عورتوں کی تجہیز تکفین

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
مردو عورت کی کی تجہیز وتکفین میں فرق
غسل اور تدفین وتکفین میں عورتوں اور مردوں کے کچھ مسائل تویکساں ہیں لیکن جنس مخالف ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں فرق بھی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کے مسائل الگ سے بیان کردئے جائیں اگر چہ اس میں مکررات بھی ہوں گے لیکن ان تمام مسائل کے یکجا بیان ہوجانے سے فائدہ یہ ہوگا کہ ضرورت کے وقت تمام مسائل ایک ہی جگہ دستیاب ہوں گے اس لئے خواتین کے مسائل کا باب الگ سے قائم کیاگیاہے۔
غسل
عورت کو عورت ہی غسل دے جو حیض و نفاس سے اور جنابت سے پاک ہو، اس کا شوہر بھی غسل نہ دے۔ غسل کا تفصیلی طریقہ یہ ہے:
غسل کی تیاری میں مندرجہ ذیل چیزوں کا اہتمام کر لیں:
بیری کے پتے ڈال کرپانی نیم گرم کرلیں ، ورنہ سادہ پانی ہی کافی ہے۔
غسل کے تختہ کو طاق عدد میں لوبان ،اگر بتی یا کسی خوشبو دار چیز کی دھونی دے دیں۔
میت کے ستر پر (ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت) موٹا کپڑا ڈال کر بدن کے کپڑے اتار لیں ،وہ کپڑا اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ بھیگنے کے بعد بدن نظر نہ آئے۔عورت کے ناخنوں میںاگر پالش ہے تو اسے کھرچ کر صاف کردیا جائے اس لئے کہ پالش رہتے ہوئے غسل نہیں ہوگا۔
سب سے پہلے میت کو استنجا کرایا جائے گا ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں میں دستانے پہن کریا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ کر میت کے ستر پر موجود کپڑے کے اندر اندر ہی سے دھویا جائے گا۔ شرم گاہ یا رانوں کے حصے کو بلا حائل چھونا ، یا دیکھنا درست نہیں۔
پھر میت کو وضو کرائیں،میت کو وضو کرانے میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا عمل نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح گٹوں تک ہاتھ بھی نہیں دھلائے جائیں گے۔ بلکہ روئی کو تر کر کے دانتوں ، مسوڑھوں اور ناک کے دونوں سوراخوں میں تین تین مرتبہ پھیر دی جائے گی ، یہ کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن اگر میت کا حیض و نفاس یا جنابت کی حالت میں انتقال ہوا ہو تو یہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔اْس کے بعد ناک ، منہ اور کانوں میں روئی رکھ دیں ، تاکہ وضو اور غسل میں پانی اندر نہ جائے۔ پھر پہلے چہرہ پر پانی ڈالیں گے ، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئیں گے ، پھر سر کا مسح کرایا جائے گا ، پھر دونوں پاؤں کو دھوئیں گے۔
میت کے جسم پر تین مرتبہ پانی بہایاجائے گا : پہلی اور دوسری مرتبہ بیری کے پتوں میں پکا ہوا پانی اور تیسری مرتبہ کافور ملا ہوا پانی بہائیں گے۔
پانی بہانے کی تفصیل یہ ہے : وضو کے بعد پانی بہانے سے قبل میت کے سر کو صابن وغیرہ سے خوب مَل کر دھویا جائے گا۔پھر مْردے کو بائیں کروٹ پر لٹا کر بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین دفعہ سر سے پیر تک اتنا ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی بائیں کروٹ پر پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین دفعہ اتنا پانی ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی دائیں کروٹ تک پانی پہنچ جائے۔
اْس کے بعد میت کو اپنے بدن سے ٹیک لگاکر ذرا سا بٹھانے کے قریب کرکے اْس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں گے، اگر کچھ فضلہ خارج ہو تو صرف اْس کو صاف کردیا جائے گا ، وضو اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں ، اس لیے کہ اس سے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
اْس کے بعد کسی کپڑے سے میت کے بدن کو خشک کرکے اوپر کا گیلا کپڑا بدل دیں گے ، اور جسم پر کافور مل دیں گے۔ عورت کے بالوں کے لٹ بناکر اس کے سینے پررکھ دئیے جائیں۔ پھر اسے کفنایاجائے گا۔
ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وفات ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا (یہ کہا کہ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنانچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیدی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔(بخاری۔حدیث نمبر۱۲۵۳)
ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہی تھیں۔ جب ہم نے غسل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے شروع کرو۔ (بخاری۔حدیث نمبر۱۲۵۶)ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے بال کھولے گئے پھر انہیں دھو کر ان کی تین چٹیاں کر دی گئیں۔ (بخاری۔حدیث نمبر۱۲۶۰)
مسئلہ :عور ت کو کوئی بھی مرد چاہے محرم ہو یا غیر محرم یہاں تک کہ شوہر بھی غسل نہیں دے سکتا۔اگر کوئی عورت موجود نہ ہو توکوئی محرم تیمم کرادے اور اگر کوئی محرم بھی موجود نہ ہو تو اس کا شوہریا کوئی بھی مرد ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر تیمم کرادے (فتاوی دار العلوم ج ۵ ص ۱۸۱) بخلاف اذا ماتت المرأۃ حیث لا یغسلھا الزوج لان ھناک انتھی ملک النکاح لانعدام المحل فصار الزوج اجنبیا فلایحل غسلھا۔بخلاف اس کے کہ عورت مرجائے تو شوہر اسے غسل نہیں دے سکتا اس لئے کہ محل نکاح ختم ہوجانے کی وجہ سے نکاح کی ملکیت ختم ہوگئی اور شوہر اجنبی کی طرح ہوگیااس لئے اسے غسل دینا جائز نہیں ہوگا۔ (بداء الصنائع ج۱ ص ۳۰۴)
تکفین
عورت کے کفن میں پانچ کپڑے مستحب ہیں۔چادر ،ازار، قمیص ،سینہ بنداورسربند یا اوڑھنی۔
کفن کی پیمائش
پیمائش کا طریقہ یہ ہے ۔میت کے سر سے پاؤں تک کسی دھاگے یا لکڑی سے ناپ لیں اس میں چھ سات گرہ بڑھالیں ۔پھر میت کے سینہ کے نیچے سے دھاگہ لگاکر ناپ لیں اور اس میں بھی چھ سات گرہ بڑھالیں ۔ اسی پیمائش کے مطابق ایک کپڑا کاٹ لیں اس کو ازار کہتے ہیں ۔ازار سے چار پانچ گرہ لمبا ایک اور کپڑا لیں اس کو لفاف کہتے ہیں۔گردن سے پاؤں تک ایک کپڑا دوہرا کرکے کاٹ لیں اس کو قمیص یا کفنی کہتے ہیں۔قمیص کو دوہرا کرکے بیچ سے عرض میں شگاف کردیں تاکہ میت کاسر اس میں سے نکل جائے اس کا آدھا حصہ جسم کے نیچے یعنی پشت کی جانب ہوگا اور آدھا حصہ جسم کے اوپر یعنی سینہ کی جانب ہوگا۔ سینہ بند بغل سے رانوں تک لمبااور چوڑائی اتنی ہو کہ آسانی سے باندھا جاسکے اور سربند یا اوڑھنی کپڑے کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہو جس سے سر اور بالوں کوچھپایا جاسکے۔
کفن بچھاتے وقت پہلے لفافہ بچھائیں اس کے بعد سینہ بند بچھائیں اس کے بعد ازار اور اس کے بعدقمیص ۔قمیص پہنانے کے بعداس کے بالوں کے دولٹ بناکر سینے پر ڈال دیا جائے اور سربند سے اس کے سر اوربال ڈھک دیئے جائیں نہ تو اس کو باندھا جائے او رنہ ہی لپیٹا جائے بلکہ یونہی رکھ دیا جائے اس کے بعد ازار لپیٹ دیا جائے اس کے بعد سینہ بندہ کو باندھ دیا جائے، اس کے بعد لفافہ کو لپیٹ دیا جائے۔ واضح رہے کہ قمیص کے کپڑے میں صرف اتنا سوراخ کردیا جائے گا جس سے سر آسانی سے نکل سکے اس میں بازو یاگریبان بنانے کی ضرورت نہیں ۔ھکذا فی الفتاویٰ
تدفین
![]()
جس طرح زندگی میں عورتوں پر پردہ لازم ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی پردہ لازم ہے فرق یہ ہے کہ عورت اپنی زندگی میں خود سے پردہ کرتی ہے لیکن مرنے کے بعد زندہ لوگوں پر لازم ہے کے اس کے پردہ کا خیال رکھیں اور بے پردگی نہ ہونے دیں۔ عورتوں کے جنازے میں چوں کہ نا محرم افراد بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے جنازہ اٹھاتے وقت اور اس کی تدفین کے وقت قبر کے اطراف میں پردہ کرلینا چاہیے تاکہ اس کے جسم پر (کفن کے اوپر بھی) کسی نا محرم کی نگاہ نہ پڑے اور عورت کو قبر میں اتارنے میں صرف اس عورت کے محارم ہی شریک ہوں۔قبر میں اتارنے کے بعد اس کے کفن کی گرہیں کھول دینی چاہئے اور اس کا چہرہ قبلہ رخ کردینا چاہئے ۔پردہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب تک میت کو قبر میں اتارا جارہا ہو اس وقت تک غیر محرم حضرات قبر سے الگ کھڑے رہیں اور جب محرم حضرات میت کو اٹھاکر قبر میں ڈال دیں تو دوسرے لوگ آکر مٹی دیں ۔
جنازہ کو کندھا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے غیر محرم حضرات بھی عورتوں کے جنازے کو کندھا دے سکتے ہیں ۔
