتا ہے، قیامت کے دن قید کر دیا جائے گا ، فرشتے اس کو گردنیا دیتے ہوئے لائیں گے، پھر وہ اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھاۓ گا ،اللہ کا حکم ہوگا کہ اسے جہنم میں ڈال دو تو اس کو ایسے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو چالیس سال کی مسافت کے بقدر گہری ہے-( حدیث: 167) طبرانی نے اوسط میں ظالموں کے لیے ایک اور عذاب کاذکر کیا ہے جو حاکم اور والی مقرر کیا گیا وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے ہاتھ گردن سے باندھ دیے جائیں گے اور جب تک اللہ ، ظالم حاکم اور مظلوم ما تحت کے درمیان فیصلہ صادر نہیں کریں گے، اس وقت تک وہ اسی حال میں رہے گا ( الترغیب : 461/4 ، حدیث : 3196) حضرت معقل بن یسار کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو حاکم اپنے ماتحتوں کی نگرانی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبہ سے نہیں کرتا، وہ قیامت میں جنت کی خوشبو سے محروم ہو جائے گا (المسلم : 122/2) ابوداؤ دشریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مسلمانوں کا امیر بنایا ، پھر وہ ان کی ضرورتوں کا خیال نہیں کرتا تو وہ خود قیامت کے دن فقر وفاقہ کی حالت میں ہوگا ، ترمذی شریف میں حضرت کعب بن عجرہ کی یہ روایت موجود ہے، جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے حکام ہوں گے جو لوگوں پر ظلم کریں گے اور کچھ لوگ ان کے پاس جا کر جی حضوری اور خوش نودی کے لیے ان کی تائید کریں گے، ہاں میں ہاں ملائیں گے اور ان کے ظالمانہ معاملات کی حمایت کریں گے، ایسے لوگ مجھ میں سے نہیں ہوں گے، وہ میرے پاس حوض کوثر پر قیامت کے دن نہیں آسکیں گے، اس کے برعکس جو لوگ اس ظالم حاکم کی ہاں میں ہاں نہیں ملائیں گے، وہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں گے اور وہ ہم میں سے ہوں گے، ظالم و جابر بادشاہ اور دین میں غلو کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی نصیب نہیں ہوگی ۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے عدل و انصاف کو رواج دیا ظلم وستم سے بچتے رہے، ایسے بادشاہ کو قیامت کے دن جس دن کسی چیز کا سایہ نہیں ہوگا، عرش کے سایے میں جگہ دی جائے گی ( البخاری : 91/1) اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: “وَنُدْخِلُهُمْ ظِلا ظليلاً (النساء: 57) ہم انہیں ایسی گنجان اور سایہ دار جگہ میں رکھیں گے جہاں آفتاب کی دھوپ کا گذر نہیں ہوگا، قیامت کے دن امام عادل کا رتبہ لوگوں میں سب سے افضل ہوگا، اللہ رب العزت کی خاص رحمت اس پر ہوگی ، بخاری شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالی اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ نہیں کرتا (1097/2) شیطان مردود نے جن دس لوگوں کو اپنا دوست بتایا ہے اس میں ایک نمبر پر ظالم بادشاہ اور ظالم حکمراں کا نام ہے ( تنبیہ الغافلین ص : 480) ظلم کے باب میں ظالم اور مظلوم کے ساتھ ان لوگوں کا بھی احادیث میں ذکر آیا ہے جو ظلم ہوتے دیکھیں اور قدرت کے
با وجود ظالم کو نہ روکیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، ایک صاحب نے دریافت کیا کہ جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن ظالم کے مدد کی کیا شکل ہوگی ، ارشاد فرمایا: اس کی مدد یہ ہے کہ تم اس کو ظلم سے روک دو، ابن حبان کی روایت ہے کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ میں ظالموں سے دنیا و آخرت میں ضرور بدلہ لوں گا اور اس شخص سے بھی جو کسی مظلوم کی مدد اور نصرت کی صلاحیت رکھنے کے باوجود مظلوم کی مدد نہ کرے ۔
احادیث میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ اس کی بد دعا آسمان کی طرف چنگاری کی طرح اڑ کر پہونچ جاتی ہے اور اس کے درمیان کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہوتا، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اسے چاہیے کہ اپنے بھائی پر نہ تو ظلم کرے اور نہ ہی اسے رسوا کرے ظلم اس قدر خراب چیز ہے کہ اللہ رب العزت مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک اس کا حق نہ ادا کر دیا جائے ، اللہ رب العزت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرے گا : ” وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً اللہ رب العزت جب کسی کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے اوپر ایسے شخص کو مسلط کر دیتا ہے جو اس پر ظلم کرتا ہے اور اللہ اس ظلم کے مقابلے مظلوم کے ساتھ مدد کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔
ظلم کے سلسلے میں قرآن واحادیث کے اس تفصیلی مطالعہ کے بعد آج کے دور میں ہمیں خود اپنا اور دوسروں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے معاملات میں خواہ وہ خاندانی ہوں یا سماجی کس قدر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، حق والوں کا حق نہیں دے رہے، جو جس مقام و مرتبہ کا مستحق ہے اس کی طرف نظر التفات نہیں ڈالا جاتا ہے، یہ بھی نا انصافی اور ظلم کی ہے ایک قسم ہے، گھریلو جھگڑوں میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے ، ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ طاقتور کون ہے اور کس کا ساتھ دینے سے ہمارا بھلا ہوگا، سڑکوں پر کس قدر ظلم ہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر گولی ماردینا، زد وکوب کرنا ، ماب لنچنگ ظلم کی ہی قسم ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ اعلی درجہ کا ظلم ہے۔
مظلوم اس صورت حال کی وجہ سے ظلم کے خلاف مزاحمت نہیں کر پارہا ہے، جو کر رہے ہیں ان کے ساتھ لوگ کھڑے نہیں ہو رہے ہیں، فلسطین ، غزہ، یمن وغیرہ میں اسرائیلی اور امریکی درندوں کے ذریعہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو ساری دنیا تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے اور ان کی حالت زار کو بدلنے کے لیے آگے آنے کو تیار نہیں ہیں ، عرب لیگ اور مسلم ممالک ہی اگر ان کی مدد کے لیے بیان بازی چھوڑ کر عملاً ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو آج احوال مختلف ہوتے ، یہ لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں جو قدرت و طاقت کے باوجود مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے نہیں ہو رہے ہیں، یہ تو عالمی معاملہ ہے ، خود اپنے ہندوستان میں دیکھیں تو کوئی حادثہ ہوتا ہے تو لوگ مدد پہونچانے کے بجائے ویڈیوگرافی میں لگ جاتے ہیں، حالاں کہ اگر ویڈیو بنانے کے بجائے وہ اس مظلوم کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تو ظلم کو روکا جاسکتا تھا اور مظلوم کی جان بچائی جاسکتی تھی ، سماج میں جو ظلم ہورہا ہے اس میں بہنوں اور بیٹیوں کو ان کے ترکہ سے محروم کرنا بھی ہے، جبراً بہنوں اور بیٹیوں سے دستخط لیے جارہے ہیں اور ان کو مورث کے ترکہ سے محروم کیا جا رہا ہے، اس علم میں سماج کے بیش تر لوگ شامل ہیں اور ایسا لگا ہے کہ ماؤں نے بیٹیوں کو جنم ہی نہیں دیا ہے۔
ایک بڑا ظلم عورتوں پر خانگی تشدد ہے، کبھی ان کو جہیز نہ لانے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گھر والوں کے ذریعہ انہیں قتل کرنے اور جلا کر مار دینے کے واقعات بھی کثرت سے ہور ہے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ بیویاں مردوں پر ظلم نہیں کرتیں ، ابھی مظفر پور کا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ہے کہ بیوی نے اپنے انجینئر شوہر کو گلاریت کر مار ڈالا، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کے لیے صنف اور جنس کا معاملہ نہیں ظلم دو طرفہ ہو رہا ہے اور گھر کے دوسرے لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ایک صاحب میرے شنا شا ہیں جن کا ایک دیوار کے پیچھے ایک مکان میں بود و باش ہے، اس کے باوجود انہوں نے اپنی منکوحہ کا چھ سال سے چہرہ نہیں دیکھا، دید شنید نہیں ہے، بیوی حقوق زوجیت ادا کرنے کو تیار نہیں ہے، اس لیے سامنا ہوتا ہی نہیں، بیوی نے شوہر پر ظلم کے لیے اپنے بچوں کو ساتھ ملا رکھا ہے، ایسے میں وہ شخص بیوی اور بچوں کے ظلم سے پریشان ہے صلح ، صفائی کے لیے بڑے علماء لگے لیکن بیوی بچوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی ، ایک صاحب کی اہلیہ اس قدر سرد واقع ہوئی تھی کہ عاجز آکر ان کو دوسرا نکاح کر لینا پڑا، اب واویلا ہے کہ دوسرا نکاح کیوں کر لیا، جب اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کو دور کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہو تو مرد بے چارہ کیا کرے ۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ معاملہ خانگی ہو یا سماجی، جماعتی ہو یا ادارہ جاتی ظلم کی ہر قسم کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے کی حق تلفی سے بچا جائے اور جو لوگ ظلم ہوتے ہوئے دیکھیں ، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا شمار بھی ظالموں کے ساتھ ہی ہوگا ، اس لیے ڈرنا چاہیے اس دن سے جو یوم جزا اور یوم انصاف ہوگا ، اس دن کوئی کسی کا نہیں ہوگا اور قادر مطلق چن چن کر حساب لے گا اور جہنم کے نچلے درجہ میں ڈال دے گا ، ارشاد خداوندی ہے تیرا رب جب کسی ظالم ہستی کی گرفت کرتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، یقیناً اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہے ( ہود:102) تم سے پہلے والی اقوام جو اپنے زمانہ میں عروج پر تھیں، جب انہوں نے ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ( یونس (13)
اللہ رب العزت کی گرفت کا جو ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اس کی ایک شکل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہم بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں پر ان کے اعمال کے سبب مسلط کر دیتے ہیں ، اس طرح انہیں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حضرت سیدنا حسین کو جن لوگوں نے ظلماً شہید کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے صرف بارہ سال کے عرصہ میں ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے، مختار کا سر مصعب کے سامنے اور مصعب کا سر حجاج کے سامنے کٹا ہوا رکھوا دیا ، اللہ تعالی کبھی دفع فسادات کے لیے یہ طریقہ کار بھی اختیار کرتے ہیں، اگر اللہ تعالی انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ ہٹاتا نہیں رہتا تو زمین فتنہ و فساد سے بھر جاتی ۔ (البقرۃ:251)
ملازموں پر ظلم کرنا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں عام ہے، شکلیں مختلف ہوگئی ہیں، مگر ملازموں کے ساتھ معاملات زر خرید غلاموں کی طرح ہی کیے جاتے ہیں، ہمارے یہاں مار پیٹ کو لوگ ظلم سمجھتے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ دل آزاری مذاق اڑانا، حقیر سمجھنا وغیرہ بھی ظلم ہی کی اقسام ہیں