میلاد النبیﷺ کا پیغام
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

میلاد النبی کی تحقیق
میلاد عربی زبان کا لفظ ہے اور ولد یلد ظرف زمان کاصیغہ ہے ۔ جس کا معنی پیدائش کا وقت ہے ۔کسی بھی شخص کے یوم پیدائش کے لئے لفظ میلاد کا استعمال ہوتاہے ۔ مسلمانوں میں حضرت محمد ﷺ کی یوم پیدائش کے لئے میلاد النبی ﷺ کا استعمال ہوتاہے ۔ عیسائیوں کے یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یوم پیدائش کے لئے میلاد المسیح کااستعمال ہوتاہے ۔
اصطلاحی اعتبار سے اس محفل کو میلاد کہا جاتاہے جہاں رسول اللہ ﷺ کی ولادت کاذکر کیاجاتاہے اور آپ ﷺ کے محاسن کا ذکرکیاجاتاہے ۔خاص طور سے 12 ربیع الاول کو جشن عید میلا د النبی کے طور پر منایا جاتاہے۔
میلاد النبی اور ماہ ربیع الاول
ربیع الاول اسلامی کلینڈر کاتیسرا مہینہ ہے اور اس کو میلاد النبی سے خاص نسبت ہے ۔ ربیع کے معنی بہار کے ہیں۔اسلامی کلینڈر میں دو ایسے مہینے ہیں جن کے شروع میں لفظ ربیع آتاہے ایک ربیع الاول اور ایک ربیع الثانی ، عربی میں لفظ”ثانی“ اور” آخر“کا معنی ایک ہی ہے یعنی ”دوسرا“ اس لئے دوسرے ربیع الثانی کے لئے ربیع الثانی اور ربیع الآخر دونوں ہی الفاظ بولے جاتے ہیں مراد دونوں کی ایک ہے۔ میلاد النبی ﷺ کی نسبت سے ربیع الاول کو ربیع النور یا ربیع الانوار بھی کہا جاتاہے ۔
ماہ ربیع الاول کو رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی نسبت سے خاص اہمیت حاصل ہے اور پوری دنیا میں مسلمان ماہ ربیع الاول کی قدرمیلاد النبی کی نسبت سے کرتے ہیں ۔
ربیع الاول کا مہینہ میلاد النبی کامہینہ ہے اس میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں ہے ، البتہ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام سےپہلے تاریخ کااتنا اہتمام نہیں کیا جاتاتھا بلکہ کسی واقعہ کوضبط کرنے کے لئے کسی اور بڑے واقعے کے ساتھ اس کو منسوب کردیا جاتاتھا ۔ اس لئے کسی نے اندازہ لگاکر دوچار دن پہلے کا دن بتادیا اور کسی نے دوچار دن بعد کا ۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی۔عیسی تقویم کے اختلاف کی وجہ سے اپریل کی تاریخ میں بھی اختلاف ہوگیا۔
میلاد النبی ﷺ کا تذکرہ احادیث میں
میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے ترمذی میں ایک حدیث ہے جس میں میلاد النبی ﷺ کوواقعۂ فیل کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے ۔ یعنی جس سال اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا جس کاتذکرہ قرآن کریم سورہ فیل میں آیا ہے اسی سال کو میلاد النبی ﷺ کا درجہ بھی حاصل ہے ۔ چونکہ یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے نہایت غیر معمولی اور اہمیت کاحامل ہے اس لئے بیان کرنے والے نے میلاد النبی ﷺ کو اس واقعہ کے ساتھ جوڑ دیا۔اگر اس وقت تاریخ کااہتمام ہوتا تو یقینا میلاد النبی ﷺ کی تاریخ بھی متعینہ طور پر بیان کردی جاتی ۔
قیس بن مخرمہ ایک صحابی ہیںجن کی پیدائش عام الفیل میں ہوئی اور میلاد النبی ﷺ بھی وہی سال ہے اس لئے انہوں نے بیان کیا :
وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ۔
میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں واقعہ فیل کے سال پیدا ہوئے۔
(سنن ترمذي۔كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ باب مَا جَاءَ فِي مِيلاَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ حدیث نمبر٣٦١٩ )
میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں دوچیزوں پر مکمل اتفاق ہے اس میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ ایک تویہ کہ آپ ﷺ کی پیدائش عام الفیل میں ہوئی اور دوسری یہ کہ آپ ﷺ کی ولادت دوشنبہ یعنی سموار کو ہوئی ۔ عام الفیل کے میلاد النبی ﷺہونے کی روایت کاتذکرہ اوپر آچکا ہے ہیں دوشنبہ کو میلاد النبی ﷺ ہونے کاذکر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں کیا ہے ذیل میں وہ عبارت نقل کی جاتی ہے:
”رسول اللہﷺ کی ولادت با سعادت جیسا کہ اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے دوشنبہ کے دن ہوئی تھی ۔
صحیح مسلم میں غیلان بن جریر بن عبد اللہ بن معبد الزمانی کی روایت ابی قتادہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دو اعرابیوں نے کسی روز آنحضرتﷺ سے روز دوشنبہ کے اور دنوں کے مقابلے میں درجے کے بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: ”یہ وہ دن ہے جب میری ولادت اور جس روز مجھ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تھی۔“
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ ان سے موسیٰ بن داؤد اور ابن لہیعہ نے خالد بن ابی عمران حنش الصنعانی اور ابن عباس ؓکے حوالے سے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺکی ولادت با سعادت دو شنبہ کے شروع وقت میں ہوئی تھی آپ نے حجر اسود کو اٹھا کر دوشنبہ کے روز بیت اللہ کے قریب رکھا تھا آپ نے مکے سے ہجرت بھی دوشنبہ کے دن فرمائی آپ مدینے میں دو شنبہ ہی کے روز داخل ہوئے اور آپ کی وفات بھی دوشنبہ ہی کے دن ہوئی ۔“
(البدایہ والنہایہ : جلد دوم اردو ص ١٦١ )
اس سے اتنی بات تو صاف ہوگئی کہ دوشنبہ اور عام الفیل کے ساتھ ساتھ ماہ ربیع الاول بھی متعینہ طور پر میلاد النبی ﷺ ہے ۔ البتہ تاریخ کے اندر قدرے اختلاف ہے لیکن مشہور 12 ربیع الاول کی تاریخ ہے ۔اسی شہرت کی بنیاد پر پوری دنیا میں 12 ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منائی جاتی ہے ۔
میلاد النبی ﷺ کے علاوہ دوسرے واقعات ماہ ربیع الاول میں
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماہ ربیع الاول صرف میلاد النبی ﷺ کے ساتھ منسوب نہیں ہے بلکہ اس میں اور بھی اہم واقعات پیش آئے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسوب ہیں اور اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل بھی ہیں ۔ ہجرت مدینہ جو اسلامی تاریخ کاایک اہم باب ہے وہ بھی اسی ماہ ربیع الاول میں ہی پیش آیا ۔اور اس امت کے لئے ایک جانکاہ واقعہ جس نے صحابۂ کرام کے ہوش وحواس اڑادئیے یعنی رسول اللہ ﷺ کی رحلت وہ بھی اسی مہینے میں پیش آیا ۔یہ تین واقعات جن کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے ان میں دو واقعات تو ایسے ہیں جو خوشی و مسرت کے مواقع ہیں ۔
میلاد النبی ﷺ خوشی ومسرت کاباعث
ولادت رسول یقینا ہمارے لئے بلکہ پوری کائنات کے لئے خوشی و مسرت کا سامان ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب اور پوری انسانیت کے رہنما اور ہادی عالم کو اس دنیا میں بھیجا ۔ آپ ﷺ کی آمد پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا سامان ہے اس لئے میلاد النبی ﷺ یقینا پورے عالم کے لئے باعث انبساط اور سامان مسرت ہے ۔
ایک عام انسان کی پیدائش بھی اس کے ماں باپ کے لئے اور اس کے عزیز و رشتہ داروں کے لئے خوشی ومسرت کا سامان ہوتاہے تو اس عظیم ہستی کی ولادت کیوں باعث مسرت نہ جو وجہ تخلیق کائنات بھی ہے ، جوفخر کائنات بھی ہے ،جو سید الانبیا اور خاتم النبیین بھی اور سید الاولین والآخرین بھی ہے ۔
اسی طرح ہجرت رسول ﷺ جس کی وجہ سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی ، مسلمانوں کے لئے آزادانہ ماحول میسر ہوا اور جس کے بعد فتوحات کے دروازے ایسے کھلے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اسلامی اقدار کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئیں، جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلا م ہونے لگے وہ بھی اسی ماہ ربیع الاول میں ہوا جو یقینا اسلامی تاریخ کاایک روشن باب ہے اور باعث فرحت وانبساط اور سرایۂ افتخار ہے ۔
رحلت رسول ﷺ غم واندوہ کا باعث
تیسرا واقعہ جو رسول اللہ ﷺ کی اس دنیا سے رحلت کا پیش آیا وہ پوری امت کے لئے ایک روح فرسا اور جانکاہ واقعہ ہے ۔ جس نے صحابۂ کرام کا ہوش وحواس اڑادیا اور حضرت عمر فاروق جیسا جری آدمی بھی آپے سے باہر آگیااور وہ تلوار لے کر باہر نکل آئے کہ جوشخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی نے صحابۂ کرام کو سنبھالا اور جب آپؓ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی :
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنۡقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ۔
( حضرت) محمدصلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا)
اس کایہ اثر ہوا کہ دھیرے دھیرے صحابۂ کرام نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین کا عمل پورا کیا۔
کیا میلاد النبی جشن کا دن ہے ؟
بہر حال اس ماہ ربیع الاول میں جہاں ہمیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک کو میلاد النبی ﷺکا شرف حاصل ہے اسی ماہ میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی اور مدینہ منور ہ کی طرف ہجرت بھی ہوئی ۔لیکن ہم جس نبی کی امت ہیں انہوںنے اپنی تعلیمات میں زندگی کا کوئی بھی تشنہ ادھورا نہیں چھوڑا ہے اور کسی بھی معاملہ کو مبہم نہیں رکھا ہے بلکہ ایک ایک چیز کو واضح انداز میں بیان کردیا ہے جو رہتی دنیا تک ہماری رہنمائی کرتی رہے گی ۔ تعلیمات نبوی ﷺ میں کہیں بھی میلاد النبی ﷺ کو بطور جشن منانے کا تذکرہ نہیںہے ۔ اس لئے کہ جشن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اکیلے میں یا انفرادی طور پر منائی جاتی ہے بلکہ جشن تو ایسی چیزہے جس کواپنے تو اپنے غیر بھی جانتے اور سمجھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہوتاہے کہ اتنابڑا مسئلہ رسول اللہ ﷺ نے بالکل تشنہ کیوں چھوڑ دیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں خوشی ومسرت کے دودن متعین کیے گئے ہیں ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی ۔ ان دونوں عیدوںکی تمام ترجزئیات احادیث کے ذخیرے میں تفصیل سے بتواتر منقول ہیں۔لیکن عید میلاد النبی ﷺ کا تذکرہ احادیث کے ذخیرے میں موجود نہیں ہے ۔ ورنہ میلاد النبی ﷺ جتنا بڑا واقعہ ہے اور پوری انسانیت کے لئے جو با عث رحمت ہے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اس کو ضرور مناتے اور نہایت تزک واحتشام سے مناتے اور اس کے جزئیات وکلیات کوتفصیل سے بیان کرتے ۔ لیکن پوری احادیث کے ذخیرے میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلے کہ میلاد النبی ﷺ کے موقع سے صحابہ یااس کے بعد کے ادوار میں جشن منانے کا اہتمام کیاگیاہو۔
میلاد النبیﷺ کا جلوس نکالنا
رسول اللہ ﷺ کا ذکر مبارک ، آپﷺ کے محاسن بیان اور سنت سیرت کا تذکرہ یقینا اس امت کےلئے باعث خیر ہے اور سیرت وسنت کے بیان سے ہی عمل کرنے کا جذبہ پیداہوتاہے ۔ لیکن جس صورت میں آج کل میلادالنبی ﷺ کے جلوس نکالے جاتے ہیں ، جس میں راستے بند ہوجاتے ہیں، نمازوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی ، بلکہ بہت سے منکرات کاوجود ہوتاہے یہ بالکل نہ تو اسلامی مزاج کے موافق ہیں اور نہ ہی شریعت میں اس کے جواز کی کوئی صورت ہوسکتی ہے۔
آپ ﷺ کی تعلیمات نہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہم خوشی ومسرت میں حدوں کو پھلانگ کر غیروں کی طریق پر جشن منائیں اور نہ ہمیں اس بات کی اجاز ت ہے غم و اندوہ کے موقع پر گریباں چاک ہوں بلکہ ان دونوں کے بین بین کا راستہ یہ ہے کہ ولادت نبوی کی وجہ سے اپنے دل میں خوشی ومسرت کا جذبہ پیداکریں اور رحلت نبوی کی وجہ اپنے دل میں درد محسوس کریں ۔
میلاد النبی ﷺ ہمیں کیا پیغام دیتاہے
میلا د النبیﷺ کے موقع سے ہمیں رسول اللہ کی سنت و سیرت کوجاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اور اصل چیز یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کو پوری دنیا میں پہنچانے کا عزم کریں اور اس کے لئے بہترین لائحۂ عمل تیار کریں، دل و جان سے رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ایمان لے آئیں۔
اور ایمان بھی ایسا کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کسی بات کا ہمیں علم ہو اور یہ معلوم ہو جائے کہ واقعی اس بات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف صحیح ہے تو اس پر یقین کرنے میں ذرا بھی تردد نہ کریں۔بلکہ فورا آمنا وصدقنا کا اعلان کردیں۔ جیسا کہ واقعہ معراج میں جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے راتوں رات مکہ سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں کے سفر کا ذکر کیا تو مکہ والوں کو یقین نہیں آیا اور وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑانے لگے اسی دوران کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ تمہارے صاحب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس گئے اور پھر وہاں سے آسمانوں کے سیر کو گئے اور پھر اسی رات واپس بھی آگئے ۔ کیا تم اس کی تصدیق کرتے ہو۔ حضرت ابوبکر نے ان سے پوچھا کیا واقعی آپ ﷺ ایسا کہہ رہے ہیں ۔ لوگوں نے کہا بالکل وہ ایسا ہی کہہ رہے ہیں ۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو خود جاکر اپنے کانوں سے سن لیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایمان کا اندازہ لگائیں انہوں نے فورا کہا کہ مجھے جانے کی ضرورت نہیں اگر آپ ﷺ ایسا کہہ رہے ہیں تو یقینا سچ کہہ رہے ہیں، میں اس کی پوری تصدیق کرتا ہوں۔
یہ ہے رسول اللہ ﷺ پر ایمان کا مطلب کہ جب کوئی بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے تو پھر کوئی لیت و لعل نہیں کوئی قیل وقال نہیں اور کوئی حیلہ بہانہ نہیں بلکہ فوراً اس کی تصدیق کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا شروع کردینا چاہئے۔
اس طرح کی مثالیں صحابۂ کرام کی زندگی میں بھری پڑی ہیں کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کا حکم آیا تو نہ آگے دیکھا نہ پیچھے بلکہ فورا رسول اللہ ﷺ کے قول کی تصدیق کی اور آمنا وصدقنا کا اعلان کردیا ۔
حضرت خزیمہ ابن ثابت ایک بدری صحابی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا آپ نے ابھی دام ادا نہیں کیے تھے کہ بدو نے کسی اور سے قیمت طے کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالبہ پر جواب دیا کہ میں نے گھوڑا آپ کے ہاتھ نہیں بیچا۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم سے خرید چکا ہوں۔ جس پر اس بدو نے کہا کہ گواہ لائیے۔ اس پر اور سب مسلمان تو خاموش رہے لیکن خزیمہؓ نے بڑھ کر کہا میں گواہ ہوں کہ تم نے رسول اللہ کے ہاتھ گھوڑا فروخت کیا ہے۔ چونکہ سودا کرتے وقت خزیمہؓ وہاں موجود نہ تھے۔ اس لیے رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟ آپؓ نے کہا کہ میں آپ کی بات کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس پر حضور نے خوش ہو کر ان کو ذوالشہادتین کا لقب دیا۔ یعنی ان کی شہادت دو آدمیوں کی شہادت کے برابر کر دی۔(سنن ابو داؤد حدیث نمبر: 3607)
اسی طرح کا ایک واقعہ حضر ت علی ؓ کا بھی ہے ۔ فتح مکہ سے کچھ پہلے ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے سرداران قریش کے نام ایک خط لکھا جس میں یہ خبر تھی کہ محمد ﷺ کفار مکہ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں، حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے مکے کی طرف روانہ کیا۔ اللہ تعالی نے بذریعہ وحی رسول اللہ ﷺ کو مطلع کر دیا کہ ایک عورت جاسوسی کا خط لے کر مکے کی طرف جا رہی ہے اور وہ اس وقت روضہ خاخ نامی جگہ پہنچ چکی ہے رسول اللہ صل اللہ نے خط پکڑنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر دو صحابیوں حضرت مقداد اور حضرت زبیر کو بھیجا کہ جاؤ روضہ خاخ نامی جگہ پہنچو اور وہاں سے ایک عورت کے پاس سے جاسوسی کا خط بر آمد کر کے لاؤ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم نکلے ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر دوڑ رہے تھے۔ حتی کہ ہم نے روضہ خاخ نامی جگہ اس عورت کو پا لیا اور اس سے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے انکار کر دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:
خط نکال دے ورنہ ہم کپڑے اتار کر خط نکالیں گے کیونکہ جس نے ہمیں بھیجا ہے اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا آخر اس عورت نے اپنی چوٹی میں سے نکال کرخط ان کے حوالے کر دیا۔یہ واقعہ امام بخاری نے کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح میں نقل کیا ہے۔(حدیث نمبر4274)
یہ واقعات ہمیں بتاتےہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آئی ہوئی بات کی فورا تصدیق کریں ۔ یہی اہل ایمان کا شیوہ ہے اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب ہے۔ ورنہ خالی خولی ایمان کا دعویٰ کوئی فائدہ مند نہیں ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس بات کایقین ہونا چاہئے کہ ہماری زبان غلط ہوسکتی ہے ، ہمارے کان غلط سن سکتے ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی طرف سےآئی ہوئی کوئی بھی بات غلط نہیں ہوسکتی ہے۔


[…] رسول اللہ سے محبت […]
Terima kasih atas artikel yang menarik ini.
Saya pribadi sudah mencoba GTA777 dan menurut saya cukup
praktis. Proses registrasinya cepat, fiturnya komplit, dan promonya
selalu ada.
Yang saya suka, GTA777 juga mengutamakan proteksi data, jadi saya merasa lebih
aman saat menggunakannya. Layanan pelanggannya juga
responnya cepat, sehingga kalau ada masalah bisa langsung terbantu.
Menurut saya, GTA777 bisa direkomendasikan untuk siapa pun yang mencari hiburan online dengan fitur praktis dan sistem
terpercaya.