قربانی تقر ب الہی کا ذریعہ
تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
قربانی کا تصور
اس دنیا میں جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو بسایا ہے اسی وقت سے قربانی کا تصور موجود ہے۔ جتنے مذاہب ا س دنیا میں موجو د ہیں ان سب میں قربانی کا تصور پایا جاتاہے ۔قربانی صورتیں اور شکلیں الگ الگ ہیں ، نام الگ ہیں لیکن سب کا مقصد ایک ہے اپنے مالک کوراضی کرنا ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اپنے حقیقی مالک کے بجائے دوسروں کو اپنا مالک حقیقی بنا بیٹھے ہیں معبود حقیقی کی بجائے معبودان باطلہ کے لئے قربانی پیش کرتے ہیں ۔
آج دنیا میں طرح طرح کی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ کوئی اپنے دیوی دیوتاؤں کے لئے قربانی کرتاہے ، کوئی خاندانی اور قبائلی رسم ورواج کوپورا کرنے کےلئے قربانی کرتاہے۔ بعض لوگ پیروں فقیروں کے مزارات پر اپنی نذر ونیاز پوری کرنے کے لئے قربانی پیش کرتے ہیں۔
زمانۂ قدیم میں کسی جنگ کے موقع پر جنگ میں جانے سے پہلے قربانی بلی کی شکل میں دی جاتی تھی ، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پلوں اور بڑی عمارتوں کی تعمیر سے پہلے انسانوں کی بلی(قربانی ) دی جاتی تھی ۔ یہ سب کے سب قربانی کی مختلف شکلیں ہیں جن میں اکثر باطل ہیں ۔ قربانی وہی قابل قبول ہے جو اللہ کے لئے پورے خلوص اورجذبہ عجزونیاز سے سرشار ہوکر اللہ کے نام پر دی جائے ۔
ہابیل و قابیل کی قربانی
قرآن کریم کےمطالعہ سے ہمیں سب سے پہلی قربانی کا پتہ چلتاہے۔جب حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں نے قربانی پیش کی تھی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی رد کردی گئی ۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (سورہ مائدہ ۔ آیت ٢٧ )
اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔
اس واقعہ کی تفصیل ابن کثیر نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔
”ان دونوں کا نام ہابیل و قابیل تھا۔ مروی ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی، اس لیے یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ہاں ایک حمل سے لڑکی لڑکا دو ہوتے تھے، پھر دوسرے حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے چاہا کہ اپنی ہی بہن سے اپنا نکاح کرلے، حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے منع کیا۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے نام پر کچھ نکالو، جس کی خیرات قبول ہو جائے اس کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ ہابیل کی خیرات قبول ہوگئی پھر وہ ہوا جس کا بیان قرآن کی ان آیات میں ہوا۔
اب ان دونوں نے خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے ۔ہابیل نے ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے نام پر(بطور قربانی ) ذبح کیا اور بڑے بھائی نے اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کے لئے( بطور قربانی ) نکالا۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی۔چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے نکاح میں اس کی بہن نہیں آسکتی، اس لیے اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی فرمایا کرتا ہے۔ اس میں میرا کیا قصور؟
قربانی کی قبولیت شرط اخلاص
ہابیل وقابیل کی قربانی روئے زمین پر پہلی قربانی تھی جو اللہ کے حضور پیش کی گئی ۔اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلتاہےکہ قربانی کی قبولیت کی ایک بڑی وجہ دل میں اخلاص کے ساتھ ساتھ اچھا اور محبوب مال کاپایا جانا بھی ضروری ہے۔اگر اخلاص اور محبوبیت نہیں ہو تو قربانی قبول نہیں ہوسکتی ہے۔قابیل کی قربانی اس لئےرد کردی گئی کہ اس نے جو غلہ پیش کیا تھاوہ نہایت ردی قسم کا تھا ۔اچھا غلہ اس نے پہلے ہی چھانٹ لیا تھااور اس کی قربانی میں اخلاص بھی نہیں تھا۔اس لئے ہمیں جب قربانی کاحکم دیا گیا تو ساتھ میں اخلاص کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جانور کی اچھی طرح دیکھ بھال کر قربانی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یعنی قربانی کےجانور میں کسی طرح کاعیب نہ پایا جاتاہو۔آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَجُوزُ مِنَ الضَّحَايَا: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي
قربانی کے جانوروں میں یہ جانور جائز نہیں ہیں: کانا جس کا کانا پن صاف معلوم ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو، بیمار جس کی بیماری صاف ظاہر ہو رہی ہو اور دبلا اور کمزور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
(سنن نسائي۔کتاب الضحايا۔ باب : العجفاء۔حدیث نمبر4376)
اس لئے جس جانور کی قربانی دینے کا ارادہ ہے اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرلینی چاہئے ۔اخلاص کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ ﷺ کی زبانی اعلان کرادیاہے :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(١٦٢ )لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (سورہ انعام۔١٦٣ )
(کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے کہ قربانی کے جانور کاگوشت اور اس کی ہڈیاں اللہ کے یہاں نہیں پہنچتی بلکہ دلوں کا تقویٰ اللہ کے یہاں پہنچتاہے :
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (٣٧ ۔ سورہ حج )
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے انھیں تمھارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دے۔
قربانی کاوجوب
جو لوگ صاحب استطاعت ہیں ان پرقربانی واجب ہے۔ صاحب استطاعت کامطلب یہ ہےکہ جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یااس کے بقدر کوئی دوسرا مال واسباب اس کی حوائج ضروریہ سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی ۔چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے موجودہ گرام کے حساب سے ۶۱۲گرام ۳۶۰ملی گرام کا ہوتا ہے اور سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے موجودہ گرام کے حساب سے ۸۷گرام ۴۸۰ملی گرام کا ہوتا ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم )آج بتاریخ چھ جون 2025 بازار کے ریٹ کے حساب سے چھ سو بارہ گرام چاندی کی قیمت 65484 روپیہ ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ حوائج ضروریہ کے علاوہ اگر کسی کے پاس اتنی رقم موجود ہے یاکوئی دوسرا سامان موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
آج کل دینی اعمال میں اس قدر کوتاہی اور سستی ہوگئی ہے کہ حیثیت اور صلاحیت ہونے کے باوجود بھی لوگ قربانی نہیں کرتے ۔ حالانکہ نہ مال ودولت کی کمی ہے اور نہ ہی قابلیت و صلاحیت کی ۔ دنیاوی امور میں جہاں مال ودولت خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو محض شہرت اور دکھاوے لئے انسان اسراف اور فضول خرچی سے کام لیتا ہے اور ایک کے بجائے دس خرچ کرتاہے ۔ چاہے اس کے لئے زمین ، مکان بک جائے یا اس کےلئے قرض لینا پڑے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ لیکن جہاں دینی امور سامنے آتے ہیں تو انسان طرح طرح کے بہانے تلاش کرتاہے اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں پہلو تہی سے کام لیتاہے ۔ یہ رجحان نہایت ہی ہلاکت آمیز ہے ۔ اس لئے کہ یہ دنیا اور اس کی دولت سب کچھ آخرت کی چھوٹی سی چھوٹی نعمت کے سامنے ہیچ ہے ۔ کیونکہ دنیا وی دولت وثروت فانی ہے اور اخروی نعمت دائمی اور باقی رہنے والی ہے ۔ اس لئے جب اور جہاں اللہ کا قرب حاصل کرنے کا موقع میسر آئے اور اپنا مال ودولت خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہاں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ اور قربانی ان میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ اس سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتاہے اور اللہ کا قرب بھی حاصل ہوتاہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہمارے سامنے زنہ جاوید مثال ہے ۔
قربانی حضرت ابراہییم علیہ السلام کی سنت
مسلمانوں میں جو موجہ قربانی ہے یہ درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ اور یہ کسی جانور کی قربانی نہیں تھی بلکہ بہت ارمانوں اور دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پیدا ہونے والے اولاد کی تھی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاکہ اپنے ہر دل عزیز اولاد کو قربان کرو ۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذرا بھی پس وپیش نہیں کیا اور فوراً بیٹے کو اللہ کے حضورپیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا نقشہ نہایت ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے :
وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙقَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۰۶﴾وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾ۖسَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿۱۰۹﴾کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾وَ بٰرَکۡنَا عَلَیۡہِ وَ عَلٰۤی اِسۡحٰقَ ؕ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحۡسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ مُبِیۡنٌ ﴿۱۱۳﴾صافات
اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے واﻻ ہوں۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا۔اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرماتو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وه ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔اور ہم نے ابراہیم واسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں، اور ان دونوں کی اوﻻد میں بعضے تو نیک بخت ہیں اور بعض اپنے نفس پر صریح ﻇلم کرنے والے ہیں۔
تصور کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھا نہیں بھیجا ہوتا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبح کردیئے جاتے تو آج تک وہی سنت رائج ہوتی اور پر اپنی اولاد بلکہ محبوب ترین اولاد کو ذبح کرنا پڑتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کافضل واحسان ہے کہ اس نے اولاد کی بجائے جانوروں کی قربانی کو قبول کرلیا اور اسی سنت کو قیامت تک رائج کردیا ۔ قربانی کے سنت ابراہیم ہونے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عَنْ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟، قَالَ:” سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ”، قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:” بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ”، قَالُوا: فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:” بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ”.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے“، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی“ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے“۔
( سنن ابن ماجہ۔کتاب الاضاحی ۔باب ثواب الاضحیہ۔ حدیث نمبر ٣١٢٧)
زکوۃ اور قربانی کےنصاب میں فرق
قربانی اور زکوۃ کے واجب ہونے کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکاۃ صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی۔ اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب کہ قربانی اور صدقہ فطر، اور زکوۃ وصولی کے لیے غیرمستحق ہونے کے نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ ضرورت و استعمال سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور ایک ایسے ہی بند پڑا ہوا ہے، اور ضرورت سے زائد ہے تو قربانی وغیرہ کے نصاب میں اس کو بھی شامل کیا جائے گا، جب کہ زکوۃ کے نصاب میں اسے شامل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح جو سامان استعمال میں نہ آتا ہو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔
دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قربانی واجب ہونےکے لیے اس نصاب پر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے، بلکہ عید الاضحٰی کے تیسرے دن کے غروب سے پہلے بھی صاحبِ نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوگی، جب کہ زکوۃ کی فرض ہونے کے لیے مالِ زکوٰۃ پر سال گزرنا ضروری ہے۔
(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
قربانی کے بجائے صدقہ
اسی طرح قربانی بھی ایک واجب عبادت ہے اور اس کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب کے اللہ کے لئے جانور ذبح کیا جائے ۔ یہاں تک کے ان تین دنوں میں نفل صدقات کے بجائے نفل قربانی اداکرنا افضل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ , أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ , إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا , وَأَشْعَارِهَا , وَأَظْلَافِهَا , وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ , فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا “
قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔
(سنن الترمذی ۔کتاب الاضاحی ۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الأُضْحِيَةِ۔ حدیث نمبر ١٤٩٣ )
اس لئے ایام اضحیٰ کے دنوں میں ہمیں قربانی ہی کرنی چاہئے۔ ہاں اگر اپنی قربانی کرلی ہے اور کسی غریب مسکین کو کوئی اور ضرورت پیش آجائے تو اس کی وہ ضرورت پور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔


[…] قربانی […]
[…] […]
[…] رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے چونکہ پورا عرب کفر وشرک میں م… عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ لِأَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ يَوْمَانِ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا , فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ , قَالَ:” كَانَ لَكُمْ يَوْمَانِ تَلْعَبُونَ فِيهِمَا , وَقَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى”.(سنن نسائی کتاب صلاۃ العیدین ۔ باب ۔ حدیث نمبر١٥٥٧ ) انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن ایسے ہوتے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے دو دن تھے جن میں تم کھیل کود کیا کرتے تھے (اب) اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلہ ان سے بہتر دو دن دے دیئے ہیں: ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن“۔ عید الفطر تو رمضان کےروزوں کی خوشی میں منائی جاتی ہے اور عید الاضحی حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے ۔ ان دنوں میں مسلمانوں کے لئے سب سے پہلا عمل عید کی نماز اداکرکےکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عبودیت کااظہارکرنا اور اس کا شکر اداکرناہے ۔ مسلمانوں پر روزانہ پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور انہیں اپنےمحلے کی مسجد میں مسلمان ادا کرتے ہیں اور ہفتہ میں ایک بار جمعہ کی نماز جامع مسجد میں اداکرتے ہیں لیکن عید کی نماز عید گاہ میں اداکرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ جو مختلف علاقوں میں رہتے بستےہیں جمعہ کے دن ہفتہ میں ایک بار جمع ہوکر اپنے اتحاد اور اپنی اجتماعیت کامظاہر ہ کریں اور عید کے دن مختلف علاقوں کے مسلمان عید گاہ میں جمع ہوکر اپنی ملی اجتماعیت کی مثال پیش کریں۔ […]
[…] عقیقہ بچوں کا حق […]
[…] قربانی کا مقصد تقرب الہی […]