ماہ ربیع الاول کا پیغام

رسول اللہ ﷺ پر کامل ایمان

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی  میں  ہو  اگر  خامی  تو  سب  کچھ  نامکمل ہے

ربیع الاول اسلامی کلینڈر کاتیسرا مہینہ ہے ۔ ربیع کے معنی بہار کے ہیں۔اسلامی کلینڈر میں دو ایسے مہینے ہیں جن کے شروع میں لفظ ربیع آتاہے ایک ربیع الاول اور ایک ربیع الثانی ،عربی میں لفظ”ثانی“ اور” آخر“کا معنی ایک ہی ہے یعنی ”دوسرا“ اس لئے دوسرے ربیع الثانی کے لئے ربیع الثانی اور ربیع الآخر دونوں ہی الفاظ بولے جاتے ہیں مراد دونوں کی ایک ہے۔ ربیع الاول کو ربیع النور یا ربیع الانوار بھی کہا جاتاہے ۔
ماہ ربیع الاول کو رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی نسبت سے خاص اہمیت حاصل ہے اور پوری دنیا میں مسلمان ماہ ربیع الاول کی قدر اسی نسبت سے کرتے ہیں ۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماہ ربیع الاول صرف ولادت نبوی کے ساتھ منسوب نہیں ہے بلکہ اس میں اور بھی اہم واقعات پیش آئے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسوب ہیں اور اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل بھی ہیں ۔ہجرت مدینہ جو اسلامی تاریخ کاایک اہم باب ہے وہ بھی اسی ماہ ربیع الاول میں ہی پیش آیا اور اس امت کے لئے ایک جانکاہ واقعہ جس نے صحابۂ کرام کے ہوش وحواس اڑادئیے یعنی رسول اللہ ﷺ کی رحلت وہ بھی اسی مہینے میں پیش آیا ۔
یہ تین واقعات جن کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے ان میں دو واقعات تو ایسے ہیں جو خوشی و مسرت کے مواقع ہیں ۔ ولادت رسول یقینا ہمارے لئے بلکہ پوری کائنات کے لئے خوشی و مسرت کا سامان ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب اور پوری انسانیت کے رہنما اور ہادی عالم کو اس دنیا میں بھیجا ۔ آپ ﷺ کی آمد پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا سامان ہے اس لئے وہ یقینا پورے عالم کے لئے باعث انبساط اور سامان مسرت ہے ۔ایک عام انسان کی پیدائش بھی اس کے ماں باپ کے لئے اور اس کے عزیز و رشتہ داروں کے لئے خوشی ومسرت کا سامان ہوتاہے تو اس عظیم ہستی کی ولادت کیوں باعث مسرت نہ جو وجہ تخلیق کائنات بھی ہے ، جوفخر کائنات بھی ہے ،جو سید الانبیا اور خاتم النبیین بھی اور سید الاولین والآخرین بھی ہے ۔
اسی طرح ہجرت رسول ﷺ جس کی وجہ سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی ، مسلمانوں کے لئے آزادانہ ماحول میسر ہوا اور جس کے بعد فتوحات کے دروازے ایسے کھلے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اسلامی اقدار کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئیں، جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلا م ہونے لگے وہ بھی اسی ماہ ربیع الاول میں ہوا جو یقینا اسلامی تاریخ کاایک روشن باب ہے اور باعث فرحت وانبساط اور سرایۂ افتخار ہے ۔
تیسرا واقعہ جو رسول اللہ ﷺ کی اس دنیا سے رحلت کا پیش آیا وہ پوری امت کے لئے ایک روح فرسا اور جانکاہ واقعہ ہے ۔ جس نے صحابۂ کرام کا ہوش وحواس اڑادیا اور حضرت عمر فاروق جیسا جری آدمی بھی آپے سے باہر آگیااور وہ تلوار لے کر باہر نکل آئے کہ جوشخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی نے صحابۂ کرام کو سنبھالا اور جب آپؓ نے وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنۡقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ۔( حضرت) محمدصلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا) کی تلاوت کیا تو دھیرے دھیرے صحابۂ کرام نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین کا عمل پورا کیا۔
بہر حال اس ماہ ربیع الاول میں جہاں ہمیں اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی اور مدینہ منور ہ کی طرف ہجرت ہوئی وہیں ہمیں اس بات کا دکھ بھی ہوتا ہے کہ اسی مہینے میں رسول اللہ ﷺ کی رحلت بھی ہوئی ۔لیکن آپ ﷺ کی تعلیمات نہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہم خوشی ومسرت میں حدوں کو پھلانگ کر غیروں کی طریق پر جشن منائیں اور نہ ہمیں اس بات کی اجاز ت ہے غم و اندوہ کے موقع پر گریباں چاک ہوں بلکہ ان دونو ں کے بین بین کا راستہ یہ ہے کہ ولادت نبوی کی وجہ سے اپنے دل میں خوشی ومسرت کا جذبہ پیداکریں اور رحلت نبوی کی وجہ اپنے دل میں درد محسوس کریں ۔اور اصل چیز یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات کو پوری دنیا میں پہنچانے کا عزم کریں اور اس کے لئے بہترین لائحۂ عمل تیار کریں، دل و جان سے رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ایمان لے آئیں۔اور ایمان بھی ایسا کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کسی بات کا ہمیں علم ہو اور یہ معلوم ہو جائے کہ واقعی اس بات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف صحیح ہے تو اس پر یقین کرنے میں ذرا بھی تردد نہ کریں۔بلکہ فورا آمنا وصدقنا کا اعلان کردیں۔ جیسا کہ واقعہ معراج میں جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے راتوں رات مکہ سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں کے سفر کا ذکر کیا تو مکہ والوں کو یقین نہیں آیا اور وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑانے لگے اسی دوران کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ تمہارے صاحب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس گئے اور پھر وہاں سے آسمانوں کے سیر کو گئے اور پھر اسی رات واپس بھی آگئے ۔ کیا تم اس کی تصدیق کرتے ہو۔ حضرت ابوبکر نے ان سے پوچھا کیا واقعی آپ ﷺ ایسا کہہ رہے ہیں ۔ لوگوں نے کہا بالکل وہ ایسا ہی کہہ رہے ہیں ۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو خود جاکر اپنے کانوں سے سن لیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایمان کا اندازہ لگائیں انہوں نے فورا کہا کہ مجھے جانے کی ضرورت نہیں اگر آپ ﷺ ایسا کہہ رہے ہیں تو یقینا سچ کہہ رہے ہیں، میں اس کی پوری تصدیق کرتا ہوں۔
یہ ہے رسول اللہ ﷺ پر ایمان کا مطلب کہ جب کوئی بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے تو پھر کوئی لیت و لعل نہیں کوئی قیل وقال نہیں اور کوئی حیلہ بہانہ نہیں بلکہ فوراً اس کی تصدیق کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا شروع کردینا چاہئے۔
اس طرح کی مثالیں صحابۂ کرام کی زندگی میں بھری پڑی ہیں کہ جہاں رسول اللہ ﷺ کا حکم آیا تو نہ آگے دیکھا نہ پیچھے بلکہ فورا رسول اللہ ﷺ کے قول کی تصدیق کی اور آمنا وصدقنا کا اعلان کردیا ۔
حضرت خزیمہ ابن ثابت ایک بدری صحابی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا آپ نے ابھی دام ادا نہیں کیے تھے کہ بدو نے کسی اور سے قیمت طے کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالبہ پر جواب دیا کہ میں نے گھوڑا آپ کے ہاتھ نہیں بیچا۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم سے خرید چکا ہوں۔ جس پر اس بدو نے کہا کہ گواہ لائیے۔ اس پر اور سب مسلمان تو خاموش رہے لیکن خزیمہؓ نے بڑھ کر کہا میں گواہ ہوں کہ تم نے رسول اللہ کے ہاتھ گھوڑا فروخت کیا ہے۔ چونکہ سودا کرتے وقت خزیمہؓ وہاں موجود نہ تھے۔ اس لیے رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟ آپؓ نے کہا کہ میں آپ کی بات کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس پر حضور نے خوش ہو کر ان کو ذوالشہادتین کا لقب دیا۔ یعنی ان کی شہادت دو آدمیوں کی شہادت کے برابر کر دی۔(سنن ابو داؤد حدیث نمبر: 3607)
اسی طرح کا ایک واقعہ حضر ت علی ؓ کا بھی ہے ۔ فتح مکہ سے کچھ پہلے ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے سرداران قریش کے نام ایک خط لکھا جس میں یہ خبر تھی کہ محمد ﷺ کفار مکہ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں، حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے مکے کی طرف روانہ کیا۔ اللہ تعالی نے بذریعہ وحی رسول اللہ ﷺ کو مطلع کر دیا کہ ایک عورت جاسوسی کا خط لے کر مکے کی طرف جا رہی ہے اور وہ اس وقت روضہ خاخ نامی جگہ پہنچ چکی ہے رسول اللہ صل اللہ نے خط پکڑنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر دو صحابیوں حضرت مقداد اور حضرت زبیر کو بھیجا کہ جاؤ روضہ خاخ نامی جگہ پہنچو اور وہاں سے ایک عورت کے پاس سے جاسوسی کا خط بر آمد کر کے لاؤ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم نکلے ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر دوڑ رہے تھے۔ حتی کہ ہم نے روضہ خاخ نامی جگہ اس عورت کو پا لیا اور اس سے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے انکار کر دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: خط نکال دے ورنہ ہم کپڑے اتار کر خط نکالیں گے کیونکہ جس نے ہمیں بھیجا ہے اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا آخر اس عورت نے اپنی چوٹی میں سے نکال کرخط ان کے حوالے کر دیا۔یہ واقعہ امام بخاری نے کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح میں نقل کیا ہے۔(حدیث نمبر4274)
یہ واقعات ہمیں بتاتےہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے آئی ہوئی بات کی فورا تصدیق کریں ۔ یہی اہل ایمان کا شیوہ ہے اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب ہے۔ ورنہ خالی خولی ایمان کا دعویٰ کوئی فائدہ مند نہیں ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس بات کایقین ہونا چاہئے کہ ہماری زبان غلط ہوسکتی ہے ، ہمارے کان غلط سن سکتے ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی طرف سےآئی ہوئی کوئی بھی بات غلط نہیں ہوسکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *