توبہ: اہمیت، شرائط اور فوائد

تحریر مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
توبہ کا مفہوم
”توبہ“ کے معنی ہیں پلٹ آنا، رجوع کرنا، یا واپس لوٹنا۔شرعی اعتبار سے توبہ کا مطلب ہے گناہ چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا، ندامت محسوس کرنا، اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا پختہ عزم کرنا۔
شیطان کی ہر راہ سےگمراہ کرنے کی کوشش
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کوپید افرمایا اور ان کو مسجود ملائکہ بنایا تو ابلیس جو فرشتوں کے ساتھرہتا تھااس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ کردیا اور قیامت تک کے لئےملعون قرار پایا ۔
ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس عزم کااظہار کیا کہ جس خاکی مخلوق کی وجہ سے مجھے راندۂ درگاہ کیاگیا ہے میں اسے بھی صحیح راہ پر رہنے نہیں دوں گا بلکہ انہیں ہر راہ سے گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا اور کسی کو فرماں برداری کے لائق نہیں چھوڑوں گا۔
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(۳۹) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ(۴۰)
اس(ابلیس) نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔
شیطانی دعویٰ کے آگے اللہ تعالیٰ کاوعدہ
اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عزم وارادہ کے جواب میں یہ فرمایا کہ چاہے تو جتنی کوششیں کرلے لیکن میرے جو نیک بندے ہوں گے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ(۴۱) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ(۴۲)سورہ حجر
( اللہ تعالیٰ نے )فرمایا یہ راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا ہے۔ بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں، مگر جو گمراہوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔“
” چند آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(۴۹) حجر
”میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔“
یعنی اگرانسان بشری تقاضے سے شیطان کے جھانسے میں آکر کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ سے معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو یکسر معاف کردے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے شیطانی بہکاوے کے مقابلے میں مومن کو ایک ایسا ہتھیار دے دیا جو شیطان کے تمام گمراہیوں اور بہکاوے ایک لمحے میں ختم کردے گا ۔وہ ہتھیار جس کے ذریعے گناہ معاف ہوجاتے ہیں وہ توبہ ہے۔
قرآن کریم میں توبہ کی ترغیب
اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں کئی مقامات پر توبہ کی ترغیب دی ہے:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا،(سورۃ التحریم: 8)
”اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو۔“
بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی شکل میں ایک خاص ہتھیار دےدیا ہے جواس کے بندے اپنی ضرورت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں اور اپنی خطاؤں کو معاف کرا سکتے ہیں۔ یہ توبہ کس کے لئے ہے اور کس کے حق میں قبول ہوتی ہے اس کابیان بھی اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے :
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلیْمًا حَکِیْمًا ﴿۱۷﴾وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِۚ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبْتُ الْـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ہُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﴿۱۸﴾
اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے۔ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کون سا توبہ قابل قبول ہے
مندرجہ بالاآیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول ہونے کی شرط یہ لگائی ہے کہ نادانی سے اگر کوئی غلطی ہوجائے اور جیسے ہی تنبہ ہو تو فورااستغفار کرے ۔ ایسے لوگوں کا گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ گناہ پر گناہ کئے جائیں اور انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق نہ ہو اورموت کے قریب جب آخرت کے مناظر نظر آنے لگیں تو استغار کرنے لگیں ایسے لوگوں کی معافی نہیں ہوتی ۔
توبہ کاانتظار اللہ تعالیٰ اس وقت تک کرتے ہیں جب تک انسان غرغرۂ موت میں مبتلا نہیں ہوجاتا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ”ابھی زندگی باقی ہے، بعد میں توبہ کر لیں گے۔“لیکن موت اچانک آتی ہے، اور تاخیر شیطان کا فریب ہے۔توبہ میں تاخیر دل کو سخت، اور گناہ کو معمولی بنا دیتی ہے۔قرآن تنبیہ کرتا ہے:”اور کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور وہ کہے، کاش میں نے توبہ کر لی ہوتی!”(سورۃ المنافقون: 10)
جب موت بالکل ہی قریب آجاتی ہے اور آخرت کے منازل سامنے نظر آنے لگتے ہیں اس وقت اگر کوئی شخص گناہوں سے معافی مانگتاہے تووہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ اب دنیا سے رشتہ ختم ہوگیا اور توبہ کا دروازہ اس کے لئے بند ہوگیا ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ”. (ابن ماجہ ٤٢٥٣ )
”بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آ جائے“
ہر انسان خطاکار ہے
انسان خطا کا پتلا ہے۔ زندگی میں شعوری یا غیر شعوری طور پراس سے لغزشیں ہو جاتی ہیں۔ لیکن اصل کمال یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی کا احساس کرے اور گناہوں سے معافی مانگے۔
انبیا ئے کرام تمام کے تمام معصوم عن الخطا ء ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی معصومیت کااعلان کردیاہے ۔ان کے علاوہ کچھ خاص لوگ ایسے بھی ہیں جوانبیاء کی طرح معصوم عن الخطا ء تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کااعلان اس دنیا میں ہی کردیا ہے ۔ جیسے عشرۂ مبشرہ اور ان کے علاوہ کچھ مخصوص صحابۂ کرام جن کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی ۔لیکن یہ ان کے معصوم عن الخطاء ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مغفور ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت اپنے نبی ﷺ کی زبانی دے دی ہے ۔
عام انسانوں میں سے کوئی بھی خطا ؤں سےمحفوظ نہیں ہے بلکہ اَلاِنسانُ مُرَکَّبُ مِّنَ الخَطاءِ وَالنِّسیان کے تحت ہر انسان خطاکار ہے اور اس سے غلطیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خطا پر قائم نہیں رہتا بلکہ جب تک وہ اپنی خطا پر نادم نہیں ہوتا اور اس کو اپنے رب سے بخشوا نہیں لیتا اس کوسکون نہیں ملتاہے۔نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق:
كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ (ترمذی ٢٤٩٩ )
”سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں“
خطاکار تو سارے ہی لوگ ہیں لیکن بہترین خطاکار وہ ہے جو اپنی خطا پر قائم نہیں رہتا بلکہ معافی مانگ کر اپنی خطا معاف کرالیتاہے۔
توبہ گناہوں کویکسر مٹادیتی ہے
دنیا وی قانون کے مطابق اگر کوئی مجرم کسی جرم میں پکڑا جاتاہے تو اسے فوری طور پر سزا ہوتی ہے یا کسی طرح سے اس کو عدالت سے یا صاحب حق کی طرف سے معافی مل جاتی ہے لیکن جرم کی کتاب میں اس کا نام مجرمین کی فہرست میں شامل ہوتاہے اور جب کبھی اس طرح کاکوئی واقعہ پیش آتاہے تو عدلیہ ایسے لوگوں کو پہلے پکڑتاہے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں دستور یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ گار اپنے گناہ سے توبہ کرلیتاہے اور اس کومعافی مل جاتی ہے تو گناہوں کے رجسٹر سے اس کانام یکسر مٹا دیا جاتاہے اور وہ ایسا ہوجاتاہے جیسا کہ اس نے کبھی وہ گناہ کیاہی نہ ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ”.(ابن ماجہ ٤٢٥٠ )
”گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو“۔
توبہ کا طریقہ
توبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان تنہائی میں اللہ کے حضور سچی ندامت کے ساتھ گڑگڑائے، دعائیں کرے، گناہ کو فوراً چھوڑدے ، دوبارہ گناہ نہ کرنے کاپختہ ارادہ کرے، حقدار کاحق ادا کرے ، اس سے معافی ماگے اور اصلاحِ حال کی کوشش کرے۔
کچھ گناہ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ توبہ اور سچی ندامت کے ساتھ معاف کردیتے ہیں اور کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق عباد اللہ یعنی اللہ کے بندوں سے ہوتاہے وہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ صاحب حق معاف نہ کردے ۔
مثال کے طور پر کفر اور شرک بہت بڑے گناہ ہیں لیکن اگر کوئی کافر ہوگیا تو اس کے توبہ کاطریقہ یہ ہے کہ اپنے کفر سے توبہ کرے اور ایمان کاکلمہ پڑھے اور اپنی اس حرکت پر نادم ہوکر آئندہ اس طرح کفر نہ کرنے کا مصمم عہد کرے تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور اس کایہ سنگین گناہ معاف کردیا جائے گا۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَنَّ الإِسْلَامَ يَهْدِمُ، مَا كَانَ قَبْلَهُ (مسلم٣٢١ )
” اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے“۔
اسی طرح اگر کسی نے کوئی فرض چھوڑ دیا جیسے نمازیں قضا ہوگئیں یا روزے چھوٹ گئے یازکوٰۃوقت پر ادا نہیں ہوئی تو اس کی معافی اور توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان نمازوں کو ادا کیا جائے ، روزوں کی قضا کی جائے اور زکوۃ کو ادا کیا جائے اور پھر اس کوتاہی کے لئے اللہ سے معافی مانگی جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمادیںگے ۔
اگر معاملہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو اس کے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صاحب حق کاحق اد اکیا جائے ۔مثلا اگر کسی کاحق دبالیا ہے ۔ کسی کے یہاں چوری کی ہے یا کسی سے رشوت لے کر کوئی کام کیا ہے ۔ تو پہلے وہ مال واپس کرے جو اس نے کسی طرح سے لے لیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قابل قبول ہوگی ۔
یا مثلا کسی کی غیبت کی یا چغلی کی یا کسی پر بہتان لگایا یا کسی کو مارا پیٹا تو اس کے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس شخص سےپہلے جاکر معافی تلافی اور پھر اس کے بعد اللہ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قابل قبول ہوگی۔
الغرض توبہ صرف استغفار پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ سچے دل سے صاحب حق سے معاف کرانااور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کانام توبہ ہے ۔اس طرح تو بہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ایسےخوش ہوتے ہیں جس طرح کسی انسان کا کوئی اہم سامان گم ہوجائے اور عین ضرورت کے وقت وہ سامان اسے مل جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْهُ بِضَالَّتِهِ , إِذَا وَجَدَهَا”(ابن ماجہ٤٢٤٧ )
”بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو“۔
اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے گناہوں کو ہروقت یاد کرکے اس کےمناسب حال توبہ کا اھتمام کرے تاکہ وہ آخرت کی رسوائی سے بچ سکے ۔


[…] […]
[…] امید وبیم خشوع وخضوع کاسبب […]