جھوٹے نبی :مدعیان نبوت ایک تحقیقی جائزہ

تحریر : مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
نبوت کے جھوٹے دعوے دار
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بہت سارے فتنوں نے جنم لیا ، کچھ مسلمان ان فتنوں کی زد میں آکر متاثر بھی ہوئے اور زکوۃ دینے سے منع کردیا ، کچھ مرتد ہوگئے ۔ان میں ایک بڑا فتنہ نبوت کے جھوٹے مدعیوں کا بھی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے نومسلم اپنا دین وایمان کھوبیٹھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان فتنوں سے متعلق امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھااور بتادیا تھا کہ میرے بعد مدعیان نبوت پیدا ہوں گے اور وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوںگے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔‘‘
(صحیح بخاری ۔کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔حدیث نمبر 3609)
اس حدیث میں جس جنگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حضرت علی ؓ ومعاویہ ؓ کے درمیان جنگ کی صورت میں پیش آچکی ہے ۔جیسا کہ شارحین حدیث نے بیان کیا ہے ۔حدیث کا دوسر اجزء جس میں جھوٹے مدعیان نبوت کا تذکرہ ہے ذیل میں اس کا جائزہ مختصرا پیش کیا جائے گا۔مدعیان نبوت سے متعلق ایک اور حدیث میں رسول اللہ کا ارشا د اس طرح ہے :
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی‘‘ یا فرمایا: ’’میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا‘‘
(سنن ابو داؤد۔کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا۔حدیث نمبر4252)
مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ان کذابین کے بارے میں بھی پیشین گوئی فرمادی تھی جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے بعض آپ کی حیات مبارکہ میں ظاہر ہوئے، بعض رحلت نبوی کے بہت قریب ظاہر ہوئے اور بعض تھوڑے بعد میں ظاہر ہوئے یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور قیامت تک ایسے کذابین آتے رہیں گے اور طاغوتیت کی دعوت دیتے رہیں گے لیکن ایمان والے ان کا مقابلہ کریں گے اور وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ورسوا ہوں گے۔نثار احمد خاں فتحی نے مسیلمہ کذاب سے غلام احمد قادیانی تک بائیس جھوٹے نبیوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں:
بائیس جھوٹے نبی
مسیلمہ کذاب،اسود عنسی ، طلیحہ اسدی، سجاح بن حارث ، حارث دمشقی ، مغیرہ بن سعید ، بیان بن سمعان ، صالح بن طیرف، اسحاق اخرس ، استاد سیس خراسانی ، علی بن محمد خارجی ، مختار بن ابو عبید ثقفی ، حمدان بن اشعث قرمطی، علی بن فضل یمنی، حامیم بن من للہ ، عبد العزیز باسندی ، ابوطیب احمد بن حسین، ابوالقاسم احمد بن قسی ، عبد الحق مرسی ، بایزید روشن جالندھری ، میر محمد حسین مشہدی ، مرزا قادیانی ، محمد یوسف علی ۔
یہ تمام کے تمام اپنے دور کے مدعیان نبوت تھے ۔ اللہ نے سب کو ذلیل خوار کیا آج ان کانام و نشان باقی نہیں ہے ۔ان میں کچھ کے متبعین بھی ہوئے لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ان کے نشان بھی مٹ گئے ۔ دور حاضر میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے موجود ہیں اور انہوں نے اچھی خاصی جمعیت بنالی ہے۔
اسود عنسی
اسود عنسی نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا۔رسول اللہ ﷺ کواللہ تعالیٰ نے بذریعہ خواب اس کی حقیقت کی اطلاع دے دیا تھا ۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ’’میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوئی، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔‘‘
(صحیح بخاری ۔ کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۔3621)
اسود عنسی یمن کارہنے والا تھا اس کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا۔ وہ شیریں کلام تھا اس لئے لوگ اس کی باتوں میں فوراً آجاتے تھے۔ کہانت کا بھی ماہر تھا۔ شکل صورت کے اعتبار سے کالاکلوٹا تھااس لئے اس کو اسود عنسی کہاجاتاہے۔اس نے رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیاتھا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کے حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے یمن کے مسلمانوں کو خط کے ذریعہ حکم بھیجا کہ اس فتنہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہاں کے مسلمانوں نے جنگ وجدال اور ہنگامہ آرائی کے بغیر نہایت حکمت و مصلحت کے ساتھ اس کے محل میں چند لوگوں کوداخل کیا اور فیروز نامی ایک شخص نے اس کی گردن مروڑ کر ختم کردیا ۔
مسیلمہ کذاب
مسیلمہ کذاب کانام مسیلمہ ابن حبیب تھا یہ یمامہ کا رہنے والا تھا ۔اس نے بھی رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں نبوت کا دعویٰ کردیا تھا ۔اس کے پہلے یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب کے ذریعہ دو کذابوں کے بارے میں اطلاع دی گئی تھے ان میں ایک اسو د عنسی اور دوسرا مسیلمہ کذاب تھا۔مسیلمہ نے رسول اللہ ﷺ سے مدینہ میں ملاقات کیا تھا اور جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر ایمان پیش کیا تو اس نے یہ شرط رکھی کہ میں اس شرط پرایمان لے آؤں گا کہ آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ نامزد فرمائیں رسول اللہ ﷺ نے صاف انکارکردیا تھا ۔ذیل کی روایت دیکھئے:
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ میں آیا اور یہ کہنے لگا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ’’امر‘‘ (یعنی خلافت) کو اپنے بعد مجھے سونپ دیں تو میں ان کی اتباع کے لیے تیار ہوں۔ مسیلمہ اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر مدینہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ وہاں ٹھہر گئے جہاں مسیلمہ اپنے آدمیوں کے ساتھ موجود تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اگر تو مجھ سے چھڑی بھی مانگے تو میں تجھے نہیں دے سکتا اور پروردگار کی مرضی کو تو ٹال نہیں سکتا اگر تو اسلام سے پیٹھ پھیرے گا تو اللہ تجھ کو تباہ کر دے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ تو وہی ہے جو مجھے دکھایا گیا تھا۔‘‘
(صحیح بخاری ۔ کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۔3620)
مسیلمہ کذاب نے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اچھی خاصی جمعیت اکٹھا کرلی تھی ۔آخر کار خلافت صدیقی میں مسیلمہ کذاب سے یمامہ میں جنگ ہوئی اور وہ وحشی ابن حرب ؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔
طلیحہ اسدی
طلیحہ ابن خویلد اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گئے اور دعوائے نبوت کر دیا۔ بہت سارے عرب قبائل نے فتنہ ارتداد میں اس کی نبوت کو قبول کر لیا کیونکہ وہ بنو اسد کے ایک مشہور جنگجو اور دلیر سردار کے طور پر جانا جاتا تھا، طلیحہ نے لگ بھگ ستر ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ فتح کرنے کی مہم شروع کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بطور خلیفہ قریش پر مشتمل ایک لشکر اس کی بیخ کنی کے لئے ارسال کیا جس کے تین حصے کئے گئے، حضرت علیؓ، حضرت زبیر ابن العوام ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ۔ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا کمانڈر بنایا،، اس لشکر نے طلیحہ کی پیش قدمی تو روک لی، مگر اس کا لشکر بہت بڑا تھا لہذا خالد ابن ولید کو ان کی مدد کے لئے بھیجا گیا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، اس کے لشکر میں شامل دیگر عرب قبائل نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کر لیا، جبکہ طلیحہ پہلے شام فرار ہوا اور پھر شام کے فتح ہونے پر پلٹ کر دوبارہ آیا اور اسلام قبول کر لیا۔
بعد میں طلیحہ نے ایران کے خلاف اسلامی لشکر کے ایک حصے کی قیادت کی جو اس کے قبیلے کے جنگجوؤں پر مشتمل تھا، جبکہ لشکر کی قیادت سعد بن ابی وقاصؓ کے ہاتھ میں تھی، نہاوند کی جنگ میں ایرانی شکست کا سب سے بڑا حصے دار طلیحہ تھا، جس کی بہادری کی دھاک ایرانی لشکر پر بیٹھ گئی تھی، وہ رات کے اندھیرے میں بارہ کیلومیٹر تن تنہا اکیلے ایرانی لشکر کے کیمپ میں گئے، اور کچھ ایرانی قتل کر کے قیدی بھی ساتھ لے آئے، اسلام کی طرف سے ذو قصہ، قادسیہ اور جلولہ کی جنگوں میں شریک رہے اور آخری معرکے میں اللہ کی راہ میں شہادت پائی خلیفہ وقت حضرت عمرؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ نے ان کے بارے میں بہترین تعریفی کلمات فرمائے۔
(ویکیپیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)
علامہ بن عبد البر نے طلیحہ کے متعلق لکھاہے :
’’طلیحہ بن خویلد اسدی رسول اللہ ﷺ کے بعد مرتد ہو ااور اس نے نبوت کا دعوی کردیا ۔ اور وہ ایک مشہور گھوڑ سوار سپاہی تھا اس کی قوم اس کے ساتھ جمع ہوگئی ۔چنانچہ حضرت خالد بن ولید ؓ اس کی طرف نکلے طلیحہ اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی اور ان میں سے اکثر کو قتل کردیا ۔ اور طلیحہ اور اس کے بھائی نے عکاشہ بن محصن اسدی اور ثابت بن اقرم کو قتل کیا پھر وہ شام بنی جفنہ کے پاس چلا گیا۔یہاں تک کہ حاجیوں کے ساتھ مدینہ حاضر ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے اسے نہیں چھیڑا ، پھر وہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں آیا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ تو دو آدمیوں کا قاتل ہے یعنی عکاشہ بن محصن اسدی اور ثابت بن اقرم تو اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ذریعہ مجھے ذلیل نہیں کیا اور میرے ذریعے ان کو عزت بخشا۔تو عمر ؓ نے کہا کہ واللہ میں تجھے کبھی پسند نہیں کروں گا۔ تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنین حسن معاشرت کا معاملہ فرمائیں۔پھر اس نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی اور اچھی کوشش کی ۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ، لابن عبد البرّ جلد۳ص ۲۳۵،مرکز ھجر للبحوث والدراسات العربیۃ والاسلامیہ،)
طلحہ بن خولید کو اللہ تعالیٰ نے شرف صحابیت دیا تھا لیکن ارتداد کی وجہ سے وہ شرف جاتا رہا لیکن دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد اس کو شہادت نصیب ہوئی ۔
سجاح بنت حارث تمیمی
سجاح بنت حارث قبیلۂ بنی تمیم کی ایک عورت تھی۔ نہایت ہوشیار تھی اور حسن خطابت وتقریر میں مشہور تھی۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ایک گروہ اس کے ساتھ ہوگیا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔ مگر کسی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی ہوگیا۔ بعد ازاں سجاح نے مسیلمہ کا رخ کیا۔ مسیلمہ نے یہ خیال کر کے کہ اگر سجاح سے جنگ چھیڑی تو کہیں قوت کمزور نہ ہو جائے۔ اس لئے مسیلمہ نے بہت سے ہدایا اور تحائف سجاح کے پاس بھیجے اور اپنے لئے امن طلب کیا اور ملاقات کی درخواست کی، مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ سجاح سے جاکر ملا اور یہ کہا کہ عرب کے کل بلاد نصف ہمارے تھے اور نصف قریش کے لیکن قریش نے بدعہدی کی اس لئے وہ نصف میں نے تم کو دے دئیے۔
بعدازاں مسیلمہ نے سجاح کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ سجاح نے اس دعوت کو قبول کیا۔ مسیلمہ نے ملاقات کے لئے ایک نہایت عمدہ خیمہ نصب کرایا اور قسم قسم کی خوشبوؤں سے اس کو معطر کیا اور تنہائی میں ملاقات کی۔ کچھ دیر تک سجاح اور مسیلمہ میں گفتگو ہوتی رہی۔ ہرایک نے اپنی اپنی وحی سنائی اور ہرایک نے ایک دوسرے کی نبوت کی تصدیق کی اور اسی خیمہ میں نبی اور نبیہ کا بلاگواہوں اور بلا مہر کے نکاح ہوا۔ تین روز کے بعد سجاح اس خیمہ سے برآمد ہوئی۔ قوم کے لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہا کہ میں نے مسیلمہ سے صلح کر لی اور نکاح بھی کر لیا۔ لوگوں کو بہت ناگوار ہوا اور سجاح کو لعنت ملامت کی۔ قوم نے پوچھا کہ آخر مہر کیا مقرر ہوا؟ سجاح نے کہا کہ اچھا میں پوچھ کر آتی ہوں کہ میرا مہر کیا ہے؟ سجاح مسیلمہ کے پاس آئی اور مہر کا مطالبہ کیا۔ مسیلمہ نے کہا کہ جا اپنے ہمراہیوں سے یہ کہہ دے کہ مسیلمہ رسول اللہ نے سجاح کے مہر میں دو نمازیں فجر اور عشاء کی تم سے معاف کر دیں۔ جن کو محمد(ﷺ) نے تم پر فرض کیا تھا۔ سجاح نے واپس آکر اپنے رفقاء کو اس مہر کی خبر کی۔ اس پر عطاردبن حاجب نے یہ شعر کہا ؎
امست نبیتنا انثی نطوف بہا
واصبح انبیاء الناس ذکرانا
’’ ہماری قوم کی نبی عورت ہے جس کے گرد ہم طواف کر رہے ہیں اور لوگوں کے نبی مرد ہوتے چلے آئے ہیں۔‘‘
سجاح جب مسیلمہ کے پاس سے لوٹی تو اثناء راہ میں خالد بن ولید کا لشکر مل گیا۔ سجاح کے رفقاء تو منتشر ہوگئے اور سجاح روپوش ہوگئی اور اسلام لے آئی اور پھر وہاں سے بصرہ چلی گئی اور وہیں اس کا انتقال ہوا اور سمرہ بن جندبؓ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت سمرہؓ اس وقت حضرت معاویہؓ کی طرف سے امیر تھے۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد ۲ ص۲۱۳ تا۲۶۱ دالکتب العمیہ بیروت)
حارث بن عبد الرحمن بن سعید متنبی دمشقی
حارث بن عبد الرحمن بن سعید متنبی دمشقی ایک غلام تھا آزادی کے بعد اس نے ریاضت شروع کی لیکن اس کا کوئی مرشد یا استاد نہیں تھانتیجہ یہ ہوا کہ وہ شیطان کی شاگردی میں چلاگیا اور اس سے طرح طرح کے خوارق صادر ہونے لگے جس کی وجہ سے وہ اپنے آ پ کو نبی سمجھنے لگا ۔بالآخر خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اس کو پکڑ کر لایا گیااور نیزہ مارکر اسے ہلاک کردیا گیا۔
( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۵)
مغیرہ بن سعید عجلی
مغیرہ بن سعید عجلی فرقہ مغیریہ کا بانی تھا۔جوغالی روافض کا ایک گروہ تھا۔ یہ شخص خالد بن عبد اللہ قسری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام اور بڑا غالی رافضی تھا۔ حضرت امام محمد باقر کی رحلت کے بعد پہلے اس نے امامت کادعویٰ کیا اور پھرنبوت کا دعوی کرنے لگا۔خالد بن عبد اللہ قسری جو ہشام بن عبد الملک کی طرف سے عراق کا والی تھا اس نے مغیرہ کو پکڑ کر زندہ آگ میں جلادیا۔
( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۸)
بیان بن سمعان تمیمی
بیان بن سمعان تمیمی بھی مغیرہ بن سعید عجلی کا ہم عصر تھا اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیااس کا حشر بھی مغیرہ ہی کی طرح ہوا۔
( بائیس جھوٹے نبی ۔از نثار احمد فتحی ص۳۵)
مختار الکذاب
مختار بن ابو عبید ثقفی قبیلہ ثقیف کا ایک عالم فاضل آدمی تھا اہل بیت کا سخت مخالف تھا لیکن واقعہ کربلاکے بعد اس نے ایک ایسا کام کیا جس کی وجہ سے اس کی شہرت اور عزت میں کافی اضافہ ہوا اور یہ اس کی گمراہی کاسبب بھی بنا ۔ مختار دولت ومنصب کا لالچی تھا جب اس نے دیکھا کہ کربلا میں اہل بیت چن چن کر شہید کردیئے گئے تو اس نے سوچا کہ اچھا موقع ہے حضرت حسین ؓ کے قاتلوں سے بدلہ لے کر اپنی عزت کو بحال کیا جائے چنانچہ اس نے قاتلین حسین کو چن چن کر قتل کیا جس کی وجہ سے خلق کثیر اس کے گرد جمع ہوگئی اور کچھ چاپلوس قسم کے لوگوں نے اس کی تعریف اور ہمت و بہادری کے پل باندھنا شروع کردیا ۔ انجام کار وہ نبوت کا دعویٰ کربیٹھااور کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل ؑ آتے ہیں۔ایک حدیث میں اس کا اشارہ موجود ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا‘‘۔
(سنن ترمذی ۔ کتا الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب ماجاء فی ثقیف کذاب ومبیر حدیث نمبر 2220)
آگے امام ترمذی اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا ء میں لکھاہے:
آپ ( عبد اللہ بن زبیر ) کے زمانہ میں مختار الکذاب مدعی نبوت نے خروج کیاپس حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اس پر لشکر کشی کی اور اس پر ۶۷ھ میں فتح پائی اور آپ نے اس ملعون کو قتل کردیا ۔
(تاریخ الخلفاء اردوص ۴۳۹۔پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)
حمدان بن اشعث قرمطی
حمدان بن اشعث قرمطی اسماعیلی شیعہ(باطنی) کی ایک شاخ قرامطہ کا بانی ہے اس نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی ۔ پہلے اس نے اپنے ماننے والوں پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں لیکن جب لوگوں نے شکاییت کی تو انہیں دونمازوں کا حکم دیا ۔ روزے مختصر کرکے دوکردئے اور تمام بہائم کو حلال کردیا ۔ حاکم کوفہ ہضیم کو حمدان کے بارے میںعلم ہو ا تو اس نے حمدان کو پکڑ کر قید کردیا۔ لیکن وہ راتوں رات قید سے بھاگ گیا ۔آخری عمر اس نے روپوشی میں گذاری اس کے انجام سے متعلق تاریخ خاموش ہے۔
(بائیس جھوٹے نبی ۔ص ۷۳۔ تالیف نثار احمد خاں فتحی ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)
اس طرح رسول اللہ نے جوپیشین گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے یہ جھوٹے مدعیان نبوت آتے رہے اور آج تک چھوٹے بڑے کذابوں کا سلسلہ جاری ہے کوئی جلدی ختم ہوگا کوئی کچھ دیر رہا کسی کے ماننے والے پیدا ہوئے کوئی ویسے ہی راندۂ درگاہ ہوا انہیں میں ایک بڑا کذا ب مرزا غلام احمد قادیانی ہندوستان میں پیدا ہواجو خود تو واصل جہنم ہوگیا لیکن اس کے ماننے والے آج بھی اس کی جھوٹی نبوت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
