مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

بھیک مانگنا

بھیک مانگنے کا پیشہ

انسان اپنا پیٹ پالنے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتاہے ۔ دنیاکے اندر بے شمار ایسے ذرائع ہیں جن کو اختیار کرکے لوگ اپنی اور اپنی آل واولاد کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ اس میں کچھ حلال طریقے ہیں جنہیں اللہ کے پسندیدہ بندے اختیار کرتے ہیں اور کچھ حرام طریقےہیں جنہیں اللہ کے مبغوض بندے اختیار کرتے ہیں ۔ انہی میں ایک ذریعہ بھیک مانگنا بھی ہے ۔ آج کل بھیک مانگنے کے پیشہ کو خوب ترقی ہورہی ہے ۔ آپ اپنے گھر سے نکلیں تو جہاں بھی جائیں آپ کو بھکاریوں کےجھنڈ کےجھنڈ نظر آئیں گے ۔ کسی دکان پر سامان لینے کے لئے کھڑےہوں ، کسی سواری پر بیٹھے ہوں ، کسی بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں ، کسی ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ہوں یاکسی ٹرین کا سفر کررہے ہوں ۔ بھکاریوں کی ٹولیاں آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔ جہاں آپ نے کچھ خریدنے کے لئے جیب سے پیسہ نکالاتو دکان دار کو دینے سے پہلے آپ کو کسی بھکاری کا ہاتھ آپ کے سامنے نظر آئے گا۔
گھروں کے دروازے وقفہ وقفہ سے بجتے ہیں اور آدمی جب باہر نکل کر دیکھتاہے تو کوئی بھکاری کھڑا اللہ کا واسطہ دے کر کچھ مانگ رہا ہے ۔مسجدوں میں آدمی نماز پڑھنے کےلئے جاتاہے باہر نکلا تو بھکاریو ں کی لائن لگی ہوئی ہے۔بعض مسجدوں کے پاس تو بھکاری ڈیرہ ہی ڈالے رہتے ہیں ۔ یہ صرف مسجد وں کا حال نہیں ہے بلکہ مندروں کے سامنے بھی ویسی ہی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور آنے جانے والے ان کی ایذا رسانیوں سے بچ نہیں پاتے ۔ بعض بھکاری تو عزت اتار کر پیسے مانگتے ہیں ۔ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ آدمی شرمندہ ہوکر کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہوجاتاہے۔
بھیک مانگنا آج کے دور میں کوئی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک پیشہ ہوچکا ہے ۔ لوگ اس کو اپنا کام سمجھ کر کررہے ہیں ۔اچھے خاصے صحت مند افرادجو جسمانی اور ذہنی اعتبار سے نہایت توانا و تندرست ہوتے ہیں لیکن کوئی عزت دار پیشہ اختیار کرنے کے بجائے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان میں بعض تو بالکل صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر یہ رعب ڈال سکیں کہ بھیک مانگنا ہمارا پیشہ نہیں بلکہ حالات نے مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے دست سوال پھیلا نا پڑ رہاہے ۔ ایسے لوگوں کے پاس نت نئی کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں وہ نہایت دلکش اور جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ جنہیں سن کرلوگ مرعوب ہوجاتے ہیں اور انہیں حالات کاستم زدہ تسلیم کرکے بھیک سے زیادہ دے دیتے ہیں۔
کچھ  بھیک منگے  ایسے بھی ہوتے ہیں جو حقیقت میں تو صحت مند ہوتے ہیں لیکن اپنے بدن پر مصنوعی زخم لگائے رہتے ہیں جس کےدوا علاج کےلئے ان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔کچھ اپنے پیروں میں ، ہاتھوں میں یا بدن کے دوسرے حصوں میں پٹیاں لگائے رہتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاؤں میں زخم ہے یا ہاتھ میں زخم ہے یا بدن میں کوئی ناسور ہے جس کے دوا علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ بعض لوگوں کے پاس ڈاکٹروں کے پرزے بھی ہوتے ہیں جنہیں دکھاکر وہ بھیک مانگنے کا جواز پیش کرتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں پٹیاں باندھ کر ان کے سرپرست بن کر اللہ کا واسطہ دیتے ہیں اور ان بچوں کی پرورش وپرداخت کے بہانے بھیک مانگتے ہیں ۔

بھیک مانگے والوں کی مختلف شکلیں

آج کل تو بھیک مانگنے کاایک نیا اور نہایت مؤ ثر ذریعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ رکشہ یا آٹو پرمائک باندھ کر باضابطہ ریکارڈنگ کے ذریعہ لوگوں کے دل ودماغ سے کھیل کر بھیک مانگتے ہوئے آپ کو ہر گلی اورمحلے میں یہ بھکاری نظر آجائیں گے ۔ بڑے بڑے شہروں میں بھکاریوں کی نششتیں مخصوص ہوتی ہیں اورنسل در نسل وہ جگہ بطور وراثت منتقل ہوتی رہتی ہیں بلکہ بعض بھکاری ان جگہوں کو اپنی بیٹیوں کےجہیز میں بھی دیا کرتے ہیں ۔اس کےعلاوہ ایک منظم گروہ ہر شہر میں موجود ہے جن کا کاروبار بھکاریوں کے ذریعہ ہی چلتاہے وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغوا کرکےلاتے ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ، ان کی آنکھیں پھوڑ کر شہر کے چوک چوراہوں پر بھیک منگواتے ہیں اور شام کو انہیں پھر لے جاتے ہیں۔ایسے ملنگ قسم کے بھکاری بھی آپ کو نظر آئیں گے جن پر موسم کی تبدیلی کاکوئی اثر نہیں ہوتا ۔ سخت گرمی میں آسمان تلے چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر پڑے ہوتے ہیں ،ان کو نہ تو دھوپ لگتی ہے اور نہ گرمی کااحساس ہوتاہے ۔ نہ ہی یخ بستہ سرد ہوائیں ان کو متاثر کرتی ہیں۔ دراصل وہ دوا کےزیر اثر نشہ کی حالت میں ہوتے ہیں جنہیں  لوگ لاکر چوراہے پر چھوڑ جاتے ہیں او ر ان کی لاچاری دیکھ کر لوگ بھیک دیتے ہیں اور شام کو ان کے مالکان انہیں پھر اٹھا کرلےجاتے ہیں۔اس طرح کے بھکاری آپ کو عام طور سے تبلیغی اجتماع گاہ میں ، ملک کے مشہور مساجد کے سامنے یا بڑے بڑے پارکوں کے سامنے نظر آئیں گے ۔یہ لوگ پیدائشی مجبو ر نہیں ہوتےبلکہ انہیں مجبور بناکر پیش کیاجاتاہے ان کے پیچھے پورامنظم گروہ کام کرتاہے ۔
یہ سنگین صورت حال ہمارے ملک میں روز بروز بد سے بدترہوتی جارہی ہے ۔ ملک میں طرح طرح کے رفاہی کام کئے جاتےہیں ، غریبوں مفلسوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کیئے جاتے ہیں لیکن ان بھکاریوں کی حالت ایسی ہے کہ درد بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی ۔ایسی صورت حال میں ایک عام آدمی کیا کرے آئیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کاجائزہ لیاجائے۔

بھیک نہ مانگو

اسلام میں بھیک مانگنے کی مذمت

اسلامی تعلیمات میں سوال کرنے یا بھیک مانگنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اس کے بجائے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سےیہ مفہوم ہوتاہے کہ کوئی شخص اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے اپنے سر پر لکڑیوں کا بوجھ اٹھاکر بازار میں بیچتاہے اور اس کے لیے سخت محنت کرتاہے یہ اس کے لئے بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ لوگوں کےسامنے بھیک مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَتَصَدَّقَ بِهِ وَيَسْتَغْنِيَ بِهِ مِنَ النَّاسِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ذَلِكَ، فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ “(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٤٠٠ )
”تم میں سے کوئی شخص صبح جا کر اپنی پشت پر لکڑیاں لاد کر لے آئے اور اس سے صدقہ کرے اور لوگوں سے بے نیاز اور مستغنی ہو جائے وہ اس سے بہتر ہے کہ کسی آدمی سے مانگے وہ اسے دے یا محروم رکھے کیونکہ اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے افضل ہے اور آغاز اپنے زیر کفالت افراد سے کرو۔“
رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ سے اس بات پر بیعت لیاکہ وہ کسی انسان سے کبھی سوال نہ کریںگے ۔ تو ان کی حالت ایسی تھی کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا کرجاتا تو وہ خود سواری کو روک کر اس سے نیچے اترتے اور پھر اپنا کوڑا اٹھاکر سواری پر سوار ہوتے لیکن کسی سے اتنا کہنا بھی گوارہ نہ کرتے کہ ذرا میرا کوڑا اٹھا کر دے دو ۔ حالانکہ یہ ایک عام بات ہے بھیک مانگنے کی کوئی شکل نہیں ہے ۔ لیکن بہر حال اس میں بھی سوال کا ایک شائبہ پایا جاتا اس لئے صحابہ ٔ کرام نے اس سے بھی اجتنابرتاہے ۔ ذیل کی حدیث دیکھیں :
عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ، أَمَّا هُوَ فَحَبِيبٌ إِلَيَّ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ: ” أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ “، وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: ” أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ “، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: ” أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ “، قَالَ: فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟ قَالَ: ” عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَتُطِيعُوا، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ، يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ “.
(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر2403 )
ابومسلم خولانی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے ایک پیارے امانت دار (شخص) نے حدیث بیان کی وہ ایسا ہے کہ مجھے پیارا بھی ہے اور وہ ایسا ہے کہ میرے نزدیک امانت دار بھی ہے۔ یعنی حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ۔۔۔ انہوں نے کہا: ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (حاضر) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کروگے؟“ اور ہم نے ابھی نئی نئی بیعت کی تھی۔ تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟“ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟“ تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دیے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم (ایک بار) آپ سے بیعت کر چکے ہیں، اب کس بات پر آپ سے بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں پر، اور اس بات پر کہ اطاعت کرو گے۔“ اور ایک جملہ آہستہ سے فرمایا: ”اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے۔“ اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا کوڑا گر جاتا تو کسی سے نہ کہتا کہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دے۔

بھیک مانگنے والوں کے چہروں پر گوشت نہیں ہوگا

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جسمانی توانائی عطا کی ہے ، عقل و شعور بخشاہے اس کو استعمال کرکے وہ اپنے لئے ذریعہ معاش تلاش کرے خود بھی کھائے اور اپنی اولاد کو بھی کھلائے اور دوسرے ضرورتمندوں کی ضرورت بھی پوری کرے ، اپنے مستقبل کے لئے جمع بھی کرے لیکن اس کے لئے سوال کرنے اور بھیک مانگنے کو ذریعہ نہ بنائے ۔ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی دن بھر کی محنت مزدوری کے بعد اتنا بھی نہ کماسکے جس سے اس کاپیٹ بھرسکے ، لیکن اس کی وجہ سے وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور مزید محنت کر کے روزی حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ بھیک مانگنے میں اگرچہ محنت کم کرنی پڑتی ہےاور اس سے زیادہ سے زیادہ مال جمع بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ عزت کی روزی نہیں ہے بلکہ ذلت کا سودا ہے اور یہ نہیں کہ دنیا ہی میں یہ ذلت ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی یہ ذلت ساتھ ساتھ رہے گی ۔ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہوں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگااور محض ہڈیوں کادھانچہ نظر آئے گا۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے :
مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ “(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٣٩٨ )
آدمی لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہےحتی کہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہو گا۔“
دولت جمع کرنے کےلئےبھیک مانگنا آگ کا انگارہ جمع کرنا ہے
دولت جمع کرنے کی خواہش ہر شخص کو ہوتی ہےاور اللہ تعالیٰ نےجائز حدود میں دولت جمع کرنے سے منع بھی نہیں کیا ہے اس لئے کہ مال ودولت کے ذریعہ بہت سارے دینی ودنیا وی کام ہوتے ہیں اور بہت سی ایسی عبادات ہیں جن کاانحصار ہی دولت پر ہے اس لئے دولت حاصل کرنا یا اس کو جمع کرکے رکھنا فی نفسہ کوئی معیوب شے نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس دولت کو جائز راستے سے حاصل کیا جائے اور اس کا حق اداکیاجائے ۔دنیا میں جس طرح دولت جمع کرنے کے جائز ذرائع موجود ہیں اسی طرح ناجائز اور حرام راستے بھی موجود ہیں انہی ذرائع میں سے بھیک مانگ کر دولت جمع کرنا بھی ہے ۔ آئے دن یہ خبریں ملتی ہیں کہ ایک بھکاری کی موت ہوگئی اور اس کے پاس سے لاکھوں روپئے برآمد ہوئے جن کاکوئی وارث نہیں ہے ۔ ایسی دولت جوبھیک مانگنے کی ذلت کے ذریعہ جمع کی جائے وہ دولت نہیں بلکہ آگ کا انگارہ ہے جو بھیک مانگنے والا اپنی جھولی میں جمع کرتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بالکل واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا، فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ “(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٣٩٩ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے، کم (اکھٹے) کرلے یا زیادہ کرلے۔

بھیک مانگنا کس کے لئے جائز ہے؟

کبھی کبھی ایسی صورت حال پید ا ہوجاتی ہے کہ انسان اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود اپنی ضروریات پوری نہیں کرپاتایا کبھی کوئی حادثہ ہوجاتاہے جس کی وجہ سے کسی انسان کی ساری جمع پونجی ہی ختم ہوجاتی ہے یا کبھی اپاہج یا لاچارہوجاتاہے یا کسی پر کوئی بڑا قرض ہوجاتاہے جس کی ادائیگی اس کے بس میں نہیں ہوتی تو ایسے شخص کے لئے جائز ہےکہ وہ بقدر ضرورت سوال کرلے اور جب اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو سوال کرنا بند کردے اور اللہ پر توکل کرکےمحنت مزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے ۔ رسول اللہ ﷺ نے تین طرح کے افراد کے لئے سوال کو جائز قراردیا ہے :
ایک وہ شخص جس کے اوپر قرض کا بوجھ بہت زیادہ ہوجائے یااس کے کوئی جرم سرزد ہوجائےجس کے پاداش میں اسے بھاری جرمانہ اداکرنا لازم ہوجائے اور اس کے پاس کوئی راستہ سوائے سوال کے نہ رہ جائے تو ایسے شخص کے لئے جائز ہےکہ بقدر ضرورت لوگوں سے سوال کرکے اپنی ضرورت پوری کرے۔
دوسرا وہ شخص جو کسی حادثے کا شکار ہوجائے مثلا اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور اس کا سارااثاثہ جل کر خاک ہوگا، یا اس کے کاروبار میں اس قدر نقصان ہوگیا کہ اب وہ کہیں کا نہیں رہا یا اس کا مال و اسباب لٹ گیا اور وہ بالکل تہی دست و تہی داماں ہوکر رہ گیااس کےلئے بھی جائز ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے ۔
تیسرا وہ شخص جو فاقہ کاشکارہوجائے اور اس کےپاس سوال کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچا ہو ایسے تینوں اشخاص کےلئے دست سوال پھیلانا اس حد تک جائز ہے جس حد تک ان کی ضروریات پوری ہوسکیں اور جب ان کی ضروریات پوری ہوجائیں تو لوگوں کےسامنے ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ دست سوال روک کر اپنی محنت کے ذریعہ روزی کمانےکی کوشش کریں ۔
ایک صحابئی رسول اپنا واقعہ بیان کرتےہیں جس میں رسول اللہﷺ نے سوال کرنے کے جواز اور عدم جواز کی صورتوں کی وضاحت فرمادی ہے:
عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ: ” أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا “، قَالَ: ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا، يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا “.(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٤٠٤ )
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں نے ایک بہت بڑے تاوان یا کسی کے قرض کی ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپﷺ سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔“ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے قبیصہ! سوال تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے کسی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی، تو اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا جائز ہے کہ وہ رقم پوری ہو جائے (اسے مل جائے) پھر وہ سوال سے باز آ جائے۔ اوردوسرا وہ آدمی جو کسی آفت کا شکار ہوا جس نے اس کا مال تباہ کرڈالا، اس کے لئے سوال کرنا جائز ہے حتی اسے ا س قدر مل جائے جس سے اس کی گزران درست ہو جائے یا اس کی گزران صحیح ہو جائےاور تیسرا وہ آدمی جو فاقے سے دو چار ہو گیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد گواہی دیں کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہو گیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا جائز ہے حتی کہ اس کی درست گزران پا لے۔ یا ا س کی گزران صحیح ہو جائے، ان صورتوں کے سوا سوال کرنا اے قبیصہ! حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔“

بغیر  بھیک مانگے کچھ مل جائے تولے لے

اگر سوال کیے بغیر کہیں سےکوئی ہدیہ یا عطیہ آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے عطا سمجھ کر رکھ لینا چاہئے اگر خود ضرورت ہے تو اپنی ضروریات میں استعمال کرے یا دوسرے ضروتمندوں میں تقسیم کردے ۔رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کہیں سے مال آتا تھا تو وہ اپنے آس پاس رہنے والوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے ایسا ہی ایک واقعہ حضرت عمر فاروق ؓ کا ہے جو ذیل میں درج ہے:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ: أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ “، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ،(صحیح مسلم ، کتاب الزکوۃ،باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ۔حدیث نمبر٢٤٠٦ )
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیا کرتے تھے۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کیا کرتے۔اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کو دیجیے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو لے لو اور اپنا مال بنا لو یا اس کو صدقہ کر دو (اور اپنا اصول بنا لو) جو مال تمھیں اس طرح ملے کہ تم نے دل میں اس کی چاہت اور طمع نہیں کی اور نہ ہی اس کا سوال کیا تو اس کو لے لو اورجو مال اس طرح نہ ملے اس کا دل میں خیال نہ لاؤ سالم بیان کرتے ہیں اسی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سے کچھ مانگے نہیں تھے اور جو چیز ملتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔
مسلمانوں کےیہاں صدقہ خیرات کرنے کی ترغیب ہے اور دنیاکی دیگر اقوام کی بہ نسبت مسلمان صدقہ خیرات زیادہ کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں میں سوال کرنے والے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جہاں رسول ﷺ نے سوال کرنے سےمنع کیاہے وہیں آپ ﷺ نے سائل کو جھڑکنے اور ڈانٹنے سے منع بھی کیا ہے اس لئے اگر کوئی سائل ہمارےسامنے آتا ہے تو اسےڈانٹنا او ر جھڑکنا نہیں چاہئے بلکہ کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا چاہئے اگر کچھ دے نہیں سکتے تو اسے نرمی سے واپس کردینا چاہئے ۔ اگر کوئی صحت مند آدمی دست سوال پھیلاتا ہے تو نرمی سے اسے سمجھا نا چاہئے کہ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر نہیں ہے بلکہ محنت کرکے عزت کی روزی تمہارے لئے زیادہ مناسب ہے۔ 

2 thoughts on “بھیک مانگنے کا پیشہ”
  1. […] حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال روک لیا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہوں گے ۔(مسند احمد حدیث نمبر   3946) ان احادیث میں مذکور سخت وعیدوں پر غور کریں اور اپنے معاشرے میں موجود حالات کاجائزہ لیں لوگ کس طرح ملازمین کے ساتھ ظلم وستم کے مرتکب ہوتے ہیں۔  کارخانوں اورفیکٹریوں میں کام کرنے والے یومیہ مزدور،گھروں، بازاروں ،دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین ، مدارس کے اساتذہ ، مسجدوں کے ائمۂ کرام آج کے دور میں اس ظلم کے شکارہیں۔ خاص کر ائمہ مساجد جن کی ڈیوٹی دنیاکے کسی بھی ملازم سے زیادہ سخت ہے۔ دیکھنے میں تو صرف پانچ وقت کی نماز پڑھانا ہے جس میں مشکل سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ وقت لگتاہے لیکن اس ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے کام کے لئے انہیں چوبیس گھنٹہ بالکل مستعدرہناہوتاہے ایک منٹ کی تاخیر بھی ان کے لئے قابل معافی نہیں ہوتی ۔ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی کانظام جو پوری دنیا کے تمام شعبوں میں رائج ہے ۔یا مہینہ میں دودن کی چھٹی جوہر ادارہ میں ملتی ہے ، عید ین کی چھٹی وغیرہ وغیرہ ان سب سے امام مسجد باہر ہے یہ سب اصول اس پر لاگو نہیں ہوتے ۔پھربھی ان کی تنخواہیں عام طور سے یومیہ مزدوری کی شرح سے بہت کم ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان کی متعینہ تنخواہیں وقت پر نہیں دی جاتیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جو سکون واطمینان عبادات میں اور خاص طور سے نماز میں مطلوب ہے وہ حاصل نہیں ہوتا لہذا وہ نمازیں بھی سرسری پڑھاتے ہیں ۔ ایک تو ان کی مناسب تنخواہ کانہ ہونا ایک ظالمانہ رویہ ہے اور دوسرے بروقت تنخواہ نہ دینا یہ دوسرا ظلم ہے ۔ آپ اپنے حالات سے ان کےحالات کاموازنہ کریں جب آپ کی آمدنی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے ایسے ہی ان ملازمین کے بارے میں تصور کریں کہ جب ان کی اجرت بروقت نہیں ملتی تو انہیں بھی کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہوگا۔ مان لیں کہ آپ نے مہینہ دومہینہ کی تاخیرکے بعد ان کی پوری اجرت دے بھی دی تو ان دنوں میں انہوں نے جس طرح کی ذہنی وجسمانی تکلیف کا سامنا کیا اس کی مکافات آپ کیسے کریں گے ۔کیا اللہ تعالیٰٰ کے یہاں ان سب چیزوں کاجواب نہیں دینا ہوگا بالکل اس رب کائنات کے سامنے جب حاضر ہوں گے توایک ایک چیز کا جواب دینا ہوگا۔اور یاد رکھیں کہ اس مقدمہ کامدعی رب ذوالجلال خود ہوں گے جہاں بچنےکاکوئی راستہ نہ ہوگا، کوئی جائے مفرنہ ہوگا۔ اس لئے جولوگ مزدوروں کے سے کام لیتے ہیں یا ملازمین کو رک… […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index