مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

ختم نبوت کاعقیدہ اور قادیانیت:تاریخی واعتقادی تجزیہ 

 

ختم نبوت اور قادیانیت

تحریر: مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

عقیدۂ ختم نبوت

عقیدۂ ختمِ نبوت اسلام کا بنیادی اور غیر متزلزل عقیدہ ہے جس کے مطابق حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ سلسلۂ نبوت ہمیشہ کے لیے مکمل اور ختم ہوگیا، لہٰذا آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی، رسول یا وحی کے دعوے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ عقیدہ قرآنِ کریم، احادیثِ نبویہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے اور اسلامی ایمان و عقیدہ کے اہم ترین ستونوں میں شمار ہوتا ہے۔ ختمِ نبوت کا تحفظ دراصل دینِ اسلام کی اصل اور بنیاد کی حفاظت ہے، کیونکہ شریعت کی تکمیل، احکام کا استحکام اور امت کی وحدت اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بالکل اعلان کردیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبین ہیں اس لئے آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنےکا کو ئی امکان ہی نہیں ہے ۔

ختم نبوت کا اعلان قرآن و حدیث میں

قرآن کہتاہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا(۴۰)احزاب

’’ محمد(ﷺ) تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں بالکل واضح الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔اور اس کی تشریح و تفسیر رسول اللہ ﷺ نے کردی ہے کہ لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔جمہور صحابہ وتابعین اور اس کے بعد سے آج تک امت کا موقف اور عقیدہ یہی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ ہاں رسول اللہ کی تصریحات کے بعد یہ پتہ چلتاہے کہ جھوٹے نبی ہوں گے ۔ انہیں میں مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہے جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ احادیث کی ایک کثیر تعداد ہے جن سے آپ ﷺ کا خاتم نبوت ہونا ثابت ہوتا ہے اس کو آج ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چند احادیث ذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہو جاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے‘‘۔

(سنن ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ باب فی فضل النبی ﷺ حدیث نمبر3613)
اس خالی اینٹ کی جگہ کی مزید وضاحت بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوجاتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبین ہوں :
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘

(صحیح بخاری۔کتاب المناقب باب خاتم النبیین حدیث نمبر3535)

ان دونوں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصر نبوت کو مکمل کردیا اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہو گا۔

(سنن ترمذی ۔کتاب الرؤیا عن رسول اللہ ﷺ باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات حدیث نمبر2272)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں، اور میری امت میں عنقریب تیس جھوٹے نکلیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا‘‘۔

(سنن الترمذی کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ باب لاتقوم الساعۃ حتی یخرج الکذابون ، حدیث نمبر2219)

اتنی صریح روایت کے بعد بھی اگر کوئی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ صراصر کذاب کے سوا اور کیا ہوسکتاہے؟لیکن ان سب کے باوجود کمال ڈھٹائی سے مرزا غلام احمد قادیانی نے خاتم النبین کے معنی اور اس کی تشریح میں تحریف سے کام لیا ہے اور نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔اب تک جتنے کذابین پیدا ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ پیروکار مرزاغلام احمد قادیانی کے ہی پید اہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ باضابطہ طور پر ان کی دعوت وتبلیغ بھی ہورہی ہے۔ نوجوان نسلوں کو جال میں پھنساکر انہیں دین وایمان سے منحرف کیا جارہا ہے۔سیم و زر ، عیش ونشاط کا شیش محل دکھاکر کمزور مسلم نوجوانو ں کواسلام سے قادیانیت کی طرف لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اس کا سختی سے مقابلہ کرے اور اپنے نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ان کے دل ودماغ میں اسلامی عقیدہ کو اتنا راسخ کردے کہ کذب وافترا کے ان ابلیسوں کے داؤ ان نوجوانوں پرکارگر نہ ہوسکیں۔

مرزا غلام احمد قادیانی

مرزا کا نام غلام احمد والد کا نام غلام مرتضی آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداس پور پنجاب ہے، اس کی پیدائش ۱۸۳۹ یا۱۸۴۰ میں ہوئی۔ قرآن پاک فارسی اور عربی کی کتب مختلف اساتذہ سے پڑھیں، فن طبابت اپنے والد سے سیکھا۔

۲۵/۲۶/ سال کی عمر میں مرزا سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں ملازم تھے۔ یہاں کی ملازمت کے دوران مرزا نے یورپین مشنریوں اور انگریز افسران سے تعلقات بڑھانے شروع کیے اور مذہبی بحث کی آڑ میں عیسائی پادریوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انھیں حمایت و تعاون کا یقین دلایا۔ مرزا نے کچھ ہی دنوں بعد ملازمت ترک کرکے تصنیف و تالیف شروع کردیا، مرزا نے ۱۸۸۰ میں اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۱۸۸۲ میں مجدد ہونے کا۱۸۱۹ میں مسیح موعود ہونے کا۱۸۹۸ میں مہدی ہونے کا۱۸۹۹ میں ظلی بروزی نبی ہونے کا۱۹۰۱ میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی چونکہ ماضی قریب میں ہی گذرا ہے اور اس کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد برصغیر میں رہتی ہے اس لئے اس کے حالات وخیالات ذرا تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں۔

مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت انگریزوں کی طرف سے ملی

 یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب انگریز ہندوستان میںآئے تو جس قوم نے سب سے زیادہ سخت ٹکر انہیں دیا وہ مسلم قوم ہے ۔ اس لئے انگریزوں نے ہر طرح سے کوششیں کیں کہ کسی طرح مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ٹھنڈا کردیا جائے اور انہیں اپنے دین سے منحرف کردیا جائے۔ ا س کے لئے انہوں نے نے نرم گرم ہر طرح کے ہتھیار استعمال کئے ۔ مسلم عوام وعلماء کا قتل عام بھی کیا ، قرآن کے نسخوں کو نذر آتش بھی کیا،رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی کیں، مسلمانوں کے درمیان زرخرید ایمان فروش بھی پیدا کیے۔ لیکن انگریزی حکومت کے خلاف تحریک میں بجائے نرمی کے اور شدت پیدا ہوتی گئی ۔چنانچہ انگریزی حکومت نے مسلمانوں کے حالات کاجائزہ لینے کے لئے ایک وفدہندوستان بھیجا کہ وہ جاکر پتہ لگائیں کہ مسلمانوں کو کس طرح کمزور کیا جاسکتاہے۔سورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ لکھا ہے:

’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں برطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے۱۸۶۹؁ ءکے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کر کے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نےThe   Arrival of British Empire in India(ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا:

’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹApostolic Prophet(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘(تلخیصات)

مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۱۸۶۴؁ء تا۱۸۶۸؁ء ) ملازم تھا۔ آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندرون خانہ بات چیت کرتے۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘

(تحریک ختم نبوت، ص ۲۲، ۳۲ مؤلفہ آغاشورش کاشمیری)

مرزا غلام احمد قادیانی نے کئی طرح کے دعوے کئے ۔ سب سے پہلے اس نے 1882 میں مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعویٰ کی بنیاد اپنا یہ عربی الہام بیان کیا ہے:

’یا احمد بارک اللہ فیک۔ ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔ الرحمن۔ علم القرآن۔ لتنذر قوما ما انذر اباوہم و لتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت و انا اول المسلمین۔قل جا الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ فتبارک من علم و تعلم۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی۔‘‘(روحانی خزائن ج ۱ ص ۲۶۵)

’ اے احمد اللہ نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔ جو کچھ تو نے چلایا، تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھایا تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔ کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ کہہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ تمام برکتیں محمد ﷺکی طرف سے ہیں، اللہ کی برکتیں اور سلامتی ان پر ہو۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے یہ جھوٹ بولا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے۔‘‘

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی کتربیونت کرکے کچھ جملے بنائے گئے ہیں اور انہی جملوں کو منجاب اللہ الہام کا نام دیا گیا ہے۔

جس طرح پچھلے تمام کذابوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کیا بلکہ آ پ ﷺ کی نبوت کو ڈھال بناکر اپنی نبوت کی حفاظت کاسامان پیدا کیا اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی رسول اللہ ﷺ کی تعریفیں کیں ان کی امتی ہونے کا بھی دعویٰ کیا آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے اثبات میں دلائل وبراہین بھی پیش کئے لیکن آپ ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کیا بلکہ نبوت کے سلسلہ کو جاری وساری رکھا تاکہ اس کی نبوت کے لئے راستہ ہموار ہوسکے ۔ذیل کی عبارت دیکھئے:

’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘

(روحانی خزائن ۔ج ۵ ص۱۶۰۔۱۶۱)

رسول اللہ ﷺ کی ان صفات کے بیان کرنے کا مقصد رسول اللہ ﷺکی نبوت و ورسالت کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ بھولے بھالے عوام کو اپنی جال میں پھنسانا ہے کہ میرا دعویٰ کوئی الگ نہیں بلکہ میں بھی اس نبی کو مانتاہوں جسے سب لوگ مانتے ہیں ۔ جس طرح مسیلمہ کذاب نے آپ ﷺ کی نبوت کو مانا لیکن اپنے آپ کو آپ ﷺ کی نبوت میں شریک وسہیم سمجھا ۔اور جس طرح مختار نے قاتلین حسین سے بدلہ لے کر مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی توحید ورسالت کے دلائل و براہین کے ذریعہ عام عوام کو بہلا پھسلاکر اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کی ۔ اس دعویٰ کی حقیقت سمجھنے کے لئے ان عبارات کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن میں اس نے مسلمانوں کے عام عقیدے اور جمہور کی تشریحات کے خلاف اسلامی اصطلاحات کی تشریحات کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:

’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیاء و صدق و صفاء و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و اعلیٰ و ارفع و اجلیٰ و اصفیٰ تھے اس لئے خدا جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ اور دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہو کر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف کشادہ اور وسیع تر آئینہ ہو‘‘

(روحانی خزائن ۔ج ۲ ص ۷۱)

اس تشریح سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی جوتشریح جمہور علماء نے کی ہے، جو فروعی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا‘‘مرزا نے اس کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ یہیں سے وہ ایمان سے خارج ہوجاتاہے۔اس تشریح سے مرزا نے رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے انحراف کیا ہے جوسراسر کفر ہے آگے جو اس نے دعوے کیے ہیں اس سے اس کی بد نیتی صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محض قوم کو گمراہ کرنے کی نیت سے اس نے قرآن و حدیث کی معانی کو الگ جامہ پہناکر اپنی جھوٹی نبوت کے لئے دلائل فراہم کیئے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ آپؑ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانوں پر اٹھالیا ہے اور قرب قیامت وہ دجال کے مقابلہ کے لئے زمین پرنازل ہوں گے اور پھر طبعی موت مریں گے ۔لیکن مرزا قادیانی نے قرآنی آیات اور احادیث نیز مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدے کو سرے سے خارج کردیا ۔ اور اس کی بنیاد اپنا جھوٹا الہام قرار دیا جسے اس نے گھڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ ذیل کی عبارت دیکھیں :

’’……چونکہ خدائے تعالی بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چلا دے۔اس لئے اس نے مجھے بھیجا اور میرے اوپر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے ۔کان وعداللہ مفعولا انت معی وانت علی الحق المبین انت مصیب ومعین للحق۔‘‘(روحانی خزائن ۔ ج ۳ ص ۴۰۲)

ایک ہی جھٹکے میں اس نے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ کو توڑ بھی دیا اور خود کو مسیح موعود بھی ثابت کردیا ۔ مرزا نے الفاظ کے گھماؤ پھراؤ کے ذریعہ عوام کے عقائد کو تباہ و برباد کرکے ایمان و عمل سے عاری کردیا۔مرز ا نے اپنے مسیح موعود ہونے کی عجیب و غریب تاویل کی ہے ۔ ملاحظہ ہو:

’’چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد المأتین ہے۔ ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تومجھے کشفی طورپر اس مندرجہ ذیل کے نام کے اعداد کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو (۱۳۰۰) ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں۔‘‘ (روحانی خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰)

مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف مسیح موعود ہونے کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدت مندوں اور انگریزی خداؤں سے حوصلہ پاکر ۱۹۰۱ ءمیں نبی ہونے کا دعوی کردیا ۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے اس قدر متضاد ہیں کہ صاف پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں یہ ہے کیا؟مامور من اللہ ہے ، مہدی ہے ، مسیح موعود ہے ، ظلی نبی ہے ، بروزی نبی ہے، معبود ہے یا خدا ہے۔ یہ سارے دعاوی اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ ایک خبطی شخص ہے کہ جب جو جی میں آ گیا وہی دعویٰ کر بیٹھا۔علمائے کرام نے اس پرمستقل بحثیں کی ہیں اور قادیانی کے دلائل کا جواب مفصل طور پردیا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Index