ذات اقدس محبوب کائناتﷺ

رسول اللہ ﷺ سے محبت اور اسباب محبت

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی 

وَأَحْسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيْنِى
وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءٗ
خُلِقتَ مُبَرَّاً مِّنْ كُلِّ عَيبٍ
كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقتَ كَما تَشاءٗ
(حسان بن ثابت)
نہیں دیکھا نگاہوں نے حسیں ایسا کبھی کوئی
نہ ہی جن پائی ماں کوئی کبھی بھی خوب رو ویسا
معائب سے منزہ یوں ہوئی تخلیق کہ گویا
تری مرضی ہوئی جیسی بنایا ہو بہو ویسا

 

ایمان کے اولین شرائط میں سے نبی کرم ﷺ کی محبت ہے، رسول اللہ ﷺکی محبت کے بغیر ایمان کی مکمل نہیں ہوسکتا ۔کلمے کا ا ٰخلاص، نماز کاخشوع ،زکوۃ کاجذبۂ ایثار،حج کا عاشقانہ سفر اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن رسول اللہ کی محبت اور آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ والہانہ عشق کے بغیر ایمان کی کھیتی کبھی سر سبزو شاداب نہیں ہوسکتی ۔اس کی وجہ وہ صفات ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی ذات میں موجود ہیں ۔ آئیے آپ ﷺ کی ذات والا صفات میں سے چند صفات پر نظر ڈالیں جن سے ہمارے دلوں میں محبت رسول ﷺ کے جذبات پیدا ہوسکیں ۔
احسان
نبی کریم ﷺ کے احسانات پوری انسانیت پر اس قدر ہیں کہ ان کااحصاء نہیں کیاجاسکتا ۔آج سے پندرہ صدیا ں پہلے نظرکریں تو پتہ چلے گا کہ جب انسانیت سسک رہی تھی،بیواؤں اور یتیموں کا کوئی پرسان حال نہ تھا، بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا، کمزوروں کو جینے کاحق نہیں تھا،عورتوں کامعاشرہ میں کوئی مقام نہیں تھا،چوری، رہزنی اور قتل وغارت کا بازار گرم تھااور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے حقیقی مالک کی پہچان کھوبیٹھا تھا۔ ایسے وقت میں آپ ﷺ کا رحمت عالم بن کر تشریف لانا ، سسکتی بلکتی انسانیت کو راہ راست کی خبر دینا ، مظلوموں کی دادرسی کرنا، یتیموں اور بیواؤں کے حقوق متعین کرنا ،انسانی معاشرے میں صنف نازک عورتوں کو اونچا مقام عطاکرنا، امن و امان اور عدل وانصاف کی فضا بحال کرنااور پوری انسانیت کا رشتہ خالق حقیقی سے جوڑنا یہ ایسے احسانات ہیں کہ پوری کائنات مل کر بھی اس احسان کا بدلہ ادا نہیں کرسکتی ۔
شرافت و نجابت
آپ ﷺ کی پیدائش ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو اس بگڑی ہوئی صورت حال میں بھی انسانی ہمدردی اور اخلاقی محاسن کے اعلیٰ معیار پر قائم تھا۔نسلی اعتبار سے دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جو تقریبا تمام انبیائے کرام کے جد امجدتمام اقوام کے رہنما ہیں۔اس لئے کہ ابھی دنیا میں جو قومیں آباد ہیں اور جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم آسمانی دین پر قائم ہیں ان میں یہود ونصاری جو بنی اسرائیل کہے جاتے ہیں ان کا نسبی سلسلہ بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے جاکر ملتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا خاندانی تعلق اورنسبی رشتہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتَّى كُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ”(صحيح بخاري،کتاب المناقب۔حدیث نمبر ٣٥٥٧ )۔(میں برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔)

مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ کا نسبی رشتہ ہردور کے ایسے لوگوں سے جڑتاہے جو اپنے دور کے سب سے زیادہ شریف النسب اور پاک طینت تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےنسب مبارک کے جتنے بھی سلسلے ہیں وہ سب حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے بہترین خاندان گزرے ہیں۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےوالد اپنے زمانے کےبہتر طبقہ سےہیں،آپ ﷺ کے دادامحترم اپنے زمانے کے بہترین طبقے سے ہیں حتی کہ یہ سلسلہ حضرت آدم ؑ تک جاپہنچتا۔آپ ﷺ کے اجداد میں سے حضرت ابراہیم ؑ پھر حضرت اسماعیل ؑ جو ابوالعرب ہیں،اس کے بعد عربوں کے جتنے سلسلے ہیں ان سب میں آپ کا خاندان سب سے زیادہ صاحب شرافت اور بلند مرتبہ تھا،چنانچہ آپ کاتعلق حضرت اسماعیل ؑ کی شاخ بنو کنانہ سے،پھرقریش سے،پھر بنو ہاشم میں منتقل ہوا۔یہ سب خاندان اچھی شہرت کے حامل تھے۔
منبع ظہو ر
رسول اللہ ﷺ کی پیدا ئش جس مبارک شہر میں ہوئی وہ تمام شہروں میں ممتاز ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے بلد الامین اور ام القریٰ کا خطا ب دیاہے ۔مکۃ المکرمہ جہاں بیت اللہ موجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین کے لئےقرار بنادیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا (صحيح مسلم،كتاب الحج۔حدیث نمبر 3302 )
”بلاشبہ یہ شہر (ایسا) ہے جسے اللہ نے (اس وقت سے) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت (کی وجہ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار نہیں دیا گیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے (اب) یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرام ہے، اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں، اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگایا جائے، کوئی شخص اس میں گری ہوئی چیز کو نہ اٹھائے سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرے، نیز اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔“
ایک بار رسول اللہ ﷺ نے شہر مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا: وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ ۔(سنن ترمذي،كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔حدیث نمبر ٣٩٢٥ )”قسم اللہ کی! بلاشبہ تو اللہ کی سر زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سر زمین ہے، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔“یہ شہر مکہ ہے جس رسول اللہ کے مقام ولادت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا۔گویا مقام پیدائش کے اعتبار سے بھی آپ ﷺ کا مقام سب سے بلند اور ارفع ہے ۔
اسمائے مبارک
رسول اللہ ذاتی وصفاتی نام ایسے ہیں جو معنوی اعتبار سے نہایت منفرد و محترم ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو جن ناموں سے مخاطب کیا ہے وہ نہایت پیار بھرے ہیں جن سے آپ ﷺ کی عظمت کا برملا اظہا رہوتاہے۔آپﷺ کا نام دنیاکے تمام ناموں میں سب سے زیادہ محبوب ہے اور زبانوں پر سب سے زیادہ جاری ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے صفاتی نام تو بہت سارے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے نہایت پیارے انداز میں ان ناموں کے ساتھ آپ کو پکارا ہے ۔لیکن کچھ خصوصی نام ہیں جن کو رسول اللہ نے بہت زیادہ پسند فرمایا اور دنیا و آخرت میں وہ نام سب سے زیادہ بولے جانے والے ہیں۔ان ناموں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَيَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ، وَقَدْ سَمَّاهُ اللَّهُ رَءُوفًا رَحِيمًا “.صحيح مسلم كتاب الفضائل ،حدیث نمبر ٦١٠٦ )میرے کئی نام ہیں، میں محمد، احمد اور ماحی یعنی میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ اور میں حاشر ہوں، لوگ میرے پاس قیامت کے دن شفاعت کے لیے اکٹھے ہوں گے۔ اور میں عاقب ہوں، یعنی میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔” اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رؤف اور رحیم رکھا“ (بہت نرم اور بہت مہربان)
اللہ تعالیٰ کا اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ کا ذکر
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ خصوصیت سے ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ ﷺ کی انتہائی محبوبیت کی علامت ہے ۔ سب سے پہلے کلمۂ ایمان کو ہی دیکھیں ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔ اس کلمہ میں دوجملے ہیں ۔ ایک لاالہ الا اللہ اور دوسرا محمد رسول اللہ ۔ یہ دونوں جملے ایسے لازم وملزوم ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی حذف کردیا جائے تو ایمان کا وجود باقی نہیں رہے گا۔یعنی اللہ جل جلالہ کے نام کے ساتھ محمدﷺ کا نام قیامت تک کے لیے جڑگیا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم متعدد مقامات میں  اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا نام ذکر کیا ہے۔چند مثالیں  پیش کی جاتی ہیں۔
وَ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo(آل عمران، 3 : 22)
’’اور اللہ کی اور رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ(النسآء، 4 : 80)
’’جس نے رسول( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
یَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِيْنَo(التوبۃ، 9 : 62)
تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ یَدَیِ اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللهَ ۔(الحجرات، 49 : 1)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیںجن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے معاً بعد رسول اللہ کا ذکر کیاہے ۔

حسن وجمال
مشہور ہےکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیاکا آدھاحسن دے دیا لیکن حضو ر پاک ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حسن کے ساتھ ساتھ مکمل جمال بھی دیا تھاجس کی وجہ سے آپ ﷺ پوری خلقت میں سب سے زیادہ حسین وجمیل قرار دیئے جاتے ہیں ۔ حسن وجمال کا جوبھی معیار ہے اس میں آپ ﷺ کی شخصیت پوری اترتی ہے اس لحاظ سے آپ جیسا حسین وجمیل نہ اب تک پیدا ہوا ہے اور نہ آئندہ پید ا ہوگا۔صحابۂ کرام نے آپ ﷺ کے حسن وجمال کو نہایت تفصیل سے بیان کیا جسے محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے ۔ چند حدیثیں یہاں نقل کی جاتی ہیں ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: ” رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ “(سنن ترمذي۔كتاب الأدب۔حدیث نمبر: ٢٨١١ )
حضرت جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔
عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: ” مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَعْرُهُ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَيْسَ بِالطَّوِيلِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ(صحيح مسلم۔كتاب الفضائل۔حدیث نمبر ٦٠٦٥ )
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی دراز گیسوؤں والے شخص کو سرخ جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا، آپ کے بال کندھوں کو چھوتے تھے، آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا، قد نہ بہت لمبا تھا نہ بہت چھوٹا تھا۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اسباب تلاش کیاجائے تو دنیا میں کوئی ایسا سبب نہیں جس سے محبت بڑھتی ہو اور وہ آپ ﷺ کے اندر موجود نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت و سیرت کا حسین ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل وعادات کاکریم ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب جواملع الکلم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی امت پررحیم ہونا اورشفقت کرناآخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتمام امتوں کے لئے سفارش کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے بے رغبت ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادنیا کے شدائد ومصائب پر صبرکرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسب سے بڑا مقام ہونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامنصب نبوت و رسالت میں مرتبہ عظمیٰ اور سب سے اونچےمقام پر فائز ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا عالمگیر ہونا، آپ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں اپنی رفعت کے اعتبار سے سب سے زیادہ عزت والا ہونا،آپ ﷺ کاآخرت میں اپنے مرتبہ کے اعتبار سے سب رسولوں سے زیادہ تعریف کے مستحق ہونا،آپﷺ کے لئے سب سے پہلے زمین کاپھٹنا،آپ ﷺ کاصاحب لواء الحمد ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب صاحب حوض کوثر ہونا۔یہ سب نبی کریم ﷺ سے محبت کے چند وجوہات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کی شفقت و رافت، الفت و محبت،رحمت و مہربانی اپنی امت پراس قدر زیادہ ہیں کہ محبت کرنے کے قابل جتنے بھی رشتے ہیں ان سب سے زیادہ آپ ؐ سے محبت کی جائے یہاں تک کہ اپنی جان، مال،اولاد، ماں باپ حتی کہ تمام لوگوں سے زیادہ آپ سے محبت کی جائے۔
آپ  ﷺ نے فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ  وَوَلَدِہٖ(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول ﷺ من الایمان حدیث نمبر١٤ )(قسم ہے اس ذات کے جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری محبت اس کے اپنے باپ اور اولاد سے زیادہ نہ ہو۔)
ایک دوسری روایت میں آپﷺ نے فرمایا: لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ  وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول ﷺ  من الایمان۔ حدیث نمبر 15) (تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری محبت اس کے اپنے باپ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔)
نیز آ پ ﷺ نے فرمایا:
 ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان۔حدیث نمبر16)
جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کامزہ پائے گا ایک یہ کہ اللہ اوراس کے رسول کی محبت اس کوسب سے زیادہ ہو دوسرے یہ کہ فقط اللہ کے لئے کسی سے دوستی رکھے تیسرے یہ کہ دوبارہ کافر بننا اس کواتناناگوار ہوجیسے آگ میں جھونکا جانا۔رسول اللہ ؐ کی محبت دنیا کی ہرچیز سے زیادہ مطلوب ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی  الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔(سورہ توبہ آیت ٢٤ )
ترجمہ:    آپ کہہ دیجئے کہ اگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیبیاں اورتمہاراکنبہ اور وہ مال جوتم نے کمائے ہیں اوروہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کواندیشہ ہو اور وہ گھر جن کوتم پسند کرتے ہو تم کواللہ سے اوراس کے رسول ؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپناحکم بھیج دیں اوراللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کوان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ نے اپنی معرکۃ الآرا تفسیر معارف القرآن میں جو کچھ لکھا ہے اس سے اللہ اوراس کے رسول کی محبت، اس کی نوعیت، محبت کے اقسام اورمندرجہ بالاحدیثوں کی واضح تشریح بھی ہوجاتی ہے اس لئے وہ مندرجات جو اس موضوع سے متعلق ہیں ان کو یہاں پر من و عن نقل کرتاہوں:
”آیت مذکورہ میں براہ راست تو خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ہجرت فرض ہونے کے وقت دنیوی تعلقات کی محبت سے مغلوب ہوکر ہجرت نہیں کی، لیکن الفاظِ آیت کاعموم تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ  کی محبت اس درجہ ہونا لازم وواجب ہے کہ دوسرا کوئی تعلق اورکوئی محبت ا س پرغالب نہ آئے اور جس نے اس درجے کی محبت پید انہ کی وہ مستحق عذاب ہوگیا۔ اس کوعذاب الٰہی کامنتظر رہناچاہئے۔…………اسی لئے ایک صحیح حدیث میں جوصحیحین میں بروایت انسؓ منقول ہے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اوراولاد اوردنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں۔ 
 ان روایات حدیث سے بھی ثابت ہواکہ ایمان کی تکمیل اس پرموقوف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت سب محبتوں پرغالب ہو اورانسان کی دوستی، دشمنی، دینا یا نہ دیناسب اللہ کے حکم اوررسول کے تابع ہو۔
امامِ تفسیرقاضی بیضاوی وغیرہ نے فرمایاکہ بہت کم لوگ ہیں جواس آیت کی وعید سے مستثنیٰ ہوں کیونکہ عام طور پر بڑے سے بڑے عابدوزاہد اورعالم ومتقی بھی اہل وعیال اورمال ومتاع کی محبت سے مغلوب نظرآتے ہیں الّا ماشاء اللہ مگر ساتھ ہی قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ محبت سے مراد اس جگہ اختیاری محبت ہے غیر اختیاری اورطبعی محبت مراد نہیں، کیونکہ اللہ تعالی کسی انسان کو اس کی طاقت واختیار سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، ا س لئے اگر کسی شخص کادل ان دنیوی تعلقات کی طبعی محبت سے لبریز ہومگر ان سے اتنا مغلوب نہ ہوکہ اللہ ورسول کے احکام کی خلاف ورزی کی پرواہ نہ کرے تووہ بھی اس وعید سے خارج اوراللہ ورسول کی محبت کو غالب رکھنے والاہے جیسے کوئی بیماردواکی تلخی یاآپریشن کی تکلیف سے طبعاً گھبراتا ہے مگرعقلاً اس کو اپنی نجات و سلامتی کاذریعہ سمجھ کر اختیارکرتاہے تو وہ کسی کے نزدیک قابلِ ملامت نہیں۔اورنہ کوئی عقل سلیم اس کوا س پر مجبور کرتی ہے، کہ طبعی اورغیر اختیاری گھبراہٹ اورکراہیت کوبھی دل سے نکال دے، اسی طرح اگر کسی کومال واولاد وغیرہ کی محبت کے سبب بعض احکام الہیہ کی تعمیل میں غیر اختیاری طور پر تکلیف محسوس ہو، مگر ا س کے باوجود وہ اس تکلیف کوبرداشت کرکے احکام الہیہ بجالائے تووہ بھی قابل ملامت نہیں،بلکہ قابل تحسین ہے اوراللہ ورسول کی محبت کواس آیت کے مطابق غالب رکھنے والاکہلائے گا۔ہاں اس میں شبہہ نہیں کہ محبت کااعلی مقام یہی ہے کہ محبت طبیعت پر بھی غالب آجائے، اورمحبوب کے حکم کی تعمیل کی لذت ہر تلخی و تکلیف کوبھی لذیذ بنادے جیسا دنیا کی فانی لذت و راحت کے طلبگار وں کورات دن دیکھاجاتاہے کہ بڑی سے بڑی محنت ومشقت کو ہنس کھیل کراختیار کرلیتے ہیں کسی دفتر کی ملازمت میں مہینہ کے ختم پر ملنے والے چند سکّوں کی محبت انسان کی نیند، آرام اورسارے تعلقات پرایسی غالب آجاتی ہے کہ اس کے پیچھے ہزاروں مشقتوں کو بڑی کوششوں،سفارشوں اور رشوتوں کے ذریعہ حاصل کرتاہے ۔
اللہ والوں کویہ مقام اللہ اوررسول اورنعمائے آخرت کی محبت میں ایساہی حاصل ہوتاہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی تکلیف تکلیف نظر نہیں آتی۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاویں تواس کوایمانی حلاوت حاصل ہوجاتی ہے، وہ تین خصلتیں یہ ہیں۔ایک یہ کہ اللہ اوراس کے رسول اس کے نزدیک ان کے ماسوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ وہ کسی اللہ کے بندے سے صرف اللہ کے لئے محبت رکھے، تیسرے یہ کہ کفر وشرک (میں واپس آنا) اس کوآگ میں ڈالے جانے کے برابر محسوس ہو۔
اس حدیث میں حلاوت ایمان سے مراد محبت کاوہ مقام ہے جوانسان کے لئے ہرمشقت و محنت کو لذیذ بنادیتاہے۔ 
از محبت تلخہا شیریں شود 
اسی مقام کے متعلق علماء نے فرمایا ہے    ؎
وَ  اِذَا حَلَّتِ   الْحَلَاوَۃُ    قَلْبًا
نَشَطَتْ فِی الْعِبَادَۃِ الْاَعْضَاءِ 
یعنی جب کسی دل میں حلاوتِ ایمان پیدا ہوجاتی ہے توعبادت واطاعت میں اس کے اعضاء لذت پانے لگتے ہیں۔
اسی کو بعض روایات میں میں بشاشتِ ایمان سے تعبیرکیاگیا ہے اورحدیث میں رسول للہ ﷺ نے فرمایاکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں فرمایاکہ محبت اللہ اوررسول کایہ مقام ایک نعمت کبریٰ ہے۔ مگر وہ صرف اللہ والوں کی صحبت ومعیت ہی سے حاصل ہوتی ہے، اس لئے صوفیائے کرام اس کو خدمت مشائخ سے حاصل کرنا ضروری قرار دیتے ہیں، صاحب روح البیان نے فرمایاکہ یہ مقام خلت اسی کوحاصل ہوتاہے جوخلیل اللہ ؑ کی طرح اپنے مال، اولاد اورجان کواللہ کی محبت میں قربان کرنے کے لئے تیا رہو  ؎
خلیل آسا درِ ملک یقین زن
نوائے لا احب الآفلین زن
یعنی خلیل اللہ کی طرح یقین کے دروازے کو دستک دے اور لااُحْبّ الآفلین (میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا) کی آواز بلند کر۔
قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت و شریعت کی حفاظت اوراس میں رخنے ڈالنے والوں کی مخالفت بھی اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت کاایک کھلانشان ہے، رزقنااللہ تعالی وجمیع المسلمین حبہ وحب رسولہ کمایحب ویرضاہ۔(معارف القرآن جلد چہارم ص  ٣٤٢ )
نبی کریم ﷺ سے محبت اورآپ سے عشق کے نمونے صحابہ کرام کی زندگی میں کثرت سے موجودہیں انہوں نے اپنے جان ومال کو اللہ کے رسول پر نچھاور کرنا اپنی خوش بختی کی علامت سمجھ رکھاتھا۔ مکہ کے گلیوں میں حضرت بلالؓ  اورحضرت خبیبؓ کوگھسیٹاجانا منظورتھالیکن آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑنابالکل منظورنہیں تھا یہاں تک کہ حضرت خبیبؓ کومکہ والوں نے پکڑ لیااور مکہ میں پھانسی دینے کی پوری تیاری ہوگئی اس وقت کسی نے پوچھا کہ کیا ہی اچھاہوتاکہ تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے اور تمہاری جگہ محمد (ﷺ) کو پھانسی دی جاتی۔قربان جائیے حضرت خبیبؓ کے جواب پرانہوں نے کہا کہ میں تو اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ میں اپنے گھرمیں آرام سے بیٹھارہوں اور آپؐ  کے پائے اقدس میں کوئی کانٹابھی چبھ جائے۔ غزوۂ بدر، احد،طائف، حنین کے حالات پڑھیں کس طرح صحابہ کرام نے آپ ؐ کے اوپر اپنی جانیں نچھاور کردیں۔
نبی کریم ﷺ سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ؐ جس مقصد کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے جس کے لئے آپؐ پوری زندگی محنت کرتے رہے اس مقصد کو ہم اپنا مقصد بنالیں اور آپ ؐ نے جن چیزوں کو پسند فرمایا ان چیزوں کوہم بھی پسند کریں، اس لئے کہ محبوب کی پسند کومحبوب بنالینا محبت کی علامت ہے اگر زبانی طور پر عشق ومحبت کا دعویٰ توہے لیکن آپؐ کی سنت وسیرت سے دوری ہے تویہ خالی خولی دعویٰ ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ محبت رسول کامطلب تویہ ہے کہ آپؐ کی ایک ایک سنت پرہم جان نثار کرنے کو تیار رہیں اورحالات چاہے ہمارے موافق ہوں یا مخالف رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے سرِ مو انحراف نہ ہو جو شخص رسول اللہ کی سنت پرجتنا زیادہ عمل کرنے والاہے وہ اتنا ہی زیادہ محبت کرنے والاہے اور جو شخص رسول اللہ کی سنت سے جتنا دور ہے وہ محبت کے دعویٰ میں اتنا ہی جھوٹا ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اللہ کے رسولؐ کی محبت رچی بسی تھی ان کاہر عمل نبی کریم ﷺ کے عمل کی عکاسی کرنے والا تھا انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ہر جگہ انہوں نے آپ ﷺ کی سنت اور آپؐ کی تعلیمات کو اپنامشعل راہ بنایا جس کا ثمرہ اللہ تعالیٰ نے دنیامیں عزت ومنصب اور آخرت میں اپنی رضاوخوشنودی کی بشارت کی صورت میں عطا فرمایا۔آج بھی امت مسلمہ اگر سیرت رسول اور سنت نبوی کو اپنی زندگیوں میں داخل کرلے تو فتح وکامرانی اس کی قدم بوسی کرے گی۔
دوجہاں    کی  کامیابی  گر  تجھے  درکار ہے
 ان کا دامن تھام  لے جن کامحمد ؐ نام ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *