شہید کی تجہیز و تکفین
تجہیز وتکفین کے مسائل جاننے کے لئے اس لنک پر جائیں

تحریر: مفتیم محمد آصف اقبال قاسمی
شہید کی فضیلت
اسلام میں شہادت ایک نہایت عظیم رُتبہ اور بے مثال مقام رکھتی ہے۔ شہید وہ ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی، حق کی حمایت، ظلم کے مقابلے اور انسانی جان و مال و عزت کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دے۔ قرآن و حدیث میں شہید کی فضیلت، اس کے مراتب اور اس کے لیے تیار کی گئی نعمتوں کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ شہادت محض موت کا نام نہیں بلکہ یہ اعلیٰ ترین زندگی کی ضمانت ہے، جو اللہ کی خاص رحمت اور فضل سے عطا ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم میںاللہ تعالیٰ نے شہید کے بارے میں اعلان فرمایا:
“وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ” (البقرۃ: 154)
یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس حقیقت کا ادراک نہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کی زندگی ہماری جسمانی آنکھوں سے اوجھل ہے، مگر اللہ کے نزدیک وہ زندہ ہیں، رزق پاتے ہیں اور جنت کی نعمتیں انہیں فوراً میسر ہوتی ہیں۔
جو لوگ دین کی سر بلندی کے لئے اپنی جانوں کو کوقربان کرتے ہیں ان مجاہد کہا جاتاہے اور اس راہ میں جن کی موت واقع ہوجائے انہیں شہید کہا جاتاہے۔ شہد اکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے یہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں:
(۱) خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آ جاتا ہے۔
( ۲) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے۔
(۳) حشر کی بڑی گھبراہٹ سے مامون و بے خوف رہے گا۔
( ۴) ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔
( ۵) حورعین سے نکاح کر دیا جاتا ہے۔
( ۶) اس کے اعزہ و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۷۹۹)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ) کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مانگیں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے خلاصی نہیں تو کہنے لگیں: ہمارا سوال یہ ہے کہ تو ہماری روحوں کو دنیاوی جسموں میں لوٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جائیں، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۸۰۱)
شہید کی دوقسمیں ہیں
ایک شہید وہ ہے جسے غسل وکفن نہیں دیا جاتاہے بلکہ اسے انہی کپڑوں میں بغیر غسل کے دفن کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے ہتھیار اور پوستین اتار لی جائے، اور ان کو انہیں کپڑوں میں خون سمیت دفنایا جائے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۱۵۱۵)
دوسرا شہید وہ ہے جسے غسل وکفن دونوں دیا جاتاہے۔
پہلی قسم کے شہید کے لئے چند شرائط ہیں جن کے پائے جانے کے بعد دنیا میں بھی اس پر شہید کاحکم لگایا جائے گا یعنی اس کے بدن سے خون وغیرہ صاف نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسے غسل دیا جائے گا بلکہ صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر اسے دفن کردیا جائے گا۔
پہلی شرط یہ ہے کہ مقتول مسلمان ہو ۔یعنی اگر کسی غیر مسلم کو ظلماً قتل کردیا گیا تو اس پر شہید کااطلاق نہیں ہو گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مکلف ہو ۔ یعنی کسی مجنون یا دیوانے کو اگر ظلما قتل کردیا گیا تو اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح اگر کو ئی نابالغ مقتول ہو ا تو بھی اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔
تیسری شرط حدث اکبر سے پاک ہونا ہے یعنی اگر کوئی شخص حالت جنابت یا کوئی عورت حیض و نفاس کی حالت میں مقتول ہو تو اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔وہ عند اللہ اگرچہ شہید ہے لیکن غسل دے کر دفن کیا جائے گا۔
چوتھی شرط بے گنا ہ قتل ہوا ہو یعنی اگر کسی شرعی حد میں کوئی شخص قتل کیا گیا تو اس پر شہید کے احکام نافذ نہیں ہوگے۔
پانچویں شرط یہ ہے کہ مقتول کسی مسلمان یا ذمی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دھار دار چیز سے قتل کیا گیا ہو یعنی کسی لاٹھی یا پتھر سے ماراگیا ہو تو اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔
چھٹی شرط یہ ہے کہ اس قتل کے عوض اولاًقصاص لازم ہو نہ کہ خون بہا۔جیسے کسی مسلمان نے مسلمان کو خطاً قتل کردیا تو اس پرخون بہا لازم ہوتاہے قصاص نہیں اس لئے اس پر بھی شہید کے احکام نافذ نہیں ہوںگے۔
ساتویں شرط یہ ہے کہ زخم لگنے کے بعد فوری موت واقع ہوگئی ہو دوا علاج یا مال ومتاع سے تمتع حاصل نہ کیا ہو۔
ان تمام صورتوں میں وہ شہید کے قسم اول میں شامل ہوگا اور اس کو غسل نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی اسے کفن دیا جائے گا بلکہ اسی حالت میں اس کی نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جائے گا۔ہاں اگر کفن کے ضروری کپڑے اس کے بدن پر نہ ہوں تو اس کو ضروری کفن دے دیا جائے گا لیکن غسل کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اگراس کے بدن پر کفن مسنون سے زیادہ کپڑے ہوں تو انہیں اتار لیا جائے گا ۔ ایسے کپڑے جو کفن میں نہیں دیئے جاتے جیسے ٹوپی ، عمامہ ، موزے ،دستانے یا جوتے وغیرہ بھی اتار دیئے جائیں گے ۔ اگر خون کے علاوہ اس کے بدن پر کوئی نجاست وغیرہ لگ گئی ہو تو اسے صاف کردیا جائے۔
شہدا کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ بشارت سنائی ہے کہ ان کاحشر شہدا کے ساتھ ہوگا ان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن میں قسم اول کے شرائط نہیں پائے جاتے انہیں غسل بھی دیا جائے گااور مسنون کفن بھی دیا جائے گا۔ایسے شہداکی بہت ساری قسمیں ہیں جنہیں مختلف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔چند صورتیں درج کی جاتی ہیں۔
کسی مسلمان نے کسی کافر یا باغی یاڈاکو پر وارکیامگر وار خطا کرگئی اور وہ خود ہی موت کا شکار ہوگیا ۔سرحد کی حفاظت پرمامور سپاہی طبعی موت مرجائے ۔جس نے اللہ کی راہ میں جان دینے کی دعاکی ہو اور وہ طبعی موت مرجائے ۔جو خود کو یا اپنے گھر والوں کو یااپنے مال و متاع کی حفاظت میں مارا گیا ہو ۔ مظلوم قیدی جو قید کی وجہ سے مرجائے ۔جو شخص ظلم سے بچنے کے لئے چھپاہواہو اور اسی حالت میںاس کی موت آجائے ۔ طاعون میں مرنے ولا۔کسی زہریلے جانور کے کاٹنے سے موت واقع ہوجائے۔ پانی میں ڈوب کر یا آگ میں جل کر مرنے والا۔دین کا طالب علم۔دیانت دار تاجر ،حادثاتی اموات کا شکار اس کے علاوہ اور بھی صورتیں احادیث وفقہ کی کتابوں میں موجود ہیں تفصیلات کے لئے مطولات کا مطالعہ کریں۔ ایسے شہد االلہ تعالیٰ کے یہاں شہادت کادرجہ پائیں گے لیکن دنیا میں ان پر شہید کاحکم جاری نہیں کیاجائے گا یعنی ان کے کفن دفن اورغسل کاانتظام ویسے ہی کیاجائے گا جس طرح عام مسلمان میت کاکیا جاتاہے ۔اس سلسلے کی چنداحادیث درج کی جاتی ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔‘‘(صحیح بخاری حدیث نمبر۲۸۲۹)
جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، ان کے اہل خانہ میں سے کسی نے کہا: ہمیں تو یہ امید تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں شہادت کی موت مریں گے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تب تو میری امت کے شہداء کی تعداد بہت کم ہے! اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہادت ہے، مرض طاعون میں مر جانا شہادت ہے، عورت کا زچگی (جننے کی حالت) میں مر جانا شہادت ہے، ڈوب کر یا جل کر مر جانا شہادت ہے، نیز پسلی کے ورم میں مر جانا شہادت ہے‘‘
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۸۰۳)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’جس نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی دوہنے والے کے دو بار چھاتی پکڑنے کے درمیان کے مختصر عرصہ کے بقدر بھی جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور جس شخص نے اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت مانگی پھر اس کا انتقال ہو گیا، یا قتل کر دیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے، اور جو اللہ کی راہ میں زخمی ہوا یا کوئی چوٹ پہنچایا گیا تو وہ زخم قیامت کے دن اس سے زیادہ کامل شکل میں ہو کر آئے گا جتنا وہ تھا، اس کا رنگ زعفران کا اور بو مشک کی ہو گی اور جسے اللہ کے راستے میں پھنسیاں (دانے) نکل آئیں تو اس پر شہداء کی مہر لگی ہو گی‘‘۔
(سن ابوداؤد حدیث نمبر۲۵۴۱)
