میت کے احکام
موت کےبعد کے اعمال
موت سے پہلے کے حالات اور ان کے مسائل جاننے کے لئے اس لنک پر جائیں ۔

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
موت کے بعد زندوں پر جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے ۔ یہ حق پورے معاشرے پر ہے جولوگ بھی میت کے پاس موجود ہوں انہیں میت کی پوری طرح دیکھ بھال کرنی چاہئے اورمیت کو تجہیز و تکفین کے لئے تیار کرنا چاہئے ۔
موت کے بعد کا ابتدائی عمل
(۱) موت کے بعد میت کی آنکھیں اگرکھلی ہوں تو انہیں نرمی سے بند کردینا چاہئے اور اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کردیئے جائیں،منھ کو بندکرکے کسی پاک کپڑے سے باندھ دیا جائے تاکہ منھ کھلا نہ رہے اور اس کے پاؤں کے دونوں انگوٹھے ایک ساتھ ملاکر باندھ دیئے جائیں تاکہ پاؤں پھیل نہ جائے اور اس کے بدن پرایک کپڑاڈال دیا جائے۔میت کے پیٹ پر کوئی وزنی چیز رکھ دیا جائے تاکہ اس کا پیٹ نہ پھولے۔(کوئی لوہا یا تر مٹی رکھ دیاجائے۔ فتاویٰ عالمگیری ج ،ا، ص، ۳۹۹) ویوضع علیٰ بطنہ سیف او حدید لئلا ینتفخ درمختار اردو ج،۱، ص ۴۴۵۔ناشرایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی)
پیٹ پر کوئی چیز رکھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ زیادہ بھاری چیز نہ رکھی جائے یعنی کوئی ایسی چیز نہ رکھی جائے جو اگر اس کے حیات میں رکھی جاتی تو اسے تکلیف ہوتی ۔میت کااحترام بہر حال لازم ہے۔ جس طرح زندگی میں اس کا احترام کیا جاتاتھا مرنے کے بعد بھی اس کی حرمت کا خیال رکھنا چاہئے۔فقہ کی کتابوں میں تلوار وغیرہ رکھنے کی بات کہی گئی ہے ۔یہ تعیین نہیں ہے بلکہ ایک مثال ہے کہ تلوارا یا اس کے ہم وزن کوئی شیٔ رکھ دی جائے جس میں اس کا وقار بھی بحال رہے اور وزن بھی زیادہ نہ ہو۔
(۲) جوشخص میت کے زیادہ قریب ہو وہ نہایت نرمی سے اس کی آنکھیں بندکردے ۔آنکھیں بند کرنے والا شخص یہ دعا پڑھے : بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ اَللّٰھُمَّ یَسِّرْ عَلَیْہِ اَمْرَہٗ وَسَھِّلْ عَلَیْہِ مَابَعْدَہٗ وَاَسْعِدْہُ بِلِقَائِکَ وَاجْعَلْ مَاخَرَجَ اِلَیْہِ خَیْرًا مِمَّا خَرَجَ عَنْہُ ۔(اللہ تعالیٰ کے نام سے اور رسول اللہ ﷺ کے دین پر اے اللہ اس(میت) پر اس کامعاملہ آسان فرما اور اس کے بعد کے حالات آسان فرما اور اس کو اپنی ملاقات کی سعادت نصیب فرما اورجہاں گیا ہے اس کو اس جگہ سے بہتر بنادے جہا ں سے یہ گیا ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۱ ص ۳۹۹۔ فتح القدیر ج ۲ ص ۱۰۶۔ بحر الرائق ص ج،۲ ، ص، ۲۰۰۔دار الکتب العلمیہ بیروت)
(۳) موت کے بعد وہا ں موجود افراد کو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلّیْہِ رَاجِعُوْنَ( ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا ہے) پڑھنا چاہئے اورمیت کے لئے مغفرت کی دعاکرنی چاہئے ۔یہ کلمۂ صبر ہے اور بندۂ مومن کو جب کسی تکلیف کا سامنا ہویا کوئی صدمہ پہنچے تونبی کریم ﷺ نے یہ دعاء پڑھنے کی تعلیم دی ہے ۔ جولوگ کسی مصیبت کے وقت انا للہ پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور برکت کے مستحق ہوتے ہیں۔
(۴) کوئی ناپاک آدمی میت کے قریب نہ آئے چاہے مرد ہو یا عورت۔ (ویخرج من عندہ الحائض والنفساء والجنب ۔درمختار اردو ج،۱ ص،۴۵۵)
(۵) جولوگ میت کی تعزیت کے لئے آئے ہیں انہیں چاہئے کہ میت کے پاس بیٹھ کر خیر کی باتیں کریں ، مرنے والے کے محاسن بیان کریںاس کی برائیوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ جب میت کے لئے دعاکریں تو اپنے لئے دعاکرنا نہ بھولیں اس لئے کہ اس وقت کی دعا پرفرشتے آمین کہتے ہیں اورجس دعا پر فرشتے آمین کہیں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے شوہر ابو سلمہؓ سے بڑی محبت تھی جب ان کا انتقال ہوگیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کاانتقا ل ہوگیا اب میں کیا کہوں تو آپ ﷺ نے انہیں یہ دعا سکھائی :اَللّٰھمَ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ وَاَعْقِبْنِیْ مِنْہُ عُقْبًی حَسَنَۃً (اے اللہ میر اور اس(ابوسلمہؓ) کی مغفرت فرما اور مجھے ان کااچھاعوض عطافرما)
حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابوسلمہؓ سے بہتر کون ہوسکتاہے لیکن عدت کے بعد جب حضور پاک ﷺ کاپیغام آیا تو میں سمجھ گئی کہ اس سے رسول اللہ ﷺ مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہؓ سے بہتر شوہر عطا فرمایا۔(ترمذی کتاب الجنائزحدیث نمبر ۹۶۵)
میت کے رشتہ داروں ، عزیزوں کو صبر سے کام لینا چاہئے رونے دھونے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ وفور محبت میں اگر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں تو کوئی حر ج نہیں لیکن آواز کے ساتھ رونے اور بین یا سینہ کوبی کرنے سے
شدت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہئے۔
میت کے پاس قرآن کی تلاوت
میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس بلند آواز سے قرآن کریم کا پڑھنا مکروہ ہے۔ تکرہ القرا ء ۃ عندہ حتی یغسل۔لیکن اگرکوئی شخص آہستہ قران کریم کی تلاوت کرے تو جائز ہے۔ وکذا ینبغی تقیید الکراہۃ بما اذا قرا جہراً۔ ابن عابدین(رد المحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ،جزء الثالث ۔ص ۸۴/۸۵دار الکتب العلمیہ بیروت )
غسل میت
ہرانسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے چاہے وہ کسی بھی دین کا ماننے والا کہیں کا بھی رہنے والا ہو ۔ اسلام نے انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کے اصول متعین کئے ہیں اور ایمان والوں کو ان اصولوں پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے ۔مرنے کے بعدانسان چونکہ ایک لاش بن جاتاہے اور وہ اپنی ضروریات خود پوری نہیں کرسکتا اس لئے آس پاس رہنے والے عزیزوں ، رشتہ داروں، دوست واحباب،پڑوسیوں یہاں تک کہ عام مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ میت کے آخری سفر کی تیاری کریں۔ان میں سب سے پہلا عمل میت کو غسل دینا ہے۔میت کو غسل دینا فرض ہے ۔ایک بات واضح رہے کہ میت کو نہلانے کاعلیٰحدہ کوئی خاص طریقہ نہیں ہے ۔ جس طرح زندگی میں غسل جنابت کے فرائض اور مستحبات ہیں میت کے غسل میں بھی وہی فرائض ومستحبات ہیں ۔فرائض کو بجالانا تو ضروری ہے لیکن مستحبات میں کوئی کمی ہوگئی تو بھی غسل ہوجائے گا۔اصل چیز یہ ہے کہ میت کو اچھی طرح دھوکر صاف کردیا جائے۔میت چونکہ اب دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جارہا ہے اس لئے شریعت کاحکم یہ ہے کہ اسے نہایت ہی عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کیا جائے اور غسل دینا عزت وتکریم کی علامت ہے اس لئے میت کو بغیر غسل دیئے جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔مردہ چونکہ بذات خود کوئی عمل نہیں کرسکتا اس لئے زندہ افراد پرلازم ہے کہ اس کو غسل دیں ۔
میت کو غسل دینے والے کی فضیلت
میت کو غسل دینے والے اور اس کے عیوب پرپردہ پوشی کرنے والے کی اللہ تعالیٰ چالیس بار مغفرت فرماتے ہیں اور کفن پہنانے والے کو جنتی لباس پہنایا جائے گا جو سندس اور استبرق سے تیار ہوگا اور قبر تیار کرنے اور اس میں میت کو دفن کرنے والے کو اتنا ثواب ملتاہے جتنا اس شخص کو ملے گا جس نے اپنے مکان میں کسی کو قیامت تک ٹھہرایا۔ (مستدرک حاکم کتاب الجنائز۔ حدیث نمبر۱۳۳۸)
میت کو کون غسل دے
بہتر ہے کہ میت کے قریبی رشتہ دار غسل دیں اور اگر کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہیں ہویا موجود تو ہو لیکن غسل دینے کے طریقے سے واقف نہ ہو تو دوسرے لوگ بھی غسل دے سکتے ہیں ۔متقی اور پرہیز گار لوگ غسل دیں تو بہتر ہے۔(فتاویٰ عالمگیری اردو ج۔۱۔ ص ۱۰۲۔)
مرد کو مرد غسل دے اور عورت کو عورت غسل دے ۔ کسی مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی عورت کوغسل دے اسی طرح کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مرد کو غسل دے۔جس طرح مرد کا کسی اجنبی مرد کے بدن کو بلا شہوت چھونا جائز ہے اسی طرح کسی بھی اجنبی مرد کا کسی اجنبی کو غسل دینا جائز ہے ۔اسی طرح جیسے کسی عورت کے لئے کسی اجنبیہ عورت کا بدن چھونا بلاشہوت جائز ہے ۔ مرنے کے بعد بھی اجنبیہ عورت کاکسی اجنبیہ عورت کو غسل دینا جائز ہے لیکن جس طرح کسی جنس مخالف کو حیات میں بلا شہوت چھونا بھی جائز نہیں اسی طرح کسی جنس مخالف کو مرنے کے بعد بھی چھونا جائز نہیں اور غسل ایسی شیٔ ہے کہ بغیر مس کئے ممکن نہیں۔ (الجنس یغسل الجنس فیغسل الذکر الذکر والانثی الانثی لان حل المس من غیر شہوۃ ثابت للجنس حالۃ الحیات فکذا بعد الموت ( بدائع الصنائع ج ۔۱۔ ص ۳۰۴)
ایسے نابالغ بچے جنہیں دیکھنے سے شہوت پیدانہیں ہوتی انہیں کوئی بھی غسل دے سکتاہے چاہے بچی کو کوئی مرد غسل دے چاہے بچے کو کوئی عورت غسل دے دونوں جائز ہے۔ والصغیر والصغیرۃ اذا لم یبلغا حد الشھوۃ یغسلھا الرجال والنساء۔( فتح القدیر۔ج ۔۲۔ ص۱۱۳)
اگرجنس موافق موجود نہ ہو
اگر کسی مرد کاانتقال ہوجائے اور اس کو غسل دینے والا کوئی دوسرا مرد موجود نہیں ہو تو اس کی بیوی اسے غسل دے ۔اذا مات الرجل فی سفر فان کان معہ رجال یغسلہ الرجل وان کان معہ لارجل فیھن فان کان فیھن امرتہ غسلتہ وکفنتہ وصلین علیہ وتدفنہ( بدائع الصنائع ج۔۱۔ ص ۳۰۴)
لیکن بیوی کے علاوہ کسی عورت کے لئے کسی مرد کو غسل دینا جائز نہیں ہے ۔اگر بیوی بھی موجو دنہیں ہے تو محرم عورتیں اسے تیمم کرادیں اور اگر محرم عورتیں بھی موجود نہیں ہیں تو غیر محرم عورتیں میت کو ہاتھ لگائے بغیر دستانے پہن کر اسے تیمم کرادیں۔
لیکن اس کے برعکس اگرکسی عورت کاانتقال ہوجائے اور وہاں کوئی دوسری عورت موجود نہ ہو جو اسے غسل دے سکے تو اس کا شوہر بھی اسے غسل نہیں دے سکتا بلکہ اسے کوئی محرم تیمم کرادے اور اگر محرم نہ ہو تو شوہر یا کوئی اجنبی شخص دستانے پہن کر یا کپڑا لپیٹ کر تیمم کرادے۔ ماتت بین رجال او ھو بین نساء یممہ المحرم ، فان لم یکن فالاجنبی بخرقۃ ۔( رد المحتار کتاب الصلاۃ ،باب صلوۃ الجنازۃ ص۹۳ ج ۳ بیروت)
غسل کی تیاری پہلے کرلیں
غسل کے جو لوازمات ہیں انہیں پہلے جمع کرلینا چاہئے تاکہ غسل دیتے وقت ہر چیز کو تلاش نہیں کرنا پڑے ۔سہولت کے لئے ان چیزوں کے نام درج کئے جاتے ہیں ۔ (۱)نہلانے کے لئے پانی کابرتن ، بالٹی یا ٹب وغیرہ جس میں پانی رکھا جاسکے ۔(۲) لوٹا ، یاکوئی ایسا چھوٹا برتن جیسے جگ یا مگ وغیرہ جس سے پانی نکال کر میت کے بدن پر ڈالاجائے (۳)غسل کا تختہ ،مسجدوں میں ہوتے ہیں یا گھر میں بھی کوئی تخت موجود ہو جس پرمیت کو لٹاکر غسل دیاجاسکے پاک صاف ہو نا ضروری ہے تشفی کے لئے اسے غسل دینے سے پہلے دھولینا چاہئے ۔(۴) بیری کے پتے جنہیں پانی میں ڈال کر ابالا جائے ۔(۵) لوبان مناسب مقدار میں جسے جلاکر خوشبو بسایاجائے۔(۶) عطر (۸) روئی (۷) صابن(۸)کافور (۹) تہبند(۱۰) دستانے۔
غسل دینے کا طریقہ
جس تختہ پر میت کو غسل دینا ہے اسے طاق مرتبہ لوبان کی دھونی دے دی جائے اور میت کو اس طرح لٹایا جائے کہ اس کادایا حصہ قبلہ کی جانب ہواور اگر ایسا کرنا مشکل ہو تو جس صورت میں زیادہ سہولت ہووہی صورت اختیار کیا جائے۔ (فتح القدیر)میت کو غسل دینے کے لئے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر جوش دے دیا جائے اس سے بدن کے میل کچیل کی صفائی اچھی طرح ہوجاتی ہے ۔میت کو ایک تختہ پر لٹا دیا جائے اور اس کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کسی موٹے کپڑے سے ڈھک دیاجا ئے اور باقی بدن کے کپڑے اتار دیئے جائیں۔ میت کے کانوں اور ناک میں روئی یا کپڑا ڈال دیا جائے تاکہ غسل دیتے وقت کانوں میں یاناک میں پانی نہ جائے۔ میت کو سب سے پہلے وضوکرایا جائے لیکن مردہ کے منھ اور ناک میں پانی نہیں ڈالا جائے اس لئے کہ اس کا نکالنامشکل ہوگاکلی کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اگرمنھ کھلاہوا ہے تو کسی کپڑے یا روئی وغیرہ کوبھگاکر منھ کے اندر پھیر دیا جائے اور اگرمنھ بند ہے تو ہونٹوں اور دانتوں پر کپڑا یا روئی بھگاکر پھیر دیا جائے۔ اسی طرح ناک کے اندر بھی بھگا ہوا کپڑا یا روئی پھیر دیا جائے۔ وضو کے بعد اس کی داڑھی اور سر کو صابن سے اچھی طرح دھودیا جائے اس کے بعد بائیں کروٹ کرکے دایاں حصہ دھو دیاجائے اور پھردائیں کروٹ کرکے بایاں حصہ دھودیا جائے۔پھر غسل دینے والے میت کو جہاں تک آسان ہو بیٹھانے کی کوشش کریں اور اس کے سرکی طرف کسی چیز کاتکیہ لگادیں اور اس کے پیٹ کو ہلکا ہلکا سہلائیں اور پیشاب پاخانہ کے راستوں سے کچھ خارج ہو تو اسے دھوڈالیں ۔میت کو طاق مرتبہ غسل دیا جاناچاہئے لہٰذاتین با ر یا ضرورت ہوتو پانچ بار پانی بدن پر بہا سکتے ہیں۔ مقصودیہ ہے کہ میت کابدن اچھی طرح صاف ہوجائے۔مناسب ہے کہ پہلی بار صاف پانی سے اس کے جسم کو دھودیا جائے اور دوسری بار بیری کے پتوں کے ساتھ جوش دیا ہواپانی استعمال کیا جائے اور آخری بار کافور ملاہوا پانی استعمال کیا جا ئے(بدائع الصنائع فی بیان کیفیۃ الغسل) تاکہ میت کا بدن خوشبودار ہوجائے اس کے علاوہ کافور سے بدن کی جلد بھی محفوظ ہوجاتی ہے پہلے سے موجود کیڑے بھی ختم ہوجاتے ہیں اور باہر کے کیڑے بھی جلدی نہیں لگتے ۔کافور کی جگہ صابن کااستعمال بھی کیا جاسکتاہے ۔اس کے بعد میت کے بدن کو کسی صاف کپڑے سے اچھی طرح پونچھ دیا جائے تاکہ کفن نہ بھیگے۔میت کے ناخن اور بال نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی چہرے کے بالوں جیسے داڑھی یا مونچھوں کوکاٹا جائے بلکہ جس حالت میں موت واقع ہوئی ہے اسی حالت میں غسل دے کر کفن پہنا دیا جائے۔
میت بچوں کا غسل
نومولود بچہ اگر مردہ حالت میں پیداہوا تو اس کو غسل دیا جائے گا اور کسی کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نماز جنازہ کے دفن کردیا جائے گااور اگر بچہ وقت سے پہلے پیداہو گیااور اس کے اعضا نہیں بنے ہیں تو اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر کہیں دفن کردیا جائے۔ اگر کوئی بچہ زندہ حالت میں پید اہوا جیسے پیداہوتے ہی کوئی حرکت کیا یا رویا چلایا یعنی اس کی زندگی کے آثار محسوس کئے گئے تو اس کو غسل بھی دیا جائے گا اور اس کے جنازہ کی نماز بھی پڑھی جائے گی ۔
غسل میت سے غسل واجب نہیں
میت کو غسل دینے سے آدمی ناپاک نہیں ہوتا اس لئے غسل دینے والے کو غسل کرنا ضروری نہیں اچھی طرح ہاتھ پاؤں دھولے اور وضوکرکے نماز جنازہ پڑھ لے اور اگر کوئی ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو کرلینامستحب ہے۔ جو یہ بات مشہور ہے کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب ہوجاتاہے اس کی کوئی اصل نہیں۔

[…] موت کے بعد کے حالات اور ان سے متعلق مسائل کی واقفیت کے ل… […]
[…] غسل میت کے احکام ومسائل کے لئے اس لنک پر جائیں […]